مملکت پاکستان کے طول و عرض کی طرح ہی ضلع لیہ کے گلی کوچوں، چوراہوں اور بازاروں میں روزانہ بے شمار مجبور چہرے نظر آتے ہیں۔ راقم ایک سماجی انسان ہونے کے ناطے روزانہ ایسے کئی افراد سے ملتا ہے جن کی کہانیاں دل کو چیر کر رکھ دیتی ہیں۔ کوئی باپ دو وقت کی روٹی کے لیے کڑی دھوپ اور سخت سردی بارش میں ریڑھی دھکیل رہا ہے، کوئی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے یا بچوں کے ساتھ پھل اور سبزیاں بیچ کر زندگی کا پہیہ چلا رہی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو نہ چور ہیں، نہ ڈاکو، نہ بھکاری — بلکہ عزت و محنت سے روزی کمانے والے ہیں، مگر حالات نے انہیں دیوار سے لگا دیا ہے۔
مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، بیروزگاری نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ آج کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ایک طرف بے روزگاری کی تلوار ہے، دوسری طرف مہنگائی کا خنجر۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بعض نے یہ قدم اٹھا بھی لیا ہے۔
ضلع لیہ کے بڑے شہروں — کروڑ، کوٹ سلطان، فتح پور، چوبارہ، لدھیانہ، دھوری اڈہ، چوک اعظم اور مضافاتی اڈوں پر سینکڑوں ریڑھی بان اور ٹھیلے والے برسوں سے اپنے آباؤ اجداد کی محنت کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ نسل در نسل یہ لوگ انہی گلیوں میں محنت کرتے آئے ہیں، مگر ان کا مستقبل آج بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔ انہیں مستقل جگہیں دی جائیں جہاں وہ عزت سے کاروبار کر سکیں اور بلدیہ باقاعدہ کرایہ وصول کرے تاکہ سرکاری آمدن بھی بڑھے اور عوام کو بھی تحفظ ملے۔
ہر محب وطن پاکستانی کی طرح میں بھی ناجائز تجاوزات کے خلاف ہوں، لیکن ہم مستقل حل کے قائل ہیں۔ اگر دکاندار فٹ پاتھوں اور تھڑوں پر قابض ہیں تو ان کے لیے بھی باقاعدہ نوٹس جاری کیے جائیں اور ایسا نظام بنایا جائے جس سے شہری سہولت اور کاروباری تحفظ دونوں قائم رہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکمرانوں نے عوام کی حالت زار کو نظر انداز کیا، معاشرے میں بے چینی اور بدامنی بڑھی۔ خلفائے راشدین کے دور میں جب بیت المال میں مال آتا تو سب سے پہلے غرباء اور مساکین کا حق ادا کیا جاتا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں رات کے اندھیروں میں وہ خود گلیوں میں نکل کر ضرورت مندوں کا حال پوچھتے تھے۔
اسلامی تعلیمات اور روایات آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ معاشرے کے کمزور اور بے بس افراد کی فریاد سننا اور ان کی مدد کرنا ہماری دینی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔
اس لیے پیرا فورس کے ضلعی انچارج سمیت پنجاب کی بیوروکریسی اور اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ رحم دلی سے کام لیں۔ ان محنت کشوں کو تحفظ دیں، ان کے لیے مستقل جگہیں مختص کریں، اور مہنگائی و بیروزگاری کے عذاب کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ورنہ تاریخ کا قلم خاموش نہیں رہے گا اور آنے والی نسلیں ہمارے اس بے حسی پر سوال اٹھائیں گی
ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز
لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...
Read moreDetails










