دیار غیر میں بسنے والے محب وطن پا کستانی
مقبول جنجوعہ
ویسے تو دبئی اپنے شاپنگ مالز، ماڈرن انفراسٹرکچر اور سیکورٹی کے حوالے سے بہت مشہور ھے. لیکن اس کی ایک ڈارک سائیڈ بھی ھے۔ یہ وہ سائیڈ ھے جو کبھی میڈیا میں نظر نہیں آتی۔ یہ وہ سائیڈ ھے. جس میں غریب مزدوروں کو معمولی تنخواہوں پر بلایا جاتا ھے اور پھر ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ھے۔ یہ لوگ صحراؤں میں انتہائی خستہ حال طریقے سے رہتے ہیں، پانی جیسے سالن اور باسی روٹیاں کھاتے ہیں. اور سولہ، سولہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ان میں پاکستانی بھی شامل ہیں. جو ایک اچھے مستقبل کی تلاش میں پاکستان میں اچھی بھلی زندگی چھوڑ کر دبئی کی رنگینی سے متاثر ہوکر آجاتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق دو تين دن پہلے جب پاکستان اور بنگلہ دیش کا میچ ہورھا تھا. تو جمعہ کو چھٹی کی وجہ سے دبئی کے ایک لیبر کیمپ میں بھی تمام مزدور یہ میچ دیکھ رھے تھے۔ وہاں پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی ورکرز موجود تھے۔ میچ کے دوران جب پاکستان کے کھلاڑی آؤٹ ہونا شروع ہوگئے تو بنگلہ دیشیوں نے تالیاں مارنا شروع کردیں. اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔ چھ سو درہم ماہانہ تنخواہ اور جانوروں جیسی زندگی گزارنے والے وہ غریب پاکستانی یہ برداشت نہ کرسکے. اور انہوں نے بنگلہ دیشیوں اور انڈین کے ساتھ لڑائی شروع کردی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھرپور جنگ میں بدل گئی. اور بہت نقصان ہوگیا۔ دبئی میں چونکہ ہر قسم کی لڑائی وغیرہ کی سختی سے پابندی ھے، اس لئے وہ تمام مزدور پاکستانی جنہوں نے اس لڑائی میں حصہ لیا، اب دبئی سے ڈی پورٹ ہونے جارھے ہیں۔ میں نے جب یہ خبر سنى تو پتہ نہیں کیوں اپنے آپ سے نظر ملانے کو دل نہ کیا۔ مجھے لگا کہ اس ملک کا اصل محب وطن طبقہ یہی وہ غریب لوگ ہیں جنہیں کھانے کو دو وقت کی روٹی بھی میسرنہیں. لیکن اپنے ملک کے خلاف ایک بات بھی برداشت نہ کرسکے اور لاکھوں خرچ کرکے جو دبئی کا ویزہ حاصل کیا تھا، اسے بھی قربان کردیا۔ ان سب کے آگے ہمارے سیاستدانوں کی حیثیت گٹر کے کیڑوں یا گلی کے آوارہ کتوں سے بھی بدتر ھے.جنہیں اس ملک نے ان کی اوقات سے بڑھ کر دیا.لیکن پھر بھی وہ اس ملک کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے. آج پوری قوم ان چند سو پاکستانی مزدوروں کے آگے بہت چھوٹی لگ رہی ھے۔