یہی وجہ ہے پاکستان تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران 100 دونوں میں جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ کیا تو وسیب زادوں کی اکثریت نے اس پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وسیب کے ساتھ وعدوں کی تاریخ بہت تاریک ہے اس کے باوجود تبدیلی کے پرفریب نعرے کو دیکھتے ہوۓ بہت سے لوگوں نے امیدیں بھی باندھ لیں کہ شاید پہلے سے کچھ مختلف ہو اور تحریک انصاف ممکن ہے وسیب کے ساتھ انصاف کرتے ہوۓ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا کچھ ازالہ کرسکے۔ مگر پھر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا 100 روز تو پلک جھپکتے ہی گزر گئے اور صوبہ تو دور دور تک دکھائی نہیں دیا البتہ کچھ عرصے بعد وزیر اعلٰی پنجاب نے لب کشائی فرمائی کے جولائی 2019 تک جنوبی پنجاب صوبائی سب سیکرٹریٹ باقاعدہ کام شروع کر دے گا مگر پھر ڈیڑھ سال تک مکمل خاموشی رہی البتہ جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاول پور صوبہ کے حامیوں کے درمیان لفظی جنگ جاری رہی ۔ جنوبی پنجاب صوبہ کے حامیوں کا مطالبہ ہے صوبائی سب سیکرٹریٹ ملتان میں بنایا جاۓ جبکہ بہاول پور صوبہ کے حامی صوبائی سیکرٹریٹ بہاول پور میں بنانے کے لیے کوششیں کرتے نظر آئے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے صورتحال واضح کرنے کے بجاۓ مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ اب اچانک ایک بار پھر وزیر اعلٰی پنجاب نے جنوبی پنجاب صوبائی سب سیکرٹریٹ کے باقاعدہ کام کے آغاز کی یقین دہانی کرانا شروع کر دی ہے۔
گزشتہ دونوں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوۓ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ ” جنوبی پنجاب کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے اس کی لاج رکھیں گے ماضی کی حکومتوں نے سیاسی شو بازیاں کر کے جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا تمام حکمران جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر سیاست چمکاتے رہے ۔ انھوں نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لیے فنڈز مختص کر دیے ہیں سیکرٹریٹ کے قیام کی تمام تیاریاں مکمل ہیں ۔ جنوبی پنجاب کے عوام کے مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا سیکرٹریٹ کے قیام سے عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل ہونگے۔” دوسری طرف یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان رواں ماہ کے آخر میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوۓ صوبائی سب سیکرٹریٹ کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔
دیر آئد درست آئد مکمل صوبہ نہ سہی صوبائی سیکرٹریٹ ہی سہی حکومت کو کچھ حد تک وسیب کے مینڈیٹ کی لاج رکھنے کا خیال آ تو گیا یہ انتہائی خوش آئند اور قابل تحسین اقدام ہے جس سے وسیب میں امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے ۔ مگر یہ خدشات ہنوز موجود ہیں کہ کہیں ایک بار پھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا معاملہ کھٹائی میں نہ پڑ جاۓ کیونکہ حکومت نے ابھی تک صورتحال کو واضح نہیں کیا کہ سیکرٹریٹ کہاں بنایا جا رہا ہے جبکہ بہاول پور صوبہ کے حامی تحریک انصاف کی اتحادی جماعت میں نمایاں پوزیشن پر ہیں تاہم وزیر اعلی پنجاب خود پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل تونسہ شریف سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ان دور افتادہ علاقوں کے مسائل کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں اور پھر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے مرکزی راہنما جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی اس تمام معاملے کی حساسیت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب کے لوگوں کا در اصل مطالبہ کیا ہے اور وہ کس بات پر راضی ہونگے