ابھی معصوم زینب کا کفن میلا نہیں ہوا تھا کہ قصور کی دھرتی ایک بار پھر مشق ستم بن گئی ، ملنے والی ایک بچے کی لاش اور دو بچوں کی با قیات نے انسانی چہروں میں چھپی نا پاک درندگی کے بد نماچہروں کی بد نمائی پر مہر ثبت کر دی ۔
پتو کی میں ہو نے والے اس کربناک واقعہ نےنہ صرف پتو کی اور قصور بلکہ پا کستان میں بسنے والے ہر باپ اور ہر ماں کے دل کو دہلا کر رکھ دیا ہے ۔ عدم تحفظ کا ایسا احسا س جسے لفظوں میں بیان کر نا شا ئد ممکن نہ ہو ۔ پتو کی سے ملنے والی تین لا شوں میں سے ایک مکمل لاش اور دو کی با قیات ہیں ، ملنے والی لا شین فیٖضان ، سلمان اور علی حسنین کی ہیں ، بتا یا جاتا ہے کہ قتل ہو نے والا فیضان پیر کو لا پتہ ہوا تھا جب کہ سلمان 10 اگست اور علی حسنین ایک ماہ سے لا پتہ تھا ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا
پتو کی میں ہو نے والے اس اندود ہناک واقعہ کے بعد وزیر اعظم پا کستان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ قصور پو لیس کی مکمل اوور ہا لنگ کی تجویز زیر غور ہے ۔ یقینا پو لیس نظام کی اوور ہا لنگ کی ضروت سے کو ئی انکار نہیں کر سکتا مگر اوور ہا لنگ صرف قصور پو لیس کی نہیں بلکہ پورے پا کستان کی ضرورت ہے ۔ شا ئد اسی لئے پی ٹی آئی نے بر سر اقتدار آ نے کے بعد پو لیس ریفارمز کا نعرہ لگا یا تھا جو آج 13 ماہ گذر جا نے کے با وجود بھی محض ایک نعرہ ہے ۔ افسوس کچھ بھی نہیں بد لا حتی کہ لفظ اور رویئے تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسے پہلے تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پہلے سے بھی بد تر ہو گیا ہے تو شا ئد غلط نہ ہو گا
پتو کی میں نو، دس اور گیارہ سالہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد ان معصو موں کا قتل کو ئی ایک دن میں تو نہیں ہوا ۔ ماں باپ کے یہ لخت جگر کئی ماہ سے غائب ہو ئے تھے ۔ بے چارے اور بے بس والدین نے اپنے ان بچوں کی گم شد گی بارے یقینا پو لیس رپٹ بھی درج کرائی ہوں گی ۔ لیکن لگتا کہ پو لیس نے رواءتی سست رو یئے کے سبب ان بچوں کی گم شد گی کی درخواستوں کو بھی فا ئلوں کے ڈھیر تلے دبا دیا جبھی تو ان غائب ہو نے والے بچوں کے بارے کل تک پو لیس کے پاس کو ئی کار کردگی رپورٹ نہیں تھی ۔ یہ تو دھرتی ماں کے صبر کا دامن ہی جواب دے گیا کہ اس نے زمین میں چھپائے گئے وہ معصوم لا شے اگل دیئے جنہیں قاتل یا قاتلوں نے اپنا گناہ چھپانے کے لئے دفن کیا تھا ۔ اگر ماں دھرتی اس ظلم کا اظہار نہ کرتی تو ہماری بے چاری پو لیس نے کیا کر نا تھا کچھ بھی نہیں ۔
ایک ٹی وی رپورٹ کے مطا بق جب ڈی پی او قصور سے اس واقعہ بارے پو چھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ شہر کے سی سی وی کیمرے خراب ہیں اور پو لیس ہر گلی میں تو سپاہی کھڑا نہیں کر سکتی ۔ کتنا سنگدلانہ جواب ہے لیکن اس جواب کے علاوہ ڈی پی او کیا کہہ سکتے تھے کہ ان کے پاس کار کردگی کے حوالے سے کچھ کہنے کے لئے تھا ہی نہیں ۔
پتو کی میں اس سا نحے کے خلاف آج عوام سراپا احتجاج ہو ئے ، چندٹائروں کو آگ لگائی ، حکومت کو دھا ئیاں دیں ، صلواتیں سنائیں ، تھانے کے شیشے توڑے مردہ باد کے نعرے لگا ئے ۔ تب پو لیس حرکت میں آ ئی اور صرف چند گھنٹوں کے احتجاج کے بعد کئی مشکوک افراد گرفتار کر لئے ۔ سنا ہے کہ مشکوک افراد کے ڈی این ٹیسٹ سے ملزمان کو تلاش کیا جا ئے گا . یہ کام پہلے بھی ہو سکتا تھا جب پہلے بچے کے اغوا کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کرائی گئی تھی ۔ مگر شا ئد ہماری قومی پا لیسی بن چکی ہے مٹی پاءو ۔ ۔ اور جب پا نی ناک سے اونچا ہو جاتا ہے ہ میں سارا قانون یاد آ جاتا ہے ۔
ڈی این اے ٹیسٹ پر یاد آیا کہ زینب کا قاتل بھی ڈی این اے ٹیسٹ کمپین کے سبب ہی گرفتار ہوا تھا ، بچوں کی گم شدگی پر ڈی این اے ٹیسٹ کی یہ کمپین پتو کی میں بھی چلائی جا سکتی تھی اورمعصوم بچوں کے ساتھ بہیمانہ جنسی زیادتی اور قتل کے مجرموں تک پہنچا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور گھات لگائے جنسی درندوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا ۔
اسی قصور کی معصوم زینب کے والد کا مطا لبہ تھا کہ زینب کے قاتل عمران کو سرعام پھا نسی دی جا ئے ۔ لیکن قا نو نی مو شگا فیوں کے سبب ایسا نہیں ہو سکا اگر ایسا ہو جاتا اور اس درندے کو عبرت ناک مثال بنا دیا جاتا تو شا ید یہ الم ناک واقعات رو نما نہ ہو تے ۔
کہیں ایسا ہو تا ہے کہ پو لیس بروقت اقدامات نہیں اٹھا تی جس کے سبب سا نحات رو نماء ہو تے ہیں اور کہیں پو لیس اپنے اختیارات سے اتنا تجاوز کرتی نظر آ تی ہے کہ الاماں ۔ ابھی چند دن قبل چوک اعظم شہر کی ایک 13 سالہ بچی والدین کو بغیر بتائے سکول جانے کی بجائے اپنے رشتہ داروں کے گھر جھنگ چلی گئی ۔ والدین نے بچی کی گم شدگی کی رپورٹ تھانے میں درج کرا دی پو لیس نے مو بائل کی لو کیشن سے بچی کا پتہ چلا لیا اور والدین کے ہمراہ جا کر بچی کو ان کے رشتہ داروں کے گھر سے تلاش کر لیا ۔ پو لیس اور والدین بچی کو لے کر واپس چوک اعظم آ ئے تو رات ہو چکی تھی والدین نے ایس ایچ او صاحب سے گذارش کی کہ بچی کو ان کے ساتھ گھر جانے دیا جائے لیکن ایس ایچ او صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ بچی رات تھانہ میں رہے گی صبح مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور مجسٹریٹ جو فیصلہ کریں گے اس پہ عمل ہو گا ;252;
والدین کی بے بسی دیکھتے ہو ئے علاقہ کے معززین نے ایس ایچ او سے درخواست کی کہ ان کی ضمانت پر بچی کو گھر جانے دیا جائے لیکن ایس ایچ او صاحب نہیں مانے اور یوں یہ بچی ساری رات تھا نہ میں رہی صبح بچی کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جنہوں نے بچی کو والدین کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی ۔ بچی تو والدین کے ساتھ چلی گئی لیکن رات بھر تھانہ میں رہنے کا یہ واقعہ اس بچی کی زندگی پر کیا اثرات چھوڑے گا اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے
معروف سماجی کارکن اور قانون دان عنا ءت اللہ کا شف کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او نے بچی کو تھا نہ میں رات بھر رکھ کر اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کیا ۔ وہ بچی والدین کو دیتے یا پھر معززین علاقہ کی ضمانت پر بچی کو گھر جانے کی اجازت دے دیتے ۔ اگر بو جوہ وہ ایسا کرنا منا سب نہیں سمجھتے تھے تو ان کا فرض تھا کہ وہ اسی وقت بچی کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سا منے پیش کرتے ، جو قا نون کے مطا بق بچی کو والدین کے ساتھ جا نے یا دارلامان بھیجنے کا فیصلہ سناتے اگر بچی کسی اور مقدمہ میں پو لیس کو مطلوب بھی ہو تی تب بھی ایس ایچ او اسے رات میں تھانہ میں رکھنے کا اختیار نہیں رکھتا ۔
پولیس نظام میں ریفار مز کی ضرورت اسی لئے ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے کہ نہ تو پولیس کسی ذمہ داری سے صرف نظر کر سکے اور نہ ہی اختیارات سے ۔ ہر کام وقت اور قانون کے مطا بق ہو گا تو مسائل میں کمی ممکن ہے اور یہی وقت کی ضرورت ہے ۔
انجم صحرائی
ایڈیٹر انچیف "صبح پا کستا ن” لیہ
subhepak@hotmail.com