• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

رانا اعجاز محمود , تحریر ۔ ۔ محمد عمر شاکر

webmaster by webmaster
جولائی 10, 2021
in کالم
0
اے دل کسی کی یاد میں۔۔۔                  تحریر۔نثار احمد خان

اک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کہ کیا شخص زمانے سے اٹھا

یوں تو ایک سال گزر گیا مگر لگتا ہے کہ کئی دہائیاں گزر گئی جب بھی لکھنے کی کوشش کریں تو طرح طرح کے اندیشے وسوسے ذہن میں آتے ہیں اور ایسے جیسے کسی مکان کی چھت کو ئی طوفان آندھی اٹھا کر لے جائیں اور وہ مفلوک الحال شخص کو جہاں بارش کا خطرہ ہوتا ہے وہیں سورج کی تپش کا خطرہ بھی ہوتا ہے ایسا ہی کچھ حال ہم ان قلم کاروں کا ہے جو کسی بھی جب قلم اٹھاتے تھے تو چند لفظ اور بے ہنگم سوچ دماغ میں ہوتی مگر جب وہ رانا اعجاز کو کال کرتے اور جس عنوان وہ کوئی عام مسئلہ ہوتا یا قومی مسئلہ کے بارے رانا اعجاز سے بات کرتے تو وہ اس موضوع پر سیر حاصل مواد مدلل مگر مختصر بتا دیتے اور اس پر کالم تحریر کر دیتا یوں تو مملکت پاکستان کے کئی نامور صحافی رانا اعجاز کی شاگردگی یا انکے ساتھ تعلق پر زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں نامور صحافی یا وفاقی صوبائی دارلحکومتوں میں رہنے والے صحافی جب کوئی خبر بریک کرتے یا آرٹیکل لکھتے ہیں تو انکی پشت پر ادارہ اور نامور ملکی سیاسی مذہبی شخصیات بھی کھڑی ہوتی ہیں مگر علاقائی صحافی جو بلا تنخواہ دن رات کے ملازم ہوئے ہیں اخبار یا ٹی وی چینل کی نمائندگی لیتے وقت سیکورٹی یا مبارکبادی کے اشتہار کے عوض ہزاروں روپے دینے پڑتے ہیں دوسری طرف کسی بھی منشیات فروش قبضہ گروپ رشوت خور آفیسران چٹی دلالی کرنے والے خود ساختہ چوھدری ملک اور خان صاحبان جہاں کسی بھی علاقائی صحافی کے مخالف ہوتے ہیں وہیں اسے خاندن عزیزو اقارب دوست احباب اور منافق نما دوستوں کی بھی مخالفت نا راضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہنے والے کسی کرپٹ آفیسر قبضہ کرنے والے منشیات فروشی کرنے والوں جسم فروشی کرنے والے جعلی عاملیت کر کے سادہ لوح کو لوٹنے والوں لوگوں کیساتھ فراڈ کرنے والوں کو تو نہیں روکتے انہیں تو برا بھلا نہیں کہتے مگر خبر لگانے والے کو ہی روکتے ہیں جرم یا جرم کے ساتھ نفرت کرنے کی بجائے نشاندہی کرنے والے پر ہی غصہ دکھاتے اور نفرت کرتے ہیں

ان حالات میں میرے جیسے کئی صحافیوں کی چھت رانا اعجاز محمود ہی ہوتے ایک طویل عرصہ انہوں نے لیہ جیسے پسماندہ ترین خطہ میں قلم کاغذ سے منسلک قلم کاروں کی آبیاری کرتے ہوئے گزار دی ایک طرف وہ سرکاری ملازم تھے تو دوسری طرف وہ جہاں قلم کاروں کی تربیت کرتے وہیں کسی بھی سرکاری آفیسر جاگیردار چوھدری سرمایہ دار سمیت مختلف مافیاز کی شازشوں کے سامنے ڈھال ہوتے محکمانہ ترقی کے بعد بھی مٹی کی محبت میں کسی بڑے شہر کی بجائے لیہ سے بہاولپور ٹرانسفر کرکے دھرتی ماں کیساتھ ڈیرہ ڈالا حالانکہ وہ کسی بڑے شہر کے آفس میں جاتے تو انکی شخصیت کے مطابق انکا حلقہ احباب اور بڑھ جاتا مگر بہاولپور میں رہتے ہوئے بھی وہ لیہ کے قلم کاروں دوستوں کے ساتھ رابطہ میں رہتے اور ضلع لیہ کے باسیوں کی اکثر محفلیں بہاولپور میں سجتی سچی بات تو ہے کہ لیہ اور بہاولپور کا سفرمحبان رانا اعجاز محمود کے لئے کوئی سفر نہ رہتا بلا شبہ رانا اعجاز زمین کے مٹے ہوئے شخص تھے جن کے سینے میں علم معلومات کا ذخیرہ تھا

گزشتہ سال رانا اعجاز محمود کی وفات کے بعد علاقائی صحافیوں سمیت نامور صحافیوں نے رانا اعجاز کی یاد میں تعزیتی آرٹیکلز لکھے مگر میرے اعصاب نے اس وقت ساتھ ہی نہیں کہ اپنے مرشد قلمی پیشوا کے بارے لکھوں تو کیا لکھوں رانا اعجاز اور میرا ہی تعلق نہیں بلکہ وہ میر محلہ دار بھی ہیں میرے والد محترم اوررانا صاحب کے والد محترم کے درمیان بھی دوستانہ تعلقات تھے اور اب بھی رانا صاحب کے گھرانے اور ہمارے گھرانے کے درمیان تعلقات ہیں جو کہ روز قیامت تک ہر گزرتے دن کیساتھ مظبوط سے مظبوط ہوتے جائیں گئے رانا اعجاز محمود کی وفات کے بعدانکے بڑے بھائی پروفیسر رانا خالد محمود کی وفات نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ اہلیان چوک اعظم ابھی رانا اعجاز محمود کی وفات کا غم بھولے بھی نہیں تھے کہ پروفیسر رانا خالد محمود داعی اجل کو کہہ کر خالق حقیقی سے جا ملے

رانا اعجاز محمود ایک شخص نہیں ایک نظریہ کا نام تھا اور یہ نظریہ تا قیامت رہے گا انکی وفات پر منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء نے ایم ایم روڈ بائی پاس کو انکے نام کیساتھ منصوب کرنے کا اعلان کیا جس پر تا حال کوئی انتظامیہ کی جانب سے عملی قدم نہیں اٹھایا گیا قبل ازیں بھی چوک اعظم کے نوجوان صحافی طارق ملک جو کہ لاہور میں جام شھادت نوش کر گئے تھے کہ نام ایم ایم روڈ لیہ روڈ بائی پاس منصوب کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اس پر بھی کوئی عملی کام نہیں ہوا ملتان لیہ روڈ بائی پاس کو طارق ملک اور فتح پور لیہ روڈ بائی پاس کو رانا اعجاز محمود کے نام منصوب کرنے کے ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء ترجیحی بنیاد پر اقدامات کرتے ہوئے سرکاری پراسس مکمل کرائیں

اللہ رب العزت رانا اعجاز محمود پروفیسر رانا خالد محمود کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماتے ہوئے ہم قلم کاروں کو انکی تربیت کے مطابق صحافتی امور احسن انداز میں سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ ۔ آمین

خاک میں لوگ ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ

ہم نے سونا سپرد خاک کیا

Tags: column by umer shakir
Previous Post

کورونا کی چوتھی لہر ؟ مظہر اقبال کھوکھر

Next Post

آرمی چیف سے چینی سفیر اور قطری نمائندہ خصوصی کی ملاقات ، باہمی دلچسپی اورعلاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال

Next Post
آرمی چیف سے چینی سفیر اور قطری نمائندہ خصوصی کی ملاقات ، باہمی دلچسپی اورعلاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال

آرمی چیف سے چینی سفیر اور قطری نمائندہ خصوصی کی ملاقات ، باہمی دلچسپی اورعلاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

اک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کہ کیا شخص زمانے سے اٹھا

یوں تو ایک سال گزر گیا مگر لگتا ہے کہ کئی دہائیاں گزر گئی جب بھی لکھنے کی کوشش کریں تو طرح طرح کے اندیشے وسوسے ذہن میں آتے ہیں اور ایسے جیسے کسی مکان کی چھت کو ئی طوفان آندھی اٹھا کر لے جائیں اور وہ مفلوک الحال شخص کو جہاں بارش کا خطرہ ہوتا ہے وہیں سورج کی تپش کا خطرہ بھی ہوتا ہے ایسا ہی کچھ حال ہم ان قلم کاروں کا ہے جو کسی بھی جب قلم اٹھاتے تھے تو چند لفظ اور بے ہنگم سوچ دماغ میں ہوتی مگر جب وہ رانا اعجاز کو کال کرتے اور جس عنوان وہ کوئی عام مسئلہ ہوتا یا قومی مسئلہ کے بارے رانا اعجاز سے بات کرتے تو وہ اس موضوع پر سیر حاصل مواد مدلل مگر مختصر بتا دیتے اور اس پر کالم تحریر کر دیتا یوں تو مملکت پاکستان کے کئی نامور صحافی رانا اعجاز کی شاگردگی یا انکے ساتھ تعلق پر زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں نامور صحافی یا وفاقی صوبائی دارلحکومتوں میں رہنے والے صحافی جب کوئی خبر بریک کرتے یا آرٹیکل لکھتے ہیں تو انکی پشت پر ادارہ اور نامور ملکی سیاسی مذہبی شخصیات بھی کھڑی ہوتی ہیں مگر علاقائی صحافی جو بلا تنخواہ دن رات کے ملازم ہوئے ہیں اخبار یا ٹی وی چینل کی نمائندگی لیتے وقت سیکورٹی یا مبارکبادی کے اشتہار کے عوض ہزاروں روپے دینے پڑتے ہیں دوسری طرف کسی بھی منشیات فروش قبضہ گروپ رشوت خور آفیسران چٹی دلالی کرنے والے خود ساختہ چوھدری ملک اور خان صاحبان جہاں کسی بھی علاقائی صحافی کے مخالف ہوتے ہیں وہیں اسے خاندن عزیزو اقارب دوست احباب اور منافق نما دوستوں کی بھی مخالفت نا راضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہنے والے کسی کرپٹ آفیسر قبضہ کرنے والے منشیات فروشی کرنے والوں جسم فروشی کرنے والے جعلی عاملیت کر کے سادہ لوح کو لوٹنے والوں لوگوں کیساتھ فراڈ کرنے والوں کو تو نہیں روکتے انہیں تو برا بھلا نہیں کہتے مگر خبر لگانے والے کو ہی روکتے ہیں جرم یا جرم کے ساتھ نفرت کرنے کی بجائے نشاندہی کرنے والے پر ہی غصہ دکھاتے اور نفرت کرتے ہیں

ان حالات میں میرے جیسے کئی صحافیوں کی چھت رانا اعجاز محمود ہی ہوتے ایک طویل عرصہ انہوں نے لیہ جیسے پسماندہ ترین خطہ میں قلم کاغذ سے منسلک قلم کاروں کی آبیاری کرتے ہوئے گزار دی ایک طرف وہ سرکاری ملازم تھے تو دوسری طرف وہ جہاں قلم کاروں کی تربیت کرتے وہیں کسی بھی سرکاری آفیسر جاگیردار چوھدری سرمایہ دار سمیت مختلف مافیاز کی شازشوں کے سامنے ڈھال ہوتے محکمانہ ترقی کے بعد بھی مٹی کی محبت میں کسی بڑے شہر کی بجائے لیہ سے بہاولپور ٹرانسفر کرکے دھرتی ماں کیساتھ ڈیرہ ڈالا حالانکہ وہ کسی بڑے شہر کے آفس میں جاتے تو انکی شخصیت کے مطابق انکا حلقہ احباب اور بڑھ جاتا مگر بہاولپور میں رہتے ہوئے بھی وہ لیہ کے قلم کاروں دوستوں کے ساتھ رابطہ میں رہتے اور ضلع لیہ کے باسیوں کی اکثر محفلیں بہاولپور میں سجتی سچی بات تو ہے کہ لیہ اور بہاولپور کا سفرمحبان رانا اعجاز محمود کے لئے کوئی سفر نہ رہتا بلا شبہ رانا اعجاز زمین کے مٹے ہوئے شخص تھے جن کے سینے میں علم معلومات کا ذخیرہ تھا گزشتہ سال رانا اعجاز محمود کی وفات کے بعد علاقائی صحافیوں سمیت نامور صحافیوں نے رانا اعجاز کی یاد میں تعزیتی آرٹیکلز لکھے مگر میرے اعصاب نے اس وقت ساتھ ہی نہیں کہ اپنے مرشد قلمی پیشوا کے بارے لکھوں تو کیا لکھوں رانا اعجاز اور میرا ہی تعلق نہیں بلکہ وہ میر محلہ دار بھی ہیں میرے والد محترم اوررانا صاحب کے والد محترم کے درمیان بھی دوستانہ تعلقات تھے اور اب بھی رانا صاحب کے گھرانے اور ہمارے گھرانے کے درمیان تعلقات ہیں جو کہ روز قیامت تک ہر گزرتے دن کیساتھ مظبوط سے مظبوط ہوتے جائیں گئے رانا اعجاز محمود کی وفات کے بعدانکے بڑے بھائی پروفیسر رانا خالد محمود کی وفات نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ اہلیان چوک اعظم ابھی رانا اعجاز محمود کی وفات کا غم بھولے بھی نہیں تھے کہ پروفیسر رانا خالد محمود داعی اجل کو کہہ کر خالق حقیقی سے جا ملے رانا اعجاز محمود ایک شخص نہیں ایک نظریہ کا نام تھا اور یہ نظریہ تا قیامت رہے گا انکی وفات پر منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء نے ایم ایم روڈ بائی پاس کو انکے نام کیساتھ منصوب کرنے کا اعلان کیا جس پر تا حال کوئی انتظامیہ کی جانب سے عملی قدم نہیں اٹھایا گیا قبل ازیں بھی چوک اعظم کے نوجوان صحافی طارق ملک جو کہ لاہور میں جام شھادت نوش کر گئے تھے کہ نام ایم ایم روڈ لیہ روڈ بائی پاس منصوب کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اس پر بھی کوئی عملی کام نہیں ہوا ملتان لیہ روڈ بائی پاس کو طارق ملک اور فتح پور لیہ روڈ بائی پاس کو رانا اعجاز محمود کے نام منصوب کرنے کے ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء ترجیحی بنیاد پر اقدامات کرتے ہوئے سرکاری پراسس مکمل کرائیں اللہ رب العزت رانا اعجاز محمود پروفیسر رانا خالد محمود کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماتے ہوئے ہم قلم کاروں کو انکی تربیت کے مطابق صحافتی امور احسن انداز میں سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ ۔ آمین

خاک میں لوگ ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ

ہم نے سونا سپرد خاک کیا

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.