وفاقی حکومت نے جہیزپرپابندی لگانے کے لیے قانون سازی شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کوتجاویزدی گئی ہیں کہ دولہے کاخاندان،مہنگافرنیچر، گاڑیاں، زمین، جائیدادیازیورات کامطالبہ نہیں کرسکے گا۔ دلہن کے کچھ کپڑے جہیزمیں شامل ہوں گے۔
جہیزمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق بنیادی ضروریات کونظراندازنہیں کیاجائے گا۔ والدین جب اپنی بیٹی کی شادی کرتے ہیں تواس کی آسانی کے لیے ضروریات زندگی کی چندچیزیں اس کوساتھ دے دیتے ہیں۔تاکہ اسے سسرال میں جاکرچھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے کسی کے آگے ہاتھ درازنہ کرناپڑے۔ راقم الحروف سے علامہ عابدرضااعظمی نے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ جہیزکوئی فرض یاواجب نہیں ہے۔ والدین اپنی خوشی سے جتناجہیزدیناچاہیں دے سکتے ہیں۔ ان سے مطالبہ کرنادرست نہیں ہے۔ جہیزاگربنیادی ضروریات زندگی تک کی محدودرہتاتوالگ بات تھی۔ موجودہ دورمیں اگربنیادی ضروریات کوہی لے لیاجائے تواس کابل بھی لاکھوں روپے بنتاہے۔ اب توجہیزمیں دنیاجہان کی چیزیں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے لگتاہے کہ جہیزکے نام پرڈیمارٹمنٹل سٹوریاکسی شاپنگ سنٹرکاسامان دیاجارہاہو۔ مفتی منیب الرحمن صاحب ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ جہیزبہت ساری معاشرتی خرابیوں کاحامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ شادی اورنکاح میں رکاوٹ ہے۔بعض اوقات تعلیم یافتہ،باصلاحیت۔خوبصورت، دینداراوربااخلاق لڑکیاں جہیزکی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔ اس رسم کے پھیلاؤ میں معاشرے کی مجموعی بے حسی، خودغرضی، لالچ اورخوف خداکی کمی شامل ہے۔ لیکن سب سے بڑی وجہ ہندوانہ رسوم ہیں جوہمارے معاشرے میں بے لگام میڈیاکی وجہ سے درآئی ہیں۔ غیرملکی چینلزکے فلموں اورڈراموں نے ہم سے اپنی ثقافت کوچھین لیاہے۔ اوراپنی ثقافت کوہم پرمسلط کردیاہے۔ نکاح جتنامشکل ہوگابدکاری اتنی عام ہوگی اورجتناسہل ہوگاگناہ کے دروازے اتنے ہی بندہوں گے۔ جہیزکی رسم نے ہمارے معاشرے میں نکاح کوایک انتہائی مشکل عمل بنادیاہے۔ اس لیے سدذرائع کے طورپراس کی مخالفت لازم ہے۔ مفتی منیب الرحمن صاحب اپنے اسی کالم میں مزیدلکھتے ہیں کہ شریعت میں جہیزدینے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکوشادی کے وقت کچھ سامان مثلاًچکی،پانی کابرتن اورتکیہ وغیرہ دیاتھا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکواپنے شوہر(حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے گھربھیجنے کے لیے ایک چادر،مشک اورتکیہ جس میں اذخرکی گھاس بھری ہوئی تھی پرمشتمل جہیزدیا۔ یہ سامان اس دورکے مطابق گھربسانے کے لیے بنیادی ضروریات میں سے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی باقی بیٹیوں سے متعلق ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔حضرت ابوالعاص کاگھرپہلے سے موجودتھا اس لیے سیدہ زینب کے نکاح کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایساکوئی انتظام نہ کیا۔ سیدناحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کاالگ گھربھی پہلے سے موجودتھا اس لیے حضرت سیدہ رقیہ اورحضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہماکے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوایسے کسی انتظام کی ضرورت نہ پڑی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں جوخواتین آئیں ان کے والدین کوبھی کسی ایسے انتظام کی حاجت نہ تھی۔ مفتی منیب الرحمن اسی تحریرمیں لکھتے ہیں کہ اگرحضرت علی رضی اللہ عنہ کاپہلے ہی سے کوئی الگ گھرہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شایدیہ انتظام نہ فرماتے۔یہ ہمارے عرف کے معیارکاجہیزنہ تھا بلکہ خانہ داری کی کم ازکم بنیادی ضروریات تھیں۔ مفتی صاحب اسی کالم میں مزیدلکھتے ہیں کہ اگرلڑکابہت زیادہ غریب ہوکہ گھرکاضروری سامان خریدنے کی قدرت بھی نہ رکھتاہوتواس صورت میں لڑکی کے والدین اس کے ساتھ مالی تعاون کرناچاہیں توحرج نہیں بلکہ باعث ثواب ہے۔ لیکن آج کل کے دورمیں رائج جہیزکسی بھی صورت جائزنہیں۔ نکاح کے عوض کسی طرح کے مال کالین دین جائزنہیں ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں عورت اپنے نکاح کے عوض جومال دے وہ باطل ہے اس لیے کہ نکاح کے عوض عورت پرنہیں ہے (بلکہ مہرکی شکل میں مردپرہے)رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کے وقت اپنی ایک بیٹی کوگھربسانے کے لیے بنیادی ضروری سامان صرف ایک باردیا۔ دوسرے لفظوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سامان جوجہیزتونہیں تھا مگرجہیزہی کہاجاتاہے دینے کاعمل صرف ایک بارکیا اورنہ دینے کاعمل باربارکیا۔ موجودہ دورمیں شایدہی کوئی ایساگھرہوجس میں بنیادی ضروریات نہ ہوں۔ اس لیے جہیزدینے کاکوئی جوازنہیں بنتا۔ شادی سے پہلے گھربسانے کے لیے بنیادی ضروریات کے سامان کاانتظام لڑکے والوں کوہی کرناچاہیے۔مہمانوں کی طرف سے دیے گئے تحائف کی قیمت کابھی تعین کیاجائے گا۔ جہیزکی رقم یاسامان کی قیمت کاتعین بھی کیاجائے گا۔ جہیزکی رقم یاسامان کی قیمت چارتولہ سونے کی قیمت سے زیادہ نہ ہو۔ اس وقت سونے کی جوقیمت ہے یہ رقم بھی کم وبیش پانچ لاکھ روپے بنتی ہے۔ ہرلڑکی کے والدین اتناجہیزبھی نہیں دے سکتے۔ موجودہ زمانے میں روزانہ پانچ سوروپے کمانے والافردلاکھوں روپے کاجہیزکیسے دے سکتاہے۔ اس لیے جہیزپرمکمل پابندی ہونی چاہیے۔ جہیزپرپابندی کے قانون کااطلاق چاروں صوبوں پر ہو گا۔ دوسری جانب خواتین کوجہیزدینے سے متعلق قانون پرعملدرآمدنہ کرنے کااقدام لاہورہائی کورٹ مین بھی چیلنج کیاگیاہے۔ درخواست گزاروکیل ندیم سرورکی جانب سے دائرکی گئی درخواست میں پنجاب حکومت، وزارت قانون سمیت دیگرکوفریق بنایاگیاہے جس میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ قانون کے مطابق والدین اپنی بیٹی کوصرف پانچ ہزارروپے تک جہیزدے سکتے ہیں۔ لاکھوں کاجہیزنہ ہونے سے سینکڑوں خواتین بغیرشادی کے زندگی گزاررہی ہیں۔اسی طرح چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایازکابھی کہناہے کہ جہیزکے خاتمے کابل جب ایکٹ کی صورت اختیارکرے گاتوسزادینالازم ہوگا۔ان کاکہناتھا کہ وزارت مذہبی امورکی طرف سے جہیزخاتمے سے متعلق کام ہورہاہے۔ خبرمیں لکھاہے کہ خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے معاشرے میں جہیزکی بڑھتی مانگ کوروکنے اوردلہن کے تحفظ کے لیے امتناع جہیزایکٹ ۶۷۹۱ء میں ترمیم کافیصلہ کیاہے۔ جہیزاوردلہن کے تحائف کے امتناع کے ترمیمی بل ۶۰۰۲ء کے تحت وزارت مذہبی امورنے دولہاکی جانب سے جہیزکے مطالبے اورنمائش پرپابندی کی سفارش کی ہے۔ جہیزکامطالبہ صرف دولہاکی طرف سے ہی نہیں کیاجاتابلکہ دلہن والوں سے بھی اس کامطالبہ کیاجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ جہیزکاسامان تم ہی خریدکردو آناتوتمہارے گھرمیں ہی ہے۔ پھرتنسیخ نکاح اورواپسی جہیزکاکیس کرکے دولہاکی طرف سے دیاگیاسامان بھی لے لیاجاتاہے۔ کیوں کہ جہیزعورت کی ملکیت ہوتاہے۔ چاہے وہ دلہن کے والدین نے خریداہویادولہاکے والدین نے۔ صرف دولہاوالوں کی طرف سے ہی جہیزکے مطالبے پرپابندی نہیں ہونی چاہیے بلکہ دولہن والوں کی طرف سے بھی ایسے کسی مطالبے پربھی پابندی ہونی چاہیے۔ جہیزکے مطالبے پرپابندی کے ساتھ ساتھ دولہاسے بھی حق مہرکے علاوہ کسی بھی مطالبے پربھی پابندی ہونی چاہیے۔ شادیوں کے موقعوں پرجہیزسمیت تمام ترمطالبات زبانی کلامی ہوتے ہیں۔ جہیزکامطالبہ اکثراوقات تحریری طورپرنہیں بلکہ زبانی طورپرکیاجاتاہے۔ اس لیے یہ کیسے معلوم ہوسکے گا کہ دولہن کے والدین نے جوجہیزدیاہے وہ اپنی خوشی سے دیاہے یادولہاوالوں کے مطالبے پردیاہے۔ نکاح فارم میں بھی ایساکوئی خانہ نہیں ہے جس میں یہ لکھاجاتاہوکہ جہیزخوشی سے دیاجارہاہے یامطالبے پر۔اس کاجواب یہ دیاجاسکتاہے کہ جس جہیزکامطالبہ کیاجاتاہے اس کی فہرست دلہن والوں کودی جاتی ہے۔ اس جواب کاجواب یہ ہے کہ یہ کیسے ثابت کیاجائے گا کہ مذکورہ فہرست میں لکھاگیاسامان دولہاوالوں نے اپنی طرف سے لکھا ہے یایہ فہرست دولہن والوں نے خودتیارکرائی ہے یااس میں دونوں گھرانوں کی باہمی مشاورت سے یہ سامان لکھاگیاہے۔ یہ بھی توہوسکتاہے کہ دولہاوالے جہیزکامطالبہ کریں اورساتھ ہی دولہن والوں کومجبوربھی کریں کہ وہ رشتہ داروں سے کہیں کہ وہ یہ جہیزاپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔ اپنی عزت بچانے کے لیے دلہن کے والدین یہ کام بھی کرلیں گے۔
اگرکسی نکاح کے مقدس رشتے میں بندھنے والے کسی نئے جوڑے کوگھربسانے کے لیے واقعی بنیادی ضروری سامان کی ضرورت ہواوردولہااس کی استطاعت نہ رکھتاہوتواس کی یہ ضروریات جہیزکی صورت میں نہیں بلکہ متبادل طریقے سے بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔ جہیزکی رسم کے خاتمے کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کویہ اعلان بھی کرناچاہیے اوراس پرعمل بھی کرناچاہیے کہ جودولہاشادی کے وقت جہیزنہیں لے گااورجس دولہاکے گھرمیں جہیزکاسامان نہیں جائے گا اس کووفاقی حکومت کی طرف سے ڈیڑھ لاکھ روپے اورصوبائی حکومت کی طرف سے تین لاکھ روپے اورصوبائی حکومت کی طرف سے دولاکھ روپے بطورانعام دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ دولہاکوسرکاری ملازمت، سرکاری رہائش اوردیگرسہولیات ومراعات دینے کااعلان اوراس پرعمل بھی کیاجاسکتاہے۔ جہیزکی رسم کے خاتمے کے لیے یہ بہترین نسخہ ہے۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کواس نسخہ کواپناناچاہیے۔ وفاقی حکومت نے جہیزپرپابندی لگانے کے لیے قانون سازی کاعمل شروع کردیاہے۔ شادی آسان کروتحریک کی طرف سے وفاقی حکومت کے اس اقدام کی تعریف کی جاتی ہے۔ شادی آسان کروتحریک بھی جہیزکی رسم کاخاتمہ چاہتی ہے۔ قانون سازی میں دولہن کے تحفظ پرتوجہ دی جارہی ہے جوبہت اچھی بات ہے مگراس کے ساتھ ساتھ دولہاکے تحفظ پربھی توجہ دینی چاہیے۔قانون سازی میں تجویزکیاگیاہے کہ دولہے کاخاندان مہنگافرنیچر،گاڑیاں،زمین،جائیدادیازیورات کامطالبہ نہیں کرسکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دولہن والوں کی طرف سے بھی حق مہرکے علاوہ ان تمام چیزوں کے مطالبے پربھی پابندی ہونی چاہیے۔