• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

شب و روز زند گی قسط 58 ، تحریر:انجم صحرائی

webmaster by webmaster
جون 15, 2019
in شب و روز زندگی
0
شب و روز زند گی قسط 58 ، تحریر:انجم صحرائی

ایک زما نہ میں سر کلر روڈ پر واقع افضل بلڈ نگ سا بقہ یو بی ایل برانچ کے سا منے ایک ہو میو پیتھ ڈاکٹر عبد الحق کا کلینک ہوا کرتا تھا یہ دو بھا ئی تھے دوسرے بھائی کا نام علا مہ محمد ارشد تھا جو گورٹمنٹ ڈگری کالج میں پرو فیسر تھے دونوں کا نظریاتی اور فکری تعلق جماعت اسلامی سے تھا اسی نا طے ہمارے بھی مہربان اور محترم تھے ڈاکٹر عبد الحق ہمارے دوست تھے سو ہم نے لیہ میں ہو میو پیتھ کالج قیام بارے ان سے مشاورت کا فیصلہ کیا میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ کیوں نہ چند دوستوں کے اشتراک سے یہاں ہو میو پیتھ کالج کے قیام کی جدو جہد کا آ غاز کیا جائے انہوں نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ دو ستوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جائے اور یہ معا ملہ دوستوں کی میٹنگ میں ڈسکس کیا جائے ۔ ہو نے والی میٹنگ میں علامہ ارشد ، ڈاکٹر عبد الحق ، ڈاکٹر ایم آر اختر اور ذو الفقار نیازی شریک ہو ئے ، متفقہ طور پر لیہ میں ہو میو پیتھ کالج کے قیام بارے فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ ابتدا ئی اخراجات کے لئے ہر دوست پا نچ ہزار روپے جمع کرائے گا ، جمع شدہ سرمایہ کے لئے ایک جوائینٹ بنک اکائونٹ کھلوایا جائے گا جسے دو دوست آ پریٹ کریں گے ۔ پہلے مرحلے میں بلڈنگ کرایہ پر لی جائے ، ایڈ مشن کے اشتہارات اور بینرز چھپوائے اور لگا ئے جائیں اور جب طلباء کی ایک معقول تعداد ہو جائے تب ہو میو پیتھ کو نسل سے کالج رجسٹریشن بارے رابطہ کیا جائے گا فیصلہ کے مطا بق ہر دوست اپنے حصہ کی رقم اگلے ایک ہفتے میں ڈاکٹر عبد الحق کے پاس جمع کرا نا تھی ۔

اس زما نے میں ہم جیسے سفید پو شوں کے لئے پا نچ ہزار روپے ایک بڑی رقم تھی لیکن جیسے تیسے ہم نے یہ رقم اکٹھی کی ذو الفقار نیازی کو رقم جمع کرانے کی یاد دہا نی کرائی اور اگلے دو تین دنوں کے بعد اپنے حصہ کی رقم لے کر ڈاکٹر عبد الحق کے پاس جا پہنچے لیکن وہاں ایک اور کہا نی ہماری منتظر تھی ۔۔ڈاکٹر عبد الحق نے بتایا کہ ہو نے والی میٹنگ کے بعد ڈاکٹر ایم آر اختر نے ان سے رابطہ کر کے کالج قیام بارے علیحدہ ہو نے کی اطلاع دی ہے میرے استفسار پر ڈاکٹر عبد الحق نے کہا کہ ڈاکٹر رمضان کو مجھ پر تحفظات ہیں ۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا اور پو چھا کہ آپ کی کیا رائے ہے تو بو لے کہ ابھی ہم نے بھی فیصلہ نہیں کیا ۔میں ڈاکٹر ایم آر اختر سے اس میٹنگ سے پہلے نہ کبھی ملا تھا اور نہ ہی میں انہیں جا نتا تھا مجھے یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا ۔ میں نے سو چا کہ ڈاکٹر رمضان سے مل کر ان کے اپنے بارے تحفظات دور کئے جائیں ۔ ڈاکٹر صا حب کا کلینک ان دنوں جزل بس اسٹینڈ پر ایک چھوٹی سی دکان میں ہوا کرتا تھا ۔ میں دو چار دن کے بعد ان کے کلینک پر چلا گیا کلینک پر کئی مریض مو جود تھے چو نکہ وہ مجھے نہیں جا نتے تھے اس لئے میں ان کے فارغ ہو نے کا انتظار کرتا رہا فارغ ہو نے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہو ئے تو میں نے ان سے اپنا تعارف کرا یا تو بڑے خوش ہو ئے میں نے کہا کہ جناب ہم کبھی ملے بھی نہیں اور آپ ہم سے خفا ہو گئے تو کہنے لگے نہیں ایسی کو ئی بات نہیں میں نے رابطہ کیا تھا ڈاکٹر صاحب سے لیکن انہوں نے بتایا کہ کالج قیام کا فیصلہ ابھی پیڈ نگ ہو گیا ہے ۔۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ کچھ اور دوست مل کر کالج بنا رہے ہیں میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا میں نے کہا کہ ہمارے بغیر تو بو لے۔۔ شا ئد

College

College

میرے اس سوال کا جواب تو مجھے نہیں ملاکہ کالج بنا نے والے کون لوگ ہیں ، لیکن مجھے یہ یقین ہو گیا کہ آ ئیڈیا چوری ہو گیا ہے اور ہم سے زیادہ با وسائل لو گوں نے اس پرا جیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے ۔ہمارے مہربان بزرگ دوست ہوا کرتے تھے فضل حق رضوی ، محکمہ ریو نیو سے ریٹائرڈ تحصیلدار تھے ۔انہیں ہو میو پیتھی سے گہراشغف تھا اور اسی نا طے ہو میو پیتھ ڈاکٹر بھی کہلایا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر فضل حق رضوی ایک علم دوست شخصیت تھے شاعر بھی تھے انہی دنوں ان کی ایک کتاب” دھوپ چھا ئوں “کے نام سے شا ئع ہو ئی تھی ہو میو پیتھی کے مو ضوع پر بھی ان کی ایک مختصر سی کتاب میری نظر سے گزری تھی جب کالج قیام بارے مجھے ان دوستوں سے ما یو س کیا تو میں نے اپنے اس پرا جیکٹ بارے رضوی صاحب سے ملنے کا پرو گرام بنا یا ۔رضوی صاحب میری پر پوزل سن کر بہت خوش ہو ئے انہوں نے میری ساری با توں سے اتفاق کیا سوائے اشتراک سے ، انہوں نے کہا کہ میں تو سا نجھے کی ہنڈیا پر یقین نہیں رکھتا یہ کمبخت ہمیشہ بیچ چو راہے میں ٹو ٹتی ہے آپ پرا جیکٹ شروع کریں اخراجات میرے ہوں گے آپ کے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو جا ئے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ۔۔ انہوں نے مجھے ابتدا ئی اخراجات کے لئے مبلغ سترہ سو روپے کا چیک دیا جس سے ہم نے بینر ، اشتہارات بنوائے لیٹر پیڈ اور ایڈ مشن فارم بنا ئے اور وٹر نری ہسپتال کے سامنے رضوی صاحب کی دکانوں میں سے ایک دکان میں ہو میو پیتھ کالج کا بورڈ لگا کر بیٹھ گئے اس حالت میں کہ دکان میں ایک شکشتہ سی ڈائینگ ٹیبل ایک پرانا صو فہ اور چند خالی فائل کور ہمارے دفتر کا کل ا ثا ثہ تھا ۔اگلے ہی دن جب تھل ہو میو کالج میں داخلہ کے اشتہارات اور بینرز دیواروں اور سڑ کوں پر لگے دیکھے ہوں گے تب آئیڈ یا چوری کر نے والے یقینا تلملائے ہوں گے لیکن اب کیا ہوت جب چڑ یاں چگ گئیں کھیت کے مصداق سوائے تلملانے کے وہ کر بھی کیا کر سکتے تھے ۔

تھل ہو میو پیتھ میڈ یکل کالج کا یہ ابتدائی آ فس جس مارکیٹ میں قائم کیا گیاتھا یہ فضل حق رضوی کے بڑے بیٹے اسد رضا کی تھیں ۔ ان دنوں اسد رضا الا ئیڈ بنک میں منیجر تھے اور بسلسلہ ملازمت ملتان میں ہی رہائش پذیر تھے ۔ اسد رضا لیہ کی معروف متحرک شخصیت علی رضا کے والد تھے ان دنوں علی رضا بہت چھو ٹے تھے اسد رضا کے ایک اور بیٹے سو نیری بنک لیہ میں منیجر ہیں ۔ اسی دفتر میں پہلی بار میری ملاقات مہر نور محمد تھند سے ہو ئی ، مہر نور محمد تھند کے والد کا رضوی صاحب سے خا صا گہرا تعلق تھا مہر نور محمد تھند جب مجھے پہلی بار ملے اس زما نے میں نہ تو مصنف تھے اور نہ ہی وہ اخبار نویس ۔اس ملا قات میں نو جوان نو ر محمد تھند نے مجھے محکمہ جنگلات پنجاب کے میگزین میں شا ئع ہو نے والا اپنا ایک مضمون دکھا یا جس پر انہیں محکمہ جنگلات کی طرف سے انعام بھی ملا تھا ۔ اس پہلی ملاقات سے مہر نور محمد تھند سے احترام اور پیار کا جو رشتہ استوار ہوا اللہ بخشے مہر نور محمد تھند نے تا حیات اس رشتہ کو نبھا یا ۔ مہر نور محمد تھند نے بعد میں تاریخ کو مو ضوع بنا تے ہوئے اولیائے لیہ ، تاریخ لیہ اور تاریخ بھکر سمیت بہت سی کتب تصنیف کیں ۔ ہفت روزہ اخبار لیہ کا آ غاز بھی کیا ۔ بطور صحافی وہ ایک نڈر اور بے باک جرنلسٹ تھے اخبار لیہ کے حوالے سے ایک یاد گار واقعہ جو میں یہاں قارئین کرام سے شیئر کرنا چا ہوں گا وہ کچھ یوں ہے کہ لیہ کے ایک ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے اور نام تھا ان کا انعام الحق ، ان کے زما نہ میں ضلع کو نسل میں ہو نے والے ٹھیکوں کی نیلامی کے روز مہر نور محمد تھند بھی اپنے صحافتی فرائض کی ادا ئیگی کے لئے ضلع کو نسل میںمو جود تھے شا ئد مہر صاحب کو محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جب مہر نور محمد تھند نے ٹھیکوں میںہو نے والی مشکوک کاروائی کی نشا ند ہی کی تو مو قع پر موجود سرکاری اہلکاران کو نا گوار گذریابات تو تکار تک جا پہنچی مہر نور محمد تھند ضلع کو نسل سے واپس اپنے گھر آ گئے بعد میں خبر ملی کہ ضلع کو نسل کے اہلکاران کی رپورٹ پر مہر نور محمد تھند کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کے جرم پر تھا نہ سٹی میں پرچہ درج کر لیا گیا ہے ۔

Press Club

Press Club

ہم نے اس اڑتی خبر کی تصدیق چا ہی تو خبر بالکل درست نکلی دوستوں کے مشورے سے مہر نور محمد تھند نے بھی ضلع کو نسل کے چند ملازمین کے خلاف تھا نے میں درخواست گذاردی جس میں زدو کوب کرنے اور دھمکیاں دینے کا الزام لگا یا گیا تھا لیکن تو قع کے عین مطا بق پو لیس والوں نے ان کی ایک نہ سنی جس پر انہوں نے ہم دوستوں سے رابطہ کیا ۔ اس زما نے میں ہم نے ڈسٹرکٹ پریس کلب کی ایک متوازی تنظیم قائم کی ہو ئی تھی ہم نے اپنی اس تنظیم کا اجلاس طلب کر لیا چوک اعظم سے عابد کھرل ۔ کروڑ سے طارق پہاڑ اور فتح پور سے اقبال اعظم چیمہ سمیت لیہ کے بہت سے دوستوں نے اس ہنگا می اجلاس میں شر کت کی فیصلہ ہوا کہ ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کی جائے کہ یا تو مہر نور محمد تھند کے خلاف درج پولیس پرچہ خارج کیا جائے یا پھر ضلع کو نسل کے ملازمین کے خلاف بھی مہر نور محمد کی طرف سے دی گئی درخواست پر کاروئی کرتے ہو ئے مقد مہ درج کیا جائے ۔ ہم نے ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کرنے کی بہت کو شش کی مگر کسی نے ہماری نہ سنی اور یوں مایوس ہو کر ہم سرفراز چوک (گھوڑا چوک ) پر احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھ گئے ۔

جوں جوں وقت گذرتا گیا دوستوں کی تعداد احتجاجی کیمپ میں بڑ ھتی گئی اور تھوڑے ہی وقت میںضلع بھر کے کثیر صحا فی دوست ہمارے ساتھ ا حتجاج میں شا مل ہو گئے آ کر چند گھنٹے گذ ر نے کے بعد ڈسٹرکٹ انتظا میہ کو بر لب سڑک بیٹھے صحا فیوں کا خیال آ ہی گیا ، مرحوم ملک ممتاز حسین کلول مجسٹریٹ اور ملک محمد رمضان مجسٹریٹ مذاکرات کے لئے کیمپ میں آ ئے ہمارے مطالبات سنے اور چلے گئے کچھ اور وقت گذرا تو چوہدری یعقوب جو اس وقت اسسٹنٹ کمشنر تھے کیمپ میں آ ئے اور خو شخبری سنا ئی کہ گو مہر نور محمد تھند نے کار سرکار میں مداخلت کر کے زیادتی کی ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی خصو صی ہدا یت پر ضلع کو نسل کے ملازمین نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے اور یوں یہ معا ملہ حل ہوا اور ہمارا احتجاج کا میاب ہوا ۔ احتجاجی کیمپ میں دیگر شریک ہو نے والے صحافی دوستوں میں گلزار شاہ ،مقبول الہی ، مختیار جوتہ ،جا وید لو دھی ،حنیف شیرازی ، شیر خان ، منیر عاطف ، عبد الرحمن قریشی اور مہر نور محمد تھند کے نام مجھے یاد ہیں ۔ڈپٹی کمشنر انعام الحق بڑے وضعدار ، دبنگ اور قدر شناش آ فیسر تھے میرے ذاتی طور پر ان سے اچھے تعلقات تھے بعد میں جب ہماری ان سے ملاقات ہو ئی تو وہ ہمارے اس احتجاجی کیمپ کے انعقاد پر خا صے ناراض تھے ا نہوں نے گلہ کرتے ہو ئے سوال کیا کہ اس دن وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کا دورہ لیہ متوقع تھا وہ تو شکر ہوا کہ دورہ کینسل ہو گیا اگر وزیر اعلی آ جاتے تو ڈسٹرکٹ انتظا میہ کی کیا پو زیشن بنتی ؟ ان کا سوال سن کر میں نے عرض کیا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن اگر پو لیس ہمارے صحافی دوست کو اٹھا لیتی تو سو چیئے کہ ہم صحا فیوں کی کیا عزت رہتی ؟ میرا یہ جواب سن کر وہ خاموش ہو گئے ۔
باقی اگلی قسط میں ۔۔۔

Tags: shab roz zidagi by anjum sehrai
Previous Post

غیرقانونی ٹھیکوں کے الزام میں گرفتار صوبائی وزیر جنگلات سبطین خان وزارت سے مستعفی

Next Post

انٹر پارلیمنٹری کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے پاکستانی ٹیم کا اعلان، وزیراعظم عمران خان شامل

Next Post
انٹر پارلیمنٹری کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے پاکستانی ٹیم کا اعلان، وزیراعظم عمران خان شامل

انٹر پارلیمنٹری کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے پاکستانی ٹیم کا اعلان، وزیراعظم عمران خان شامل

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
ایک زما نہ میں سر کلر روڈ پر واقع افضل بلڈ نگ سا بقہ یو بی ایل برانچ کے سا منے ایک ہو میو پیتھ ڈاکٹر عبد الحق کا کلینک ہوا کرتا تھا یہ دو بھا ئی تھے دوسرے بھائی کا نام علا مہ محمد ارشد تھا جو گورٹمنٹ ڈگری کالج میں پرو فیسر تھے دونوں کا نظریاتی اور فکری تعلق جماعت اسلامی سے تھا اسی نا طے ہمارے بھی مہربان اور محترم تھے ڈاکٹر عبد الحق ہمارے دوست تھے سو ہم نے لیہ میں ہو میو پیتھ کالج قیام بارے ان سے مشاورت کا فیصلہ کیا میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ کیوں نہ چند دوستوں کے اشتراک سے یہاں ہو میو پیتھ کالج کے قیام کی جدو جہد کا آ غاز کیا جائے انہوں نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ دو ستوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جائے اور یہ معا ملہ دوستوں کی میٹنگ میں ڈسکس کیا جائے ۔ ہو نے والی میٹنگ میں علامہ ارشد ، ڈاکٹر عبد الحق ، ڈاکٹر ایم آر اختر اور ذو الفقار نیازی شریک ہو ئے ، متفقہ طور پر لیہ میں ہو میو پیتھ کالج کے قیام بارے فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ ابتدا ئی اخراجات کے لئے ہر دوست پا نچ ہزار روپے جمع کرائے گا ، جمع شدہ سرمایہ کے لئے ایک جوائینٹ بنک اکائونٹ کھلوایا جائے گا جسے دو دوست آ پریٹ کریں گے ۔ پہلے مرحلے میں بلڈنگ کرایہ پر لی جائے ، ایڈ مشن کے اشتہارات اور بینرز چھپوائے اور لگا ئے جائیں اور جب طلباء کی ایک معقول تعداد ہو جائے تب ہو میو پیتھ کو نسل سے کالج رجسٹریشن بارے رابطہ کیا جائے گا فیصلہ کے مطا بق ہر دوست اپنے حصہ کی رقم اگلے ایک ہفتے میں ڈاکٹر عبد الحق کے پاس جمع کرا نا تھی ۔ اس زما نے میں ہم جیسے سفید پو شوں کے لئے پا نچ ہزار روپے ایک بڑی رقم تھی لیکن جیسے تیسے ہم نے یہ رقم اکٹھی کی ذو الفقار نیازی کو رقم جمع کرانے کی یاد دہا نی کرائی اور اگلے دو تین دنوں کے بعد اپنے حصہ کی رقم لے کر ڈاکٹر عبد الحق کے پاس جا پہنچے لیکن وہاں ایک اور کہا نی ہماری منتظر تھی ۔۔ڈاکٹر عبد الحق نے بتایا کہ ہو نے والی میٹنگ کے بعد ڈاکٹر ایم آر اختر نے ان سے رابطہ کر کے کالج قیام بارے علیحدہ ہو نے کی اطلاع دی ہے میرے استفسار پر ڈاکٹر عبد الحق نے کہا کہ ڈاکٹر رمضان کو مجھ پر تحفظات ہیں ۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا اور پو چھا کہ آپ کی کیا رائے ہے تو بو لے کہ ابھی ہم نے بھی فیصلہ نہیں کیا ۔میں ڈاکٹر ایم آر اختر سے اس میٹنگ سے پہلے نہ کبھی ملا تھا اور نہ ہی میں انہیں جا نتا تھا مجھے یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا ۔ میں نے سو چا کہ ڈاکٹر رمضان سے مل کر ان کے اپنے بارے تحفظات دور کئے جائیں ۔ ڈاکٹر صا حب کا کلینک ان دنوں جزل بس اسٹینڈ پر ایک چھوٹی سی دکان میں ہوا کرتا تھا ۔ میں دو چار دن کے بعد ان کے کلینک پر چلا گیا کلینک پر کئی مریض مو جود تھے چو نکہ وہ مجھے نہیں جا نتے تھے اس لئے میں ان کے فارغ ہو نے کا انتظار کرتا رہا فارغ ہو نے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہو ئے تو میں نے ان سے اپنا تعارف کرا یا تو بڑے خوش ہو ئے میں نے کہا کہ جناب ہم کبھی ملے بھی نہیں اور آپ ہم سے خفا ہو گئے تو کہنے لگے نہیں ایسی کو ئی بات نہیں میں نے رابطہ کیا تھا ڈاکٹر صاحب سے لیکن انہوں نے بتایا کہ کالج قیام کا فیصلہ ابھی پیڈ نگ ہو گیا ہے ۔۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ کچھ اور دوست مل کر کالج بنا رہے ہیں میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا میں نے کہا کہ ہمارے بغیر تو بو لے۔۔ شا ئد
College

College

میرے اس سوال کا جواب تو مجھے نہیں ملاکہ کالج بنا نے والے کون لوگ ہیں ، لیکن مجھے یہ یقین ہو گیا کہ آ ئیڈیا چوری ہو گیا ہے اور ہم سے زیادہ با وسائل لو گوں نے اس پرا جیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے ۔ہمارے مہربان بزرگ دوست ہوا کرتے تھے فضل حق رضوی ، محکمہ ریو نیو سے ریٹائرڈ تحصیلدار تھے ۔انہیں ہو میو پیتھی سے گہراشغف تھا اور اسی نا طے ہو میو پیتھ ڈاکٹر بھی کہلایا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر فضل حق رضوی ایک علم دوست شخصیت تھے شاعر بھی تھے انہی دنوں ان کی ایک کتاب” دھوپ چھا ئوں “کے نام سے شا ئع ہو ئی تھی ہو میو پیتھی کے مو ضوع پر بھی ان کی ایک مختصر سی کتاب میری نظر سے گزری تھی جب کالج قیام بارے مجھے ان دوستوں سے ما یو س کیا تو میں نے اپنے اس پرا جیکٹ بارے رضوی صاحب سے ملنے کا پرو گرام بنا یا ۔رضوی صاحب میری پر پوزل سن کر بہت خوش ہو ئے انہوں نے میری ساری با توں سے اتفاق کیا سوائے اشتراک سے ، انہوں نے کہا کہ میں تو سا نجھے کی ہنڈیا پر یقین نہیں رکھتا یہ کمبخت ہمیشہ بیچ چو راہے میں ٹو ٹتی ہے آپ پرا جیکٹ شروع کریں اخراجات میرے ہوں گے آپ کے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو جا ئے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ۔۔ انہوں نے مجھے ابتدا ئی اخراجات کے لئے مبلغ سترہ سو روپے کا چیک دیا جس سے ہم نے بینر ، اشتہارات بنوائے لیٹر پیڈ اور ایڈ مشن فارم بنا ئے اور وٹر نری ہسپتال کے سامنے رضوی صاحب کی دکانوں میں سے ایک دکان میں ہو میو پیتھ کالج کا بورڈ لگا کر بیٹھ گئے اس حالت میں کہ دکان میں ایک شکشتہ سی ڈائینگ ٹیبل ایک پرانا صو فہ اور چند خالی فائل کور ہمارے دفتر کا کل ا ثا ثہ تھا ۔اگلے ہی دن جب تھل ہو میو کالج میں داخلہ کے اشتہارات اور بینرز دیواروں اور سڑ کوں پر لگے دیکھے ہوں گے تب آئیڈ یا چوری کر نے والے یقینا تلملائے ہوں گے لیکن اب کیا ہوت جب چڑ یاں چگ گئیں کھیت کے مصداق سوائے تلملانے کے وہ کر بھی کیا کر سکتے تھے ۔ تھل ہو میو پیتھ میڈ یکل کالج کا یہ ابتدائی آ فس جس مارکیٹ میں قائم کیا گیاتھا یہ فضل حق رضوی کے بڑے بیٹے اسد رضا کی تھیں ۔ ان دنوں اسد رضا الا ئیڈ بنک میں منیجر تھے اور بسلسلہ ملازمت ملتان میں ہی رہائش پذیر تھے ۔ اسد رضا لیہ کی معروف متحرک شخصیت علی رضا کے والد تھے ان دنوں علی رضا بہت چھو ٹے تھے اسد رضا کے ایک اور بیٹے سو نیری بنک لیہ میں منیجر ہیں ۔ اسی دفتر میں پہلی بار میری ملاقات مہر نور محمد تھند سے ہو ئی ، مہر نور محمد تھند کے والد کا رضوی صاحب سے خا صا گہرا تعلق تھا مہر نور محمد تھند جب مجھے پہلی بار ملے اس زما نے میں نہ تو مصنف تھے اور نہ ہی وہ اخبار نویس ۔اس ملا قات میں نو جوان نو ر محمد تھند نے مجھے محکمہ جنگلات پنجاب کے میگزین میں شا ئع ہو نے والا اپنا ایک مضمون دکھا یا جس پر انہیں محکمہ جنگلات کی طرف سے انعام بھی ملا تھا ۔ اس پہلی ملاقات سے مہر نور محمد تھند سے احترام اور پیار کا جو رشتہ استوار ہوا اللہ بخشے مہر نور محمد تھند نے تا حیات اس رشتہ کو نبھا یا ۔ مہر نور محمد تھند نے بعد میں تاریخ کو مو ضوع بنا تے ہوئے اولیائے لیہ ، تاریخ لیہ اور تاریخ بھکر سمیت بہت سی کتب تصنیف کیں ۔ ہفت روزہ اخبار لیہ کا آ غاز بھی کیا ۔ بطور صحافی وہ ایک نڈر اور بے باک جرنلسٹ تھے اخبار لیہ کے حوالے سے ایک یاد گار واقعہ جو میں یہاں قارئین کرام سے شیئر کرنا چا ہوں گا وہ کچھ یوں ہے کہ لیہ کے ایک ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے اور نام تھا ان کا انعام الحق ، ان کے زما نہ میں ضلع کو نسل میں ہو نے والے ٹھیکوں کی نیلامی کے روز مہر نور محمد تھند بھی اپنے صحافتی فرائض کی ادا ئیگی کے لئے ضلع کو نسل میںمو جود تھے شا ئد مہر صاحب کو محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جب مہر نور محمد تھند نے ٹھیکوں میںہو نے والی مشکوک کاروائی کی نشا ند ہی کی تو مو قع پر موجود سرکاری اہلکاران کو نا گوار گذریابات تو تکار تک جا پہنچی مہر نور محمد تھند ضلع کو نسل سے واپس اپنے گھر آ گئے بعد میں خبر ملی کہ ضلع کو نسل کے اہلکاران کی رپورٹ پر مہر نور محمد تھند کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کے جرم پر تھا نہ سٹی میں پرچہ درج کر لیا گیا ہے ۔
Press Club

Press Club

ہم نے اس اڑتی خبر کی تصدیق چا ہی تو خبر بالکل درست نکلی دوستوں کے مشورے سے مہر نور محمد تھند نے بھی ضلع کو نسل کے چند ملازمین کے خلاف تھا نے میں درخواست گذاردی جس میں زدو کوب کرنے اور دھمکیاں دینے کا الزام لگا یا گیا تھا لیکن تو قع کے عین مطا بق پو لیس والوں نے ان کی ایک نہ سنی جس پر انہوں نے ہم دوستوں سے رابطہ کیا ۔ اس زما نے میں ہم نے ڈسٹرکٹ پریس کلب کی ایک متوازی تنظیم قائم کی ہو ئی تھی ہم نے اپنی اس تنظیم کا اجلاس طلب کر لیا چوک اعظم سے عابد کھرل ۔ کروڑ سے طارق پہاڑ اور فتح پور سے اقبال اعظم چیمہ سمیت لیہ کے بہت سے دوستوں نے اس ہنگا می اجلاس میں شر کت کی فیصلہ ہوا کہ ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کی جائے کہ یا تو مہر نور محمد تھند کے خلاف درج پولیس پرچہ خارج کیا جائے یا پھر ضلع کو نسل کے ملازمین کے خلاف بھی مہر نور محمد کی طرف سے دی گئی درخواست پر کاروئی کرتے ہو ئے مقد مہ درج کیا جائے ۔ ہم نے ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کرنے کی بہت کو شش کی مگر کسی نے ہماری نہ سنی اور یوں مایوس ہو کر ہم سرفراز چوک (گھوڑا چوک ) پر احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھ گئے ۔ جوں جوں وقت گذرتا گیا دوستوں کی تعداد احتجاجی کیمپ میں بڑ ھتی گئی اور تھوڑے ہی وقت میںضلع بھر کے کثیر صحا فی دوست ہمارے ساتھ ا حتجاج میں شا مل ہو گئے آ کر چند گھنٹے گذ ر نے کے بعد ڈسٹرکٹ انتظا میہ کو بر لب سڑک بیٹھے صحا فیوں کا خیال آ ہی گیا ، مرحوم ملک ممتاز حسین کلول مجسٹریٹ اور ملک محمد رمضان مجسٹریٹ مذاکرات کے لئے کیمپ میں آ ئے ہمارے مطالبات سنے اور چلے گئے کچھ اور وقت گذرا تو چوہدری یعقوب جو اس وقت اسسٹنٹ کمشنر تھے کیمپ میں آ ئے اور خو شخبری سنا ئی کہ گو مہر نور محمد تھند نے کار سرکار میں مداخلت کر کے زیادتی کی ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی خصو صی ہدا یت پر ضلع کو نسل کے ملازمین نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے اور یوں یہ معا ملہ حل ہوا اور ہمارا احتجاج کا میاب ہوا ۔ احتجاجی کیمپ میں دیگر شریک ہو نے والے صحافی دوستوں میں گلزار شاہ ،مقبول الہی ، مختیار جوتہ ،جا وید لو دھی ،حنیف شیرازی ، شیر خان ، منیر عاطف ، عبد الرحمن قریشی اور مہر نور محمد تھند کے نام مجھے یاد ہیں ۔ڈپٹی کمشنر انعام الحق بڑے وضعدار ، دبنگ اور قدر شناش آ فیسر تھے میرے ذاتی طور پر ان سے اچھے تعلقات تھے بعد میں جب ہماری ان سے ملاقات ہو ئی تو وہ ہمارے اس احتجاجی کیمپ کے انعقاد پر خا صے ناراض تھے ا نہوں نے گلہ کرتے ہو ئے سوال کیا کہ اس دن وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کا دورہ لیہ متوقع تھا وہ تو شکر ہوا کہ دورہ کینسل ہو گیا اگر وزیر اعلی آ جاتے تو ڈسٹرکٹ انتظا میہ کی کیا پو زیشن بنتی ؟ ان کا سوال سن کر میں نے عرض کیا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن اگر پو لیس ہمارے صحافی دوست کو اٹھا لیتی تو سو چیئے کہ ہم صحا فیوں کی کیا عزت رہتی ؟ میرا یہ جواب سن کر وہ خاموش ہو گئے ۔ باقی اگلی قسط میں ۔۔۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.