اک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کہ کیا شخص زمانے سے اٹھا
یوں تو ایک سال گزر گیا مگر لگتا ہے کہ کئی دہائیاں گزر گئی جب بھی لکھنے کی کوشش کریں تو طرح طرح کے اندیشے وسوسے ذہن میں آتے ہیں اور ایسے جیسے کسی مکان کی چھت کو ئی طوفان آندھی اٹھا کر لے جائیں اور وہ مفلوک الحال شخص کو جہاں بارش کا خطرہ ہوتا ہے وہیں سورج کی تپش کا خطرہ بھی ہوتا ہے ایسا ہی کچھ حال ہم ان قلم کاروں کا ہے جو کسی بھی جب قلم اٹھاتے تھے تو چند لفظ اور بے ہنگم سوچ دماغ میں ہوتی مگر جب وہ رانا اعجاز کو کال کرتے اور جس عنوان وہ کوئی عام مسئلہ ہوتا یا قومی مسئلہ کے بارے رانا اعجاز سے بات کرتے تو وہ اس موضوع پر سیر حاصل مواد مدلل مگر مختصر بتا دیتے اور اس پر کالم تحریر کر دیتا یوں تو مملکت پاکستان کے کئی نامور صحافی رانا اعجاز کی شاگردگی یا انکے ساتھ تعلق پر زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں نامور صحافی یا وفاقی صوبائی دارلحکومتوں میں رہنے والے صحافی جب کوئی خبر بریک کرتے یا آرٹیکل لکھتے ہیں تو انکی پشت پر ادارہ اور نامور ملکی سیاسی مذہبی شخصیات بھی کھڑی ہوتی ہیں مگر علاقائی صحافی جو بلا تنخواہ دن رات کے ملازم ہوئے ہیں اخبار یا ٹی وی چینل کی نمائندگی لیتے وقت سیکورٹی یا مبارکبادی کے اشتہار کے عوض ہزاروں روپے دینے پڑتے ہیں دوسری طرف کسی بھی منشیات فروش قبضہ گروپ رشوت خور آفیسران چٹی دلالی کرنے والے خود ساختہ چوھدری ملک اور خان صاحبان جہاں کسی بھی علاقائی صحافی کے مخالف ہوتے ہیں وہیں اسے خاندن عزیزو اقارب دوست احباب اور منافق نما دوستوں کی بھی مخالفت نا راضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہنے والے کسی کرپٹ آفیسر قبضہ کرنے والے منشیات فروشی کرنے والوں جسم فروشی کرنے والے جعلی عاملیت کر کے سادہ لوح کو لوٹنے والوں لوگوں کیساتھ فراڈ کرنے والوں کو تو نہیں روکتے انہیں تو برا بھلا نہیں کہتے مگر خبر لگانے والے کو ہی روکتے ہیں جرم یا جرم کے ساتھ نفرت کرنے کی بجائے نشاندہی کرنے والے پر ہی غصہ دکھاتے اور نفرت کرتے ہیں
ان حالات میں میرے جیسے کئی صحافیوں کی چھت رانا اعجاز محمود ہی ہوتے ایک طویل عرصہ انہوں نے لیہ جیسے پسماندہ ترین خطہ میں قلم کاغذ سے منسلک قلم کاروں کی آبیاری کرتے ہوئے گزار دی ایک طرف وہ سرکاری ملازم تھے تو دوسری طرف وہ جہاں قلم کاروں کی تربیت کرتے وہیں کسی بھی سرکاری آفیسر جاگیردار چوھدری سرمایہ دار سمیت مختلف مافیاز کی شازشوں کے سامنے ڈھال ہوتے محکمانہ ترقی کے بعد بھی مٹی کی محبت میں کسی بڑے شہر کی بجائے لیہ سے بہاولپور ٹرانسفر کرکے دھرتی ماں کیساتھ ڈیرہ ڈالا حالانکہ وہ کسی بڑے شہر کے آفس میں جاتے تو انکی شخصیت کے مطابق انکا حلقہ احباب اور بڑھ جاتا مگر بہاولپور میں رہتے ہوئے بھی وہ لیہ کے قلم کاروں دوستوں کے ساتھ رابطہ میں رہتے اور ضلع لیہ کے باسیوں کی اکثر محفلیں بہاولپور میں سجتی سچی بات تو ہے کہ لیہ اور بہاولپور کا سفرمحبان رانا اعجاز محمود کے لئے کوئی سفر نہ رہتا بلا شبہ رانا اعجاز زمین کے مٹے ہوئے شخص تھے جن کے سینے میں علم معلومات کا ذخیرہ تھا
گزشتہ سال رانا اعجاز محمود کی وفات کے بعد علاقائی صحافیوں سمیت نامور صحافیوں نے رانا اعجاز کی یاد میں تعزیتی آرٹیکلز لکھے مگر میرے اعصاب نے اس وقت ساتھ ہی نہیں کہ اپنے مرشد قلمی پیشوا کے بارے لکھوں تو کیا لکھوں رانا اعجاز اور میرا ہی تعلق نہیں بلکہ وہ میر محلہ دار بھی ہیں میرے والد محترم اوررانا صاحب کے والد محترم کے درمیان بھی دوستانہ تعلقات تھے اور اب بھی رانا صاحب کے گھرانے اور ہمارے گھرانے کے درمیان تعلقات ہیں جو کہ روز قیامت تک ہر گزرتے دن کیساتھ مظبوط سے مظبوط ہوتے جائیں گئے رانا اعجاز محمود کی وفات کے بعدانکے بڑے بھائی پروفیسر رانا خالد محمود کی وفات نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ اہلیان چوک اعظم ابھی رانا اعجاز محمود کی وفات کا غم بھولے بھی نہیں تھے کہ پروفیسر رانا خالد محمود داعی اجل کو کہہ کر خالق حقیقی سے جا ملے
رانا اعجاز محمود ایک شخص نہیں ایک نظریہ کا نام تھا اور یہ نظریہ تا قیامت رہے گا انکی وفات پر منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء نے ایم ایم روڈ بائی پاس کو انکے نام کیساتھ منصوب کرنے کا اعلان کیا جس پر تا حال کوئی انتظامیہ کی جانب سے عملی قدم نہیں اٹھایا گیا قبل ازیں بھی چوک اعظم کے نوجوان صحافی طارق ملک جو کہ لاہور میں جام شھادت نوش کر گئے تھے کہ نام ایم ایم روڈ لیہ روڈ بائی پاس منصوب کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اس پر بھی کوئی عملی کام نہیں ہوا ملتان لیہ روڈ بائی پاس کو طارق ملک اور فتح پور لیہ روڈ بائی پاس کو رانا اعجاز محمود کے نام منصوب کرنے کے ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء ترجیحی بنیاد پر اقدامات کرتے ہوئے سرکاری پراسس مکمل کرائیں
اللہ رب العزت رانا اعجاز محمود پروفیسر رانا خالد محمود کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماتے ہوئے ہم قلم کاروں کو انکی تربیت کے مطابق صحافتی امور احسن انداز میں سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ ۔ آمین
خاک میں لوگ ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپرد خاک کیا