• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

عید راشن کا پہلامیسج ۔۔۔ بابا جیونا

webmaster by webmaster
مئی 21, 2019
in کالم
0
عید راشن کا پہلامیسج  ۔۔۔ بابا جیونا

جون کا مہینہ اوردوپہر تقریباً ایک بجے کا وقت تھا میں اپنے کمرے میں لیٹا فیس بک پہ افسانہ پڑھنےمیں محو تھا کہ اچانک موباٸل کمپنی سے ایک میسج موصول ہوا ،أپ کا بیلنس پندرہ روپے سے کم ہے أپ بغیر کسی پیکج کے نیٹ استعمال کر رہے ہیں۔میرا ماہانہ نیٹ پیکج ختم ہونے کے ساتھ ساتھ موباٸل میں موجود اسی روپے کا بیلنس بھی اُڑن چھو ہو چکا تھا ۔اب کیا کروں ؟ ابھی أدھا افسانہ پڑھا تھا ،افسانے پہ تبصرہ کرنا بھی ابھی باقی تھا،تبصرہ تو لکھاری کا حق ہوتا ہے ،کمرے سے باہر جھانکا تو سورج نے روزہ رکھ کر باہر نکلنے کی بالکل بھی اجازت نہ دی ۔ واپس أکر پھر لیٹ گیا مگر ایک عجیب سی بے چینی نے پریشان کر دیا،افسانہ ادھورا رہ گیا ، تبصرہ بھی لازمی کرنا ہے تبصرے کے لیے تو مجھے مینشن بھی کیا گیا ہے اب کیا کروں،پورا دن کیسے گزرے گا خودکلامی کے بعدایک بار پھراٹھا سر پہ تولیہ بھگو کر رکھا اور خراماں خراماں محلے کی دکان کی طرف چل دیا۔جس محلے میں میرا گھر ہے اس کی کچی کوڑے کے ڈھیر لگی گلیوں میں غربت بھوک ننگ اور محرومیوں کے ساۓ جابجا رقصاں اور ہر تیسرے گھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوۓ ہیں اور محلے کی اس حالت کے ذمہ داران کا منہ چڑا رہے ہیں۔جو محض الیکش کے دنوں میں ووٹ کی حد تک ان گلیوں میں تشریف لاتے ہیں ۔اس محلے میں بیسیوں ایسی کہانیاں ہیں جن کا تصور ہی روح کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔متعدد خاندان نشے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔کتنی ہوا کی بیٹیاں ہیں جن کو مفلسی کے ساتھ ساتھ دو چارچھ بچوں کی سوغات دے کر نشے کے عادی مرد حضرات محرومیوں کی دلدل میں دھکیل کر نشے کی تاریک وادیوں میں کھو گٸے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہم سب بہن بھاٸی کتنے مقدر والے ہیں کہ ہمارے ابا حضور نے غربت تنگ دستی کے باوجود نہ صرف اپنے سب بچوں کو زیور تعلیم سے أراستہ کیا ، بلکہ دین دنیا انسانیت سکھاٸی ۔ معاشرے کے ساتھ چلنے کا ڈھنگ طور طریقے بھی سکھاۓ۔ شکریہ امی جان شکریہ ابا حضور۔

میں موباٸل بیلنس حاصل کرنے کے لیے محلے کی دکان پہ پہنچا تو ایک پینتیس چھتیس سالہ خاتون کچھ سودا سلف لے رہی تھی اور چھ سات سال کا بچہ اس کی قمیض کا دامن کھینچ کھینچ کر کہہ رہا تھا” امی بسکٹ لے کر دیں۔“ میں بھی انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ دکاندار فارغ ہوتا ہے تو موباٸل لوڈ کرواتا ہوں ۔ یہ کیا دو کلو أٹا ، بیس روپے کا گھی ، پانچ روپے کا چاۓ کی پتی کا پیکٹ ، دس روپے کی چینی ، پانچ روپے کا اچار ۔ افف یہ پسینہ مجھے گرمی اور روزے کی وجہ سے أرہا ہے یا کوٸی اور وجہ ہے ؟ میرا شوگر لیول ڈاون ہو رہا ہے یا اچانک روزہ لگ گیا ،یہ مجھےکیا ہو رہا ہے ؟ یا دکاندار اور خاتون کے درمیان ہونے والی گفتگو کا اثر ہے۔ مجھے لگا جیسے بچے کی ہچکیاں میرے دل کی دھڑکن کے تسلسل میں خلل ڈال رہی ہیں ۔ میں اپنے أپ سے دل دل ہی دل میں مخاطب تھا ۔بچے کے رونے کے باوجود ماں اسے بسکٹ کا پیکٹ نہیں لے کر دے رہی اتنا کم سودا سلف ۔میرا جی چاہا جیب میں موجود سارے پیسے خاتون کو دے دوں ، لیکن ایک انجان اور جواں سال خاتون کو میں پیسے کیسے دوں ۔اسے برا ہی نہ لگے ۔دکاندار کی سوالیہ نظروں کے ڈر سے میں نہ تو بچے کو بسکٹ لے کر دے سکا اور نہ ہی خاتون کی کوٸی مدد کر سکا، میں  کتنا بعزدل ثابت ہوا ۔ خاتون سودا سلف لے کر روانہ ہو گٸی بچہ بھی اپنی امی کا دامن کھینچتا روتا ہوا پیچھے چلنے لگا ۔مگر میرا دل ذہن دماغ سب جمود کا شکار ہو چکے تھے ۔ پہلی بار موباٸل لوڈ کروانا فضول خرچی لگ رہا تھا ۔اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے محلے کے ایسے گھرانوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا ۔میں کرپشن چوری خردبرد سے پاک اور تنخواہ پہ گزارا کرنے والا سرکاری ملازم ہوں میرے لیے تنہإ یہ سب کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے اپنے فیس بک کے چاہنے والوں وٹس ایپ گروپس کے اہل دل ممبران کی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک دن ایک پوسٹ بنا کر فیس بک اور وٹس ایپ گروپس میں شیٕر کردی ۔جس کا پہلا جواب ایک اجنبی نمبر سے ملا ۔ صاحب تحریر نے مجھے وٹس ایپ پر میسج کیا ، بابا جی بھکاری ماڈرن ہوگٸے ہیں ،پہلے شک تھا لیکن أپ کی پوسٹ پڑھ کے یقین ہوگیا۔یہ میسج پڑھ کر مجھے جھٹکا لگا ۔ بہت افسوس ہوا مجھے لگا میں نے اپنے قد سے بہت چھوٹا کام کردیا۔ لوگ تو مجھے بھکاری سمجھ رہے ہیں ۔ یہ میں نے کیا کیا ؟اگر میری اپنی اتنی استطاعت نہیں تھی تو مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔لیکن پھر میری أنکھوں کے سامنے وہ  دو کلو أٹے کا شاپر اور بسکٹ مانگتا بچہ أگٸے ۔ مجھے لگا وہ مجھےکہہ رہے ہیں تم بہت کمزور ہو باباجی۔

دوتین بارپڑھنےکے بعد میں نے وہ میسج ڈیلیٹ کر دیا ۔دوتین بار اس لیے پڑھا کہ شاید اس کا کوٸی اور مطلب نکلتا  ہو ۔ ہوسکتا ہے میسج کرنے والا میری کوٸی اصلاح کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے سخت ترین میسج کردیا ۔میں اس میسج میں اصلاح کا پہلو تلاش کرتا رہا مگر ہر بار اس میسج کا ایک ہی مطلب نکل رہا تھا جو میرا حوصلہ پست کیے جا رہا تھا ۔اسی اثنإ میں میرے محکمہ کے ایک سینیٕر أفیسر کا میسج أیا ، بابا جی میں اس خاتون کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ابھی میں میسج پڑھ رہا تھا کہ ہمارے شہر حاصلپور کے ایک بڑے منظم پراٸیویٹ  سکول کے پرنسپل صاحب کا فون أگیا پہلے تو میری تحریروں کی تعریف کی پھر میرے نیکی کے جذبے کو سراہا اور ساتھ دو گھروں کا راشن بھیجنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ دو گھنٹے بعد ان کا بھتیجا راشن لے کر پہنچ چکا تھا ملک صاحب سلامت رہیں ۔أپ جیسے اہل دل درددل رکھنے والے  لوگ معاشرے کا حسن ہوا کرتے ہیں ۔ ملک صاحب سے بات مکمل ہوٸی ہی تھی کہ انگلینڈ سے میرے ایک چاہنے والے کا میسج موصول ہوا۔ بابا جی شکر ہے کوٸی أپ جیسا بندہ بھی سامنے أیا اب ہم اس یقین کے ساتھ اس کار خیر میں حصہ ملاٸیں گے کہ حقداران کو حق پہنچ سکے گا ۔میرے کچھ مصنف دوستوں نے میرے جذبے کو سراہتے ہوۓ اس کار خیر میں شمولیت کی یقین دہانی کرواٸی ۔ اب میں مکمل طور پہ موصول ہونے والے  پہلے میسج سے ملی تکلیف کو نہ صرف بھول چکا تھا بلکہ أٸندہ کے لیے منظم طریقے سے حقداران کی فہرست تیار کر کے خدمت کرنے کا فیصلہ بھی کرچکا تھا۔میرا اللہ مجھے میرے ارادے میں ثابت قدم رکھے ۔اور جن لوگوں نے میرا حوصلہ بڑھایا میری ڈھارس بندھاٸی اللہ انھیں انسانیت کی  مزید خدمت کرنےکی ہمت دے أمین ۔

بابا جیونا

Previous Post

اسلام آ باد ۔ میجر جزل(ر ) طارق عزیز برونائی کے لئے ہا ئی کمشنر نامزد

Next Post

سر گودھا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا رمضان بازار اور ڈسٹرکٹ جیل کا دورہ

Next Post
سر گودھا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا رمضان بازار اور ڈسٹرکٹ جیل کا دورہ

سر گودھا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا رمضان بازار اور ڈسٹرکٹ جیل کا دورہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
جون کا مہینہ اوردوپہر تقریباً ایک بجے کا وقت تھا میں اپنے کمرے میں لیٹا فیس بک پہ افسانہ پڑھنےمیں محو تھا کہ اچانک موباٸل کمپنی سے ایک میسج موصول ہوا ،أپ کا بیلنس پندرہ روپے سے کم ہے أپ بغیر کسی پیکج کے نیٹ استعمال کر رہے ہیں۔میرا ماہانہ نیٹ پیکج ختم ہونے کے ساتھ ساتھ موباٸل میں موجود اسی روپے کا بیلنس بھی اُڑن چھو ہو چکا تھا ۔اب کیا کروں ؟ ابھی أدھا افسانہ پڑھا تھا ،افسانے پہ تبصرہ کرنا بھی ابھی باقی تھا،تبصرہ تو لکھاری کا حق ہوتا ہے ،کمرے سے باہر جھانکا تو سورج نے روزہ رکھ کر باہر نکلنے کی بالکل بھی اجازت نہ دی ۔ واپس أکر پھر لیٹ گیا مگر ایک عجیب سی بے چینی نے پریشان کر دیا،افسانہ ادھورا رہ گیا ، تبصرہ بھی لازمی کرنا ہے تبصرے کے لیے تو مجھے مینشن بھی کیا گیا ہے اب کیا کروں،پورا دن کیسے گزرے گا خودکلامی کے بعدایک بار پھراٹھا سر پہ تولیہ بھگو کر رکھا اور خراماں خراماں محلے کی دکان کی طرف چل دیا۔جس محلے میں میرا گھر ہے اس کی کچی کوڑے کے ڈھیر لگی گلیوں میں غربت بھوک ننگ اور محرومیوں کے ساۓ جابجا رقصاں اور ہر تیسرے گھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوۓ ہیں اور محلے کی اس حالت کے ذمہ داران کا منہ چڑا رہے ہیں۔جو محض الیکش کے دنوں میں ووٹ کی حد تک ان گلیوں میں تشریف لاتے ہیں ۔اس محلے میں بیسیوں ایسی کہانیاں ہیں جن کا تصور ہی روح کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔متعدد خاندان نشے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔کتنی ہوا کی بیٹیاں ہیں جن کو مفلسی کے ساتھ ساتھ دو چارچھ بچوں کی سوغات دے کر نشے کے عادی مرد حضرات محرومیوں کی دلدل میں دھکیل کر نشے کی تاریک وادیوں میں کھو گٸے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہم سب بہن بھاٸی کتنے مقدر والے ہیں کہ ہمارے ابا حضور نے غربت تنگ دستی کے باوجود نہ صرف اپنے سب بچوں کو زیور تعلیم سے أراستہ کیا ، بلکہ دین دنیا انسانیت سکھاٸی ۔ معاشرے کے ساتھ چلنے کا ڈھنگ طور طریقے بھی سکھاۓ۔ شکریہ امی جان شکریہ ابا حضور۔ میں موباٸل بیلنس حاصل کرنے کے لیے محلے کی دکان پہ پہنچا تو ایک پینتیس چھتیس سالہ خاتون کچھ سودا سلف لے رہی تھی اور چھ سات سال کا بچہ اس کی قمیض کا دامن کھینچ کھینچ کر کہہ رہا تھا” امی بسکٹ لے کر دیں۔“ میں بھی انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ دکاندار فارغ ہوتا ہے تو موباٸل لوڈ کرواتا ہوں ۔ یہ کیا دو کلو أٹا ، بیس روپے کا گھی ، پانچ روپے کا چاۓ کی پتی کا پیکٹ ، دس روپے کی چینی ، پانچ روپے کا اچار ۔ افف یہ پسینہ مجھے گرمی اور روزے کی وجہ سے أرہا ہے یا کوٸی اور وجہ ہے ؟ میرا شوگر لیول ڈاون ہو رہا ہے یا اچانک روزہ لگ گیا ،یہ مجھےکیا ہو رہا ہے ؟ یا دکاندار اور خاتون کے درمیان ہونے والی گفتگو کا اثر ہے۔ مجھے لگا جیسے بچے کی ہچکیاں میرے دل کی دھڑکن کے تسلسل میں خلل ڈال رہی ہیں ۔ میں اپنے أپ سے دل دل ہی دل میں مخاطب تھا ۔بچے کے رونے کے باوجود ماں اسے بسکٹ کا پیکٹ نہیں لے کر دے رہی اتنا کم سودا سلف ۔میرا جی چاہا جیب میں موجود سارے پیسے خاتون کو دے دوں ، لیکن ایک انجان اور جواں سال خاتون کو میں پیسے کیسے دوں ۔اسے برا ہی نہ لگے ۔دکاندار کی سوالیہ نظروں کے ڈر سے میں نہ تو بچے کو بسکٹ لے کر دے سکا اور نہ ہی خاتون کی کوٸی مدد کر سکا، میں  کتنا بعزدل ثابت ہوا ۔ خاتون سودا سلف لے کر روانہ ہو گٸی بچہ بھی اپنی امی کا دامن کھینچتا روتا ہوا پیچھے چلنے لگا ۔مگر میرا دل ذہن دماغ سب جمود کا شکار ہو چکے تھے ۔ پہلی بار موباٸل لوڈ کروانا فضول خرچی لگ رہا تھا ۔اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے محلے کے ایسے گھرانوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا ۔میں کرپشن چوری خردبرد سے پاک اور تنخواہ پہ گزارا کرنے والا سرکاری ملازم ہوں میرے لیے تنہإ یہ سب کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے اپنے فیس بک کے چاہنے والوں وٹس ایپ گروپس کے اہل دل ممبران کی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک دن ایک پوسٹ بنا کر فیس بک اور وٹس ایپ گروپس میں شیٕر کردی ۔جس کا پہلا جواب ایک اجنبی نمبر سے ملا ۔ صاحب تحریر نے مجھے وٹس ایپ پر میسج کیا ، بابا جی بھکاری ماڈرن ہوگٸے ہیں ،پہلے شک تھا لیکن أپ کی پوسٹ پڑھ کے یقین ہوگیا۔یہ میسج پڑھ کر مجھے جھٹکا لگا ۔ بہت افسوس ہوا مجھے لگا میں نے اپنے قد سے بہت چھوٹا کام کردیا۔ لوگ تو مجھے بھکاری سمجھ رہے ہیں ۔ یہ میں نے کیا کیا ؟اگر میری اپنی اتنی استطاعت نہیں تھی تو مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔لیکن پھر میری أنکھوں کے سامنے وہ  دو کلو أٹے کا شاپر اور بسکٹ مانگتا بچہ أگٸے ۔ مجھے لگا وہ مجھےکہہ رہے ہیں تم بہت کمزور ہو باباجی۔ دوتین بارپڑھنےکے بعد میں نے وہ میسج ڈیلیٹ کر دیا ۔دوتین بار اس لیے پڑھا کہ شاید اس کا کوٸی اور مطلب نکلتا  ہو ۔ ہوسکتا ہے میسج کرنے والا میری کوٸی اصلاح کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے سخت ترین میسج کردیا ۔میں اس میسج میں اصلاح کا پہلو تلاش کرتا رہا مگر ہر بار اس میسج کا ایک ہی مطلب نکل رہا تھا جو میرا حوصلہ پست کیے جا رہا تھا ۔اسی اثنإ میں میرے محکمہ کے ایک سینیٕر أفیسر کا میسج أیا ، بابا جی میں اس خاتون کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ابھی میں میسج پڑھ رہا تھا کہ ہمارے شہر حاصلپور کے ایک بڑے منظم پراٸیویٹ  سکول کے پرنسپل صاحب کا فون أگیا پہلے تو میری تحریروں کی تعریف کی پھر میرے نیکی کے جذبے کو سراہا اور ساتھ دو گھروں کا راشن بھیجنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ دو گھنٹے بعد ان کا بھتیجا راشن لے کر پہنچ چکا تھا ملک صاحب سلامت رہیں ۔أپ جیسے اہل دل درددل رکھنے والے  لوگ معاشرے کا حسن ہوا کرتے ہیں ۔ ملک صاحب سے بات مکمل ہوٸی ہی تھی کہ انگلینڈ سے میرے ایک چاہنے والے کا میسج موصول ہوا۔ بابا جی شکر ہے کوٸی أپ جیسا بندہ بھی سامنے أیا اب ہم اس یقین کے ساتھ اس کار خیر میں حصہ ملاٸیں گے کہ حقداران کو حق پہنچ سکے گا ۔میرے کچھ مصنف دوستوں نے میرے جذبے کو سراہتے ہوۓ اس کار خیر میں شمولیت کی یقین دہانی کرواٸی ۔ اب میں مکمل طور پہ موصول ہونے والے  پہلے میسج سے ملی تکلیف کو نہ صرف بھول چکا تھا بلکہ أٸندہ کے لیے منظم طریقے سے حقداران کی فہرست تیار کر کے خدمت کرنے کا فیصلہ بھی کرچکا تھا۔میرا اللہ مجھے میرے ارادے میں ثابت قدم رکھے ۔اور جن لوگوں نے میرا حوصلہ بڑھایا میری ڈھارس بندھاٸی اللہ انھیں انسانیت کی  مزید خدمت کرنےکی ہمت دے أمین ۔

بابا جیونا

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.