گلگت میں لینڈسلائیڈنگ سے خوفناک حادثہ پیش آگیا، نالے میں کام کے دوران ملبے تلے دب کر 8 رضاکار جاں بحق اور 3 افراد زخمی ہوگئے۔
پولیس کے مطابق مقامی رضاکار سیلاب سے متاثرہ واٹر چینل کی بحالی کا کام کررہے تھے اس دوران رضاکاروں پر مٹی کا تودہ گرگیا۔
جائے حادثہ پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں، ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، ہسپتال ذرائع کے مطابق تین زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا۔
حال ہی میں آنے والے سیلاب کے باعث دنیور نالہ سے دنیور ٹاؤن جانے والی مرکزی پانی کی سپلائی لائن کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
اتوار کی شب کم از کم 15 مقامی رضاکاروں نے آبپاشی کے نہر میں پانی کی بحالی کا کام شروع کیا، اس دوران ایک تودہ آگرا جس کے باعث تمام رضاکار ملبے تلے دب گئے۔
مقامی افراد فوراً موقع پر پہنچے اور دبے ہوئے رضاکاروں کو نکالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والے مقامی شخص محمد اکبر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ملبے سے 13 افراد کو نکال کر گلگت اور دنیور کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
ڈان نے اس واقعے پر حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک مقامی رضاکار نے بتایا کہ گرمی کی شدید لہر کے باعث دن میں کام مشکل تھا، اس لیے لوگوں نے سورج غروب ہونے کے بعد بحالی کا کام شروع کیا۔
مقامی افراد کو خدشہ ہے کہ ملبے تلے مزید لوگ دبے ہو سکتے ہیں کیونکہ تودے تلے دبنے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔
ایک اور ریسکیو ٹیم کے رکن نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کا ہجوم ریسکیو آپریشن میں شریک ہے، رات کے وقت دبے ہوئے افراد کو تلاش کرنے میں مشکلات پیش آئیں، تاہم 13 افراد کو ملبے سے نکال کر نازک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 22 جولائی کو دنیور نالہ میں بادل پھٹنے سے آنے والے فلیش فلڈ نے رہائشی علاقوں کو ڈبو دیا تھا، فصلیں تباہ کر دی تھیں اور دنیور و سلطان آباد وادیوں کو جانے والے آبپاشی کے نہری نظام اور پینے کے پانی کی پائپ لائنیں بھی برباد کر دی تھیں۔
اس فلیش فلڈ سے دنیور نالہ کی مرکزی سپلائی لائن اور کئی نہریں تباہ ہو گئی تھیں، جس کے باعث دنیور اور سلطان آباد کے ہزاروں رہائشی کئی ہفتے تک پینے کے پانی سے محروم رہے۔
مقامی آبادی نے پانی کی فراہمی کی بحالی کے لیے کام نہ شروع کرنے پر احتجاج بھی کیا تھا۔ سابق وزیر گلگت بلتستان محمد اقبال کی قیادت میں عمائدین نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ حکومت بارہا یقین دہانیوں کے باوجود پانی کی فراہمی بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگرچہ مقامی لوگوں نے عارضی طور پر پائپ لائن بحال کر لی تھی لیکن بعد کی طغیانی نے اسے دوبارہ تباہ کر دیا۔
اہل علاقہ نے حکومت پر کام شروع نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ فوری اقدامات کیے جائیں ورنہ احتجاج کیا جائے گا۔
مقامی شخص حسین اکبر شاہ کے مطابق دنیور کے ہزاروں افراد پینے اور آبپاشی کے پانی کی کمی کا شکار ہیں کیونکہ یہ وادی نالے کے پانی پر انحصار کرتی ہے۔
مقامی لوگوں نے فصلوں اور درختوں کے خشک ہونے کے بعد آبپاشی کی نہریں بحال کرنے کا کام شروع کیا تھا، اگرچہ مقامی رضاکاروں نے کچھ عرصہ پہلے جزوی طور پر نہری نظام بحال کر لیا تھا تاہم نالے میں پانی کے بہاؤ میں اضافے نے ایک بار پھر سپلائی کو نقصان پہنچایا










