تحریر ۔۔۔ ارشاد راۓ
9 مئی 2023 کو پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن بن گیا، جس نے نہ صرف ریاستی اداروں کی حرمت کو پامال کیا بلکہ سیاسی جماعتوں کے تنظیمی کردار اور قیادت کی بصیرت پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔ اس روز ریاستی تنصیبات پر حملے، سول املاک کی تباہی اور اداروں کی تضحیک، ایک ایسے غیر دانشمندانہ بیانیے کا شاخسانہ تھی جو خودپسندی، ضد، اور سیاسی ناپختگی کے زہر سے لبریز تھا۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ اس پورے منظرنامے میں تحریک انصاف کی پارلیمانی قیادت نے نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کی بلکہ بعض اوقات براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ایسے بیانیے کو ہوا دی جس نے عام کارکنوں کو بند گلی میں دھکیل دیا۔ اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان ان غریب، جذباتی اور کم فہم کارکنوں کا ہوا جو ایک ڈیماگوگ (Demagogue) لیڈر کی سطحی نعرہ بازی کا شکار ہو کر اپنے ہی ملک کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ ان کارکنوں کی سزائیں، ان کی ماؤں کے آنسو، اور ان کے خاندانوں کی بربادی، صرف ایک فرد کی انا پرستی اور غیرسیاسی طرزِ قیادت کی بھینٹ چڑھ گئی۔
سیاسی رہنما کا کام ہوتا ہے کہ وہ بحرانی کیفیت میں اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر مکالمے، افہام و تفہیم، اور مفاہمت کے ذریعے اپنی جماعت، اداروں اور قوم کے درمیان پُل کا کردار ادا کرے۔ لیکن یہاں صورت حال اس کے برعکس رہی۔ جو کچھ 9 مئی کو ہوا، وہ کسی غیر ارادی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک باقاعدہ منصوبہ بند حکمتِ عملی کے تحت ہوا جس کا مقصد ملکی اداروں کو کمزور اور سیاسی نظام کو سبوتاژ کرنا تھا۔
موازنہ کے لیے جب ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہاں اگرچہ وقتی اشتعال ضرور تھا، لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے فوری طور پر اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا۔ آصف علی زرداری کی طرف سے “پاکستان کھپے” کا نعرہ دراصل قومی وحدت کا پیغام تھا۔ وہ لمحہ تھا جب ذاتی غم کو اجتماعی مفاد پر قربان کیا گیا۔ اس کے برعکس، تحریک انصاف کی قیادت نے ہر موقع کو صرف ذاتی مفاد اور اقتدار کی بازیابی کی خاطر استعمال کیا، بغیر اس کے کہ کارکنوں کی جان و مال، یا ریاست کی حرمت کی کوئی پروا کی جاتی۔
آج جب تحریک انصاف کے غریب کارکنان طویل قید کی سزائیں بھگت رہے ہیں اور ان کے گھر اجڑ چکے ہیں، تو یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر ایک نالائق، غیرسیاسی اور خود پسند شخص کو قومی قیادت سونپ دی جائے تو اس کے اثرات صرف ایوان اقتدار تک محدود نہیں رہتے، بلکہ قوم کے عام افراد کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
سیاسی جماعتوں، اداروں، میڈیا اور ووٹرز سب کو اس واقعے سے سبق سیکھنا ہوگا۔ کسی بھی سطحی بیانیے، مداری سیاست یا فاشسٹ رجحانات کو قبول کرنا دراصل جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے۔ ہمیں اب یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم سیاست کو ذاتی انتقام اور سطحی نعروں سے پاک کر کے اسے ایک سنجیدہ قومی خدمت کا میدان بنائیں گے، یا پھر ہر چند سال بعد ایک نیا سانحہ ہماری قومی تاریخ پر داغ بنتا رہے گا
ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز
لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...
Read moreDetails










