• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

نوازشریف سے جان چھڑانے کے پیچھے کہانی کیا ہے ;خضرکلاسرا

webmaster by webmaster
اکتوبر 30, 2019
in کالم
0
نواز شریف کی طبیعت تشویشناک حد تک بگڑ گئی، بون میرو ٹیسٹ کی تیاری

نوازشریف کی اچانک طبعیت خرابی اور پھر ڈاکٹروں کی طرف سے خطرے کی گھنٹی ، حکومت کے کانوں میں ایسی بجائی گئی کہ سب چونک گے , ڈر گئے  , بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ خوفزدہ ہوگئے وزیراعظم عمران خان سے لیکر وزیر ریلوے شیخ رشید تک سب نے نواز شریف کی جلد صحت یابی کیلئے ٹویٹ سے لیکر دعائیں کرنے لگے اس بات کا عندیہ بھی پریس ٹاک میں دیاگیا کہ عدالتوں کے فیصلہ پر من وعن عمل کیاجائے گا، وغیرہ وغیرہ، مطلب نوازشریف کو علاج کی غرض سے کوئی ریلیف ملتاہے تو ان کو اعتراض نہیں ہوگا ۔ ادھر اچانک حکومت کے بدلتے رویہ کیساتھ عوام میں یہ پیغام گیا کہ نواز شریف کی زندگی خطرے میں ہے مطلب کچھ بھی ہوسکتا ;موت کی باتیں بھی ہونے لگیں ;238; کہا گیا کہ اللہ نہ کرے ایسا ہو ، لیکن میڈیا میں ایسی خبریں بھی تسلسل کیساتھ آئیں کہ نوازشریف ایسی خطرے ناک بیماری میں مبتلاہیں کہ کچھ بھی ہوسکتاہے ۔ جب وزیراعظم نواز شریف کی بگڑتی صحت کی صورتحال کی خبریں ایک دم آنا شروع ہوئیں اورتحریک انصاف کی حکومت کے بدحواسی میں کیے جانیوالے اقدامات دیکھنے کو ملے تو میرا دھیان پتہ نہیں کیوں لیہ کی بیٹ دیوان پولیس چوکی کے اہلکاروں کے تشدد سے ہلاک ہونیوالے صغیر عباس بلوچ کی طرف گیا ۔ اس پولیس تشدد میں صغیر کے سر پر چوٹ لگ گئی جوکہ اتنی شدید تھی کہ وہ بہیوش ہوگیا ۔ لیکن لیہ تھانہ صدر پولیس کے اہلکاروں نے صغیرعباس بلوچ کی بے ہوشی کو ڈرامہ بازی قرار دیا ، اور اس کو سر میں زخم کی تکلیف کے باوجود کے باوجود لیہ کچہ کے علاقہ سے ہسپتال لیجانے کی بجائے تھانہ صدر کے ایس ایچ او چودھری طارق کے پاس لے گئے تاکہ اپنی کارکردگی دکھاسکیں کہ حکم کی تعمیل کردی ہے; پولیس اہکاروں نے جب زخموں سے چور صغیر عباس کو پولیس ڈالے سے نیچے اتارنے کیلے روایتی طریقہ استعمال کیا تو اس کو خون کی الٹیاں شروع ہوگیں لیکن اس کے باوجود پولیس اہلکار ایس ایچ او کے کمرے میں لے گئے، ایس ایچ او چودھری طارق کو اندازہ ہوگیا کہ صغیر عباس بلوچ سر کی چوٹ کی وجہ سے تھانہ میں رکھنے کے قابل نہیں ہے ، یوں موصوف نے کہا کہ صغیرعباس بلوچ کو سرکاری ہسپتال کی بجائے بھٹی کے پراییوٹ ہسپتال لے جاو اور اس معاملے کو باہر باہر سے حل کرو ، وہاں بھٹی ہسپتال کے ڈاکٹر نے صغیر عباس بلوچ کو کوئی ایک دو انجکشن لگائے اور ساتھ پولیس کو کہا کہ صغیر کی حالت خطرے میں ہے اس کو سرکاری ہسپتال لے جاو   جب اس بات کا ایس ایچ او چودھری طارق کو بتایاگیا تو اس نے کہا کہ اس کو اب اس حالت میں سرکاری ہسپتال لے جانے کی بجائے واپس بیٹ دیوان پولیس چوکی لے جاءو اور زمینداروں اور پولیس ٹاوٹووں کے ذریعے صغیر عباس بلوچ جس کو خون کی الٹیاں آرہی تھیں ،ِ لواحقین کے حوالے کرکے ایک قتل سے جان چھڑاو وگرنہ معاملہ خراب ہوجائیگا ۔ ایس ایچ او چودھری طارق کے کہے مطابق صغیر عباس بلوچ کو سر سے بہتے خون کیساتھ جب پولیس چوکی بیٹ دیوان لایا گیا تو لواحقین اس وقت اپنی بستی کے دیگر لوگوں کے ساتھ چوکی پہنچ چکے تھے ، انہوں نے صغیر عباس بلوچ کو اس حالت میں دیکھ کر احتجاج کرنا شروع کردیا ، یوں پولیس اہلکاروں اور لواحقین میں تناو بڑھ گیا اور عوام کے بڑھتے ہوئے احتجاج پر پولیس نے 1122 کی ایمبولینس منگواکر صغیر عباس بلوچ کو ضلعی ہسپتال لے جانے کی حامی بھرلی ، اس دوران پولیس نے لواحقین کو اس بات پر مطمین کرنے کی کوشش کی کہ اس نے پولیس ڈالے سے چھلانگ لگائی ہے، جس کی وجہ سے اس کے سر پر چوٹ لگی ہے ۔ ادھر ایک کاروائی پولیس نے یہ ڈا لی کی جس کا ذکر لیہ کے سنئیر صحافی ملک مقبول الہی نے بھی راقم الحروف کسیاتھ گفتگو میں کیا کہ پولیس تشدد کو نئی شکل دینے کیلئے پولیس اہلکاروں نے زحموں کی شدت سے بے ہوش ضغیرعباس بلوچ کے منہ پر شراب بھی ڈال دی تھی اور پولیس نے شراب کا ڈاکٹ بھی بنالیا کہ اس نے شراب پی ہوئی تھی اور یوں چھلانگ لگائی اوراس کے سر پر زحم آگئے ہیں لیکن ڈاکٹروں نے پولیس کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ ضغیر نے شراب پی ہوئی تھی ۔ پولیس اس بات کو تو ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھی کہ انہوں نے صغیر عباس بلوچ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور اس کوموت کے قریب کردیا ہے ڈاکٹروں نے صغیر عباس کے سٹی سکین اور ابتدای ٹسیٹوں کے بعد پولیس پر واضع کردیا کہ اس کا بچنا مشکل ہے اور آخری کوشش کیلئے اس کو نشتر ہسپتال ملتان ریفرر کررہے ہیں ۔ یوں صغیر جس کو پولیس نے تشدد کے بعد ہسپتال لیجانے کی بجائے کسی اور کھاتے میں ڈالنے کیلے ادھر ادھر گھما کر وقت ضائع کیا تھا ، وہ زندگی اور موت کے درمیان نشتر ہسپتال پہنچا دیا گیا ، وہاں کے ڈاکٹروں نے پولیس کویہ بتایا کہ دیر ہوگی اور زخم گہرا ہے ، سر کی ہڈی فریکچر ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن پولیس نے امن وامان کے ایشو کے تحت مدد مانگی کہ صغیر عباس کو وینٹی لیڑ پر رکھا جائے تاکہ لیہ میں لواحقین اور شہریوں میں اس پولیس تشدد کے بعد پائے جانیوالے غصہ پر قابو پایا جا سکے

یوں ضغیرعباس بلوچ جوکہ دراصل سر پر شدید زخم کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکا تھا لیکن عارضی سانسوں کے سہارے اس کو زندگی دی گئی تھی  اس دوران آر پی او ڈیرہ غازی خان ، مقامی رکن صوبائی اسمبلی شہاب خان سہیڑ سمیت دیگر با اثر افراد کی موجودگی میں صغیر عباس بلوچ کے گھر گئے، پھر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لیہ عثمان باجوہ نے بھی صغیر کے گھر جانے کا فیصلہ لیا ، ان کے بزرگوں سے ملےِ ، اس دوران صغیر عباس بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کو اس بات کی بھنک تو نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں سے پڑچکی تھی کہ اب صغیر بلوچ کو جیسے ہی وینٹی لیٹر سے ہٹایا گیا ، اسکی سانسیں واپس نہیں آسکیں گی ، گھر میں ماتم کا ماحول تھا ،اس کے باوجود حوصلہ دینے والے حوصلہ دے رہے تھے، کچھ ایسے بھی تھے جوکہ ان حالات میں بھی پولیس اہلکاروں کیلئے کام کررہے تھے کہ ان کی غٖلطی نہیں ہے ، صغیرعباس بلوچ نے خود ہی کھر چوک کے پاس پولیس ڈالے سے چھلانگ لگائی ہے ادھر دن گزرتے جارہے تھے ،آخر پولیس کو اس واردات پر اپنے مطابق مٹی ڈالنی تھی ، ڈی ایس پی اعجاز رندھاوا کو لہور رپورٹ کرنے کا کہا گیا ، ادھر طارق چودھری ایس ایچ او تھانہ صدر کو معطل کرنے تک محدود رکھا گیا جبکہ دیگر پولیس اہلکاروں جن میں ایک انسپکٹراحمد خان بھی شامل تھے ،ان کو مقدمہ میں ڈال دیاگیا لیکن ابھی صغیر عباس بلوچ نشتر میں زندگی کی جنگ لڑرہاتھا ۔ آخر وہ لمحہ آگیا کہ نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں نے واضع کردیاکہ صغیر کے سر کی کھوپڑی جوکہ ٹوٹ چکی ہے ، یوں اس کا بچنا ، اب نا ممکن ہے ، اور وینٹی لیٹر ہٹادیا ، اور جیسے یہ کاروائی کی گئی ، صغیر عباس بلوچ موت کی جھول میں گرگیا ، پھر اس کی لیہ لاش لائی گئی ، احتجاج ہوا ، پولیس کیخلاف لوگ برسے ، اور رکن قومی اسمبلی ملک نیاز کو پولیس کی طرف سے درمیان میں ڈالا گیا ، لواحقین کو انصاف کی یقین دہانی کروائی گئی کہ آپ کی توقع کے مطابق انصاف ہوگا لیکن صغیر عباس بلوچ پولیس تشدد کے بعد موت کے منہ میں جاچکا تھا اوراس کیلئے دی جانیوالی تسلیاں بے معنی تھیں ۔ وقت گزر چکاتھا ، وہ اب ایک لاش میں تبدیل ہوچکا تھا

میں اب بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ آپ کو بتاسکوں کہ نوازشریف کی اچانک اس قدر صحت گرنے کے بعد حکومت بالخصوص عمران خان اور شیخ رشید کے دعائیہ ٹویٹ اور پیغامات کے بعد مجھے لیہ کی بیٹ دیوان چوکی میں پولیس تشدد سے جان کی بازی ہارنے والے صغیر عباس بلوچ کیساتھ ہونیوالی واردات کیوں یاد آئی ہے  جبکہ نوازشریف اور صغیر بلوچ کا کہیں دور دور تک موازنہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے ;لیکن اس اگر مگر کی کفیت میں میری اتنی دعا ضرور ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف ہسپتال سے صحت وسلامتی کیساتھ باہر یا اپنے گھر جائیں ;238; میرے منہ میں خاک جوکچھ نواز شریف کی صحت کے بارے میں معتبر حلقوں سے سننے کو مل رہا ہے  بھلا نوازشریف کی کہانی صغیر کے انجام جیسی کیسے ہوسکتی ہے

خضرکلاسرا

 

 

 

 

 

Tags: column by khizar klasra
Previous Post

لیہ ۔ صدر ڈسٹرکٹ پریس کلب عبد الرحمن فریدی طبیعت کی باعث ڈی ایچ کیو ہسپتال میں داخل ۔ احباب سے دعاءے صحت کی اپیل

Next Post

خواجہ سعد رفیق اور لیہ … انجم صحرائی

Next Post
خواجہ سعد رفیق اور لیہ  …  انجم صحرائی

خواجہ سعد رفیق اور لیہ ... انجم صحرائی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
نوازشریف کی اچانک طبعیت خرابی اور پھر ڈاکٹروں کی طرف سے خطرے کی گھنٹی ، حکومت کے کانوں میں ایسی بجائی گئی کہ سب چونک گے , ڈر گئے  , بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ خوفزدہ ہوگئے وزیراعظم عمران خان سے لیکر وزیر ریلوے شیخ رشید تک سب نے نواز شریف کی جلد صحت یابی کیلئے ٹویٹ سے لیکر دعائیں کرنے لگے اس بات کا عندیہ بھی پریس ٹاک میں دیاگیا کہ عدالتوں کے فیصلہ پر من وعن عمل کیاجائے گا، وغیرہ وغیرہ، مطلب نوازشریف کو علاج کی غرض سے کوئی ریلیف ملتاہے تو ان کو اعتراض نہیں ہوگا ۔ ادھر اچانک حکومت کے بدلتے رویہ کیساتھ عوام میں یہ پیغام گیا کہ نواز شریف کی زندگی خطرے میں ہے مطلب کچھ بھی ہوسکتا ;موت کی باتیں بھی ہونے لگیں ;238; کہا گیا کہ اللہ نہ کرے ایسا ہو ، لیکن میڈیا میں ایسی خبریں بھی تسلسل کیساتھ آئیں کہ نوازشریف ایسی خطرے ناک بیماری میں مبتلاہیں کہ کچھ بھی ہوسکتاہے ۔ جب وزیراعظم نواز شریف کی بگڑتی صحت کی صورتحال کی خبریں ایک دم آنا شروع ہوئیں اورتحریک انصاف کی حکومت کے بدحواسی میں کیے جانیوالے اقدامات دیکھنے کو ملے تو میرا دھیان پتہ نہیں کیوں لیہ کی بیٹ دیوان پولیس چوکی کے اہلکاروں کے تشدد سے ہلاک ہونیوالے صغیر عباس بلوچ کی طرف گیا ۔ اس پولیس تشدد میں صغیر کے سر پر چوٹ لگ گئی جوکہ اتنی شدید تھی کہ وہ بہیوش ہوگیا ۔ لیکن لیہ تھانہ صدر پولیس کے اہلکاروں نے صغیرعباس بلوچ کی بے ہوشی کو ڈرامہ بازی قرار دیا ، اور اس کو سر میں زخم کی تکلیف کے باوجود کے باوجود لیہ کچہ کے علاقہ سے ہسپتال لیجانے کی بجائے تھانہ صدر کے ایس ایچ او چودھری طارق کے پاس لے گئے تاکہ اپنی کارکردگی دکھاسکیں کہ حکم کی تعمیل کردی ہے; پولیس اہکاروں نے جب زخموں سے چور صغیر عباس کو پولیس ڈالے سے نیچے اتارنے کیلے روایتی طریقہ استعمال کیا تو اس کو خون کی الٹیاں شروع ہوگیں لیکن اس کے باوجود پولیس اہلکار ایس ایچ او کے کمرے میں لے گئے، ایس ایچ او چودھری طارق کو اندازہ ہوگیا کہ صغیر عباس بلوچ سر کی چوٹ کی وجہ سے تھانہ میں رکھنے کے قابل نہیں ہے ، یوں موصوف نے کہا کہ صغیرعباس بلوچ کو سرکاری ہسپتال کی بجائے بھٹی کے پراییوٹ ہسپتال لے جاو اور اس معاملے کو باہر باہر سے حل کرو ، وہاں بھٹی ہسپتال کے ڈاکٹر نے صغیر عباس بلوچ کو کوئی ایک دو انجکشن لگائے اور ساتھ پولیس کو کہا کہ صغیر کی حالت خطرے میں ہے اس کو سرکاری ہسپتال لے جاو   جب اس بات کا ایس ایچ او چودھری طارق کو بتایاگیا تو اس نے کہا کہ اس کو اب اس حالت میں سرکاری ہسپتال لے جانے کی بجائے واپس بیٹ دیوان پولیس چوکی لے جاءو اور زمینداروں اور پولیس ٹاوٹووں کے ذریعے صغیر عباس بلوچ جس کو خون کی الٹیاں آرہی تھیں ،ِ لواحقین کے حوالے کرکے ایک قتل سے جان چھڑاو وگرنہ معاملہ خراب ہوجائیگا ۔ ایس ایچ او چودھری طارق کے کہے مطابق صغیر عباس بلوچ کو سر سے بہتے خون کیساتھ جب پولیس چوکی بیٹ دیوان لایا گیا تو لواحقین اس وقت اپنی بستی کے دیگر لوگوں کے ساتھ چوکی پہنچ چکے تھے ، انہوں نے صغیر عباس بلوچ کو اس حالت میں دیکھ کر احتجاج کرنا شروع کردیا ، یوں پولیس اہلکاروں اور لواحقین میں تناو بڑھ گیا اور عوام کے بڑھتے ہوئے احتجاج پر پولیس نے 1122 کی ایمبولینس منگواکر صغیر عباس بلوچ کو ضلعی ہسپتال لے جانے کی حامی بھرلی ، اس دوران پولیس نے لواحقین کو اس بات پر مطمین کرنے کی کوشش کی کہ اس نے پولیس ڈالے سے چھلانگ لگائی ہے، جس کی وجہ سے اس کے سر پر چوٹ لگی ہے ۔ ادھر ایک کاروائی پولیس نے یہ ڈا لی کی جس کا ذکر لیہ کے سنئیر صحافی ملک مقبول الہی نے بھی راقم الحروف کسیاتھ گفتگو میں کیا کہ پولیس تشدد کو نئی شکل دینے کیلئے پولیس اہلکاروں نے زحموں کی شدت سے بے ہوش ضغیرعباس بلوچ کے منہ پر شراب بھی ڈال دی تھی اور پولیس نے شراب کا ڈاکٹ بھی بنالیا کہ اس نے شراب پی ہوئی تھی اور یوں چھلانگ لگائی اوراس کے سر پر زحم آگئے ہیں لیکن ڈاکٹروں نے پولیس کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ ضغیر نے شراب پی ہوئی تھی ۔ پولیس اس بات کو تو ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھی کہ انہوں نے صغیر عباس بلوچ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور اس کوموت کے قریب کردیا ہے ڈاکٹروں نے صغیر عباس کے سٹی سکین اور ابتدای ٹسیٹوں کے بعد پولیس پر واضع کردیا کہ اس کا بچنا مشکل ہے اور آخری کوشش کیلئے اس کو نشتر ہسپتال ملتان ریفرر کررہے ہیں ۔ یوں صغیر جس کو پولیس نے تشدد کے بعد ہسپتال لیجانے کی بجائے کسی اور کھاتے میں ڈالنے کیلے ادھر ادھر گھما کر وقت ضائع کیا تھا ، وہ زندگی اور موت کے درمیان نشتر ہسپتال پہنچا دیا گیا ، وہاں کے ڈاکٹروں نے پولیس کویہ بتایا کہ دیر ہوگی اور زخم گہرا ہے ، سر کی ہڈی فریکچر ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن پولیس نے امن وامان کے ایشو کے تحت مدد مانگی کہ صغیر عباس کو وینٹی لیڑ پر رکھا جائے تاکہ لیہ میں لواحقین اور شہریوں میں اس پولیس تشدد کے بعد پائے جانیوالے غصہ پر قابو پایا جا سکے یوں ضغیرعباس بلوچ جوکہ دراصل سر پر شدید زخم کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکا تھا لیکن عارضی سانسوں کے سہارے اس کو زندگی دی گئی تھی  اس دوران آر پی او ڈیرہ غازی خان ، مقامی رکن صوبائی اسمبلی شہاب خان سہیڑ سمیت دیگر با اثر افراد کی موجودگی میں صغیر عباس بلوچ کے گھر گئے، پھر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لیہ عثمان باجوہ نے بھی صغیر کے گھر جانے کا فیصلہ لیا ، ان کے بزرگوں سے ملےِ ، اس دوران صغیر عباس بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کو اس بات کی بھنک تو نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں سے پڑچکی تھی کہ اب صغیر بلوچ کو جیسے ہی وینٹی لیٹر سے ہٹایا گیا ، اسکی سانسیں واپس نہیں آسکیں گی ، گھر میں ماتم کا ماحول تھا ،اس کے باوجود حوصلہ دینے والے حوصلہ دے رہے تھے، کچھ ایسے بھی تھے جوکہ ان حالات میں بھی پولیس اہلکاروں کیلئے کام کررہے تھے کہ ان کی غٖلطی نہیں ہے ، صغیرعباس بلوچ نے خود ہی کھر چوک کے پاس پولیس ڈالے سے چھلانگ لگائی ہے ادھر دن گزرتے جارہے تھے ،آخر پولیس کو اس واردات پر اپنے مطابق مٹی ڈالنی تھی ، ڈی ایس پی اعجاز رندھاوا کو لہور رپورٹ کرنے کا کہا گیا ، ادھر طارق چودھری ایس ایچ او تھانہ صدر کو معطل کرنے تک محدود رکھا گیا جبکہ دیگر پولیس اہلکاروں جن میں ایک انسپکٹراحمد خان بھی شامل تھے ،ان کو مقدمہ میں ڈال دیاگیا لیکن ابھی صغیر عباس بلوچ نشتر میں زندگی کی جنگ لڑرہاتھا ۔ آخر وہ لمحہ آگیا کہ نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں نے واضع کردیاکہ صغیر کے سر کی کھوپڑی جوکہ ٹوٹ چکی ہے ، یوں اس کا بچنا ، اب نا ممکن ہے ، اور وینٹی لیٹر ہٹادیا ، اور جیسے یہ کاروائی کی گئی ، صغیر عباس بلوچ موت کی جھول میں گرگیا ، پھر اس کی لیہ لاش لائی گئی ، احتجاج ہوا ، پولیس کیخلاف لوگ برسے ، اور رکن قومی اسمبلی ملک نیاز کو پولیس کی طرف سے درمیان میں ڈالا گیا ، لواحقین کو انصاف کی یقین دہانی کروائی گئی کہ آپ کی توقع کے مطابق انصاف ہوگا لیکن صغیر عباس بلوچ پولیس تشدد کے بعد موت کے منہ میں جاچکا تھا اوراس کیلئے دی جانیوالی تسلیاں بے معنی تھیں ۔ وقت گزر چکاتھا ، وہ اب ایک لاش میں تبدیل ہوچکا تھا میں اب بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ آپ کو بتاسکوں کہ نوازشریف کی اچانک اس قدر صحت گرنے کے بعد حکومت بالخصوص عمران خان اور شیخ رشید کے دعائیہ ٹویٹ اور پیغامات کے بعد مجھے لیہ کی بیٹ دیوان چوکی میں پولیس تشدد سے جان کی بازی ہارنے والے صغیر عباس بلوچ کیساتھ ہونیوالی واردات کیوں یاد آئی ہے  جبکہ نوازشریف اور صغیر بلوچ کا کہیں دور دور تک موازنہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے ;لیکن اس اگر مگر کی کفیت میں میری اتنی دعا ضرور ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف ہسپتال سے صحت وسلامتی کیساتھ باہر یا اپنے گھر جائیں ;238; میرے منہ میں خاک جوکچھ نواز شریف کی صحت کے بارے میں معتبر حلقوں سے سننے کو مل رہا ہے  بھلا نوازشریف کی کہانی صغیر کے انجام جیسی کیسے ہوسکتی ہے

خضرکلاسرا

         
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.