بلا شبہ دنیا کی اونچی ترین عمارت برج خلیفہ اپنے دامن میں ایک سحر انگیز انوائر منٹ لئے ہو ئے ہے ، دنیا کے کو نے کونے سے لوگ اس بلند ترین ٹاور کو دیکھنے کے لئے دو بئی کا سفر کرتے ہیں اس وقت بھی برج خلیفہ کے ارد گرد شا ئقین کا بے پناہ ہجوم ہے ہر شخص ہا تھ میں کیمرہ اور مو بائل لئے ان یاد گار لمحوں کو Save کر رہا ہے ۔ برج خلیفہ پر رو شنیوں کا سفر شروع ہو نے میں ابھی تھوڑی دیر ہے سبھی شا ئقین کے چہروں پر اشتیاق اور تجسس نمایاں ہے ، نو می عبد اللہ سمیت سبھی تصویریں بنا رہے ہیں سچ اس بار نعمان نے ان گنت تصویریں بنا ئیں ہماری۔۔ خاص طور پر میری تصویریں۔۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ میرے ساتھ گذارے ہر لمحے کو قید کر نا چا ہتا ہے ، امر بنا نا چا ہتا ہے ۔۔
ہم لوگ آ گے جانا چا ہتے ہیں تاکہ زیادو قریب سے برج خلیفہ پر شروع ہو نے والے لیزر شو کو دیکھ سکیں لیکن رش کے سبب ایسا ممکن نہیں لیکن سبھی بچے حمیرا کو فا لو کرتے ہو ئے غیر محسوس انداز میں آ گے سے آ گے بڑھ رہے ہیں اور منزل کے قریب تر ہو تے جا رہے ہیں ۔
مجھے جہاں ملی اس کے قریب ہی ایک ترک آ ئس کریم والے نے سٹال لگایا ہوا ہے، اس کے آ ئس کریم فروخت کرنے کا نرالا انداز ہی اس کی کا میاب مارکیٹنگ کا بڑا گر ہے ۔ وہ خریدار کو آ ئس کریم دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ایک سٹک کی نوک پر رکھی آئس کریم کو حصول گاہک کے لئے بڑا چیلنج ہو تا ہے بندہ یہ چیلنج قبول کر تا ہے تو دوکاندار اور گا ہک کے درمیان ایک کھیل شروع ہوجاتا ہے۔۔ چند لمحوں کے لئے آ ئس کریم کا حصول ایک اہم سنگ میل اور دنیا کا مشکل ترین کام ۔۔کبھی اوپر کبھی نیچے کبھی دا ئیں اور کبھی با ئیں اور کبھی دائیں۔۔ کبھی قریب اور کبھی دور۔۔ شائد ہی کچھ لوگ ہو تے ہوں گے اس کھیل میں جیت جن کا مقدر بنتی ہے اکثر ہاتھوں اور آ نکھوں کا بے تکا اور بے تحا شہ استعمال کر نے کے با وجود بھی ناکام رہتے ہیں ۔۔ میں یہ دلچسپ کھیل دیکھنے میں مصرو ف تھا کہ ایک میرے ہم عمر ٹورسٹ آئسکریم سٹال کے قریب آ ئے شا ئد وہ بھی اس کھیل کا حصہ بننا چا ہتے تھے ان کے ساتھ دو خواتین تھیں ایک پکی اور ایک بالی عمر کی ۔ بڑی شا ید والدہ تھی بہن تھی یا اور کچھ یہ تو مجھے پتہ نہیں مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ چھوٹی تصویر بنوانے کی خواہشمند تھی وہ جتنے اچھے پوز بنا تی بڑی تصویر ایسی بناتی جو اسے پسند نہ آ تی دو چار بار ایسا ہوا تو بڑی نے بالکل ہمارے ہاں کی عورتوں کی طرح ناک سکیڑتے اور کندھے اچکاتے ہو ئے ۔۔کہہ سکتے کہ مو بائل چھوٹی کے منہ پر دے مارا اور میری طرف دیکھتے ہو ئے ایسے مسکرائی جس میں طنز بھی تھا اور شرارت بھی ۔ بڑی کے اس انداز پہ چھوٹی کا رد عمل دیکھنے کا تھا لکھنے کا نہیں۔۔
کہا جاتا ہے کہ افتتاح سے قبل برج دو بئی کے نام سے تعمیر ہو نے دنیا کی سب سے اونچی عمارت کو عین افتتاح کے وقت یو ای اے کے صدر اور ابو ظہبی کے شیخ خلیفہ زید بن سلطان النیہان کے نام سے مو سوم کر دیا گیا۔ ڈیزائنر نے اس شہرہ آفاق عمارت کے ڈئیزائن کا آ ئیڈیا ہا ئینمو نو کلس پھول سے متاثر ہو کر بنایا اور اس خواب کی تعبیر میں چھ سال لگے۔ شا ئقین دنیا کے اس بلند ترین ٹاور کو92 کلو میٹر دور سے دیکھ سکتے ہیں۔ اس عمارت کی تعمیر میں کنکریٹ کے وزن کا اندازہ چھ ہا تھیوں کے وزن جتنا اندازہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ برج خلیفہ کی تعمیر میں پانچ A380 طیاروں کے وزن جتنا ایلو مینیم استعمال ہوا ۔برج خلیفہ میں استعمال ہو نے والا لفٹ سسٹم دنیا کا طویل ترین سفر طے کرتا ہے۔ہمیں تو لفٹ پر سفر کرنے اور ٹاپ فلور پر جانے کا موقع نہیں ملا لیکن سنا یہ ہے کہ برج خلیفہ میں لفٹ کا یہ سفر 10 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے طے کیا جاتا ہے ۔لیزر شو کے علاوہ برج خلیفہ پر ایک اور ایونٹ ایسا ہے جس کا شا ئقین گھنٹوں انتظار کرتے ہیں اور وہ ہے ۔۔ دو بئی فاؤنٹین ۔۔۔
سال 2015 میں سعودی عرب کے شہر ریاض جانے کا تفاق ہوا اس وقت کنگ شاہ عبد اللہ پارک میں ہم نے فاؤنٹین کا شا ندار نظارہ پہلی بار دیکھا تھا ، فاؤنٹین شو میں رنگ برنگی اونچی او نچی جھو متی گنگناتی اور لہراتی پانی کی لہروں کی لہروں نے کچھ ایسا سماں باندھا تھا جسے ہم آج تک بھول نہ پا ئے ۔
نعمان بیٹا! یاد ہے تمہیں جب ہم نے شاہ عبد اللہ پارک کا وزٹ کیا تھا ریاض میں۔ میں نے لکھتے ہو ئے سر اٹھائے بغیر بیٹے سے پو چھا
جی ابو ۔مجھے یاد ہے ۔ وہاں فا ؤنٹین شو میں عر بی زبان میں سنائی جانے والی نعت کے الفاظ یاد ہیں ۔۔ میں نے پو چھا۔۔ ہاں جی مجھے یاد ہیں۔۔ میرے خیال میں اس کا پہلا شعر کچھ یوں تھا۔۔
انت نو راللہ فجرا جئت بعد العسر یسرا
ربنا اعلاک قدرا یا امام الانبیا
نعمان نے عقیدت سے گنگناتے ہو ئے مجھے سنائے ۔۔ لیکن یہاں دو بئی فاؤنٹین میں ایسا کچھ نہیں تھا ۔ دو بئی فا ؤ نٹین کا نظارہ تو اسی طرح خوش کن تھا لیکن لہراتی اور گنگناتی لہریں جس شا عری پر رقص کناں تھیں اس زبان سے کم از کم میں تو نا بلد تھا ۔ اس لئے منظر تو بہت اچھا لگا مگر سمجھ کچھ نہیں آ یا۔ جب کہ شاہ عبد اللہ پارک میں پس منظر میں چلایا جانے والا کلام سمجھ بھی آ رہا تھا اور روح میں بھی اتر رہا تھا شا ئد اس لئے کہ عربی شا عری کا یہ شا ہکار میرے آ قا صلی اللہ علیہ وصلعم کی مدح سرائی کا عمدہ انتخاب تھا ۔
قارئین کرام۔۔ کیوں نا آ گے بڑھنے سے پہلے دو بئی فا ؤنٹین بارے کچھ معلومات شیئر کر لی جا ئیں ۔ اس بارے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ برج خلیفہ کے ساتھ 30 ایکڑ پر پھیلی جھیل پر دو بئی فا ؤنٹین کا کوریو گرافیڈ سسٹم 660 لائٹس اور 25رنگین پرو جیکٹر پر مشتمل ہے۔ منتظمین کو یہ شو پیش کر نے کے لئے 85ہزار لٹر ہوا اور سالانہ بنیادوں پر 15 ملین پانی جمع کرنے کا انتظام کرنا پڑتا ہے ۔
رات گئے گھر لوٹے ، ٹی وی آن کیا تو بریکنگ نیوز تھی کہ عراق میں ایران کے میجر جزل قاسم سلمانی اپنے سا تھیوں سمیت امریکی ڈرون حملہ میں شہید ہو گئے ۔ یہ بڑی شا کنگ خبر تھی ہم سب کے لئے دل بو جھل ہو گیا اور ما حول افسردہ، ہم سب کے لئے ۔ بچے گیم کھیلنا چا ہتے تھے مگر حمیرا انہیں سونے کے لئے کمرے سے لے گئی۔ میں اور نومی خاموشی سے خبر سنتے رہے ، عربی اردو انگلش سبھی چینل اسی خبر کو بریک کر رہے تھے ۔یقینا امریکی ڈرون حملہ میں ایرانی جزل قاسم سلمانی کی ہلاکت کی خبر سال رواں کی بہت بڑی اور بہت بری خبر ہے تھوڑی دیر بعد نعمان خاموشی سے اٹھا اور شب بخیر کہتے ہو ئے کمرے سے نکل گیا میں نے جیو لگایا وہاں بھی یہی خبر دہرائی جا رہی تھی۔۔
کچھ دیر کے بعد میں نے کمرے کی لائیٹس آف کر دیں اور ٹی وی آف کر کے سو نے کی کو شش کرنے لگا۔۔ مگر نیند دور تھی۔ ذہن سونے کی بجائے جاگنے اور حالیہ تناظر میں مستقبل کے تانے بانے بننے پر آ مادہ تھا جب کا فی دیر نیند نہیں آ ئی تو میں نے بتیاں روشن کیں اور لکھنا شروع کر دیا کہ میرے سارے دکھوں، غموں اور وسوسوں کا علاج لکھنا اور بس لکھنا ہے ۔
باقی احوال اگلی قسط میں۔۔
انجم صحرائی