• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

ریٹائرمنٹ .. عفت بھٹی

webmaster by webmaster
مئی 16, 2019
in کالم
0
ریٹائرمنٹ  ..  عفت بھٹی

آج آفس کی طرف سے ان کی فیئر ویل پارٹی تھی ۔سب نے انہیں گرم جوشی سے الوداع کیا ۔ واپس آتے وقت ان کی نظر میں اپنی پچیس سالہ نوکری کے زمانے  کی مصروفیت گھوم گئی۔ ازراہ محبت شکیل صاحب نے اپنے ڈرائیور سے انہیں گھر ڈراپ کرنے کا کہا اب وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے خودکو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔  بے اختیار لمبی سانس لی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔کام کام اور کام کرتے ہوئے  بالوں میں وقت کی برف اترنے لگی اور وہی برف ان کی خوش طبعی پہ بھی ایسی پڑی کہ ماتھے کی لکیروں میں مستقل مستقر بنا لیا۔روزی روٹی پوری کرنے کے چکر میں گھن چکر بن گئے۔بچوں کے تعلیمی اخراجات اورگھریلو خرچے پورا کرنے کے لیے پارٹ ٹائم سے اوور ٹائم تک اپنی ذات کو بھلا دیا ۔اب دونوں بیٹے تعلیم مکمل کر چکے تھے۔دونوں بیٹیو ں اور ایک بیٹے کی شادی ہو چکی تھی۔اور چھوٹے کا نکاح۔۔ اگلے ماہ اس کی شادی تھی۔ ۔اب بینائی دھندلانے اور ہڈیاں دکھنے لگی تھیں۔یاد آیا گھر ایک اور ہستی بھی ہے جس کی خاموش نظریں نظر اندازی پہ شکوہ کناں ہوتی تھیں۔۔مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ بے۔اختیار جیب سے موبائل نکالا اور بیگم کے نمبر پہ ایک ٹیکسٹ ٹائپ کیا۔
آئی لو یو اب میرا سارا وقت تمہارے لیے ہے۔ ۔ ایک سرگوشی ابھری سنیے مجھے سردی میں آئس کریم کھانا اور لانگ ڈرائیو بہت پسند ہے۔سرگوشی کے ساتھ ہی ایک مانوس خوشبو دار سر ان کے کندھے سے آلگا۔انہوں نے لمبی سانس کھینچی اور  خوشبو نےمشام جاں تک احاطہ کر دیا۔وہ گویا اُڑ کر گھر جانا چاہتے تھے۔۔دس منٹ کے۔بعد وہ گھر کے سامنے کھڑے تھے۔بیگم نے دروازہ کھولا تو نبیل ہمدانی نے مسکراتے ہوئے انہیں کندھوں سے تھام لیا۔بیگم آج سے ہم پھر تمہارے ہوئے جیسےچالیس برس قبل ہوئے تھے۔بیگم نے مسکراتے ہوئے سر جھکا دیا ۔نبیل ہمدانی نے قہقہہ لگایا۔آپ بھی پہلی دفعہ کی طرح شرمائی ہیں۔۔
حسب عادت صبح پانچ بحے آنکھ کھل گئی نماز ادا کر کے وہ پھر بستر میں جا گھسے۔اور دیر تک نیند کا مزہ لینے کا سوچا ۔آج آفس نہیں جانا یہ خیال ہی بہت خوش کن تھا۔ابھی خیال کو عملی جامہ بھی نہیں پہنا پائے تھے کہ ان کی بہو نے آواز دی پاپا ذرا بچوں کو سکول چھوڑ آئیں۔رافع کہاں ہے۔؟ انہوں نے مندی مندی آنکھیں کھولتے ہوئے پوچھا۔وہ بچوں کی وجہ سے جلدی نکلتے تھے اب آپ فارغ ہیں تو آپ چھوڑ آیا کریں۔بادل نخواستہ بستر چھوڑتے ہوئے انہیں اُٹھنا پڑا۔
سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ریٹائرمنٹ اور فراغت ایک طعنہ بن گئی اب ان کی ڈیوٹی بچوں کو لانا ۔چھوڑنا۔سبزی ۔سوداسلف بل اور دیگر کام تھی سارا دن وہ اسی میں لگے رہتے۔آنا کانی کے نتیجے میں ۔ارے آپ تو فارغ ہی ہوتے سارا دن سننا پڑتا۔سپنوں کے تاج محل ڈھیر ہو گئے۔گریجویٹی  سے بیٹے کی شادی کی اب بچی کھچی رقم سے بیگم کے ساتھ سیر  کا پلان بنایا۔ بیٹوں اور بہووں نے سنا تو خوب ٹھٹھا مخول کیا لو اب امی پاپا کو اس عمر میں ہنی مون سوجھ رہا۔۔وہ سب سن کر سر جھکائے دل گرفتہ کمرے میں چلے آئے۔آنکھ بھر آئی تھی۔زمانے کا چلن تو ہوتا ہی ظالم ہے مگر اپنی اولاد کی بات برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ابھی سوچ میں گم تھے کہ بیگم چلی آئیں۔ہمدانی صا حب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔اب ہماری مرضی خوشی کوئی معانی نہیں رکھتی۔انہوں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔مگر بیگم ساری عمر ہم نے ان بچوں پہ لگا دی ۔اپنی خوشی ۔آرام چین سب تہج دیا اب تو آرام کا وقت تھا پھل پانے کا۔ان کی آواز بھرا گئی۔۔۔واسع کو کاروبار کے لیے رقم چاہیے میں نے کہا ہم تمہاری شادی پہ لگا چکے تو کہنے لگا پاپا کے پاس گھومنے پھرنے کو پیسہ ہے میرے لیے نہیں۔دے دیں اسے ۔بیگم کی آواز میں اولاد کی بے اعتنائی کا دکھ بول رہا تھا۔
مم مگر بیگم وہ تو میں نے صرف تمہارے اور اپنے۔۔۔باقی لفظ منھ میں رہ گئے۔واسع سامنے کھڑا تھا۔پاپا مجھے میرا حصہ دے دیں میں وہ بیچ کر کاروبار کروں گا ۔نمرہ کے پاپا کے ساتھ ۔ہم وہیں شفٹ ہو جائیں گئے۔ بڑے بھیا بھی مان گئے ہیں گھر فروخت کرنے پہ۔۔واسع کے انداز میں قطیعت تھی۔نبیل ہمدانی کا افسردہ دل یہ سن کر زور سے کانپا۔۔بیٹا بہت محنت سے بنایا ہے یہ گھر میں نے تم سب کو اعلی تعلیم دلوائی۔اب تم خود محنت کرو۔انہوں نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔میں اپنا حق مانگ رہا ہوں پاپا۔اور سب والدین کرتے ایسا اس میں احسان کیسا۔واسع نے بدتمیزی سے کہا۔اور باہر نکل گیا۔ہمدانی کے سینے میں درد کی لہر اٹھی اور وہ دل تھام کر بستر پہ ڈھے گئے۔
تین دن بعد ہوش آیا مگر ہارٹ  اور فالج کے اٹیک نے ان کو مفلوج کر دیا ۔ان کا ہاتھ تھامے آنسو بہاتی بیگم ان کے بیڈ کی پٹی سے لگی ہوئی تھیں۔انہوں نے ان کو تسلی دینی چاہی مگر زبان سے بے ربط آوازوں کے سوا کچھ نہ نکلا۔۔آنکھوں کے گوشوں سے بے بسی کے چند قطرے نکل کر تکیے میں جذب ہو گئے۔

Tags: cilumn by iffat bhatti
Previous Post

صادق آباد . کے ایل پی روڈ پر بینک میں دھماکہ، 8 افراد زخمی

Next Post

لیہ ۔ سرکل آفیسر اینٹی کرپشن کی کاروائی ،کروڑوں کا سرکاری رقبہ واگزار

Next Post
لیہ ۔ سرکل آفیسر اینٹی کرپشن کی کاروائی ،کروڑوں کا سرکاری رقبہ واگزار

لیہ ۔ سرکل آفیسر اینٹی کرپشن کی کاروائی ،کروڑوں کا سرکاری رقبہ واگزار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
آج آفس کی طرف سے ان کی فیئر ویل پارٹی تھی ۔سب نے انہیں گرم جوشی سے الوداع کیا ۔ واپس آتے وقت ان کی نظر میں اپنی پچیس سالہ نوکری کے زمانے  کی مصروفیت گھوم گئی۔ ازراہ محبت شکیل صاحب نے اپنے ڈرائیور سے انہیں گھر ڈراپ کرنے کا کہا اب وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے خودکو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔  بے اختیار لمبی سانس لی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔کام کام اور کام کرتے ہوئے  بالوں میں وقت کی برف اترنے لگی اور وہی برف ان کی خوش طبعی پہ بھی ایسی پڑی کہ ماتھے کی لکیروں میں مستقل مستقر بنا لیا۔روزی روٹی پوری کرنے کے چکر میں گھن چکر بن گئے۔بچوں کے تعلیمی اخراجات اورگھریلو خرچے پورا کرنے کے لیے پارٹ ٹائم سے اوور ٹائم تک اپنی ذات کو بھلا دیا ۔اب دونوں بیٹے تعلیم مکمل کر چکے تھے۔دونوں بیٹیو ں اور ایک بیٹے کی شادی ہو چکی تھی۔اور چھوٹے کا نکاح۔۔ اگلے ماہ اس کی شادی تھی۔ ۔اب بینائی دھندلانے اور ہڈیاں دکھنے لگی تھیں۔یاد آیا گھر ایک اور ہستی بھی ہے جس کی خاموش نظریں نظر اندازی پہ شکوہ کناں ہوتی تھیں۔۔مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ بے۔اختیار جیب سے موبائل نکالا اور بیگم کے نمبر پہ ایک ٹیکسٹ ٹائپ کیا۔ آئی لو یو اب میرا سارا وقت تمہارے لیے ہے۔ ۔ ایک سرگوشی ابھری سنیے مجھے سردی میں آئس کریم کھانا اور لانگ ڈرائیو بہت پسند ہے۔سرگوشی کے ساتھ ہی ایک مانوس خوشبو دار سر ان کے کندھے سے آلگا۔انہوں نے لمبی سانس کھینچی اور  خوشبو نےمشام جاں تک احاطہ کر دیا۔وہ گویا اُڑ کر گھر جانا چاہتے تھے۔۔دس منٹ کے۔بعد وہ گھر کے سامنے کھڑے تھے۔بیگم نے دروازہ کھولا تو نبیل ہمدانی نے مسکراتے ہوئے انہیں کندھوں سے تھام لیا۔بیگم آج سے ہم پھر تمہارے ہوئے جیسےچالیس برس قبل ہوئے تھے۔بیگم نے مسکراتے ہوئے سر جھکا دیا ۔نبیل ہمدانی نے قہقہہ لگایا۔آپ بھی پہلی دفعہ کی طرح شرمائی ہیں۔۔ حسب عادت صبح پانچ بحے آنکھ کھل گئی نماز ادا کر کے وہ پھر بستر میں جا گھسے۔اور دیر تک نیند کا مزہ لینے کا سوچا ۔آج آفس نہیں جانا یہ خیال ہی بہت خوش کن تھا۔ابھی خیال کو عملی جامہ بھی نہیں پہنا پائے تھے کہ ان کی بہو نے آواز دی پاپا ذرا بچوں کو سکول چھوڑ آئیں۔رافع کہاں ہے۔؟ انہوں نے مندی مندی آنکھیں کھولتے ہوئے پوچھا۔وہ بچوں کی وجہ سے جلدی نکلتے تھے اب آپ فارغ ہیں تو آپ چھوڑ آیا کریں۔بادل نخواستہ بستر چھوڑتے ہوئے انہیں اُٹھنا پڑا۔ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ریٹائرمنٹ اور فراغت ایک طعنہ بن گئی اب ان کی ڈیوٹی بچوں کو لانا ۔چھوڑنا۔سبزی ۔سوداسلف بل اور دیگر کام تھی سارا دن وہ اسی میں لگے رہتے۔آنا کانی کے نتیجے میں ۔ارے آپ تو فارغ ہی ہوتے سارا دن سننا پڑتا۔سپنوں کے تاج محل ڈھیر ہو گئے۔گریجویٹی  سے بیٹے کی شادی کی اب بچی کھچی رقم سے بیگم کے ساتھ سیر  کا پلان بنایا۔ بیٹوں اور بہووں نے سنا تو خوب ٹھٹھا مخول کیا لو اب امی پاپا کو اس عمر میں ہنی مون سوجھ رہا۔۔وہ سب سن کر سر جھکائے دل گرفتہ کمرے میں چلے آئے۔آنکھ بھر آئی تھی۔زمانے کا چلن تو ہوتا ہی ظالم ہے مگر اپنی اولاد کی بات برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ابھی سوچ میں گم تھے کہ بیگم چلی آئیں۔ہمدانی صا حب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔اب ہماری مرضی خوشی کوئی معانی نہیں رکھتی۔انہوں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔مگر بیگم ساری عمر ہم نے ان بچوں پہ لگا دی ۔اپنی خوشی ۔آرام چین سب تہج دیا اب تو آرام کا وقت تھا پھل پانے کا۔ان کی آواز بھرا گئی۔۔۔واسع کو کاروبار کے لیے رقم چاہیے میں نے کہا ہم تمہاری شادی پہ لگا چکے تو کہنے لگا پاپا کے پاس گھومنے پھرنے کو پیسہ ہے میرے لیے نہیں۔دے دیں اسے ۔بیگم کی آواز میں اولاد کی بے اعتنائی کا دکھ بول رہا تھا۔ مم مگر بیگم وہ تو میں نے صرف تمہارے اور اپنے۔۔۔باقی لفظ منھ میں رہ گئے۔واسع سامنے کھڑا تھا۔پاپا مجھے میرا حصہ دے دیں میں وہ بیچ کر کاروبار کروں گا ۔نمرہ کے پاپا کے ساتھ ۔ہم وہیں شفٹ ہو جائیں گئے۔ بڑے بھیا بھی مان گئے ہیں گھر فروخت کرنے پہ۔۔واسع کے انداز میں قطیعت تھی۔نبیل ہمدانی کا افسردہ دل یہ سن کر زور سے کانپا۔۔بیٹا بہت محنت سے بنایا ہے یہ گھر میں نے تم سب کو اعلی تعلیم دلوائی۔اب تم خود محنت کرو۔انہوں نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔میں اپنا حق مانگ رہا ہوں پاپا۔اور سب والدین کرتے ایسا اس میں احسان کیسا۔واسع نے بدتمیزی سے کہا۔اور باہر نکل گیا۔ہمدانی کے سینے میں درد کی لہر اٹھی اور وہ دل تھام کر بستر پہ ڈھے گئے۔ تین دن بعد ہوش آیا مگر ہارٹ  اور فالج کے اٹیک نے ان کو مفلوج کر دیا ۔ان کا ہاتھ تھامے آنسو بہاتی بیگم ان کے بیڈ کی پٹی سے لگی ہوئی تھیں۔انہوں نے ان کو تسلی دینی چاہی مگر زبان سے بے ربط آوازوں کے سوا کچھ نہ نکلا۔۔آنکھوں کے گوشوں سے بے بسی کے چند قطرے نکل کر تکیے میں جذب ہو گئے۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.