جناب قاضی القضا( چیف جسٹس ) کسی بھی ملک کا اللہ کے بعد انسانی سطح پر اگر کو سب سے طاقتور/ذمہ دار انسان ھوتا ھے وہ اس ملک کا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ھوتا ھے .سیاستدان ، ادارے، عوام ،بچے، خواتین اور مرد و زن ہر طرح کے رویوں پر مبنی ھو سکتے ہیں لیکن ایک ادارہ ایسا ھوتا ھے جن کی طرف ہر انسان امید کی نظر سے دیکھتا ھے ۔ جس طرح اللہ سے امید ھے اور ہر مجبور انسان کی اپنی زندگی کی ہر تکلیف پر آسمان کی طرف دیکھ کر اس امید پر چپ ھو جاتا ھے کہ اب نہیں تو اللہ اس کو آخر میں اجر دے گا ۔ عمومی زندگی میں ہر ملک میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بڑا سلوک کرتے ہیں ،ادارے لوگوں کے ساتھ برائی کر بیٹھتے ہیں لیکن ہر شہری اس امید پر عدالت کا دروازہ اس وجہ سے کھٹکھٹاتا ھے کہ یہ وہ گھر ھے جہاں سے مجھے انصاف میسر آئے گا
جناب چیف جسٹس صاحب جب تک انسان مر نہیں جاتا اس کا روز قیامت میں حساب نہیں ھوتا وہ زمین پر آپ کو خدا کا نائب سمجھتا ھے
جناب چیف جسٹس صاحب! جب کوئی بھی کہیں ملزم بنتا ھے یا کسی پر الزام لگایا جاتا ھے تو روز روشن، آج کی دنیا میں پوری دنیا میں پاکستان واحد یا چند ایک ممالک میں شامل ھوتا ھے جن کے ملزم عدالت میں وکٹری کے نشان بناتے آتے ہیں اور اگر ہر روز نہیں ،ہر پیشی پر نہیں تو کم از کم اکثر وہ پریس کانفرنس اور کچہری کو ماحول لگا کر کھڑے ھو جاتے ہیں ۔ اس سے مظلوم طبقہ کا دل ٹکڑے ٹکڑے ھو جاتا ھے اور وہ لوگ جو کردار کے کمزور ھوتے ہیں ان کے لئے glorification جو جاتی ھے کہ جرم کرنا تو ٹھیک ہے ناں کہ جرم بھی کرو اور لیڈر بھی بنے رہو کیا ہر ملزم یا مجرم کو یہ سہولت دی جاتی ہے یا کسی اور ملک میں ایسا ھوتا ھے
جناب چیف جسٹس صاحب میں ایک دوہری شہریت رکھنے والا اور اسی ناطے سے پاکستان ، اپنی ماں باپ کی قبروں پر اپنی زندگی میں آنے جانے اور پاکستان میں پیدا ھونے کے ناطے پاکستان کی سلامتی کے لئے نا صرف خیر خواہی رکھتا ھوں بلکہ شرمندہ ھوتا ھوں جب پاکستان کے حوالے سے ان جوکروں کو ملک کو بد نام کرتے دیکھتا ھوں۔
جناب چیف جسٹس صاحب پاکستان میں 24 کروڑ لوگ رہتے ہیں ۔ ان کے بچوں کا سب سے پہلے مسئلہ زندگی کا ھے جو علاج سے منسلک ھے ۔ آپ سے خدا بزرگ و برتر یہ ضرور پوچھے گا کہ آپ کے دور میں آپ نے صحت کی سہولتوں کے لئے کیا کیا ۔ آپ صرف اس بات سے بری ذمہ نہیں ھو سکتے کہ میرا کام تو انصاف دینا تھا ۔ بلکہ یہ بھی آپ کا معاملہ ھے ۔ کیا واقعی آپ نہیں جانتے کہ وہ علاقہ جہاں آپ پیدا ھوئے وہاں کتنے ہسپتال ہیں ۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ وہاں کتنے غریب لوگ ہیں جن میں دوائی لینے کی سکت نہیں ۔
جناب چیف جسٹس صاحب اس کے بعد انسان کی سب سے بڑی ضرورت خوراک اور لباس ھے اور گھر ہے ۔ سر کیا آپ کو نہیں معلوم کہ پاکستان میں سڑکوں پر آتے جاتے ہی سہی آپ دیکھتے ھونگے کہ کتنے بے قرار لوگ بھوکے اور ننگے دربدر پھر رہے ہیں ۔ جن کے تن پر کپڑا نہیں ۔ جو ہر ٹریفک لائٹ پر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں ۔ کار جس میں آپ یا ھم سفر کرتے ہیں جس کے باہر 50 اور اندر 16 ٹمپریچر ھوتا ھے یہ لوگ ابلتی،جلتی تارکول والی سڑک پر ننگے پاوں آ کر آپ کی کار کے شیشے پیٹتے ہیں
جناب چیف جسٹس صاحب آپ کو معلوم ھے ناں کہ یہاں سکول بند ہیں ۔ سکول بند ھونے کے باوجود ہزاروں ظالم انسان گھر بیٹھ کر مافیا کے ساتھ مل کر تنخواہ لیتے ہیں ۔ کیا آپ کو واقعی علم نہیں ؟ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ بیرون ملک سے کروڑوں کے فنڈ آتے ہیں تاکہ آپ کے ملک کے غریب اور لاچار لوگوں کو تعلیم دی جاسکے۔ اور وہ کئی رانے، ملانے، مداری اور زرداری، شریف اور بدمعاش ان فنڈز کو ایسے نوچ کھاتے ہیں جیسے گدھ مرے جانور کو ماس کھائیں
جناب چیف جسٹس صاحب آپ کے علم میں یہ تو ھوگا کہ جس ملک کے آپ سب سے بڑے عہدہ پر ہیں اس کے سکولوں میں کئی طرح کا نظام ھے کہ کچھ سکولوں میں تو کئی والدین اور ان کئ بچے ان کے پاس گزرنے کا بھی نہیں سوچ سکتے ۔ ان سکولوں اور اداروں کے مالکان ٹیکس چور اور ظالم ہیں ۔ وہ بہت ہی پڑھی لکھی خواتین کو گھٹیا تنخواہ پر رکھ کر شدید ترین گرمی اور برے حالات میں کام پر مجبور کرتے ہیں ۔ اور وہ خواتین اپنی نوکری اور گھر کی ضروریات کے چکر میں گھن چکر بن جاتی ہیں اور گھن کی طرح پس جاتی ہیں
محترم سر ، یہ مخلوق آپ کی ذمہ داری ھے ۔ جو تاج اللہ نے آپ کے سر پر رکھا ھے وہ اس بات کہ علامت ہے کہ اللہ نے آپ کو اس عظیم ذمہ داری کے قابل جانا ۔ یہ ملک اسی طرح رہنا ھے ۔ ھم رہیں نہ رہیں، اور آپ اتنے بڑے عہدے کے باوجود نہیں رہیں گے ۔ لیکن معاشروں پر تہذیبوں پر کئے گئے احسان قومیں یاد رکھتی ہیں ۔
SENT THIS VIA EMAIL TO HONORABLE CHIEF JUSTICE PAKISTAN