شب و روز زند گی قسط 54
انجم صحرائی
صدر بازار میں لو ہے کی دکان کے مالک حافظ امتیاز ایک نیک اور باعمل شخصیت تھے حا فظ امتیاز کے ساتھ ہی شمشاد کی دکان تھی وہ خراد مشین کے ایک اچھے کاریگر تھے بڑے محنتی آ دمی تھے ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر بنے غالبا ان کا نام ڈاکٹر ناصر ہے ۔ ڈاکٹر یا مین کے ایک بیٹے اعلی تعلیم کے لئے رشیا گئے اور وہاں سے ڈاکٹر بن کر لوٹے ۔ ڈاکٹر نعیم آج کل کوٹ سلطان ہسپتال میں میڈ یکل آ فیسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ،ڈاکٹر نعیم کے ابڑے بھا ئی محمد یو نس میرے کلا س فیلو تھے ۔ صدر بازار میں ہی محمد شفیع کی کپڑے کی دکان تھی ان کے ایک بیٹے یا مین زبیری میرے ہم عمر اور ہم جما عت تھے اللہ بخشے یا مین زبیری بڑی صلا حیتوں کے ما لک اور کا میاب تا جر
انجم صحرائی
صدر بازار میں لو ہے کی دکان کے مالک حافظ امتیاز ایک نیک اور باعمل شخصیت تھے حا فظ امتیاز کے ساتھ ہی شمشاد کی دکان تھی وہ خراد مشین کے ایک اچھے کاریگر تھے بڑے محنتی آ دمی تھے ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر بنے غالبا ان کا نام ڈاکٹر ناصر ہے ۔ ڈاکٹر یا مین کے ایک بیٹے اعلی تعلیم کے لئے رشیا گئے اور وہاں سے ڈاکٹر بن کر لوٹے ۔ ڈاکٹر نعیم آج کل کوٹ سلطان ہسپتال میں میڈ یکل آ فیسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ،ڈاکٹر نعیم کے ابڑے بھا ئی محمد یو نس میرے کلا س فیلو تھے ۔ صدر بازار میں ہی محمد شفیع کی کپڑے کی دکان تھی ان کے ایک بیٹے یا مین زبیری میرے ہم عمر اور ہم جما عت تھے اللہ بخشے یا مین زبیری بڑی صلا حیتوں کے ما لک اور کا میاب تا جر
تھے انہوں نے اپنی اولاد کو بہتر طریقہ سے زیور تعلیم سے آرا ستہ کیا ان کے ایک بیٹے ند یم زبیری بنک آ فیسر ہیں جب کہ دوسرے میجر اشفاق زبیری پاک آ رمی میں خد مات انجام دے رہے ہیں دھرمشا لہ اسکول میں ایک استاد ہوا کرتے تھے ان کا نام تھا ما سٹر عا شق ۔ وہ ہمارے محلے میں ہی رہتے تھے ان کے بڑے بیٹے عابد میرے دوست تھے ان کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر ریاض ہیں جو اس وقت کوٹ سلطان ہسپتال میں میڈ یکل سپر نٹنڈنٹ کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
دھرم شا لہ میری پہلی درسگاہ ہے یہ بات میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں دھرم شالہ پرائمری اسکول کی عمارت قیام پا کستان سے قبل شا ئد ہندووں کی عبادت گاہ ہوا کرتی تھی اس کی پرا نی مر کزی عمارت خو بصور سفید ملائم اور چکنے پتھروں سے بنی تھی کمروں کی اونچی چھتوں پر اور دیواروں پر نمو مان سمیت بہت سے دیوی دیوتاؤں کی رنگین تصویریں کنند ہ تھیں عمارت کے کمروں کی چھتیں اونچی اور ہوادار تھیں ہر کمرے میں روشندان اور کھڑ کیاں لگی تھیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ کمروں میں الماریاں بھی بنی تھیں غرض یہ عمارت ایسی بنی تھی کہ اس کے مکیں کو کشادگی کا احساس ہوتا تھا لیکن اسی کشادہ اور کھلی عمارت کا ایک کمرہ ایسا بھی تھا جہاں جاتے ہو ئے ڈر لگتا تھا نہ معلوم کیوں ؟ لیکن اس کمرے بارے بہت سی کہا نیاں سننے کو ملتی تھیں ۔ سکول کا مر کزی گیٹ لکڑی کا ایک عام سا دروازہ تھا اور دروازے کے بالکل سا منے برگد کا ایک بڑا اور بو ڑحا سا درخت تھا جو اپنی لمبی لمبی شا خوں سے زمین کے اس ٹکڑے پر سا یہ کئے رکھتا تھا یہ بوڑھا درخت ہو سکتا ہے کہ آج بھی ہو اگر ہے تو یقیناًبر گد کا یہ بوڑھا درخت صدیوں کی تاریخ کا گواہ ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ گر میوں کے موسم میں بہت سے لوگ اس بوڑھے بر گد کے درخت تلے تپتی دو پہر گزارا کرتے تھے اسکول کے ساتھ ہی بدر پہلوان کا کنواں ہوا کرتا تھا اور اسی کنویں کے ساتھ اکھاڑہ تھا جہاں کوٹ سلطان کے پہلوان اور نوجوان ورزش کیا کرتے تھے ۔ اس وقت کے پہلوانوں میں بدر پہلوان اور مودن پہلوان کا بڑا نام تھا مجھے یاد ہے جب میں دنگلوں کے بڑے بڑے رنگین پو سٹرز پر ان پہلوانوں کی تصویریں دیکھتا تو جی چا ہتا کہ میں بھی پہلوان بن جا ؤں اور میری تصویریں بھی رنگین پو سٹر پر شا ئع ہوں مگر چچا غالب نے کہا ہے نا کہ ہزاروں خوا ہشیں ایسی کہ ہر خوا ہش پہ دم نکلے ہماری یہ خوا ہش بھی یبس بہت سی خوا ہشوں کی طرح خواہش ہی رہی ۔
اسکول کے جانب غرب مٹی سے بنا حفا ظتی بند کوٹ سلطان تھل اور نشیب کے علاقہ میں حد فا صل کی حیثیت رکھتا ہے گر میوں کے سیزن میں جب دریا ئے سندھ میں سیلاب آ تا ہے اور نشیب کا سارا علاقہ پا نی پانی ہو جاتا ہے مٹی کا بنا یہ حفا ظتی بند جہاں تھل کے علاقے کو سیلا بی ریلے سے محفوظ رکھتا وہاں پکنک پوائینٹ بھی اختیار کر لیتا ہے جہان لوگ بھر پور انجوائے کرتے ۔اس زما نے میں اس بند پر دو رویہ لگے شیشم کے درخت وں کا سایہ گر میوں میں من چلوں کے لئے ایک غنیمت سے کم نہیں تھا ۔
کوٹ سلطان کا شو شل راؤنڈ اپ مکمل نہیں ہو سکتا اگر حکیم صو فی غلام نبی کا ذکر نی کیا جا ئے ۔ صو فی حکیم غلام نبی باروی علاقے کے معروف معالج تھے کہا جاتا تھا ہے کہ وہ اتنے بڑے حکیم تھے کہ مریض کا چہرہ دیکھ کر مرض بتا دیتے تھے ، کمہاروں والی آ وی کے نزدیک ان کا دواخانہ ہر وقت مریضوں سے بھرا رہتا تھا اور صو فی صاحب اپنے دواخانہ میں بنے چبو ترے پر بیٹھے مو ٹے مو ٹے سیاہ منکوں والی لمبی سی تسبیح پڑ ھتے ہو ئے مریض دیکھنے میں مصروف رہتے جب وقت ملتا دواخا نہ کے سا منے بچھی ہو ئی چا رپائی پر بھی آ بیٹھتے اور تسبیح پڑ ھتے رہتے ۔ صو فی صاحب علاقہ تھل کی معروف رو حانی شخصیت پیر بارو کے مرید خا ص تھے پیر بارو اپنے اس مرید سے بہت پیار اور شفقت فر ماتے جب بھی کوٹ سلطان آ تے اپنے مرشد کی میز با نی کا شرف صو فی صاحب کا اعزاز بنتا ۔ صو فی غلام نبی کے ایک بیٹے حکیم عبد الرشید ڈی ایچ کیو ہسپتال لیہ میں فرائض انجام دے رہے ہیں جب کہ دوسرا بیٹا بہا ولپور میں ڈاکٹر ہے ۔
کوٹ سلطان کی جام فیملی کے جام ظفر اللہ محکمہ تعلیم لیہ کے ڈسٹر کٹ آ فیسر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو ئے وہ بھی پیر بارو کے مرید تھے اسی نا طے جام ظفر اللہ صو فی غلام نبی کے بھی خا صے قریب تھے جام ظفر اللہ ایک با اخلاق اور درویش منش انسان تھے کہا جاتا ہے کہ ان دو نوں مریدین کو ان کے مرشد پیر بارو نے خلعت سے نوازا تھا ۔ جام ظفر اللہ کے بعد کوٹ سلطان سے تعلق رکھنے والے میاں فرید نظا می بھی محکمہ تعلیم میں ڈسٹر کٹ آ فیسر رہے یہ وہ زما نہ تھا جب سیاست مار شل لاء ایڈ منسٹریٹر کی چادر اوڑھے جمہوریت کا چا ند بنی ہو ئی تھی سر کاری ملاز متیں میرٹ اور اہلیت کی بجائے ممبرن اسمبلی کی پسند و نا پسند کی بنیاد پر اندھے کی ریوڑ یوں کی طرح با نٹی جا تی تھیں ۔خا ص طور پر محکمہ تعلیم اند ھیرنگری بنا ہوا تھا دروغ بر گردن راوی سرکاری ملاز متوں کے اپا ئٹمنٹ لیٹر مجاز افسران کی بجا ئے ممبران اسمبلی کے پرا ئیویٹ سیکرٹری ڈیروں پر بیٹھ کر تقسیم کرتے تھے اور افسران بے چا رے مجبور محض بنے رہ گئے تھے شا ئد کسی نے اسی دورکے بارے کہا ہے کہ” اند ھا با نٹے ریوریاں اور دے اپنے اپنوں کو ”
لیکن دیر ہے اند ھیر نہیں کے مصداق جب اقتدار کا ہما اڑ گیا تو آ نے والے نئے حکمرانوں نے احتساب کے نام پر حساب کتاب شروع کر دیا ۔ ذمہ دار جمہوریت نوازوں کو تو کیا ہو نا تھا حساب کا شکنجہ بے چارے کمزور سر کاری اہلکاران کا مقدر بنا اور یوں میاں نظا می بھی اس کڑے دور میں خا صی مشکلات کا شکار رہے ۔
صو فی غلام نبی کے دواخاننہ کے قریب ہی ایک مسجد تھی اس مسجد میں تعلیم القرآن کا ایک مدر سہ بھی قائم کیا ہوا تھا جس کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری صو فی غلام نبی نے سنبھالی ہو ئی تھی مجھے یاد ہے اس زما نے میں مسجد کی اما مت اور مدرسہ میں زیر تعلیم بچوں کو قرآن مجید کی حفظ و نا ظرہ تعلیم حافظ غلام سرور کے ذمہ تھیں خا صے عر صے تک حا فظ غلام سرور اس مسجد سے وابستہ رہے کئی بر سوں کے بعد میری ان سے ملاقات ہو ئی تو انہوں نے بتایا کہ حا فظ حمید کی وفات کے بعد اب وہ اڈے والی مسجد میں اما مت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ، حا فظ حمید ایک نیک اور با عمل شخصیت تھے وہ ہمارے پڑوسی بھی تھے ان کے ایک بیٹے امتیاز میرے کلاس فیلو تھے جب کہ بڑے بیٹے عبد الرشید پاک آ ر می میں تھے ۔ کوٹ سلطا ن شہر کے دیگر حفاظ میں مسجد بلو چاں کے امام حافظ منور اور مسجد درزیاں والی کے حافظ نثار بھی اس زما نے کے معروف معلم قرآن تھے ۔
کوٹ سلطان صدر بازار کی مسجد قا ضیاں والی کے امام قا ضی مو لانا عبد الکریم ایک جید عالم اور بے بدل خطیب تھے قا ضی صاحب پیر نظام الدین تو نسوی کے مرید تھے ان کا خطبہ جمعہ سننے کے لئے کوٹ سلطان شہر کے گردو نواح کے نشیب اور تھل کے علاقوں سے دور دور سے لوگ آ تے نمازہ جمعہ کے وقت نما زیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو تی کہ مسجد کے صحن کے علاوہ بازار کی ملحقہ دکا نوں کی چھتوں پر بھی نماز جمعہ ادا کی جا تی ۔قاضی عبد الکریم کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے قا ضی عبد الرحیم نے مسجد میں اما مت کے فرائض انجام دیئے ، ان کی وفات کے بعد اب ذو الفقار شاہ مسجد میں اما مت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
ذو الفقار شاہ سے میرا بڑا پیار کا رشتہ ہے وہ ایک متوکل اور با علم شخصیت ہیں یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کوٹ سلطان چھوڑ کے لیہ آ بسا تھا سال دو ہزار چار میں میرا نیا نیا ہارٹ آ پریشن ہوا تھا آ پریشن کے بعد خا صی کمزوری تھی لیکن میں ہمت کر کے روز گھر سے نکلتا اور کالج روڈ پر واقع اپنے دوست ضیا ء اللہ خان نا صر کی فوٹو شاپ لیہ فوٹو گیلری پر جا بیٹھتا ۔ حسب معمول ایک دن میں دوکان پر بیٹھا ہوا تھا میں نے دیکھا سا منے ڈگری کالج کی دیوار کے ساتھ ساتھ ذو القار شاہ ہا تھ میں بڑی سی سو ٹی تھا مے چہل قد می فرما رہے ہیں ۔ میں نے ضیاء سے کہا ضیاء بھا ئی اس بندے کو تو بلا لاؤ ۔ ذو القار شاہ آ ئے مجھے دیکھا بہت خوش ہو ئے گرم جو شی سے ملے میں نے پو چھا خیریت یہاں کیسے ، کہنے لگے کہ بیٹی کالج میں ایم اے انگلش کا پیپر دے رہی ہے اس کا انتظار کر رہا ہوں ۔مجھے مضمحل دیکھا تو پو چھا کہ کیا ہوا بہت کمزور لگ رہے ہو میں نے انتہائی کمزور اور بیمار آ واز بنا کے جواب دیا کہ شا ہ جی ! ہارٹ آ پریشن ہوا ہے میرا جواب سن کر بو لے اچھا اور خا موش ہو گئے ۔ میں نے پو چھا اآ پ کیسے ہیں مسکرا کر بو لے اللہ کا شکر ہے ۔ گذ شتہ سا لوں میں اب تک نو ہارٹ اٹیک ہو چکے ہیں ، ان کا جواب سن کر میں انہیں دیکھتا رہ گیا ۔۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے ان کے مسکراتے لب اور روشن آ نکھیں کہہ رہے ہوں کہ پتہ چلا اللہ پر توکل کسے کہتے ہیں ؟ ۔۔۔با قی اگلی قسط میں
دھرم شا لہ میری پہلی درسگاہ ہے یہ بات میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں دھرم شالہ پرائمری اسکول کی عمارت قیام پا کستان سے قبل شا ئد ہندووں کی عبادت گاہ ہوا کرتی تھی اس کی پرا نی مر کزی عمارت خو بصور سفید ملائم اور چکنے پتھروں سے بنی تھی کمروں کی اونچی چھتوں پر اور دیواروں پر نمو مان سمیت بہت سے دیوی دیوتاؤں کی رنگین تصویریں کنند ہ تھیں عمارت کے کمروں کی چھتیں اونچی اور ہوادار تھیں ہر کمرے میں روشندان اور کھڑ کیاں لگی تھیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ کمروں میں الماریاں بھی بنی تھیں غرض یہ عمارت ایسی بنی تھی کہ اس کے مکیں کو کشادگی کا احساس ہوتا تھا لیکن اسی کشادہ اور کھلی عمارت کا ایک کمرہ ایسا بھی تھا جہاں جاتے ہو ئے ڈر لگتا تھا نہ معلوم کیوں ؟ لیکن اس کمرے بارے بہت سی کہا نیاں سننے کو ملتی تھیں ۔ سکول کا مر کزی گیٹ لکڑی کا ایک عام سا دروازہ تھا اور دروازے کے بالکل سا منے برگد کا ایک بڑا اور بو ڑحا سا درخت تھا جو اپنی لمبی لمبی شا خوں سے زمین کے اس ٹکڑے پر سا یہ کئے رکھتا تھا یہ بوڑھا درخت ہو سکتا ہے کہ آج بھی ہو اگر ہے تو یقیناًبر گد کا یہ بوڑھا درخت صدیوں کی تاریخ کا گواہ ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ گر میوں کے موسم میں بہت سے لوگ اس بوڑھے بر گد کے درخت تلے تپتی دو پہر گزارا کرتے تھے اسکول کے ساتھ ہی بدر پہلوان کا کنواں ہوا کرتا تھا اور اسی کنویں کے ساتھ اکھاڑہ تھا جہاں کوٹ سلطان کے پہلوان اور نوجوان ورزش کیا کرتے تھے ۔ اس وقت کے پہلوانوں میں بدر پہلوان اور مودن پہلوان کا بڑا نام تھا مجھے یاد ہے جب میں دنگلوں کے بڑے بڑے رنگین پو سٹرز پر ان پہلوانوں کی تصویریں دیکھتا تو جی چا ہتا کہ میں بھی پہلوان بن جا ؤں اور میری تصویریں بھی رنگین پو سٹر پر شا ئع ہوں مگر چچا غالب نے کہا ہے نا کہ ہزاروں خوا ہشیں ایسی کہ ہر خوا ہش پہ دم نکلے ہماری یہ خوا ہش بھی یبس بہت سی خوا ہشوں کی طرح خواہش ہی رہی ۔
اسکول کے جانب غرب مٹی سے بنا حفا ظتی بند کوٹ سلطان تھل اور نشیب کے علاقہ میں حد فا صل کی حیثیت رکھتا ہے گر میوں کے سیزن میں جب دریا ئے سندھ میں سیلاب آ تا ہے اور نشیب کا سارا علاقہ پا نی پانی ہو جاتا ہے مٹی کا بنا یہ حفا ظتی بند جہاں تھل کے علاقے کو سیلا بی ریلے سے محفوظ رکھتا وہاں پکنک پوائینٹ بھی اختیار کر لیتا ہے جہان لوگ بھر پور انجوائے کرتے ۔اس زما نے میں اس بند پر دو رویہ لگے شیشم کے درخت وں کا سایہ گر میوں میں من چلوں کے لئے ایک غنیمت سے کم نہیں تھا ۔
کوٹ سلطان کا شو شل راؤنڈ اپ مکمل نہیں ہو سکتا اگر حکیم صو فی غلام نبی کا ذکر نی کیا جا ئے ۔ صو فی حکیم غلام نبی باروی علاقے کے معروف معالج تھے کہا جاتا تھا ہے کہ وہ اتنے بڑے حکیم تھے کہ مریض کا چہرہ دیکھ کر مرض بتا دیتے تھے ، کمہاروں والی آ وی کے نزدیک ان کا دواخانہ ہر وقت مریضوں سے بھرا رہتا تھا اور صو فی صاحب اپنے دواخانہ میں بنے چبو ترے پر بیٹھے مو ٹے مو ٹے سیاہ منکوں والی لمبی سی تسبیح پڑ ھتے ہو ئے مریض دیکھنے میں مصروف رہتے جب وقت ملتا دواخا نہ کے سا منے بچھی ہو ئی چا رپائی پر بھی آ بیٹھتے اور تسبیح پڑ ھتے رہتے ۔ صو فی صاحب علاقہ تھل کی معروف رو حانی شخصیت پیر بارو کے مرید خا ص تھے پیر بارو اپنے اس مرید سے بہت پیار اور شفقت فر ماتے جب بھی کوٹ سلطان آ تے اپنے مرشد کی میز با نی کا شرف صو فی صاحب کا اعزاز بنتا ۔ صو فی غلام نبی کے ایک بیٹے حکیم عبد الرشید ڈی ایچ کیو ہسپتال لیہ میں فرائض انجام دے رہے ہیں جب کہ دوسرا بیٹا بہا ولپور میں ڈاکٹر ہے ۔
کوٹ سلطان کی جام فیملی کے جام ظفر اللہ محکمہ تعلیم لیہ کے ڈسٹر کٹ آ فیسر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو ئے وہ بھی پیر بارو کے مرید تھے اسی نا طے جام ظفر اللہ صو فی غلام نبی کے بھی خا صے قریب تھے جام ظفر اللہ ایک با اخلاق اور درویش منش انسان تھے کہا جاتا ہے کہ ان دو نوں مریدین کو ان کے مرشد پیر بارو نے خلعت سے نوازا تھا ۔ جام ظفر اللہ کے بعد کوٹ سلطان سے تعلق رکھنے والے میاں فرید نظا می بھی محکمہ تعلیم میں ڈسٹر کٹ آ فیسر رہے یہ وہ زما نہ تھا جب سیاست مار شل لاء ایڈ منسٹریٹر کی چادر اوڑھے جمہوریت کا چا ند بنی ہو ئی تھی سر کاری ملاز متیں میرٹ اور اہلیت کی بجائے ممبرن اسمبلی کی پسند و نا پسند کی بنیاد پر اندھے کی ریوڑ یوں کی طرح با نٹی جا تی تھیں ۔خا ص طور پر محکمہ تعلیم اند ھیرنگری بنا ہوا تھا دروغ بر گردن راوی سرکاری ملاز متوں کے اپا ئٹمنٹ لیٹر مجاز افسران کی بجا ئے ممبران اسمبلی کے پرا ئیویٹ سیکرٹری ڈیروں پر بیٹھ کر تقسیم کرتے تھے اور افسران بے چا رے مجبور محض بنے رہ گئے تھے شا ئد کسی نے اسی دورکے بارے کہا ہے کہ” اند ھا با نٹے ریوریاں اور دے اپنے اپنوں کو ”
لیکن دیر ہے اند ھیر نہیں کے مصداق جب اقتدار کا ہما اڑ گیا تو آ نے والے نئے حکمرانوں نے احتساب کے نام پر حساب کتاب شروع کر دیا ۔ ذمہ دار جمہوریت نوازوں کو تو کیا ہو نا تھا حساب کا شکنجہ بے چارے کمزور سر کاری اہلکاران کا مقدر بنا اور یوں میاں نظا می بھی اس کڑے دور میں خا صی مشکلات کا شکار رہے ۔
صو فی غلام نبی کے دواخاننہ کے قریب ہی ایک مسجد تھی اس مسجد میں تعلیم القرآن کا ایک مدر سہ بھی قائم کیا ہوا تھا جس کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری صو فی غلام نبی نے سنبھالی ہو ئی تھی مجھے یاد ہے اس زما نے میں مسجد کی اما مت اور مدرسہ میں زیر تعلیم بچوں کو قرآن مجید کی حفظ و نا ظرہ تعلیم حافظ غلام سرور کے ذمہ تھیں خا صے عر صے تک حا فظ غلام سرور اس مسجد سے وابستہ رہے کئی بر سوں کے بعد میری ان سے ملاقات ہو ئی تو انہوں نے بتایا کہ حا فظ حمید کی وفات کے بعد اب وہ اڈے والی مسجد میں اما مت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ، حا فظ حمید ایک نیک اور با عمل شخصیت تھے وہ ہمارے پڑوسی بھی تھے ان کے ایک بیٹے امتیاز میرے کلاس فیلو تھے جب کہ بڑے بیٹے عبد الرشید پاک آ ر می میں تھے ۔ کوٹ سلطا ن شہر کے دیگر حفاظ میں مسجد بلو چاں کے امام حافظ منور اور مسجد درزیاں والی کے حافظ نثار بھی اس زما نے کے معروف معلم قرآن تھے ۔
کوٹ سلطان صدر بازار کی مسجد قا ضیاں والی کے امام قا ضی مو لانا عبد الکریم ایک جید عالم اور بے بدل خطیب تھے قا ضی صاحب پیر نظام الدین تو نسوی کے مرید تھے ان کا خطبہ جمعہ سننے کے لئے کوٹ سلطان شہر کے گردو نواح کے نشیب اور تھل کے علاقوں سے دور دور سے لوگ آ تے نمازہ جمعہ کے وقت نما زیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو تی کہ مسجد کے صحن کے علاوہ بازار کی ملحقہ دکا نوں کی چھتوں پر بھی نماز جمعہ ادا کی جا تی ۔قاضی عبد الکریم کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے قا ضی عبد الرحیم نے مسجد میں اما مت کے فرائض انجام دیئے ، ان کی وفات کے بعد اب ذو الفقار شاہ مسجد میں اما مت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
ذو الفقار شاہ سے میرا بڑا پیار کا رشتہ ہے وہ ایک متوکل اور با علم شخصیت ہیں یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کوٹ سلطان چھوڑ کے لیہ آ بسا تھا سال دو ہزار چار میں میرا نیا نیا ہارٹ آ پریشن ہوا تھا آ پریشن کے بعد خا صی کمزوری تھی لیکن میں ہمت کر کے روز گھر سے نکلتا اور کالج روڈ پر واقع اپنے دوست ضیا ء اللہ خان نا صر کی فوٹو شاپ لیہ فوٹو گیلری پر جا بیٹھتا ۔ حسب معمول ایک دن میں دوکان پر بیٹھا ہوا تھا میں نے دیکھا سا منے ڈگری کالج کی دیوار کے ساتھ ساتھ ذو القار شاہ ہا تھ میں بڑی سی سو ٹی تھا مے چہل قد می فرما رہے ہیں ۔ میں نے ضیاء سے کہا ضیاء بھا ئی اس بندے کو تو بلا لاؤ ۔ ذو القار شاہ آ ئے مجھے دیکھا بہت خوش ہو ئے گرم جو شی سے ملے میں نے پو چھا خیریت یہاں کیسے ، کہنے لگے کہ بیٹی کالج میں ایم اے انگلش کا پیپر دے رہی ہے اس کا انتظار کر رہا ہوں ۔مجھے مضمحل دیکھا تو پو چھا کہ کیا ہوا بہت کمزور لگ رہے ہو میں نے انتہائی کمزور اور بیمار آ واز بنا کے جواب دیا کہ شا ہ جی ! ہارٹ آ پریشن ہوا ہے میرا جواب سن کر بو لے اچھا اور خا موش ہو گئے ۔ میں نے پو چھا اآ پ کیسے ہیں مسکرا کر بو لے اللہ کا شکر ہے ۔ گذ شتہ سا لوں میں اب تک نو ہارٹ اٹیک ہو چکے ہیں ، ان کا جواب سن کر میں انہیں دیکھتا رہ گیا ۔۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے ان کے مسکراتے لب اور روشن آ نکھیں کہہ رہے ہوں کہ پتہ چلا اللہ پر توکل کسے کہتے ہیں ؟ ۔۔۔با قی اگلی قسط میں
انجم صحرائی
subhepak@hotmail.com