نوازشریف کی اچانک طبعیت خرابی اور پھر ڈاکٹروں کی طرف سے خطرے کی گھنٹی ، حکومت کے کانوں میں ایسی بجائی گئی کہ سب چونک گے , ڈر گئے , بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ خوفزدہ ہوگئے وزیراعظم عمران خان سے لیکر وزیر ریلوے شیخ رشید تک سب نے نواز شریف کی جلد صحت یابی کیلئے ٹویٹ سے لیکر دعائیں کرنے لگے اس بات کا عندیہ بھی پریس ٹاک میں دیاگیا کہ عدالتوں کے فیصلہ پر من وعن عمل کیاجائے گا، وغیرہ وغیرہ، مطلب نوازشریف کو علاج کی غرض سے کوئی ریلیف ملتاہے تو ان کو اعتراض نہیں ہوگا ۔ ادھر اچانک حکومت کے بدلتے رویہ کیساتھ عوام میں یہ پیغام گیا کہ نواز شریف کی زندگی خطرے میں ہے مطلب کچھ بھی ہوسکتا ;موت کی باتیں بھی ہونے لگیں ;238; کہا گیا کہ اللہ نہ کرے ایسا ہو ، لیکن میڈیا میں ایسی خبریں بھی تسلسل کیساتھ آئیں کہ نوازشریف ایسی خطرے ناک بیماری میں مبتلاہیں کہ کچھ بھی ہوسکتاہے ۔ جب وزیراعظم نواز شریف کی بگڑتی صحت کی صورتحال کی خبریں ایک دم آنا شروع ہوئیں اورتحریک انصاف کی حکومت کے بدحواسی میں کیے جانیوالے اقدامات دیکھنے کو ملے تو میرا دھیان پتہ نہیں کیوں لیہ کی بیٹ دیوان پولیس چوکی کے اہلکاروں کے تشدد سے ہلاک ہونیوالے صغیر عباس بلوچ کی طرف گیا ۔ اس پولیس تشدد میں صغیر کے سر پر چوٹ لگ گئی جوکہ اتنی شدید تھی کہ وہ بہیوش ہوگیا ۔ لیکن لیہ تھانہ صدر پولیس کے اہلکاروں نے صغیرعباس بلوچ کی بے ہوشی کو ڈرامہ بازی قرار دیا ، اور اس کو سر میں زخم کی تکلیف کے باوجود کے باوجود لیہ کچہ کے علاقہ سے ہسپتال لیجانے کی بجائے تھانہ صدر کے ایس ایچ او چودھری طارق کے پاس لے گئے تاکہ اپنی کارکردگی دکھاسکیں کہ حکم کی تعمیل کردی ہے; پولیس اہکاروں نے جب زخموں سے چور صغیر عباس کو پولیس ڈالے سے نیچے اتارنے کیلے روایتی طریقہ استعمال کیا تو اس کو خون کی الٹیاں شروع ہوگیں لیکن اس کے باوجود پولیس اہلکار ایس ایچ او کے کمرے میں لے گئے، ایس ایچ او چودھری طارق کو اندازہ ہوگیا کہ صغیر عباس بلوچ سر کی چوٹ کی وجہ سے تھانہ میں رکھنے کے قابل نہیں ہے ، یوں موصوف نے کہا کہ صغیرعباس بلوچ کو سرکاری ہسپتال کی بجائے بھٹی کے پراییوٹ ہسپتال لے جاو اور اس معاملے کو باہر باہر سے حل کرو ، وہاں بھٹی ہسپتال کے ڈاکٹر نے صغیر عباس بلوچ کو کوئی ایک دو انجکشن لگائے اور ساتھ پولیس کو کہا کہ صغیر کی حالت خطرے میں ہے اس کو سرکاری ہسپتال لے جاو جب اس بات کا ایس ایچ او چودھری طارق کو بتایاگیا تو اس نے کہا کہ اس کو اب اس حالت میں سرکاری ہسپتال لے جانے کی بجائے واپس بیٹ دیوان پولیس چوکی لے جاءو اور زمینداروں اور پولیس ٹاوٹووں کے ذریعے صغیر عباس بلوچ جس کو خون کی الٹیاں آرہی تھیں ،ِ لواحقین کے حوالے کرکے ایک قتل سے جان چھڑاو وگرنہ معاملہ خراب ہوجائیگا ۔ ایس ایچ او چودھری طارق کے کہے مطابق صغیر عباس بلوچ کو سر سے بہتے خون کیساتھ جب پولیس چوکی بیٹ دیوان لایا گیا تو لواحقین اس وقت اپنی بستی کے دیگر لوگوں کے ساتھ چوکی پہنچ چکے تھے ، انہوں نے صغیر عباس بلوچ کو اس حالت میں دیکھ کر احتجاج کرنا شروع کردیا ، یوں پولیس اہلکاروں اور لواحقین میں تناو بڑھ گیا اور عوام کے بڑھتے ہوئے احتجاج پر پولیس نے 1122 کی ایمبولینس منگواکر صغیر عباس بلوچ کو ضلعی ہسپتال لے جانے کی حامی بھرلی ، اس دوران پولیس نے لواحقین کو اس بات پر مطمین کرنے کی کوشش کی کہ اس نے پولیس ڈالے سے چھلانگ لگائی ہے، جس کی وجہ سے اس کے سر پر چوٹ لگی ہے ۔ ادھر ایک کاروائی پولیس نے یہ ڈا لی کی جس کا ذکر لیہ کے سنئیر صحافی ملک مقبول الہی نے بھی راقم الحروف کسیاتھ گفتگو میں کیا کہ پولیس تشدد کو نئی شکل دینے کیلئے پولیس اہلکاروں نے زحموں کی شدت سے بے ہوش ضغیرعباس بلوچ کے منہ پر شراب بھی ڈال دی تھی اور پولیس نے شراب کا ڈاکٹ بھی بنالیا کہ اس نے شراب پی ہوئی تھی اور یوں چھلانگ لگائی اوراس کے سر پر زحم آگئے ہیں لیکن ڈاکٹروں نے پولیس کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ ضغیر نے شراب پی ہوئی تھی ۔ پولیس اس بات کو تو ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھی کہ انہوں نے صغیر عباس بلوچ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور اس کوموت کے قریب کردیا ہے ڈاکٹروں نے صغیر عباس کے سٹی سکین اور ابتدای ٹسیٹوں کے بعد پولیس پر واضع کردیا کہ اس کا بچنا مشکل ہے اور آخری کوشش کیلئے اس کو نشتر ہسپتال ملتان ریفرر کررہے ہیں ۔ یوں صغیر جس کو پولیس نے تشدد کے بعد ہسپتال لیجانے کی بجائے کسی اور کھاتے میں ڈالنے کیلے ادھر ادھر گھما کر وقت ضائع کیا تھا ، وہ زندگی اور موت کے درمیان نشتر ہسپتال پہنچا دیا گیا ، وہاں کے ڈاکٹروں نے پولیس کویہ بتایا کہ دیر ہوگی اور زخم گہرا ہے ، سر کی ہڈی فریکچر ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن پولیس نے امن وامان کے ایشو کے تحت مدد مانگی کہ صغیر عباس کو وینٹی لیڑ پر رکھا جائے تاکہ لیہ میں لواحقین اور شہریوں میں اس پولیس تشدد کے بعد پائے جانیوالے غصہ پر قابو پایا جا سکے
یوں ضغیرعباس بلوچ جوکہ دراصل سر پر شدید زخم کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکا تھا لیکن عارضی سانسوں کے سہارے اس کو زندگی دی گئی تھی اس دوران آر پی او ڈیرہ غازی خان ، مقامی رکن صوبائی اسمبلی شہاب خان سہیڑ سمیت دیگر با اثر افراد کی موجودگی میں صغیر عباس بلوچ کے گھر گئے، پھر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لیہ عثمان باجوہ نے بھی صغیر کے گھر جانے کا فیصلہ لیا ، ان کے بزرگوں سے ملےِ ، اس دوران صغیر عباس بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کو اس بات کی بھنک تو نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں سے پڑچکی تھی کہ اب صغیر بلوچ کو جیسے ہی وینٹی لیٹر سے ہٹایا گیا ، اسکی سانسیں واپس نہیں آسکیں گی ، گھر میں ماتم کا ماحول تھا ،اس کے باوجود حوصلہ دینے والے حوصلہ دے رہے تھے، کچھ ایسے بھی تھے جوکہ ان حالات میں بھی پولیس اہلکاروں کیلئے کام کررہے تھے کہ ان کی غٖلطی نہیں ہے ، صغیرعباس بلوچ نے خود ہی کھر چوک کے پاس پولیس ڈالے سے چھلانگ لگائی ہے ادھر دن گزرتے جارہے تھے ،آخر پولیس کو اس واردات پر اپنے مطابق مٹی ڈالنی تھی ، ڈی ایس پی اعجاز رندھاوا کو لہور رپورٹ کرنے کا کہا گیا ، ادھر طارق چودھری ایس ایچ او تھانہ صدر کو معطل کرنے تک محدود رکھا گیا جبکہ دیگر پولیس اہلکاروں جن میں ایک انسپکٹراحمد خان بھی شامل تھے ،ان کو مقدمہ میں ڈال دیاگیا لیکن ابھی صغیر عباس بلوچ نشتر میں زندگی کی جنگ لڑرہاتھا ۔ آخر وہ لمحہ آگیا کہ نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں نے واضع کردیاکہ صغیر کے سر کی کھوپڑی جوکہ ٹوٹ چکی ہے ، یوں اس کا بچنا ، اب نا ممکن ہے ، اور وینٹی لیٹر ہٹادیا ، اور جیسے یہ کاروائی کی گئی ، صغیر عباس بلوچ موت کی جھول میں گرگیا ، پھر اس کی لیہ لاش لائی گئی ، احتجاج ہوا ، پولیس کیخلاف لوگ برسے ، اور رکن قومی اسمبلی ملک نیاز کو پولیس کی طرف سے درمیان میں ڈالا گیا ، لواحقین کو انصاف کی یقین دہانی کروائی گئی کہ آپ کی توقع کے مطابق انصاف ہوگا لیکن صغیر عباس بلوچ پولیس تشدد کے بعد موت کے منہ میں جاچکا تھا اوراس کیلئے دی جانیوالی تسلیاں بے معنی تھیں ۔ وقت گزر چکاتھا ، وہ اب ایک لاش میں تبدیل ہوچکا تھا
میں اب بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ آپ کو بتاسکوں کہ نوازشریف کی اچانک اس قدر صحت گرنے کے بعد حکومت بالخصوص عمران خان اور شیخ رشید کے دعائیہ ٹویٹ اور پیغامات کے بعد مجھے لیہ کی بیٹ دیوان چوکی میں پولیس تشدد سے جان کی بازی ہارنے والے صغیر عباس بلوچ کیساتھ ہونیوالی واردات کیوں یاد آئی ہے جبکہ نوازشریف اور صغیر بلوچ کا کہیں دور دور تک موازنہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے ;لیکن اس اگر مگر کی کفیت میں میری اتنی دعا ضرور ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف ہسپتال سے صحت وسلامتی کیساتھ باہر یا اپنے گھر جائیں ;238; میرے منہ میں خاک جوکچھ نواز شریف کی صحت کے بارے میں معتبر حلقوں سے سننے کو مل رہا ہے بھلا نوازشریف کی کہانی صغیر کے انجام جیسی کیسے ہوسکتی ہے
خضرکلاسرا