ایک خوف ہے جو ہر سو چھایا ہوا ہے ایک وائرس ایک جراثومے کا خوف ، بیماری کا خوف ، موت کا خوف ، پچھلے چند ماہ سے پوری دنیا ایک جانے انجانے خوف میں مبتلا ہے کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ معمولی سا وائرس کتنا طاقتور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے پوری دنیا ایک دوسرے سے خوف زدہ ہے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے نکل جانے والا انسان ایک دم بہت پیچھے چلا گیا ہے ۔
چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا کرونا وائرس ایران ، اٹلی سے ہوتا ہوا امریکہ سمیت دنیا کے 160 ممالک میں پہنچ چکا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 7 ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ دو لاکھ کے قریب افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کرونا وائرس کو عالمی وباء قرار دے دیا ہے عالمی سطح پر اس وائرس سے نمٹنے کے لیے فنڈز بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ پوری دنیا کے اربوں لوگ کرونا کے خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں چین کے بعد اٹلی سمیت جن ممالک میں کرونا نے مہلک شکل اختیار کر لی ہے وہاں ایک ہو کا عالم ہے کئی ممالک میں لاک ڈاون اور کرفیو لگا دیا گیا ہے اور جن ممالک میں نہیں ہے یا ابھی کم ہے وہاں بھی تیزی کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں خوف ہے کہ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ایک دوسرے سے رابطے منقطع کر رہے ہیں ، ائیرپورٹ بند کیے جاچکے ہیں یا بند کیے جا رہے ہیں ، کھیل کے میدان ویران ہو چکے ہیں ، اسٹیڈیم ، ریستوران، پارکس ، تفریح گاہیں ، سنیما گھر ، اسکولز، مذہبی مقامات، عبادت گاہیں الغرض جہاں جہاں رش کا امکان ہو سکتا ہے وہ تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں ۔ شہروں کے شہر اور ملکوں کے ملک بے بسی کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔
کرونا وائرس انسان کا اپنا بنایا ہوا کوئی مہلک ہتھیار ہے یا انسان کے اعمال کے نتیجے میں آنے والی کوئی قدرتی آفت مگر اس کی طاقت نے انسان کی کمزوری اور بے بسی کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے ۔ آج انسان ایسی طاقت ڈھونڈ رہا ایسا سہارا تلاش کر رہا ہے جہاں اسے پناہ مل سکے جہاں اس کا یہ خوف ختم ہو سکے جہاں اسے کچھ لمحوں کے لیے سکون مل سکے ۔
یہ وہی انسان ہے جو خود بہت آگے نکل گیا ہے مگر انسانیت بہت پیچھے رہ گئی ہے، اسے اپنی طاقت کا نشہ ہے مگر کمزوری کا احساس نہیں ، وہ دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور آخرت اس کے پیچھے سر پٹ دوڑ رہی ہے ، وہ خدا سے مقابلہ کر رہا ہے اور خدائی سے نکل بھی نہیں پاتا ، جس انسان کا بس چلتا ہے وہ کسی کا بس نہیں چلنے دیتا وہ آگے بڑھنے کے لیے کسی کو دھکا دیتا ہے کسی کو کندھا مارتا ہے کسی کو بچھاڑ دیتا ہے کسی کو لتاڑ دیتا ہے۔ اس انسان کی طاقت اگر اپنے محلے تک ہو تو پورا محلہ اس کی بد اخلاقی ، بد کرداری اور بد تہزیبی سے تنگ ہوتا ہے وہ غریب اور بے بس لوگوں کو حقیر اور بے توقیر سمجھتا ہے وہ طاقت کے نشے میں لوگوں کی عزتیں پامال کردیتا ہے۔ اس کی طاقت اگر شہر تک پھیلی ہو تو کوئی بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں ہوتا۔ وہ شرافت کا لبادہ اوڑھ کر شریف لوگوں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے وہ پارسائی کا روپ دھار کر گنہگار لوگوں کا جینا حرام کر دیتا ہے ، وہ ناجائز قبضے کر کے غریبوں کی زمینیں چھینتا ہے اور اپنی دو گز زمین بھول جاتا ہے ، وہ اپنا اثر و رسوخ ، دھن دولت اور طاقت بڑھانے کے لیے ہر اس طاقتور کا سہارا لیتا ہے جہاں اس کا مفاد ہو اور اس طاقت کو بھول جاتا ہے جو سب طاقتوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس انسان کی طاقت کا دائرہ اگر پورے ملک تک پھیلا ہو تو پھر مخالفین کے لیے زمین تنگ کر دیتا ہے جینا دوبھر کر دیتا ہے سچ کو سولی پر لٹکا دیتا ہے حق کو عقوبت خانوں میں قید کر دیتا ہے وہ نا خدا بن بیٹھتا ہے ۔ اگر یہ طاقت ایک طاقتور ملک کی صورت میں ہو تو پوری دنیا کا امن تہہ و بالا ہو جاتا ہے ، خون کی ندیاں بہا دی جاتی ہیں آگ اور بارود کی بارش برسا دی جاتی ہے لاشوں کے پشتے لگا دیے جاتے ہیں ۔ مہلک ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر مہلک ہتھیاروں سے نہتے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے ، دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر پوری دنیا کو دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا جاتا ہے امن کی بحالی کے نام پر پوری دنیا کو بد امنی سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔
طاقت انسان کو اندھا کر دیتی ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتی ہے غور و فکر کے دروازے بند کر دیتی ہے وہ بھول جاتا ہے کہ کوئی اور طاقت بھی ہے ۔ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے مگر سب آوازوں پر بھاری ہے جب یہ لاٹھی چلتی ہے تو پھر کسی کی نہیں چلتی ۔ کرونا وائرس قدرت کا انتقام ہے یا انسان کی وحشت کی آخری حد، یہ وائرس انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے یہ کسی گھناؤنے عمل کا شاخسانہ مگر۔۔۔۔قیامت صغریٰ کا منظر ہے وہ انسان جو ہر موقع پر اپنی نمود و نمائش کا عادی ہے جو اپنی دولت کے زریعے سب کو متاثر کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا جو ہمیشہ اپنی طاقت کا اظہار کرتا نظر آتا ہے وہ ۔۔۔۔۔آج چھپ رہا ہے ، ہجوم سے بھاگ رہا ہے ، رش سے نکل رہا ہے ، دنیا داری سے دور ہو جانا چاہتا ہے وہ خود کو چھپا لینا چاہتا ہے خود کو بچا لینا چاہتا ہے وہ ڈر رہا ہے کانپ رہا ہے سوچ رہا ہے۔ کرونا نے لامحدود ہو جانے والے انسان کو محدود کر دیا ہے
مگر ابھی کچھ نہیں بگڑا کچھ بھی نہیں بگڑ سکتا اگر انسان اپنے گریبان میں جھانکے ضمیر کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھے اپنے سراپے پر غور کرے اور پھر اپنے کردار کو سامنے رکھے تو یہ بات واضح ہو جاۓ گی کہ اس بے سکونی ، اضطراب اور خوف کی سب سے بڑی وجہ ہمارا کردار ہے ۔ موت تو آخر آنی ہے اور جو وقت مقرر ہے کوئی اسے ٹال نہیں سکتا یقینا” اس آزمائش سے ہمیں بہتر تدبر اور حکمت عملی سے نکلنا ہو گا مگر زندگی کا حقیقی لطف ، قلبی راحت اور ذہنی آسودگی صرف اسی صورت مل سکتی ہے جب ہم مالک لم یزل سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال کریں گے اور اپنی مختصر زندگی کو اس کی مخلوق کے لیے وقف کر کے اس کا قرب حاصل کریں گے بیشک اس کا قرب مل جاۓ تو پھر کوئی کرب باقی نہیں رہتا#
مظہر اقبال کھوکھر
03007785530
mkhokhar433@gmail.com