• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

چائلڈ ایبوز … عفت بھٹی

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں روزانہ اس نوعیت کےدس  گیارہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔اعدادو شمار کا جائزہ لیں تو  2017 ء کے پہلے چھ مہینوں میں ایک ہزار سات سو تیس سے زائد کیس رپورٹ کیے گئے۔

webmaster by webmaster
مارچ 19, 2020
in کالم
0
چائلڈ ایبوز …  عفت بھٹی

‛چائلڈ ایبوز‛‛ ایک سلگتا ہوا موضوع اس پر قلم اٹھانا اور حقیقتوں کی چشم کشائی ایک تکلیف دہ عمل تھا ۔مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتی اور نہ ہی مسائل کا تدارک ہوسکتا ۔ پاکستان کو قیام کے بعد سے ہی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔معاشی۔ملکی مسائل نے اندر ہی اندر اسے گھن کی طرح کھانا شروع کر دیا ہے ہم لاکھ اس سے چشم پوشی کرتے رہیں اور امن امن کی دہائی دیتے رہیں سب بے سود ہے ۔یہ عفریتیں ہماری نسل کے لیے جبڑے کھولے لپلپاتی زبانوں کے ساتھ منھ کھولے کھڑی ہیں ۔ملکی دہشت  گردی کے جن پر کسی حد تو قابو پالیا گیا ہے مگر اب نیا مسئلہ جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا وہ بچوں کا جسمانی و نفسیاتی استحصال ہے ۔

چائلڈ ایبوز‘‘ دراصل کم عمر بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر ان سے زیادتی کرنے کے عمل کے لئے رائج ایک انگریزی اصطلاح ہے۔ ہمارے اردگرد معاشرہ میں موجودانسان نما جانور اپنی ہوس کی آگ بجھانے کی خاطر بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے واقعات گزرے وقتوں میں بھی ہوتے تھے مگر اسکا اتنا نوٹس نہیں لیا جاتا تھا ۔ مگر  2015ء میں  جب قصور میں بچوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور وحشیانہ حرکتوں کی ویڈیوز سامنے آئیں ۔ اس سکینڈل میں تقریباً دو سو اسّی سے تین سو تک بچوں کو جنسی بربریت کا شکار بنایا گیا تھا۔ ان بچوں میں اکثریت لڑکوں کی تھی۔ یہ ستائیس ارکان پر مشتمل ایک گروہ کا کام تھا جو کہ بعد میں ان ویڈیوز کے ذریعے بچوں اور ان کے والدین کو بلیک میل کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کی یہ قابلِ اعتراض ویڈیوز باہر ممالک کی مختلف فحش ویب سائٹس کو اچھے داموں فروخت کی جاتی تھیں۔ اس واقعے کے تناظر میں ایکشن لیا گیا  اب تک گروہ کے تیرہ ارکان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ باقی ارکان میں سے پانچ یا چھ ایسے ہیں جو ضمانت پر رہا کئے جاچکے ہیں اور  باقی مجرم  تاحال روپوش ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں روزانہ اس نوعیت کےدس  گیارہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔اعدادو شمار کا جائزہ لیں تو  2017 ء کے پہلے چھ مہینوں میں ایک ہزار سات سو تیس سے زائد کیس رپورٹ کیے گئے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں سے باسٹھ%پنجاب،تیس%سندھ۔،پچھتر%بلوچستان ،اٹھاون% فاٹا،بیالیس % خیبر پختون خوا جبکہ نو کیسز جموں کشمیر سے رپورٹ ہوئے ۔ ان کیسوں کے اعداد و شمار کے مطابق ایسے واقعات زیادہ تر دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں جن کا تناسب پچھتر % ہے۔ جبکہ  شہری علاقوں میں یہ تناسب دس فیصد تک کم ہو جاتا ہے جب کہ ایک تحقیق کے مطابق 2016ء کے پہلے چھ ماہ کی نسبت ایسے واقعات 2017ء کے پہلے چھ ماہ میں سترہ فیصد تک کم ہوئے ہیں، یعنی جنوری سے جون 2017ء میں سترہ سو چھبیس کیس رپورٹ ہوئے جبکہ جنوری سے جون 2016ء میں یہ تعداددو ہزار ایک سو ستائس تھی ۔

بچوں کا جنسی استحصال ایک قسم کا بچوں کا استحصال ہے جس میں کسی بالغ یا اور بڑی عمر والا نوجوان ایک بچے کو جنسی لذت کے لیے استعمال کرتا ہے۔اس میں کسی بچے کو جنسی عمل کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کا مقصد جسمانی تسکین ہے۔

اب سوال یہ ہے  کہ ہمیں اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاہیے یا نہیں۔ کچھ لوگ اس کے حق میں  ہیں اور ان کے پاس کچھ دلائل ہیں اور کچھ اس کے خلاف ہیں اور ان کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں۔ حقیقت میں دونوں ہی  اس مسئلے کو اپنی اپنی نظر سے  صحیح دیکھ رہے ہیں لیکن  ایک دوسرے کی نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ این۔جی۔اوز اور سول سوسائٹی جس قسم کی سیکس ایجوکیشن کی بات کرتی ہے، اس کا آغاز بچوں کو ان کے جنسی اعضاء کے بارے تعلیم سے ہوتا ہے اور انتہا اس پر ہوتی ہے کہ آپ نے محفوظ طریقے سے سیکس کیسے کرنا ہے یعنی اس طرح سے حمل بھی نہ ٹھہرے اور بیماریاں بھی منتقل نہ ہوں۔ تو یہ تو بے حیائی، فحاشی اور زنا کو سیکس ایجوکیشن کے نام پر رواج دینے والی بات ہے۔

البتہ سیکس ایجوکیشن کے نام پر جو کام کرنے کی ضرورت ہے، اسے چائلڈ ابیوز ایجوکیشن یعنی جنسی تشدد کے بارے آگاہی کے نام سے کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو صرف اس قسم کی تعلیم دی جائے کہ جس میں انہیں جنسی تشدد سے متعلق آگاہی دی جائے کہ وہ کسی جنسی تشدد کا شکار نہ ہوں، یا اگر ہو جائیں تو اپنے والدین سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔اور والدین کو اس قسم کی آگاہی دی جائے کہ وہ یہ جان سکیں کہ چائلڈ اےبیوز کے حوالے سے ہمارا معاشرہ الارمنگ سچوئیشن پر کھڑا ہے۔ اور اس میں بہت بڑی کوتاہی والدین کی ہے کہ ان کے پاس اس قدر وقت نہیں ہے کہ اولاد کے ساتھ بیٹھ سکیں یا ان کے مسائل سن سکیں یا ان سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔ایسا کرنا ترقی کی جانب قدم ہے یا تنزلی کی طرف جاتا راستہ ۔افسوس ہم انہیں پھولوں کو کچلتا دیکھ رہے جو ہمارے گلشن۔کی رنگینی ہیں ۔کیا یہ عمل نفسیاتی مرض کے درجے میں آتا ہے؟ آخر ایسے کونسے عوامل ہیں کہ انسان انسانیت کے دائرے سے۔نکل کر حیوانیت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ بچوں کےجسمانی  استحصال کی مٹالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں ۔غربت کے باعث بہت سے بچے مختلف جگہوں پر نوکری یا بطور چھوٹا کام کرتے ۔وہاں ان کے ساتھ جو رویہ رکھا جاتا اس میں مار پیٹ ۔گالم گلوچ۔یا حسمانی تشدد وغیرہ شامل ہے ۔اسی طرح خصوصا مدارس میں بچوں پر بہت سختی کی جاتی ہے ۔مار پیٹ تو ایک طرف انہیں زبردستی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔مجھے اکثر یہ اس عمل کا رد عمل دکھائی دیتا جس سے ایک استاد خود گزرا ہوتا بعد میں وہ اپنی تسکین کی خاطر اپنے شاگردوں سے انتقام لے۔کر اپنی نفسیاتی تسکین کرتا بسا اوقات یہ انتقام اس حد تک بڑھ جاتا کہ جسمانی تعلق کے زریعے جبلی تسکین حاصل کی جاتی ۔اور بچے۔کو ڈرا دھمکا کر بار بار اس کا نشانہ بنایا جاتا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس عمل کو دہرانے والے خود بھی اس سے گزر چکے ہوتے ۔

گلی محلے میں ہونے والے واقعات جس میں کم سن بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ان کا بہمانہ قتل کر دیا جاتا ہے اور انکی لاشیں کھیتوں اور کوڑے کے ڈھیر پر ملتیں ہیں ۔ایسے واقعات کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہوتا نہ مجرموں کی نشاندہی ہوتی اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو فی الفور سزا کے بجائے اس مقدمے کو دیوانی مقدمہ بنا کر سالہا سال گھسیٹا جاتا۔جبکہ جرائم کی بیخ کنی کے لیے لازم ہے کہ سر عام سزا دی جائے تاکہ مجرموں کو قانون کا ڈر ہو ۔میری رائے کے مطابق جرم ہمیشہ وہیں پروان چڑھتا جہاں انصاف تاخیر کا شکار ہوتا یا نا انصافی کا دور دورہ ہوتا اگر انصاف کی فراہمی یکساں اور جلد ہو ۔قوانین کی پابندی لازم و ملزوم ہو اور ریاست اپنے ریاستی معاملات کو بہتر طریقے سے۔چلا رہی ہو تو اس ریاست میں جرائم کی تعداد میں کمی آتی ہے ۔اس مسئلے۔کا حل یہ نہیں کہ ہم بچوں کو گھروں میں بند کر دیں بلکہ ان عوامل کو ختم کرنے کی طرف دھیان دینا ہی اس کا علاج ہے ۔مجرموں کو انجام تک پہنچانا سب سے۔لازمی امر ہے تاکہ عبرت ہو ۔بچوں کو آگہی دینا بھی ضروری ہے کہ وہ بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ سے۔آگاہ ہوں ۔اس کے علاوہ اپنے بچوں کے سلسلے میں کسی غیر پر بھروسا نہ کریں ان۔کے لیے خود وقت نکالیں تاکہ ہمارے بچے محفوظ رہ سکیں ۔

Tags: cilumn by iffat bhatti
Previous Post

لیہ ۔وطن پر جان قربان کرنے والے پاک فوج کے سپوت حوالدار قمرندیم اور سپاہی محمدقاسم کی نمازہ جنازہ ادا

Next Post

پنجاب حکومت کی جانب سے ملتان میں ملک کا سب سے بڑا قرنطینہ سنٹر قائم

Next Post
پنجاب حکومت کی جانب سے ملتان میں  ملک کا سب سے بڑا قرنطینہ سنٹر قائم

پنجاب حکومت کی جانب سے ملتان میں ملک کا سب سے بڑا قرنطینہ سنٹر قائم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
‛چائلڈ ایبوز‛‛ ایک سلگتا ہوا موضوع اس پر قلم اٹھانا اور حقیقتوں کی چشم کشائی ایک تکلیف دہ عمل تھا ۔مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتی اور نہ ہی مسائل کا تدارک ہوسکتا ۔ پاکستان کو قیام کے بعد سے ہی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔معاشی۔ملکی مسائل نے اندر ہی اندر اسے گھن کی طرح کھانا شروع کر دیا ہے ہم لاکھ اس سے چشم پوشی کرتے رہیں اور امن امن کی دہائی دیتے رہیں سب بے سود ہے ۔یہ عفریتیں ہماری نسل کے لیے جبڑے کھولے لپلپاتی زبانوں کے ساتھ منھ کھولے کھڑی ہیں ۔ملکی دہشت  گردی کے جن پر کسی حد تو قابو پالیا گیا ہے مگر اب نیا مسئلہ جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا وہ بچوں کا جسمانی و نفسیاتی استحصال ہے ۔ چائلڈ ایبوز‘‘ دراصل کم عمر بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر ان سے زیادتی کرنے کے عمل کے لئے رائج ایک انگریزی اصطلاح ہے۔ ہمارے اردگرد معاشرہ میں موجودانسان نما جانور اپنی ہوس کی آگ بجھانے کی خاطر بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے واقعات گزرے وقتوں میں بھی ہوتے تھے مگر اسکا اتنا نوٹس نہیں لیا جاتا تھا ۔ مگر  2015ء میں  جب قصور میں بچوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور وحشیانہ حرکتوں کی ویڈیوز سامنے آئیں ۔ اس سکینڈل میں تقریباً دو سو اسّی سے تین سو تک بچوں کو جنسی بربریت کا شکار بنایا گیا تھا۔ ان بچوں میں اکثریت لڑکوں کی تھی۔ یہ ستائیس ارکان پر مشتمل ایک گروہ کا کام تھا جو کہ بعد میں ان ویڈیوز کے ذریعے بچوں اور ان کے والدین کو بلیک میل کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کی یہ قابلِ اعتراض ویڈیوز باہر ممالک کی مختلف فحش ویب سائٹس کو اچھے داموں فروخت کی جاتی تھیں۔ اس واقعے کے تناظر میں ایکشن لیا گیا  اب تک گروہ کے تیرہ ارکان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ باقی ارکان میں سے پانچ یا چھ ایسے ہیں جو ضمانت پر رہا کئے جاچکے ہیں اور  باقی مجرم  تاحال روپوش ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں روزانہ اس نوعیت کےدس  گیارہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔اعدادو شمار کا جائزہ لیں تو  2017 ء کے پہلے چھ مہینوں میں ایک ہزار سات سو تیس سے زائد کیس رپورٹ کیے گئے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں سے باسٹھ%پنجاب،تیس%سندھ۔،پچھتر%بلوچستان ،اٹھاون% فاٹا،بیالیس % خیبر پختون خوا جبکہ نو کیسز جموں کشمیر سے رپورٹ ہوئے ۔ ان کیسوں کے اعداد و شمار کے مطابق ایسے واقعات زیادہ تر دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں جن کا تناسب پچھتر % ہے۔ جبکہ  شہری علاقوں میں یہ تناسب دس فیصد تک کم ہو جاتا ہے جب کہ ایک تحقیق کے مطابق 2016ء کے پہلے چھ ماہ کی نسبت ایسے واقعات 2017ء کے پہلے چھ ماہ میں سترہ فیصد تک کم ہوئے ہیں، یعنی جنوری سے جون 2017ء میں سترہ سو چھبیس کیس رپورٹ ہوئے جبکہ جنوری سے جون 2016ء میں یہ تعداددو ہزار ایک سو ستائس تھی ۔ بچوں کا جنسی استحصال ایک قسم کا بچوں کا استحصال ہے جس میں کسی بالغ یا اور بڑی عمر والا نوجوان ایک بچے کو جنسی لذت کے لیے استعمال کرتا ہے۔اس میں کسی بچے کو جنسی عمل کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کا مقصد جسمانی تسکین ہے۔ اب سوال یہ ہے  کہ ہمیں اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاہیے یا نہیں۔ کچھ لوگ اس کے حق میں  ہیں اور ان کے پاس کچھ دلائل ہیں اور کچھ اس کے خلاف ہیں اور ان کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں۔ حقیقت میں دونوں ہی  اس مسئلے کو اپنی اپنی نظر سے  صحیح دیکھ رہے ہیں لیکن  ایک دوسرے کی نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ این۔جی۔اوز اور سول سوسائٹی جس قسم کی سیکس ایجوکیشن کی بات کرتی ہے، اس کا آغاز بچوں کو ان کے جنسی اعضاء کے بارے تعلیم سے ہوتا ہے اور انتہا اس پر ہوتی ہے کہ آپ نے محفوظ طریقے سے سیکس کیسے کرنا ہے یعنی اس طرح سے حمل بھی نہ ٹھہرے اور بیماریاں بھی منتقل نہ ہوں۔ تو یہ تو بے حیائی، فحاشی اور زنا کو سیکس ایجوکیشن کے نام پر رواج دینے والی بات ہے۔ البتہ سیکس ایجوکیشن کے نام پر جو کام کرنے کی ضرورت ہے، اسے چائلڈ ابیوز ایجوکیشن یعنی جنسی تشدد کے بارے آگاہی کے نام سے کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو صرف اس قسم کی تعلیم دی جائے کہ جس میں انہیں جنسی تشدد سے متعلق آگاہی دی جائے کہ وہ کسی جنسی تشدد کا شکار نہ ہوں، یا اگر ہو جائیں تو اپنے والدین سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔اور والدین کو اس قسم کی آگاہی دی جائے کہ وہ یہ جان سکیں کہ چائلڈ اےبیوز کے حوالے سے ہمارا معاشرہ الارمنگ سچوئیشن پر کھڑا ہے۔ اور اس میں بہت بڑی کوتاہی والدین کی ہے کہ ان کے پاس اس قدر وقت نہیں ہے کہ اولاد کے ساتھ بیٹھ سکیں یا ان کے مسائل سن سکیں یا ان سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔ایسا کرنا ترقی کی جانب قدم ہے یا تنزلی کی طرف جاتا راستہ ۔افسوس ہم انہیں پھولوں کو کچلتا دیکھ رہے جو ہمارے گلشن۔کی رنگینی ہیں ۔کیا یہ عمل نفسیاتی مرض کے درجے میں آتا ہے؟ آخر ایسے کونسے عوامل ہیں کہ انسان انسانیت کے دائرے سے۔نکل کر حیوانیت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ بچوں کےجسمانی  استحصال کی مٹالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں ۔غربت کے باعث بہت سے بچے مختلف جگہوں پر نوکری یا بطور چھوٹا کام کرتے ۔وہاں ان کے ساتھ جو رویہ رکھا جاتا اس میں مار پیٹ ۔گالم گلوچ۔یا حسمانی تشدد وغیرہ شامل ہے ۔اسی طرح خصوصا مدارس میں بچوں پر بہت سختی کی جاتی ہے ۔مار پیٹ تو ایک طرف انہیں زبردستی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔مجھے اکثر یہ اس عمل کا رد عمل دکھائی دیتا جس سے ایک استاد خود گزرا ہوتا بعد میں وہ اپنی تسکین کی خاطر اپنے شاگردوں سے انتقام لے۔کر اپنی نفسیاتی تسکین کرتا بسا اوقات یہ انتقام اس حد تک بڑھ جاتا کہ جسمانی تعلق کے زریعے جبلی تسکین حاصل کی جاتی ۔اور بچے۔کو ڈرا دھمکا کر بار بار اس کا نشانہ بنایا جاتا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس عمل کو دہرانے والے خود بھی اس سے گزر چکے ہوتے ۔ گلی محلے میں ہونے والے واقعات جس میں کم سن بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ان کا بہمانہ قتل کر دیا جاتا ہے اور انکی لاشیں کھیتوں اور کوڑے کے ڈھیر پر ملتیں ہیں ۔ایسے واقعات کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہوتا نہ مجرموں کی نشاندہی ہوتی اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو فی الفور سزا کے بجائے اس مقدمے کو دیوانی مقدمہ بنا کر سالہا سال گھسیٹا جاتا۔جبکہ جرائم کی بیخ کنی کے لیے لازم ہے کہ سر عام سزا دی جائے تاکہ مجرموں کو قانون کا ڈر ہو ۔میری رائے کے مطابق جرم ہمیشہ وہیں پروان چڑھتا جہاں انصاف تاخیر کا شکار ہوتا یا نا انصافی کا دور دورہ ہوتا اگر انصاف کی فراہمی یکساں اور جلد ہو ۔قوانین کی پابندی لازم و ملزوم ہو اور ریاست اپنے ریاستی معاملات کو بہتر طریقے سے۔چلا رہی ہو تو اس ریاست میں جرائم کی تعداد میں کمی آتی ہے ۔اس مسئلے۔کا حل یہ نہیں کہ ہم بچوں کو گھروں میں بند کر دیں بلکہ ان عوامل کو ختم کرنے کی طرف دھیان دینا ہی اس کا علاج ہے ۔مجرموں کو انجام تک پہنچانا سب سے۔لازمی امر ہے تاکہ عبرت ہو ۔بچوں کو آگہی دینا بھی ضروری ہے کہ وہ بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ سے۔آگاہ ہوں ۔اس کے علاوہ اپنے بچوں کے سلسلے میں کسی غیر پر بھروسا نہ کریں ان۔کے لیے خود وقت نکالیں تاکہ ہمارے بچے محفوظ رہ سکیں ۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.