شام کے سائے پھیل رہے تھے ۔ایسے میں اس گھنے جنگل میں اس جھونپڑی کا وجود مائی بھاگی کے لیے باعث تقویت تھا ۔وہ کچھ دیر تذبذب میں باہر کھڑی رہی پھر اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہوئی ۔مٹی کا دیا ایک کنستر پر رکھا ہلکی سی روشنی پھیلا رہا تھا ایک طرف ایک بزرگ نماز ادا کر رہے تھے جب کہ پاس ہی چٹائی پر بچی ہمک رہی تھی ۔مائی بھاگی پل بھر میں اسے پہچان گئی اورقریب آ کر اسے اسے گود میں بھر لیا ۔ آؤ بی بی ہم تمہارے ہی منتظر تھے ۔گاؤں تو اجڑ گیا واپس جانا چاہو تو پہنچا دیں گے اور اگر کہیں اور جانا چاہو تو بھی۔بابا صاحب سلام پھیرنے کے بعد مائی بھاگی سے مخاطب ہوئے ۔ مائی بھاگی کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔بابا سائیں میرا رب سائیں کے سوا کون ہے ۔یہ بچی۔ ۔ بابا صاحب نے ہاتھ اٹھا کر کہا بی بی اس بچی کی فکر نہ کرو یہ اللہ کی مہمان ہے ۔تم اس کے ساتھ رہنا چاہو گی؟ جی بابا سائیں اس کی مرتی ماں نے اسے میرے حوالے کیا تھا اب نہ میرا کوئی اور نہ اس کا ۔ مائی بھاگی نے بچی کو سینے سے لگا لیا ۔ٹھیک ہے اس کا خیال رکھنا ۔اس کی ذمہ داری اللہ نے ہمیں سونپی جب تک وہ چاہے گا ۔
عامون جاؤ بی بی اور زینب کی رہائش کا انتظام کرو ۔جی بابا صاحب ۔مائی بھاگی آواز سن کر چونک گئی اس کے سامنے۔ایک شخص کھڑا تھا ۔پہلے تو نظر نہیں آیا ۔وہ سوچنے لگ گئی ۔عامون مسکرایا ۔آؤ بی بی لاؤ بچی مجھے دے دو ۔
ارے کمبخت کب تک سوئے گا اٹھ جا مجھے جانا ہے بازار ۔بانو آپا نے کھینچ کر چپل سوئے ہوئے جلیل کو رسید کی ۔ہائے مر گیا اری اماں کیا مصیبت آگئی ۔وہ چلایا ۔ناس پیٹے۔اٹھ جا کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا ۔غضب خدا کا جوان جہان لونڈے کے ہوتے ہوئے بوڑھی ماں مزدوری کرتی دھکے کھاتی ہے ۔شرم کر اٹھ جا ۔بانو آپا کافی طیش میں تھی ۔جلیل نے اٹھنے میں ہی عافیت جانی ۔فکر نہ کر اماں ایک دن تیرا بیٹا بہت امیر بن جائیگا ۔وہ رفیق ہے ناں چاچا فقیر دین کا بیٹا اس نے ایک بنگالی بابا کا بتایا ہے بس ایک بار میری لاٹری کا ٹکٹ نکلنے کی دیری ہے بس ۔ ۔ ۔ بات مکمل ہونے سکے پہلے دوسری چپل اس کی کمر کو سینک چکی تھی ۔افف اماں ۔ ۔وہ بلبلا اٹھا ۔بانو آپا بڑبڑاتی ہوئی برقع سر پر رکھے باہر نکل گئی۔
جلیل نے لمبی سی انگڑائی لی اور مذید سونے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے غسل خانے کا رخ کیا ۔پاپے اور چائے کا ناشتہ کر کے باہر کا رخ کیا تالا لگا کر چابی نجمہ خالہ کو دیکر رفیق کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ۔رفیق کے گھر کی گلی میں کونے کے خالی مکان میں کوئی کرایہ دار آگیا تھا شاید ۔ایک ادھیڑ عمر کی عورت نے بچی گود میں اٹھا رکھی ۔اور مرد کے ہاتھ میں سودا سلف تھا وہ گھر میں داخل ہو رہے تھے۔
باقی آئندہ۔