• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

شہری دفاع کا عالمی دن اور ہم .. تحریر: مہر کامران تھِندلیہ

webmaster by webmaster
مارچ 1, 2019
in کالم
0
شہری دفاع کا عالمی دن اور ہم .. تحریر: مہر کامران تھِندلیہ

سول ڈیفنس کا مطلب کسی بھی ملک، ریاست،سلطنت کے شہریوں کو غیر معمولی حالات میں اپنا دفاع کرنے کی تربیت دینا،اپنے اردگردلوگوں کی مدد کرنا ، اسکی ترغیب دینا،انسانی زندگیوں کو بچانا سول ڈیفنس کہلاتا ہے ۔ ہر سال یکم مارچ کو عالمی سطح پر سول ڈیفنس کے حوالے سے ایک دن منایا جاتا ہے جس میں علاقائی ، شہری اور ملکی سطح پر سیمینار منعقد ہوتے ہیں ، عوام کو آگاہی کے لئیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں ،بہرحال 1990 میں ایک عالمی تنظیم کی تجویز پر یہ دن منانے کا فیصلہ ہوا تاکہ دنیا بھر کی توجہ اس اہم ترین مسئلہ کی طرف مبذول کرائی جائے، سول ڈیفنس کی اس تنظیم میں کوئی پچاس سے زائد ممالک اور 16کے قریب ریاستیں شامل ہیں ،ویسے تو قیام پاکستان کے وقت "اے آر پی” کے نام سے ایک ادارہ کام کرتا تھا جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع ہوا تھا ، 1952میں سول ڈیفنس پاکستان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کے مقاصد میں ہنگامی صورتحال سے کس طرح نمٹا جائے، کسی ایمرجینسی ، آگ لگنے، ایکسیڈنٹ، سیلاب ، قحط، و دیگر عوامل میں خود کو کس طرح محفوظ رکھنا ہے اور اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کی کس طرح مدد کرنا ہے اس دوران ملکی سطح پر کچھ قومی و بین الاقوامی ادارے بھی قائم کئیے گئے جن کا مقصد عوام میں شہری دفاع کے شعور کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ رضاکار تیار کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ دوران جنگ ،غیر معمولی حالات و واقعات ، کے وقت قوم کی قوت، قابلئیت، کو بہتر بنانا ، کوشش کرنا، ایسے اقدامات کرنا کہ علاقے میں بیرونی و اندرونی حملے کی صورت میں دشمن اپنے مقاصد پورے نہ کر سکے ، اور ایسے اقدامات حالت زمانہ جنگ، زمانہ امن، اور بعد از جنگ بھی ہو سکتے ہیں اور ایسے اقدامات بھی شامل ہورتے ہیں کہ قدرتی یا انسان کی پیدا کردہ آفات کی صورت میں ہوتے ہیں ۔ موجودہ دور میں تمام آفات و واقعات ، حادثات میں آئے روز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ،کہتے ہیں کہ شروع شروع میں اس ادارے نے ہر چھوٹے بڑے شہرمیں سول ڈیفنس کی تربیت دی اور تقریبا ہر گھر سے نوجوان افراد کو بم ڈسپوزل ، فرسٹ ایڈ،روڈ ایکسیڈنٹ، قحط، زلزلے، سیلاب، وبائی امراض ، طوفان اور آگ لگنے یا عمارتوں کے منہدم ہونے سے انسانی جانوں کے بچاو کی ٹریننگ دی جاتی تھی ، تعلیمی اداروں میں سول ڈیفنس کے متعلق مضامین پڑھائے جاتے تھے اور ٹریننگ پروگرام بھی ہوتے تھے ، 1971تک سول ڈیفنس سکولوں ، کالجز، یونیورسٹیز میں باقاعدہ عملی مظاہرہ کیا کرتی تھی حتی کہ رائفل چلانے کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ لیکن ناجانے پھر ایسا کیا ہوا کہ حکومت نے تعلیمی اداروں میں یہ مضامین اور ٹریننگ سیشن کو ختم کردیا، جبکہ صوبائی سطح پر باقاعدہ یہ ایک ادارہ قائم ہے جس کا موجودہ دنوں میں کام تبدیل ہوگیا ہے ، اب یہ ادارہ غیرقانونی پٹرول پمپ، ڈیزل و گیس ایجینسیاں،منی پٹرول یونٹس ، بڑی عمارتوں ، پلازوں ،اور دکانوں سے باقاعدہ منتھلیوں کی وصولی تک محدود ہو گیا ہے ، نوٹس بھجوانا اور خواہ مخواہ تنگ کرنا معمول میں شامل ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ سول ڈیفنس ادارہ کو ان دکانداروں کو پہلے باقائدہ ٹریننگ دی جانی چاہئیے، نوجوانوں کو سول ڈیفنس کے رضا کار بنا کر ٹریننگ دے کر معاشرہ میں آگاہی پھیلانی چاہئیے لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ افراتفری کی حالت میں سول ڈیفنس سے جانکاری نہ ہونے سے نقصان زیادہ ہوجاتاہے، جہاں دشمنوں کے تعلیمی اداروں کے پے درپے وار بھی ارباب اختیار کی آنکھیں نہ کھول سکا ، سیکورٹی اداروں کی جانب سے ان اداروں کے بزرگ سیکورٹی گارڈز کو ٹریننگ دی جاتی رہی لیکن نوجوانوں کو اپنی حفاظت یا ملکی دفاع کے لئیے اپنی صلاحیتوں کومنوانے کا کوئی جامع پروگرام اور ٹریننگ نہ دی جا سکی، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اس ادارے کے قیام کے بعد پاکستان کا ہر شہری ذاتی، علاقائی، شہری،اور ملکی و قومی دفاعی صلاھیت کا حامل ہوتا ، کئی ممالک میں ایسا ہو رہا ہے کہ حکومت نوجوانوں کو باقاعدہ عسکری ٹریننگ تک دلو ا دیتی ہے تاکہ جنگ یا غیر معمولی حالات میں یہ نوجوان خدمات سرانجام دے سکیں ، موجودہ حالات میں جہاں جنگ کی صورتحال ہے سوشل میڈیا پر نوجوان بھرپور انداز مٰیں مصروف ہیں ، سول ڈیفنس کی ٹریننگ کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے، تربیت یافتہ رضاکاروں کی کمی ہے وہاں ابتدائی طبی امداد و آلات کا بھی فقدان ہے۔کہ ان ٹریننگ کے حامل افراد دفاع کے فرائض انجام دینے کے قابل ہوتے، یہ جنگ فوجیوںیا سپاہیوں کی نہیں ہے پورے پاکستان کی ہے،اس لئیے سکولوں ، کالجز، یونیورسٹیز سمیت نوجوانوں کے لئیے ٹریننگ کے انتظامات ہونے چاہئیے تاکہ پاکستان کے نوجوان حقیقی معنوں میں غیر معمولی حالات و حادثات میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے۔جنگی حالات کے بعد بھی لیہ میں سول ڈیفنس کی افادیت و اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس علاقے کو آندھی ، طوفان ، روڈ حادثات اور خصوصا سیلاب جیسی آفت کا سامنا کرنا پرتا ہے ایسے مواقع پر سول ڈیفنس فورس اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔شہری دفاع کی تربیت ہر ایک پاکستانی کے لئیے لازمی ہونی چائیے تاکہ وہ کسی قسم کی ہنگامی حالات میں بہتر انداز میں نبرد آزما ہو سکیں ، اس کے لئیے حکومت ، میڈیا، سرکاری و پرائیوٹ ادارے، سیاسی سماجی نمائندگان ، محکمہ تعلیم ، پولیس، این جی اوز، محکمہ صحت، سوشل ویلفئیر ، سرمایہ دار، دکاندار حضرات، تاجر و دیگر تنظیموں کو آگے آنا چاہئیے اور کردار ادا کرنا چاہئیے کیونکہ ہم سب مل کر ، کوشش اور جامع حکمت عملی سے مضبوط شہری دفاعی نظام بنا سکتے ہیں ۔ سول ڈیفنس کی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگوں نے ہنگامی حالات میں نہ صرف لوگوں کی جانیں بچائیں بلکہ متوقع زیادہ حادثات و نقصانات کو روکنے میں کامیاب ہوئے ۔ مشہور کتاب "زاویہ’میں اشفاق احمد لکھتے ہیں ” کہ ایک بار ڈیرے پر بابا جی سی پوچھا کہ انسان کو پناہ کہاں ملتی ہے، تو فرمانے لگے کہ "ماں کی آغوش میں” اگر وہاں نہ ملے تو والدین کی دعاوں میں ۔۔ اگر وہ بھی بدقسمتی سے نہ ملے تو پھر علم میں ۔ وہ علم ایسا جس میں ااپ کی ذات ، روح اور دوسروں کو فائدہ پہنچے اور وہ خدا کی مخلوق کے لئیے زحمت نہ ہو۔۔۔

whatsup: 03038229933
Mail: kamranlyh@gmail.com

Tags: column by kamran thind
Previous Post

وزیر خارجہ کو او آئی سی اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھا، آصف زرداری

Next Post

ہمراز (قسط نمبر 2) عفت بھٹی

Next Post
ہمراز  (قسط نمبر 2) عفت بھٹی

ہمراز (قسط نمبر 2) عفت بھٹی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
سول ڈیفنس کا مطلب کسی بھی ملک، ریاست،سلطنت کے شہریوں کو غیر معمولی حالات میں اپنا دفاع کرنے کی تربیت دینا،اپنے اردگردلوگوں کی مدد کرنا ، اسکی ترغیب دینا،انسانی زندگیوں کو بچانا سول ڈیفنس کہلاتا ہے ۔ ہر سال یکم مارچ کو عالمی سطح پر سول ڈیفنس کے حوالے سے ایک دن منایا جاتا ہے جس میں علاقائی ، شہری اور ملکی سطح پر سیمینار منعقد ہوتے ہیں ، عوام کو آگاہی کے لئیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں ،بہرحال 1990 میں ایک عالمی تنظیم کی تجویز پر یہ دن منانے کا فیصلہ ہوا تاکہ دنیا بھر کی توجہ اس اہم ترین مسئلہ کی طرف مبذول کرائی جائے، سول ڈیفنس کی اس تنظیم میں کوئی پچاس سے زائد ممالک اور 16کے قریب ریاستیں شامل ہیں ،ویسے تو قیام پاکستان کے وقت "اے آر پی" کے نام سے ایک ادارہ کام کرتا تھا جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع ہوا تھا ، 1952میں سول ڈیفنس پاکستان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کے مقاصد میں ہنگامی صورتحال سے کس طرح نمٹا جائے، کسی ایمرجینسی ، آگ لگنے، ایکسیڈنٹ، سیلاب ، قحط، و دیگر عوامل میں خود کو کس طرح محفوظ رکھنا ہے اور اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کی کس طرح مدد کرنا ہے اس دوران ملکی سطح پر کچھ قومی و بین الاقوامی ادارے بھی قائم کئیے گئے جن کا مقصد عوام میں شہری دفاع کے شعور کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ رضاکار تیار کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ دوران جنگ ،غیر معمولی حالات و واقعات ، کے وقت قوم کی قوت، قابلئیت، کو بہتر بنانا ، کوشش کرنا، ایسے اقدامات کرنا کہ علاقے میں بیرونی و اندرونی حملے کی صورت میں دشمن اپنے مقاصد پورے نہ کر سکے ، اور ایسے اقدامات حالت زمانہ جنگ، زمانہ امن، اور بعد از جنگ بھی ہو سکتے ہیں اور ایسے اقدامات بھی شامل ہورتے ہیں کہ قدرتی یا انسان کی پیدا کردہ آفات کی صورت میں ہوتے ہیں ۔ موجودہ دور میں تمام آفات و واقعات ، حادثات میں آئے روز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ،کہتے ہیں کہ شروع شروع میں اس ادارے نے ہر چھوٹے بڑے شہرمیں سول ڈیفنس کی تربیت دی اور تقریبا ہر گھر سے نوجوان افراد کو بم ڈسپوزل ، فرسٹ ایڈ،روڈ ایکسیڈنٹ، قحط، زلزلے، سیلاب، وبائی امراض ، طوفان اور آگ لگنے یا عمارتوں کے منہدم ہونے سے انسانی جانوں کے بچاو کی ٹریننگ دی جاتی تھی ، تعلیمی اداروں میں سول ڈیفنس کے متعلق مضامین پڑھائے جاتے تھے اور ٹریننگ پروگرام بھی ہوتے تھے ، 1971تک سول ڈیفنس سکولوں ، کالجز، یونیورسٹیز میں باقاعدہ عملی مظاہرہ کیا کرتی تھی حتی کہ رائفل چلانے کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ لیکن ناجانے پھر ایسا کیا ہوا کہ حکومت نے تعلیمی اداروں میں یہ مضامین اور ٹریننگ سیشن کو ختم کردیا، جبکہ صوبائی سطح پر باقاعدہ یہ ایک ادارہ قائم ہے جس کا موجودہ دنوں میں کام تبدیل ہوگیا ہے ، اب یہ ادارہ غیرقانونی پٹرول پمپ، ڈیزل و گیس ایجینسیاں،منی پٹرول یونٹس ، بڑی عمارتوں ، پلازوں ،اور دکانوں سے باقاعدہ منتھلیوں کی وصولی تک محدود ہو گیا ہے ، نوٹس بھجوانا اور خواہ مخواہ تنگ کرنا معمول میں شامل ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ سول ڈیفنس ادارہ کو ان دکانداروں کو پہلے باقائدہ ٹریننگ دی جانی چاہئیے، نوجوانوں کو سول ڈیفنس کے رضا کار بنا کر ٹریننگ دے کر معاشرہ میں آگاہی پھیلانی چاہئیے لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ افراتفری کی حالت میں سول ڈیفنس سے جانکاری نہ ہونے سے نقصان زیادہ ہوجاتاہے، جہاں دشمنوں کے تعلیمی اداروں کے پے درپے وار بھی ارباب اختیار کی آنکھیں نہ کھول سکا ، سیکورٹی اداروں کی جانب سے ان اداروں کے بزرگ سیکورٹی گارڈز کو ٹریننگ دی جاتی رہی لیکن نوجوانوں کو اپنی حفاظت یا ملکی دفاع کے لئیے اپنی صلاحیتوں کومنوانے کا کوئی جامع پروگرام اور ٹریننگ نہ دی جا سکی، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اس ادارے کے قیام کے بعد پاکستان کا ہر شہری ذاتی، علاقائی، شہری،اور ملکی و قومی دفاعی صلاھیت کا حامل ہوتا ، کئی ممالک میں ایسا ہو رہا ہے کہ حکومت نوجوانوں کو باقاعدہ عسکری ٹریننگ تک دلو ا دیتی ہے تاکہ جنگ یا غیر معمولی حالات میں یہ نوجوان خدمات سرانجام دے سکیں ، موجودہ حالات میں جہاں جنگ کی صورتحال ہے سوشل میڈیا پر نوجوان بھرپور انداز مٰیں مصروف ہیں ، سول ڈیفنس کی ٹریننگ کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے، تربیت یافتہ رضاکاروں کی کمی ہے وہاں ابتدائی طبی امداد و آلات کا بھی فقدان ہے۔کہ ان ٹریننگ کے حامل افراد دفاع کے فرائض انجام دینے کے قابل ہوتے، یہ جنگ فوجیوںیا سپاہیوں کی نہیں ہے پورے پاکستان کی ہے،اس لئیے سکولوں ، کالجز، یونیورسٹیز سمیت نوجوانوں کے لئیے ٹریننگ کے انتظامات ہونے چاہئیے تاکہ پاکستان کے نوجوان حقیقی معنوں میں غیر معمولی حالات و حادثات میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے۔جنگی حالات کے بعد بھی لیہ میں سول ڈیفنس کی افادیت و اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس علاقے کو آندھی ، طوفان ، روڈ حادثات اور خصوصا سیلاب جیسی آفت کا سامنا کرنا پرتا ہے ایسے مواقع پر سول ڈیفنس فورس اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔شہری دفاع کی تربیت ہر ایک پاکستانی کے لئیے لازمی ہونی چائیے تاکہ وہ کسی قسم کی ہنگامی حالات میں بہتر انداز میں نبرد آزما ہو سکیں ، اس کے لئیے حکومت ، میڈیا، سرکاری و پرائیوٹ ادارے، سیاسی سماجی نمائندگان ، محکمہ تعلیم ، پولیس، این جی اوز، محکمہ صحت، سوشل ویلفئیر ، سرمایہ دار، دکاندار حضرات، تاجر و دیگر تنظیموں کو آگے آنا چاہئیے اور کردار ادا کرنا چاہئیے کیونکہ ہم سب مل کر ، کوشش اور جامع حکمت عملی سے مضبوط شہری دفاعی نظام بنا سکتے ہیں ۔ سول ڈیفنس کی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگوں نے ہنگامی حالات میں نہ صرف لوگوں کی جانیں بچائیں بلکہ متوقع زیادہ حادثات و نقصانات کو روکنے میں کامیاب ہوئے ۔ مشہور کتاب "زاویہ'میں اشفاق احمد لکھتے ہیں " کہ ایک بار ڈیرے پر بابا جی سی پوچھا کہ انسان کو پناہ کہاں ملتی ہے، تو فرمانے لگے کہ "ماں کی آغوش میں" اگر وہاں نہ ملے تو والدین کی دعاوں میں ۔۔ اگر وہ بھی بدقسمتی سے نہ ملے تو پھر علم میں ۔ وہ علم ایسا جس میں ااپ کی ذات ، روح اور دوسروں کو فائدہ پہنچے اور وہ خدا کی مخلوق کے لئیے زحمت نہ ہو۔۔۔ whatsup: 03038229933 Mail: kamranlyh@gmail.com
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.