• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

زہر محبت , تحریر ۔ عفت بھٹی

webmaster by webmaster
مئی 26, 2018
in First Page, کالم
0
زہر محبت  , تحریر ۔ عفت بھٹی

رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ دروازہ دھڑدھڑانے کی آواز آئی ۔میں نے بند آنکھوں سے ہاتھ سوئچ کی طرف بڑھایا اور کلک کی آواز کے ساتھ لائٹ جلائی ۔مچی مچی آنکھوں سے کلاک پہ نظر ڈالی تین بج رہے تھے۔اللہ خیر دوبارہ دروازہ زور سے بجا ۔شوہر کو آواز دینا بے سود تھا کہ وہ نیند کی دوا کھا کر سو رہے تھے۔بچے اپنی ازلی عادت کے تحت آڑے ترچھے سوئے ہوئے تھے ۔اب مجبوری تھی بیٹے کو زبردستی جگایا کہ گیٹ تک ساتھ چلے۔۔آہستگی سے کمرے کا در کھول کر باہر نکلے ۔صحن عبور کیا گیٹ کے باہر خاموشی تھی ۔میں تذبذب میں تھی  کہ دروازہ کھولوں یا نہیں۔مما آپ نے خواب دیکھا تھا کیا باہر  تو کوئی نہیں ۔بیٹے نے نیند میں ڈولتے ہوئے کہا ۔میں نے خود آواز سنی ہے بچے ایک بار نہیں بار بار میں اسے یقین دلا رہی تھی ۔اتنے میں پھر دھیمی سی  دستک ہوئی۔کک کون میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔پھپھو میں ہوں عمران دروازہ  کھولیں  ۔بھتیجے کی آواز آئی ۔میرا دل انجانے اندیشے سے دھڑکنے لگا دروازہ کھلا تو عمران اندر آگیا۔پھپھو پڑوسیوں کے بیٹے جمیل کا انتقال ہو گیا پھوپھا کو بھیجیں۔کک کیسے ؟ آج صبح تو وہ بھلا چنگا تھا میری آواز لڑ کھڑا گئی۔جانے موت سے زیادہ بھیانک مجھے کبھی کچھ نہ لگا۔اس نے خود کشی کی ہے عمران نے سر گوشی کی۔مگر کیوں سولہ سالہ بچے کو ایسا کیا ہوا ؟میری حیرت کی انتہا نہ تھی ۔عمران غالبا میرے سوال جواب سے اکتا کر اندر چلا گیا اور میں وہیں صحن میں تخت پہ ٹک گئی جہاں بیٹا سمٹ کر سو گیا تھا۔بے اختیار میری مامتا دہل سی گئی اور بیٹے کی طرف دیکھا ۔یا اللہ کسی ماں پہ ایسی آزمائش نہ لانا آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے دو آنسو پلکوں پہ اٹک گئے۔اسی اثنا میں میرے شوہر اور عمران باہر نکل گئے اور مجھے دروازہ بند کرنے کا کہا ۔باہر ہو کا عالم تھا اتنی خاموشی نہ رونے کی آواز نہ بین کرنے کی آواز ۔ہلکی ہلکی چاپیں جیسے لوگ جان بوجھ کر احتیاط سے چل رہے ہوں ۔کنڈی لگا کر پلٹی اور تخت پہ ہی لیٹ گئی۔
صبح ہوتے ہی لوگوں کی تاسف بھری آوازیں آنے لگیں کیا ہوا تھا کب ہوا ہمیں تو پتہ ہی نہ چلا ہائے بیچارا بچہ۔۔ماں خالی چاپائی پہ بچھی چادر پہ ہاتھ پھیر رہی تھی ۔شاید لوگوں کے سوال اس کے دکھ کو سوا کر رہے تھے ۔راتوں رات دفنا دیا ۔ایک سر گوشی ابھری اور باقیوں کے بھی کان کھڑے ہوگئے ۔عورتیں خاموش ماں کے پاس سے اٹھ کر اس کے گرد جا بیٹھیں جس کے پاس زیادہ معلومات تھیں ۔سنا ہے خود کشی کی ہے زہریلی گولیاں کھا کر ۔ہائے باپ تو پہلے ہی مر گیا تھا ۔بھائی بھابھی کراچی تھے  ایک ماں ہی یہاں تھی ۔میں نے سنا کسی لڑکی کا چکر تھا ۔آوارہ تھا بہن اللہ معاف کرے ۔کچھ کرتا ورتا بھی نہیں تھا ۔سلیمے کے ابا بتا رہے تھے سارا جسم نیلا پڑا ہوا تھا۔توبہ توبہ اری بہن اس کی تو نماز جنازہ بھی نہیں ہوتی ۔اللہ معاف کرے ۔ماں کو تو دیکھو لگتا ہے خود ہی زہر دے دیا ہو گا ۔میں بلقیس کے پاس بیٹھی سارے تبصرے سن رہی تھی مقام افسوس یہ ہے ہمارے معاشرے کی ہمدردی۔بات برداشت سے باہر ہوگئی تو میں بلقیس کو تسلی دے کر اٹھنے لگی اس نے آنسوؤں بھری نگاہ سے مجھے دیکھا جیسے عورتوں کی شکایت کر رہی ہو۔میں نے لب بھینچ لیے ۔اور گھر آگئی ۔
جمیل ایک سولہ سالہ بچہ تھا ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں ۔بے وقت والد کی موت نے بچپن چھین لیا پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا تو چھوڑ دی ماں بھائی نے بہت سمجھایا میٹرک کر لے مگر مان کر نہ دیا نویں جماعت ادھوری چھوڑ دی سارا سارا دن آوارہ گردی کرتا ۔بھائی کراچی میں نوکری کرتا تھا شادی ہوئی تو بیوی ساتھ لے گیا ماں ایک سکول میں آیا گیری کرتی تھی۔اور ایک دو گھروں کے کام کرتی تھی۔بھائی کے جانے کے بعد جمیل کو آزادی مل گئی ۔آوارہ دوستوں نے فیس بک کی لت لگا دی اور جمیل کی دوستی ایک لڑکی سے ہوئی انڈیا کی رہنے والی درابہ جیلانی کے حسن نے جمیل کو ایسی راہ پہ ڈال دیا کہ وہ درابہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ۔وہ بھی اس کی محبت کا دم بھرنے لگی ۔درابہ کی بے شمار خوبصورت  تصویریں جمیل کی محبت کو اور بڑھاوا دیتیں وہ انتہائی خوبصورت تھی ۔جمیل نے اسے بتایا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ۔شاید میڈیا ہمارے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کرنے میں آگہی کے نام پہ گھناؤنا کھلواڑ کرنا چاہتا ہے۔محبت میں امتحان کے نام پہ دونوں میں طے ہوا کہ وہ اگر مل نہ سکے تو مر جائیں گے۔ایک ہفتے سے درابہ آف لائن تھی ۔جمیل کی بے قراری اسے چین نہ لینے دے رہی تھی  جمیل کے مرنے سے ایک رات قبل وہ آن لائن ہوئی اور معذرت کی کہ وہ دوسرے شہر اپنے ماموں سے ملنے گئی تھی چھ سال قبل اس کی والدہ اور ماموں میں ان بن کے بعد صلح ہوئی تو وہ سب وہاں گئے تھے ۔ماموں کے انجینئیر بیٹے کو وہ بہت پسند آئی تو ماموں نے اسکا رشتہ مانگ لیا اور ان کا نکاح ہو گیا اب وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ امریکا جارہی۔وہ والدین کے آگے مجبور تھی ۔جمیل کے سر پہ تو جیسے بم پھٹ گیا ۔آؤ دیکھا نہ تاؤ موبائل دیوار پہ دے مارا ۔اور روتے ہوئے گندم کی زہریلی گولیاں کھا لیں اور چادر اوڑھ کر لیٹ گیا جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی اور خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں تو گھبرا گیا بچہ ہی تھا اب جذبات ہوا ہوئے تو ماں کی طرف بھاگا جو ایک گھر میں کام کر رہی تھی گھر تک نہ پہنچ پایا راستے میں گر گیا گلی سے گذرتے بچے کو پیغام دیا میری ماں کو کہو مجھے بچا لے میں نے زہر کھا لیا ہے۔ماں تک دوڑتا بچہ پہنچا تو وہ بغیر جوتا پہنے بھاگی آئی مگر تب تک بہت دیر ہوگئی تھی آخری سانسوں میں ماں سے معافی مانگ کر جمیل دنیا سے روٹھ گیا ۔اور اسی طرح رات کے اندھیرے میں سپرد خاک کر دیا گیا چند پڑوسیوں نے نماز جنازہ پڑھی اور لحد میں اتار دیا ۔بھائی نے فون پہ کہہ دیا پولیس کیس بن جانا بس جانے والا چلا گیا جو زندہ ہیں ان کو زندہ درگور نہ کیا جائے۔ایک ماں کا جگر گوشہ نادانی کی نظر ہوگیا۔
رات کے دو بجےرمیش عرف درابہ ایک نئی آئی ڈی بنانے میں مشغول تھا ۔لولی انوسینٹ گرل۔وہ مسکرایا۔

Tags: column by ifat bhatti
Previous Post

لیہ۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی جانب سےڈپٹی کمشنر لیہ واجد علی شاہ کو اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر تعریفی اسناد اور 1لاکھ روپے کیش ایوارڈ

Next Post

ملتان: موٹر وے کے تعمیراتی کام کے دوران ڈمپر کی ٹکر، 5 مزدور جاں بحق

Next Post
ملتان: موٹر وے کے تعمیراتی کام کے دوران ڈمپر کی ٹکر، 5 مزدور جاں بحق

ملتان: موٹر وے کے تعمیراتی کام کے دوران ڈمپر کی ٹکر، 5 مزدور جاں بحق

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ دروازہ دھڑدھڑانے کی آواز آئی ۔میں نے بند آنکھوں سے ہاتھ سوئچ کی طرف بڑھایا اور کلک کی آواز کے ساتھ لائٹ جلائی ۔مچی مچی آنکھوں سے کلاک پہ نظر ڈالی تین بج رہے تھے۔اللہ خیر دوبارہ دروازہ زور سے بجا ۔شوہر کو آواز دینا بے سود تھا کہ وہ نیند کی دوا کھا کر سو رہے تھے۔بچے اپنی ازلی عادت کے تحت آڑے ترچھے سوئے ہوئے تھے ۔اب مجبوری تھی بیٹے کو زبردستی جگایا کہ گیٹ تک ساتھ چلے۔۔آہستگی سے کمرے کا در کھول کر باہر نکلے ۔صحن عبور کیا گیٹ کے باہر خاموشی تھی ۔میں تذبذب میں تھی  کہ دروازہ کھولوں یا نہیں۔مما آپ نے خواب دیکھا تھا کیا باہر  تو کوئی نہیں ۔بیٹے نے نیند میں ڈولتے ہوئے کہا ۔میں نے خود آواز سنی ہے بچے ایک بار نہیں بار بار میں اسے یقین دلا رہی تھی ۔اتنے میں پھر دھیمی سی  دستک ہوئی۔کک کون میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔پھپھو میں ہوں عمران دروازہ  کھولیں  ۔بھتیجے کی آواز آئی ۔میرا دل انجانے اندیشے سے دھڑکنے لگا دروازہ کھلا تو عمران اندر آگیا۔پھپھو پڑوسیوں کے بیٹے جمیل کا انتقال ہو گیا پھوپھا کو بھیجیں۔کک کیسے ؟ آج صبح تو وہ بھلا چنگا تھا میری آواز لڑ کھڑا گئی۔جانے موت سے زیادہ بھیانک مجھے کبھی کچھ نہ لگا۔اس نے خود کشی کی ہے عمران نے سر گوشی کی۔مگر کیوں سولہ سالہ بچے کو ایسا کیا ہوا ؟میری حیرت کی انتہا نہ تھی ۔عمران غالبا میرے سوال جواب سے اکتا کر اندر چلا گیا اور میں وہیں صحن میں تخت پہ ٹک گئی جہاں بیٹا سمٹ کر سو گیا تھا۔بے اختیار میری مامتا دہل سی گئی اور بیٹے کی طرف دیکھا ۔یا اللہ کسی ماں پہ ایسی آزمائش نہ لانا آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے دو آنسو پلکوں پہ اٹک گئے۔اسی اثنا میں میرے شوہر اور عمران باہر نکل گئے اور مجھے دروازہ بند کرنے کا کہا ۔باہر ہو کا عالم تھا اتنی خاموشی نہ رونے کی آواز نہ بین کرنے کی آواز ۔ہلکی ہلکی چاپیں جیسے لوگ جان بوجھ کر احتیاط سے چل رہے ہوں ۔کنڈی لگا کر پلٹی اور تخت پہ ہی لیٹ گئی۔ صبح ہوتے ہی لوگوں کی تاسف بھری آوازیں آنے لگیں کیا ہوا تھا کب ہوا ہمیں تو پتہ ہی نہ چلا ہائے بیچارا بچہ۔۔ماں خالی چاپائی پہ بچھی چادر پہ ہاتھ پھیر رہی تھی ۔شاید لوگوں کے سوال اس کے دکھ کو سوا کر رہے تھے ۔راتوں رات دفنا دیا ۔ایک سر گوشی ابھری اور باقیوں کے بھی کان کھڑے ہوگئے ۔عورتیں خاموش ماں کے پاس سے اٹھ کر اس کے گرد جا بیٹھیں جس کے پاس زیادہ معلومات تھیں ۔سنا ہے خود کشی کی ہے زہریلی گولیاں کھا کر ۔ہائے باپ تو پہلے ہی مر گیا تھا ۔بھائی بھابھی کراچی تھے  ایک ماں ہی یہاں تھی ۔میں نے سنا کسی لڑکی کا چکر تھا ۔آوارہ تھا بہن اللہ معاف کرے ۔کچھ کرتا ورتا بھی نہیں تھا ۔سلیمے کے ابا بتا رہے تھے سارا جسم نیلا پڑا ہوا تھا۔توبہ توبہ اری بہن اس کی تو نماز جنازہ بھی نہیں ہوتی ۔اللہ معاف کرے ۔ماں کو تو دیکھو لگتا ہے خود ہی زہر دے دیا ہو گا ۔میں بلقیس کے پاس بیٹھی سارے تبصرے سن رہی تھی مقام افسوس یہ ہے ہمارے معاشرے کی ہمدردی۔بات برداشت سے باہر ہوگئی تو میں بلقیس کو تسلی دے کر اٹھنے لگی اس نے آنسوؤں بھری نگاہ سے مجھے دیکھا جیسے عورتوں کی شکایت کر رہی ہو۔میں نے لب بھینچ لیے ۔اور گھر آگئی ۔ جمیل ایک سولہ سالہ بچہ تھا ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں ۔بے وقت والد کی موت نے بچپن چھین لیا پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا تو چھوڑ دی ماں بھائی نے بہت سمجھایا میٹرک کر لے مگر مان کر نہ دیا نویں جماعت ادھوری چھوڑ دی سارا سارا دن آوارہ گردی کرتا ۔بھائی کراچی میں نوکری کرتا تھا شادی ہوئی تو بیوی ساتھ لے گیا ماں ایک سکول میں آیا گیری کرتی تھی۔اور ایک دو گھروں کے کام کرتی تھی۔بھائی کے جانے کے بعد جمیل کو آزادی مل گئی ۔آوارہ دوستوں نے فیس بک کی لت لگا دی اور جمیل کی دوستی ایک لڑکی سے ہوئی انڈیا کی رہنے والی درابہ جیلانی کے حسن نے جمیل کو ایسی راہ پہ ڈال دیا کہ وہ درابہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ۔وہ بھی اس کی محبت کا دم بھرنے لگی ۔درابہ کی بے شمار خوبصورت  تصویریں جمیل کی محبت کو اور بڑھاوا دیتیں وہ انتہائی خوبصورت تھی ۔جمیل نے اسے بتایا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ۔شاید میڈیا ہمارے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کرنے میں آگہی کے نام پہ گھناؤنا کھلواڑ کرنا چاہتا ہے۔محبت میں امتحان کے نام پہ دونوں میں طے ہوا کہ وہ اگر مل نہ سکے تو مر جائیں گے۔ایک ہفتے سے درابہ آف لائن تھی ۔جمیل کی بے قراری اسے چین نہ لینے دے رہی تھی  جمیل کے مرنے سے ایک رات قبل وہ آن لائن ہوئی اور معذرت کی کہ وہ دوسرے شہر اپنے ماموں سے ملنے گئی تھی چھ سال قبل اس کی والدہ اور ماموں میں ان بن کے بعد صلح ہوئی تو وہ سب وہاں گئے تھے ۔ماموں کے انجینئیر بیٹے کو وہ بہت پسند آئی تو ماموں نے اسکا رشتہ مانگ لیا اور ان کا نکاح ہو گیا اب وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ امریکا جارہی۔وہ والدین کے آگے مجبور تھی ۔جمیل کے سر پہ تو جیسے بم پھٹ گیا ۔آؤ دیکھا نہ تاؤ موبائل دیوار پہ دے مارا ۔اور روتے ہوئے گندم کی زہریلی گولیاں کھا لیں اور چادر اوڑھ کر لیٹ گیا جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی اور خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں تو گھبرا گیا بچہ ہی تھا اب جذبات ہوا ہوئے تو ماں کی طرف بھاگا جو ایک گھر میں کام کر رہی تھی گھر تک نہ پہنچ پایا راستے میں گر گیا گلی سے گذرتے بچے کو پیغام دیا میری ماں کو کہو مجھے بچا لے میں نے زہر کھا لیا ہے۔ماں تک دوڑتا بچہ پہنچا تو وہ بغیر جوتا پہنے بھاگی آئی مگر تب تک بہت دیر ہوگئی تھی آخری سانسوں میں ماں سے معافی مانگ کر جمیل دنیا سے روٹھ گیا ۔اور اسی طرح رات کے اندھیرے میں سپرد خاک کر دیا گیا چند پڑوسیوں نے نماز جنازہ پڑھی اور لحد میں اتار دیا ۔بھائی نے فون پہ کہہ دیا پولیس کیس بن جانا بس جانے والا چلا گیا جو زندہ ہیں ان کو زندہ درگور نہ کیا جائے۔ایک ماں کا جگر گوشہ نادانی کی نظر ہوگیا۔ رات کے دو بجےرمیش عرف درابہ ایک نئی آئی ڈی بنانے میں مشغول تھا ۔لولی انوسینٹ گرل۔وہ مسکرایا۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.