• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

ادب روٹھ رہا ہے …… محمد عمار احمد

webmaster by webmaster
فروری 17, 2016
in First Page, کالم
0
ادب روٹھ رہا ہے  ……  محمد عمار احمد

ادب روٹھ رہا ہے
محمد عمار احمد
urdu-literatureسُہانے وقتوں میں دادی اماں سونے سے پہلے بچوں کو لوک کہانیاں ،اسلامی واقعات اور لوک گیت سنایا کرتی تھیں، بچوں کی یہ عادت اتنی پختہ تھی کہ یہ سب سنے بغیر سوتے ہی نہیں تھے ۔بچہ جب پڑھنے لکھنے لگتا تو اپنی تعلیمی مصروفیات سے فراغت کے بعد دن میں کچھ وقت کے لئے کوئی ناول،ڈائجسٹ یا کتاب لے کر اس کا مطالعہ کرتا،یہ کام باقاعدگی سے دل لگی کے لئے کیا جاتا جس سے بچے اپنی تاریخ،روایات اور ثقافت سے بہرہ ور رہتے اس سے بچوں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتیں ،بہترذہنی نشو و نما ہوتی ۔ہر بچے کے پاس مختلف قسم کا ادبی مواد موجود رہتا اور دوستوں میں اس کا تبادلہ ہوتا۔جب یہی بچے بڑے ہوتے تو ان میں تاریخ،ثقافت اور اسلامی کتب پڑھنے کا شوق موجود ہوتا وہ ان کتب کا مطالعہ کرتے ۔اگر گھر والے کچھ سختی بھی کرتے تب بھی چھپ چھپا کر اور جیب خرچ سے پیسے بچا کر مختلف ادبی و تاریخی کتب خرید کر پڑھتے اس کے سبب بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوتیں ۔

پھر یوں ہوا کہ ڈائجسٹ،ناولوں اور کتب کی جگہ فلمزاورسی ڈیز نے لے لی ،اب بچوں میں کتب اور ناولوں کی بجائے سی ڈیز اور گانوں کا imagesتبادلہ ہونے لگا،بچوں ی طبیعت میں منفی اثرات ظاہر ہونے لگے،نہ کھانے کا پتا نہ پینے کا ہوش،والدین کوئی کام بتاتے تو سنی ان سنی کر دی جاتی کیونکہ کتاب پڑھنے کے دوران کھانے پینے کا وقت آجاتا ہے یا کوئی اور کام کرنے کی گنجائش ہوتی ہے مگر فلم دیکھنے کے دوران اس کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی یہاں تک کہ پوری فلم نہ دیکھ لی جائے ۔ اب دور ہے سماجی ویب سائٹس ،کا اس نے نسلِ نو میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے ، ہر لمحہ ’’آن لائن‘‘ رہنے کی خواہش میں تعلیم کا نقصان،کھانا کھاتے وقت موبائلز،لیپ ٹاپس سامنے، توجہ کھانے کی بجائے ان آلات پر ،محفل میں بیٹھے ہیں تو ایک دوسرے کی بات سننے کی بجائے انہی کی جانب توجہ، الغرض کھانے پینے اور محفل میں بیٹھنے کے آداب رخصت ہوئے ۔اس کے سبب نہ ہی بچوں میں کھلنے کا شوق رہا ہے نہ ہی کتب بینی کا اپنی روایات اجنبی ٹھہری ہیں، ادب ان کے لئے ایک انجان سی شے بن چکا ہے اور تخلیقی صلاحیتیں ناپید ہیں ۔
کتب سے دوری کے سبب ہم اپنی اخلاقی قدروں ،ثقافتی رویات اور مذہبی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں ،اغیار کی تقلید میں ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں اپنے مذہبی تہوار اسی طرح مناتے ہیں جیسے مغرب میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے ۔ عید الفطراور عید الاضحی جیسے تہوار بھی جام و رقص کی محفلیں سجا کر مناتے ہیں چہ جائیکہ ہم یہ کہیں کہ ہم ویلنٹائن ڈے مشرقی روایات کے تحت منائیں گے۔ہمارے آئیڈیل اغیار ہیں ،ہماری داڑھی مونچھ کی وضع قطع لباس انہی جیسے ، ثقافتی تہوارہمارے مگر منانے کا طریقہ انہی کی تہذیب کا عکاس ہے ۔ہم اپنے ادبی ،ثقافتی اسلامی و تاریخی ورثے سے بے اعتنائی برت کر ہر تہذیب ،ہر قوم کی تقلید کے لئے بے تاب ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ ہم کوئی بھولی بسری،کنگال ،تاریخی پسِ منظر سے محروم خالی ہاتھ قوم ہیں جس کے پاس اپنا کوئی نظریہ ،عقیدہ ،طریقِ حیات اورتہوار نہ ہے ۔
گزشتہ برس سے اب تک ہمارے درمیان سے بڑے بڑے ادیب ،شاعر ،ناول و ڈرامہ نگارجا چکے ہیں ۔عبد اللہ حسین ہارون،کمال احمد رضوی،اشتیاق احمد،جمیل الدین عالی ،انتظار حسین اور آپا ثریا جیسی عظیم ادبی شخصیات رخصت ہوہو چلی گئی ہیں۔

997209-Jamiluddin-1448311517-706-640x480شاید یہ سب ہستیاں اپنی بے قدری اور ہماری بے اعتنائی کو مزید برداشت نہ کر سکتی تھیں ۔یہاں ایسے لوگوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کےوہ مستحق ہوتے ہیں ،سرکاری سطح پر ان کی سرپرستی نہیں کی جاتی بلکہ بیشترانہیں پابندیاں سہنا پڑتی ہیں جبکہ قوم سماجی رابطوں کے ذرائع میں مدہوش ہے ۔ان کی خدمات سے ہم منہ موڑے رکھتے ہیں جبکہ یہی لوگ ہمارے عقائدونظریات اور ثقافتی روایات کے نمائندہ ہوتے ہیں ،یہی ہماری تہذیب کودنیاکے سامنے لاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے ہمیں ان عظیم لوگوں سےمحروم کیاجارہا ہے اور لگتا ہے کہ ادب اپنی بے ادبی سہہ نہیں پارہا ،وہ ہماری بے اعتنائی پر نالاں ،بے رغبتی سے افسردہ اور بے حسی کے سبب ہم سےروٹھ رہا ہے۔ہمیں اپنے ان رویوں پر غور کرنا چاہئے اور سرکاری سطح پرادبی شخصیات کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور نسلِ نو میں ان کی تحریروںکو پڑھنے کے لئے رغبت پیدا کرنی چاہئے تاکہ نوجوان اپنے ان عظیم لوگوں کی قدر وقیمت کو پہچاننے کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت ،تاریخ اور مذہبی احکامات سے بھی روشناس ہو سکیں ۔ہر قوم ،ہر نئے فیشن کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی روایات کو اپنانے میں فخر محسوس کرے اور اپنے تہواروں کو اپنی روایات کے تحت ہی منائیں ۔۔۔

Ammar Ahmad

محمد عمار احمد
ahmadmomin676@yahoo.com

Tags: urdu column by muhammad ammar
Previous Post

چوک اعظم ، بوگس ووٹ ؟ وارڈ نمبر 1 اور وارڈ نمبر 2میں 22 فروری کو دوبارہ گنتی ہو گی ۔ الیکشن ٹر بیونل کا فیصلہ

Next Post

پرو فیسر نواز صدیقی مرحوم کی پہلی بر سی پر ایک خصو صی تحریر

Next Post
پرو فیسر نواز صدیقی مرحوم کی پہلی بر سی پر ایک خصو صی تحریر

پرو فیسر نواز صدیقی مرحوم کی پہلی بر سی پر ایک خصو صی تحریر

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

ادب روٹھ رہا ہے محمد عمار احمد urdu-literatureسُہانے وقتوں میں دادی اماں سونے سے پہلے بچوں کو لوک کہانیاں ،اسلامی واقعات اور لوک گیت سنایا کرتی تھیں، بچوں کی یہ عادت اتنی پختہ تھی کہ یہ سب سنے بغیر سوتے ہی نہیں تھے ۔بچہ جب پڑھنے لکھنے لگتا تو اپنی تعلیمی مصروفیات سے فراغت کے بعد دن میں کچھ وقت کے لئے کوئی ناول،ڈائجسٹ یا کتاب لے کر اس کا مطالعہ کرتا،یہ کام باقاعدگی سے دل لگی کے لئے کیا جاتا جس سے بچے اپنی تاریخ،روایات اور ثقافت سے بہرہ ور رہتے اس سے بچوں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتیں ،بہترذہنی نشو و نما ہوتی ۔ہر بچے کے پاس مختلف قسم کا ادبی مواد موجود رہتا اور دوستوں میں اس کا تبادلہ ہوتا۔جب یہی بچے بڑے ہوتے تو ان میں تاریخ،ثقافت اور اسلامی کتب پڑھنے کا شوق موجود ہوتا وہ ان کتب کا مطالعہ کرتے ۔اگر گھر والے کچھ سختی بھی کرتے تب بھی چھپ چھپا کر اور جیب خرچ سے پیسے بچا کر مختلف ادبی و تاریخی کتب خرید کر پڑھتے اس کے سبب بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوتیں ۔

پھر یوں ہوا کہ ڈائجسٹ،ناولوں اور کتب کی جگہ فلمزاورسی ڈیز نے لے لی ،اب بچوں میں کتب اور ناولوں کی بجائے سی ڈیز اور گانوں کا imagesتبادلہ ہونے لگا،بچوں ی طبیعت میں منفی اثرات ظاہر ہونے لگے،نہ کھانے کا پتا نہ پینے کا ہوش،والدین کوئی کام بتاتے تو سنی ان سنی کر دی جاتی کیونکہ کتاب پڑھنے کے دوران کھانے پینے کا وقت آجاتا ہے یا کوئی اور کام کرنے کی گنجائش ہوتی ہے مگر فلم دیکھنے کے دوران اس کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی یہاں تک کہ پوری فلم نہ دیکھ لی جائے ۔ اب دور ہے سماجی ویب سائٹس ،کا اس نے نسلِ نو میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے ، ہر لمحہ ’’آن لائن‘‘ رہنے کی خواہش میں تعلیم کا نقصان،کھانا کھاتے وقت موبائلز،لیپ ٹاپس سامنے، توجہ کھانے کی بجائے ان آلات پر ،محفل میں بیٹھے ہیں تو ایک دوسرے کی بات سننے کی بجائے انہی کی جانب توجہ، الغرض کھانے پینے اور محفل میں بیٹھنے کے آداب رخصت ہوئے ۔اس کے سبب نہ ہی بچوں میں کھلنے کا شوق رہا ہے نہ ہی کتب بینی کا اپنی روایات اجنبی ٹھہری ہیں، ادب ان کے لئے ایک انجان سی شے بن چکا ہے اور تخلیقی صلاحیتیں ناپید ہیں ۔ کتب سے دوری کے سبب ہم اپنی اخلاقی قدروں ،ثقافتی رویات اور مذہبی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں ،اغیار کی تقلید میں ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں اپنے مذہبی تہوار اسی طرح مناتے ہیں جیسے مغرب میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے ۔ عید الفطراور عید الاضحی جیسے تہوار بھی جام و رقص کی محفلیں سجا کر مناتے ہیں چہ جائیکہ ہم یہ کہیں کہ ہم ویلنٹائن ڈے مشرقی روایات کے تحت منائیں گے۔ہمارے آئیڈیل اغیار ہیں ،ہماری داڑھی مونچھ کی وضع قطع لباس انہی جیسے ، ثقافتی تہوارہمارے مگر منانے کا طریقہ انہی کی تہذیب کا عکاس ہے ۔ہم اپنے ادبی ،ثقافتی اسلامی و تاریخی ورثے سے بے اعتنائی برت کر ہر تہذیب ،ہر قوم کی تقلید کے لئے بے تاب ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ ہم کوئی بھولی بسری،کنگال ،تاریخی پسِ منظر سے محروم خالی ہاتھ قوم ہیں جس کے پاس اپنا کوئی نظریہ ،عقیدہ ،طریقِ حیات اورتہوار نہ ہے ۔ گزشتہ برس سے اب تک ہمارے درمیان سے بڑے بڑے ادیب ،شاعر ،ناول و ڈرامہ نگارجا چکے ہیں ۔عبد اللہ حسین ہارون،کمال احمد رضوی،اشتیاق احمد،جمیل الدین عالی ،انتظار حسین اور آپا ثریا جیسی عظیم ادبی شخصیات رخصت ہوہو چلی گئی ہیں۔

997209-Jamiluddin-1448311517-706-640x480شاید یہ سب ہستیاں اپنی بے قدری اور ہماری بے اعتنائی کو مزید برداشت نہ کر سکتی تھیں ۔یہاں ایسے لوگوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کےوہ مستحق ہوتے ہیں ،سرکاری سطح پر ان کی سرپرستی نہیں کی جاتی بلکہ بیشترانہیں پابندیاں سہنا پڑتی ہیں جبکہ قوم سماجی رابطوں کے ذرائع میں مدہوش ہے ۔ان کی خدمات سے ہم منہ موڑے رکھتے ہیں جبکہ یہی لوگ ہمارے عقائدونظریات اور ثقافتی روایات کے نمائندہ ہوتے ہیں ،یہی ہماری تہذیب کودنیاکے سامنے لاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے ہمیں ان عظیم لوگوں سےمحروم کیاجارہا ہے اور لگتا ہے کہ ادب اپنی بے ادبی سہہ نہیں پارہا ،وہ ہماری بے اعتنائی پر نالاں ،بے رغبتی سے افسردہ اور بے حسی کے سبب ہم سےروٹھ رہا ہے۔ہمیں اپنے ان رویوں پر غور کرنا چاہئے اور سرکاری سطح پرادبی شخصیات کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور نسلِ نو میں ان کی تحریروںکو پڑھنے کے لئے رغبت پیدا کرنی چاہئے تاکہ نوجوان اپنے ان عظیم لوگوں کی قدر وقیمت کو پہچاننے کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت ،تاریخ اور مذہبی احکامات سے بھی روشناس ہو سکیں ۔ہر قوم ،ہر نئے فیشن کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی روایات کو اپنانے میں فخر محسوس کرے اور اپنے تہواروں کو اپنی روایات کے تحت ہی منائیں ۔۔۔

Ammar Ahmad

محمد عمار احمد ahmadmomin676@yahoo.com

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.