لاہور میں پنجاب اسمبلی کی عالی شان عمارت کے سامنے باغیچے میں جہاں پتھر کی ایک بارہ دری میں ملکہ وکٹوریہ کا بت ہوا کرتا تھا، وہاں بے شمار درخت ساتھ ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ ان درختوں کی وجہ سے پلازہ سیمنا کی طرف مال روڈ کی طرف آئیں تو پنجاب اسمبلی کی عمارت نظر نہیں آتی تھی لیکن ان درختوں کی وجہ سے وہاں بڑی بہار لگی ہوئی تھی۔ اور وہ بڑے اچھے لگتے تھے۔ قیام پاکستان کے کافی بعد تک درختوں کا یہ ذخیرہ ویسے کا ویسے ہی رہا۔ پھر ان درختوں کو کٹوا دیا گیا۔ جب سے وہ درخت کٹوائے گئے ہیں اس جگہ کا حسن تباہ ہوکر رہ گیاہے۔ لاہور قیام پاکستان کے بعد شہر کی چار دیواری کے باہر بہت بدل گیا ہے،اور تیزی سے بدل رہا ہے۔ جن لوگوں نے قیام پاکستان سے پہلے کا بھاٹی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، بادامی باغ، ٹکسالی گیٹ، گارڈن ٹاون، مسلم ٹاون دیکھا ہے، وہ آج ان علاقوں کو دن کے وقت بھی نہیں پہچان سکیں گے، رات کے وقت گلبرگ، فیصل ٹاون، شادمان باغ، علامہ اقبال ٹاون، جوہر ٹاون، ڈیفینس، جیل روڈ، ہائی وے اور کلمہ چوک میں اس قدر روشیناں ہوتی ہیں کہ لگتا ہے کہ بقول شاعر تنویر نقوی چاندی کی برات زمین پر اتر آئی ہے۔لاہور کی تعمیر نو کے اس عمل سے لاہور کہیں تو پہلے سے زیادہ دلفریب، دلکش اور کشادہ ہوگیا ہے۔ لیکن کہیں کہیں تو کچھ ایسے تاریخی اور ثقافتی اور ادبی منظر غائب ہوگئے ہیں۔ جن کا باقی رہنا ضروری تھا۔ اور جو لاہور کی صدیوں کی پرانی تاریخ کے نشان تھے۔ ٹولٹین مارکیٹ کے چوک سے آپ مال روڈ پر ریگل چوک کی طرف آئیں تو بائیں ہاتھ کے شروع میں ہی مال کی ذیلی سڑک کے کونے میں سٹلائٹ بلڈنگ ہوا کرتی تھی۔ اس عمارت کے کونے میں انگریزی ادبی کتابوں کی دوکان ہوا کرتی تھی جس کا نام کرشنا بک ہاوس تھا۔ بعد میں اس دوکان کا نام منروا بک سنٹر ہوگیا تھا۔ اس بلڈنگ میں دو ریستوران ساتھ ساتھ تھے۔ ایک کا نام کافی ہاوس تھا۔ اس کے ملحق جو ریستوران تھا اس کا نام چائینز لنچ ہوم تھا جس کو چینی لنچ ہوم بھی کہا جاتا تھا۔ چینی لنچ ہوم میں زیادہ تر لاہور کے وکلاء، موسیقار اور وہ لوگ آکر بیٹھتے تھے جنہیں چینی لنچ ہوم کے سری پائے اور تندوری روٹی پسند تھی۔ادیب اور شاعر بھی یہاں اکثر نظر آجاتے تھے، مشہور گلوکار استاد امانت علی خان اور کبھی کبھی افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بھی اپنے پرستاروں، پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرصاحبان اور شعر وادب سے دلچسپی رکھنے والے دانشوروں کا ٹھکانہ تھا۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، باری علیگ لاہور کے کالج کے انگریزی کے استاد علاوہ الدین کلیم اور صدیق کلیم، سرعبدالقادر کے صاحب زادے ریاض قادر، منظور قادر، اعجاز حسن بٹالوی، مجید نظامی، نیشنل آرٹس کے استاد اور مشہور مصور شاکر علی، علی امام اور ایسے نامور مصور اکثر کافی ہاوس آتے تھے اور اپنی ادبی محفل جماتے تھے۔لاہور میں کافی ہاوس، پاک ٹی ہاوس کے بعد لٹریچر، آرٹ، صحافت اور علم وادب کا گہوارہ تھا، پاکستان کے دوسرے شہروں سے آرٹ اور ادب کے شیدائی کافی ہاوس دیکھنے اور اس میں بیٹھ کر کافی پینے کی خواہش لے کر لاہور آتے تھے۔ جس زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے، انہوں نے کافی ہاوس میں دانشوروں کے ساتھ کافی پینے کی خواہش ظاہر کی اور پھر جب وہ لاہور آئے تو کافی ہاوس بھی آئے۔ پھر ایسا ہوا کہ کافی ہاوس کی محفلیں بکھر گئیں۔ پرانے بادہ کش ایک ایک کرکے اٹھتے چلے گئے۔ کسی نے آب بقائے دوام کی تدبیر نہ کی اور ایک دن کافی ہاوس بند ہوگیا۔ اس کے قینچی دار لوہے کے دروازے پرموٹاسا تالا پڑا گیا۔ کہتے ہیں کہ کافی ہاوس اور ٹی ہاوس دو سکھ بھائیوں کی مالکیت تھے۔ ان کا پہلا نام تھا، انڈیا ٹی ہاوس اور انڈیا کافی ہاوس۔ ان دوسکھوں بھائیوں نے بھارت دلی میں بھی کافی ہاوس اور ٹٰی ہاوس کی ایک ایک شاخ کھولی تھی۔ ٹی ہاوس کے مالک سراج صاحب مرحوم کے صاحب زادے نے ایک روز بتایا کہ صبح حسب معمول ٹی ہاوس کھول کر کاونٹر پر بیٹھا تھا کہ میں نے ایک سکھ کو دیکھا کہ وہ ٹی ہاوس کے سامنے کھڑا منہ اٹھائے مسلسل ٹی ہاوس کو تکے جارہا تھا۔ جب دس پندرہ منٹ تک وہ اسی حالت میں باہر کھڑا ٹی ہاوس کے شیشے کے دروازے اور پیشانی کو دیکھتا رہا تو مجھے سے رہا نہ گیا۔ میں نے اس سکھ کو اندر بلوالیا اور پوچھا کہ اتنی دیر سے ٹکٹکی باندھے کیا دیکھ رہے تھے۔اس سکھ نے کہا کہ دراصل میں اور میرا بڑا بھائی اس ٹی ہاوس اور کافی ہاوس کے مالک تھے جوکہ قیام پاکستان کے بعد آپ کو الاٹ ہوا ہے۔کافی ہاوس قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ کافی ہاوس کی جگہ مہران بنک کھلا وہ بھی ختم ہوگیا۔ اب اس کے باہر صرف لوہے کا دروازہ ہے او لوہے کا بڑا سا تالا ہے۔ کافی ہاوس کے زندگی سے بھرپور دنوں کی بس ایک یاد رہ گئی ہے۔ پاک ٹی ہاوس چل رہاہے مگر نہ چلنے کے برابرہے۔ نیلے گنبد میں آٹو سپیئر پارٹس خاص طورپر ٹائروں کے بزنس کی یلغار پاک ٹی ہاوس تک پہنچ چکی ہے۔ لگتاہے کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب ٹی ہاوس کی جگہ اس کی پیشانی پر پاک ٹائر ہاوس لکھا ہواہوگا۔ وہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔ وہ باد کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی۔
زندہ لاہور کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ ”اٹھ پتر کم کر“ مطلب اٹھو بیٹے کام کرو“ بیٹا جواب دیتاہے۔ ”ماں ست دن تے اٹھ میلے کم کراں کہیٹرے ویلے“؟ مطلب ماں ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں اور میلے آٹھ دن لگتے ہیں۔ میں کام کس وقت کروں؟“ لاہور میں میلوں کی روایت بڑے قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ ان میلوں ٹھیلوں میں ہمیں لاہور کی ثفافتی زندگی کی جھلک ملتی ہے۔لاہور کا میلہ چراغاں سب سے مشہور میلہ ہے۔ اس میلہ کی نسبت پنجاب کے صوفی شاعر شاہ حسین سے ہے۔ پہلے میلہ چراغاں شالا مار باغ کے اندر لگا کرتا تھا۔ کچھ عرصے سے یہ میلہ اب باغ کی چار دیواری کے باہر لگنے لگا ہے۔ میلہ چراغان مارچ کے مہینہ کے آخری ہفتے کی پہلی اتوار کو لگتا ہے۔ پنجاب میں یہ بہار کا موسم ہوتا ہے۔ فصلیں پک کر لہلہا رہی ہوتی ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے پنجاب کے دوردراز دیہات سے سکھوں کی ٹولیاں، بولیاں، ماہیا گاتیں میلے میں شریک ہونے کیلئے آیا کرتیں تھیں۔ آج بھی پنجاب کے دیہات سے دیہاتیوں، ملنگوں اور دریشوں کی ٹولیاں ڈھول کی تھاپ پر دھمالی ڈالتی جلوس کی شکل میں آتی ہیں۔ عورتیں بچے اور مرد شاہ حسین کے مزار پر پھولوں کے ہار چڑھاتے ہیں اور موم بیتاں روشن کی جاتی ہیں۔ اسی طرح قدموں کا ایک میلہ بزرگ سخی سروع کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ قدموں کا میلہ سختی سرور کے آستانے سے شروع ہوکر پرانی انارکلی تک چار دن یعنی دس اپریل سے تیرہ اپریل تک لگتا ہے۔ ڈھول بجانے والوں کی ٹولیاں، گوجرنوالہ، سیالکوٹ،جھنگ، دھونکل اور فیصل آباد سے آتی ہیں۔اور سخی سرور کے مزار پر نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہیں۔ اس میلے کی روایت یہ بھی تھی کہ میلے میں بہشتی یعنی ماشکی پانی سے بھری ہوئی مشکیں لے کر پھرا کرتے تھے اور بعض عقیدت مند جوتے اتار کر ان کی مشکوں سے پاوں پر پانی ڈالواتے تھے۔ درگاہ سخی سرور کے علاوہ یہ میلہ موری دروازے اور دہلی دروازے کے باہر بھی لگتا ہے۔سخی سرور کو معصوم بچوں سے بڑی محبت تھی، چنانچہ اس میلے پر دیہاتیوں کی خاص ٹولیاں ڈھولک اور سارنگی بجاتی آتی ہیں۔ عورتیں اپنی گودیوں میں بچوں کو لیکر آتی ہیں۔ یہ دیہاتی بچوں کو گودی میں لے کر سارنگی اور ڈھولک کی تھاپ پر لوریاں دیتے ہیں۔ اس میلے کی سب سے بڑی سوغات تیل کے قتلمے اور مٹی کے برتن ہیں۔دوسری طرف چھڑیوں کا میلہ بزرگ شاہ مدار کی یاد میں سارے ہندوستان میں منایا جاتا ہے۔ لاہور میں یہ میلہ مستی دروازے کے باہر لگتا ہے تھا۔ اس میلہ میں بازی گر چھڑیوں کے کمالات دکھاتے تھے۔ لمبے لمبے بانسوں کو بڑی مضبوطی کیساتھ ایک دوسرے کیساتھ باندھا جاتا تھا جو دوتین تین منزلہ اونچے ہوجاتے۔ ان بانسوں کیساتھ رنگ برنگے کپڑے باندھ دیئے جاتے۔ پھر ماہر چھڑی بازی ان دودو تین تین منزلہ بانسوں کو کبھی ٹھوڑی پر،کبھی پیشانی پر، کبھی ہاتھ کر کھڑا کرکے نچاتے تھے اور کبھی صرف اپنے ہاتھ کے انگوٹھے پر کھڑا کرکے اپنے فن کا کمال دکھاتے، اب یہ میلہ نہیں لگتا۔
مغٖلیہ دور حکومت میں شنہشاہ اکبر کے حکم سے اندرون شہر لاہور کو چھتیس حلقوں اور نوگزوں میں تقسیم کیاگیا تھا۔ پھر اکبر بادشاہ ہی حکم سے لاہور کے گرداگرد تیس فٹ اونچی پختہ فیصل تعمیر کروائی گئی اور شہر کے بارہ دروازے بنوائے گئے۔ لالہ کنہیار لعل تاریخ لاہور میں لکھتے ہیں، اکبر بادشاہ نے لاہور کے گرداگرد پختہ فیصل کی دیوار بہت بلند اور کشادہ تعمیر کروائی۔ شہر میں داخل ہونے کے واسطے بارہ دروازے بنوائے۔ ایک ایک دروازے کے درمیان دس دس برج کلاں تعمیر کروائے گئے۔ لاہور کے ان درازوں میں سے سب سے پہلے اے حمید صاحب نے اپنی کتاب لاہور لاہور اے میں یکی دروازے کا ذکر کیا۔ اس دروازے کا اصلی نام ذکی دروازہ تھا لیکن وقت کیساتھ ساتھ اس دروازے کا نام ذکی سے یکی دروازے میں تبدیل ہوگیا۔ اس نام کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے جو مغلیہ دور حکومت میں دروازے کے محافظ بھی تھے۔ یہ بڑے عبادت گزار تھے۔کہتے ہیں کہ دشمن کی فوج نے اس دروازے پر حملہ کرکے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو یہ بزرگ، جو کہ پیر ذکی کے نام سے بھی مشہور تھے، تلوار نیام سے نکال کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ لڑائی میں جب دشمن کے وار سے آپ کا سرتن سے جدا ہوگیا تو آپ کو بے سر جسم لڑتا ہوا دشمنوں میں جاگھسا۔ چنانچہ یکی دروازے میں آپ کی دو قبریں ہیں۔ ایک دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ہے، جہاں آپ کا سردفن ہے اور ذرا آگے جاکر دوسری قبر ہے جہاں آپ کا دھڑ دفن ہے۔ عقیدت مند دونوں قبروں پر فاتحہ پڑھتے اور پھول چڑھاتے ہیں۔ اے حمید صاحب نے ایک منجھے ہوئے ادیب کی حیثٰت میں اپنی کتاب لاہور لاہور اے میں جس انداز میں کل کے لاہور کیساتھ ملوایا ہے، زیارت کروائی ہے، دل باغ باغ ہوگیا، لیکن آج کے لاہور کو دیکھ کر خوف آتا ہے جوکہ سموگ، آبادی، آلودگی سے لیکر زندگی کی رنگییوں سے دور مسائل کی دلدل میں ایسا گوڈے گوڈے پھنسا ہوا کہ ”رہے نام اللہ کا“۔ لاہور کے بارے میں اور بہت کچھ لکھنا ہے اور لکھوں گا بھی سہی لیکن ایک کالم میں سب کچھ لکھنا ممکن نہیں ہے، یوں سوم آنند کی کتاب کے جملہ ”کہاں گیا مرا شہر لاہور“ پر ختم کررہا ہوں،کیوں کہ آج کے موت کے قریب کھڑے لاہور کو دیکھ کر میرے بھی یہی جذبات ہیں جوکہ سوم آنند کے تھے کہ ”کہاں گیا مرا شہر لاہور“۔