• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

آج کا نوجوان اور ہمارا تعلیمی نظام .. تحریر ۔ محمد رمضان علیانی

webmaster by webmaster
مئی 5, 2020
in کالم
0
آج کا نوجوان اور ہمارا تعلیمی نظام  .. تحریر ۔ محمد رمضان علیانی
گزشتہ روز پنجاب میں جوڈیشری میں سول ججز کی تقرری کے حوالے ہونے والے امتحانات کا رزلٹ نظروں سے گزرا تو آنکھیں کھلی رہ گئیں دل کی دھڑکن رک اور دماغ چکرا گیا کہ تین ہزار کے قریب لاء گریجویٹ نوجوانوں نے امتحان میں شرکت جب کہ صرف 28 وکلاء صاحباں انٹرویو کے لیے کوالیفائی کر سکے جو کہ ایک فیصد سے بھی کم تناسب سے پاس ہوئے ہیں ایسا ہی پاکستان میں بیوروکریسی کے مقابلے کا امتحان سی ایس ایس میں بھی پچھلے چند امتحانات میں تقریباً دو سے تین فیصد کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو کہ ہمارے تعلیمی اداروں پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں
اگر ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کو 1980 کی دہائی میں لے جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اس وقت کے طالب علم دس دس کلو میٹر کے فاصلے پیدل چل کر سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے اور میٹرک میں 65 سے 70 فیصد نمبر لینے والے نوجوان کو ڈاکٹر کہنا شروع کیا جاتا تھا اور وہ اس سنگ میل کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا اس دور کے ایم بی بی ایس بغیر کسی ٹیسٹ کے مریض کی بیماری بھی پرکھتے ہوئے اس کا علاج بھی کرتے تھے اس زمانہ میں نہ ٹیوشن تھی نا اکیڈمیاں اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ سکول کا کوئی رواج تھا اس کے باوجود بھی ڈاکٹر قدیر خان بھی پیدا ہوئے اور ڈاکٹر عطاء الرحمن بھی۔
موجودہ دور میں دیکھیں تو آپ کو ہر محلہ میں ہائی اسکول اور ہر گلی میں ٹیوشن کی اکیڈمی میسر ہے اور کچھ ٹیچر اپنی قابلیت کو دربدر کرتے ہوئے تعلیم دیتے ہوئےچند ٹکوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی چینی کم والی چائے سے بھی خود کو تول رہے ہیں
آج یہ حالت ہے 90 فیصد سے زائد تک ہمارے طالب علم مارکس لے رہے ہیں اور پاکستان کے بہترین میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں سپیشلایزیشن کر کے بھی بغیر ٹیسٹ کے کوئی میڈیسن نہیں لکھ سکتے کچھ کی قابلیت اس حد تک ہے کہ قبض کے مریضوں سے حالت لیتے وقت موشن کے سوالات ہوچھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
ہماری کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ چار سو میں نہیں ہے جب سے یونیورسٹیوں کے کمپیس کے کارخانوں کا کاروبار شروع ہوا ہے ڈگریوں کے انبار لگ گیے ہیں اور پھر یہ ڈگریاں لیے نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں پہلے یہ ہوتا تھا کسی بھی یونیورسٹی سے ڈگری ابھی مکمل نہیں ہوتی تھی کہ جاب پہلے مل جاتی تھی اور اب حالات بلکل مختلف ہیں جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہمارا تعلیمی نظام کو بہتر کیا جا سکتا تھا لیکن افسوس اس سوشل میڈیا کے دور میں یونیورسٹیوں میں علم کم اور ہیر رانجھا اور لیلی مجنوں کی نئی نئی کہانیان ذیادہ بن رہی ہیں
ہمارے ایگریکلچر کے طالب علموں نے ایسی تحقیقات کیوں نہیں کرتے کہ آم کا درخت پھل سال میں ایک بار کی بجائے دو بار دے مالٹے پر ریسرچ کرتے کہ اس کے اندر بیچ ختم ہو جائے یا صرف ایک بیچ رہ جائے۔ ہمارا ویٹرنری ڈاکٹر محنت کرتے ہوئے بھنس کے دودھ میں اضافے کا کوئی فارمولا تیار کرے گائے کی نسل کشی کے حوالے سے کوئی طریقہ ایجاد کرے کہ نرد اور مادہ بچھڑے پیدا ہو۔ میڈیکل کا طالب علم گردے کی پیوند کاری کی طرح اپنی ذہانت کی بدولت دل کی پیوند کاری کا تجربہ کرے ہمارا انجینئر ٹیلی فون سے موبائل پر بغیر کیبل کے بات کرنے والے ایجاد پر ایسی بجلی بنائے جو Wi-Fi کی طرح لائٹ چلائے پیٹرول کی بجائے پانی پر چلنے والی کاریں کوئی پاکستانی کبھی بنائے گا
اردو ہماری قومی زبان ہے جب کہ ہمارے انگریزی میں مارکس اردو سے زیادہ آیے ہیں مطالعہ پاکستان میں آٹھویں کلاس سے لے کر ماسٹر کی ڈگری تک قائد اعظم کے چودہ نکات اور علامہ اقبال کا دو قومی نظریہ اہم ترین سوال ہیں سرکاری سکولوں میں ایم فل اساتذہ ہیں سکول میں تعلیم اردو میں جب کہ پرائیویٹ سکول میں ایف اے اور بی اے والے ٹیچرز ایکسفورڈ کا سلیبس پڑھا رہے ہیں کچھ پرائیویٹ سکول بیکن ہاؤس کے نام پر چل رہے ہیں تو کچھ دی ایجوکیٹرز کے نام پر ان مہنگے ترین سکولوں میں سلیبس انگریزوں کا ہے۔
گزشتہ تین حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم نہ ہونے کے برابر رہی ہے آج کچھ یونیورسٹیوں کے بجٹ تک ختم کر دیئے گئے وہ اپنے مالی معاملات کیسے پورے کریں گے یہ ان حکومتوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے نہ ہمارے نوجوانوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔
Tags: column by ramzan alyani
Previous Post

ڈیرہ غازی خان۔کورونا ریلیف ٹائیگر فورس آگہی سیمینار میں کورونا ایس او پیز اور دفعہ 144کی کھلی خلاف ورزیاں

Next Post

یقینی اور غیر یقینی .. مظہر اقبال کھوکھر

Next Post
ہمیں کورونا نہیں ہو سکتا۔۔۔! مظہر اقبال کھوکھر

یقینی اور غیر یقینی .. مظہر اقبال کھوکھر

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
گزشتہ روز پنجاب میں جوڈیشری میں سول ججز کی تقرری کے حوالے ہونے والے امتحانات کا رزلٹ نظروں سے گزرا تو آنکھیں کھلی رہ گئیں دل کی دھڑکن رک اور دماغ چکرا گیا کہ تین ہزار کے قریب لاء گریجویٹ نوجوانوں نے امتحان میں شرکت جب کہ صرف 28 وکلاء صاحباں انٹرویو کے لیے کوالیفائی کر سکے جو کہ ایک فیصد سے بھی کم تناسب سے پاس ہوئے ہیں ایسا ہی پاکستان میں بیوروکریسی کے مقابلے کا امتحان سی ایس ایس میں بھی پچھلے چند امتحانات میں تقریباً دو سے تین فیصد کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو کہ ہمارے تعلیمی اداروں پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں
اگر ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کو 1980 کی دہائی میں لے جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اس وقت کے طالب علم دس دس کلو میٹر کے فاصلے پیدل چل کر سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے اور میٹرک میں 65 سے 70 فیصد نمبر لینے والے نوجوان کو ڈاکٹر کہنا شروع کیا جاتا تھا اور وہ اس سنگ میل کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا اس دور کے ایم بی بی ایس بغیر کسی ٹیسٹ کے مریض کی بیماری بھی پرکھتے ہوئے اس کا علاج بھی کرتے تھے اس زمانہ میں نہ ٹیوشن تھی نا اکیڈمیاں اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ سکول کا کوئی رواج تھا اس کے باوجود بھی ڈاکٹر قدیر خان بھی پیدا ہوئے اور ڈاکٹر عطاء الرحمن بھی۔
موجودہ دور میں دیکھیں تو آپ کو ہر محلہ میں ہائی اسکول اور ہر گلی میں ٹیوشن کی اکیڈمی میسر ہے اور کچھ ٹیچر اپنی قابلیت کو دربدر کرتے ہوئے تعلیم دیتے ہوئےچند ٹکوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی چینی کم والی چائے سے بھی خود کو تول رہے ہیں
آج یہ حالت ہے 90 فیصد سے زائد تک ہمارے طالب علم مارکس لے رہے ہیں اور پاکستان کے بہترین میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں سپیشلایزیشن کر کے بھی بغیر ٹیسٹ کے کوئی میڈیسن نہیں لکھ سکتے کچھ کی قابلیت اس حد تک ہے کہ قبض کے مریضوں سے حالت لیتے وقت موشن کے سوالات ہوچھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
ہماری کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ چار سو میں نہیں ہے جب سے یونیورسٹیوں کے کمپیس کے کارخانوں کا کاروبار شروع ہوا ہے ڈگریوں کے انبار لگ گیے ہیں اور پھر یہ ڈگریاں لیے نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں پہلے یہ ہوتا تھا کسی بھی یونیورسٹی سے ڈگری ابھی مکمل نہیں ہوتی تھی کہ جاب پہلے مل جاتی تھی اور اب حالات بلکل مختلف ہیں جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہمارا تعلیمی نظام کو بہتر کیا جا سکتا تھا لیکن افسوس اس سوشل میڈیا کے دور میں یونیورسٹیوں میں علم کم اور ہیر رانجھا اور لیلی مجنوں کی نئی نئی کہانیان ذیادہ بن رہی ہیں
ہمارے ایگریکلچر کے طالب علموں نے ایسی تحقیقات کیوں نہیں کرتے کہ آم کا درخت پھل سال میں ایک بار کی بجائے دو بار دے مالٹے پر ریسرچ کرتے کہ اس کے اندر بیچ ختم ہو جائے یا صرف ایک بیچ رہ جائے۔ ہمارا ویٹرنری ڈاکٹر محنت کرتے ہوئے بھنس کے دودھ میں اضافے کا کوئی فارمولا تیار کرے گائے کی نسل کشی کے حوالے سے کوئی طریقہ ایجاد کرے کہ نرد اور مادہ بچھڑے پیدا ہو۔ میڈیکل کا طالب علم گردے کی پیوند کاری کی طرح اپنی ذہانت کی بدولت دل کی پیوند کاری کا تجربہ کرے ہمارا انجینئر ٹیلی فون سے موبائل پر بغیر کیبل کے بات کرنے والے ایجاد پر ایسی بجلی بنائے جو Wi-Fi کی طرح لائٹ چلائے پیٹرول کی بجائے پانی پر چلنے والی کاریں کوئی پاکستانی کبھی بنائے گا
اردو ہماری قومی زبان ہے جب کہ ہمارے انگریزی میں مارکس اردو سے زیادہ آیے ہیں مطالعہ پاکستان میں آٹھویں کلاس سے لے کر ماسٹر کی ڈگری تک قائد اعظم کے چودہ نکات اور علامہ اقبال کا دو قومی نظریہ اہم ترین سوال ہیں سرکاری سکولوں میں ایم فل اساتذہ ہیں سکول میں تعلیم اردو میں جب کہ پرائیویٹ سکول میں ایف اے اور بی اے والے ٹیچرز ایکسفورڈ کا سلیبس پڑھا رہے ہیں کچھ پرائیویٹ سکول بیکن ہاؤس کے نام پر چل رہے ہیں تو کچھ دی ایجوکیٹرز کے نام پر ان مہنگے ترین سکولوں میں سلیبس انگریزوں کا ہے۔
گزشتہ تین حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم نہ ہونے کے برابر رہی ہے آج کچھ یونیورسٹیوں کے بجٹ تک ختم کر دیئے گئے وہ اپنے مالی معاملات کیسے پورے کریں گے یہ ان حکومتوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے نہ ہمارے نوجوانوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.