وہ اپنے ایک سال کے ننھے بچے کو سینے سے لگائے کانٹوں میں الجھتی گرتی سنبھلتی بھاگ رہی تھی اپنے گاؤں سے بہت دور جنگل میں بھٹک گئی تھی ۔جان سب کو پیاری ہوتی ہے اور اس کے ساتھ تو جان سے پیاری چیز اس کا بیٹا تھا ۔پھر کیسے نہ تگ ودو کرتی۔ایک جگہ اس کا پاؤں رپٹا اور وہ نشیب میں لڑھکتی چلی گئی جہاں وہ گری وہاں گھاس کی فراوانی تھی۔اس نے بچے کو سنبھلا کہنیوں سے بہتا خون صاف کیا بچے کا منھ آنچل سے صاف کیا سامنے ایک کھوہ سی تھی وہ اندر چلی گئی۔کھوہ کافی کشادہ تھی ۔ایک کونے میں ٹیک لگا کر بیٹھ کے اس نے روتے ہوئے بچے کو گود میں لٹایا بچہ مادر شیر سے پیٹ کی آگ بجھانے لگا اور پرسکون ہو گیا۔
اس کے شوہر اور سسر کو زمین کے معمولی تنازع پہ بے دردی سے قتل کر دیا گیا وہ زمیندار کی ہوس سے بچنے اور اپنی اور اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے بھاگی اور اب یہاں تھی تلاش کرنے والے جانے کہاں نکل گئے ۔وہ سوچوں میں گم آنسو بہا رہی تھی زور دار طوفانی ہواؤں اور بارش کی آواز نے اسے چونکا دیا۔بجلی کی چمک نے پل بھر کے لیے اجالا کیا ۔طوفان بہت زوردار تھا گویا وہ بھی بے گناہ انسانیت کے قتل پہ نوح کناں ہو۔ہوائیں خوب اکھاڑ پچھاڑ کر رہی تھیں یکدم ایک بھاری پتھر گڑگڑاہٹ کے ساتھ کھوہ کے دہانے پہ آگرااور راستہ مسدود ہو گیا۔اب کیا ہوگا وہ دھک سے رہ گئی۔قید کے خوف سے اٹھی اور پتھر کو دھکیلنے کی ناکام کوشش میں ہانپ گئی۔مگر لا حاصل۔رات بیتی۔اس کے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگیں۔اب کیا ہو گا بچہ بھی بھوک سے بے تاب اس کے سینے پہ منہ مار رہا تھا ۔شام تک اس کی ہمت جواب دے گئی وہ پھر اٹھی مگر لڑکھڑا گئی خود کو گھسیٹتے ہوئے پتھر تک پہنچی مدد مدد پکارتی رہی مگر اس کی آواز دم توڑتی جا رہی تھی۔دو دن سے ایک کھیل بھی اس کے حلق سے نہ اتری تھی ایک کونے میں گڑھے میں بارش کا پانی کھڑا تھا نصف تو زمین میں جذب ہوگیا تھا۔اس نے چلو بھرا اور گارا نما پانی منھ سے لگا لیا سوکھے حلق کو تراوت ملی اور وہ پھر مدد مدد پکاری مگر کوئی ہوتا تو سنتا۔وہ وہیں ڈھے گئی اسے اپنے سر پہ موت منڈلاتی دکھائی دے رہی تھی۔
بچہ گھٹنوں کے بل چلتا اس کے قریب آگیا اور گڑھے میں گیلی مٹی میں ہاتھ مار کے چاٹنے لگا وہ مٹی بہت شوق سے کھاتا تھا اس نے اچھنبے سے ماں کو دیکھا وہ زمین پہ لیٹی ہوئی تھی۔اسے حیرانی ہوئی آج مٹی کھانے پہ اسے ماں نے ڈانٹا بھی نہیں۔اسے مزا نہیں آیا ۔لگتا ماں خفا ہے وہ اسے منانا چاہتا تھا اس کے سینے سے لپٹ گیا۔۔ اس نے ناتوانی سے بچے کو گلے لگا لیا آنکھوں میں آنسو تھے۔بچے نے ماں کا لمس محسوس کیا کھلکھلا کے ہنسا ماں خفا نہیں تھی ۔پھر وہ گھٹنوں کے بل ادھر ادھر بھگتا رہا اور بار بار شرارت سے مڑ کے ماں کو دیکھتا کہ آکر اسے پکڑے ۔ماں کو تعاقب میں نہ پا کر بدمزہ ہوا اور ایک کونے میں روٹھ کے بیٹھ گیا۔اندھیرا ہو رہا تھا ماں منانے نہیں آئی بھوک بھی لگ رہی تھی وہ خود ہی منبع خوراک تک جا پہنچا ماں کے سرد جسم نے اس کو عجیب کیفیت سے دوچار کر دیا بھوک غالب تھی مگر اتنی کم خوراک وہ روز کی طرح سیر بھی نہ ہو پایا ۔اف ماں اتنی خفا ہو گئی۔ میں اب مٹی نہیں کھاؤں گا ۔مان جاؤ مجھے بھوک لگی ہے جاگو۔
بچہ روتے روتے سو گیا ۔صبح کی ہلکی سی کرن پتھر کی درزوں سے اندر آرہی تھی وہ اٹھ بیٹھا بھوک اس کی جان نکال رہی تھی ماں کا جسم سخت ہو گیا تھا خوراک کے سوتے خشک ہو گئے تھے اس نے غصے سے انہیں نوچا اور دانتوں سے کاٹ کھایا نمکینی اور گوشت اس کے منھ میں آگیا اس نے بیتابی سے اسے چبایا اور نگل گیا۔ایک بار پھر ۔پھر آخر وہ سیر ہو گیا ۔۔
ارے یہ دیکھو یہاں بہترین مچان بن سکتی اپنے آدمی بلاؤ یہ پتھر ہٹائیں۔انور خان نے شکار کے شوقین احمد خان کو کہا۔پتھر ہٹتے ہی بدبو کابھبھکا آیا ایک ادھ کھائی لاش اور ایک بچے کی لاش ان کی منتظر تھی.