• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

*ایک آئین کے ایک ملک میں دو ادارے* ۔۔۔ تحریر ۔ مہر کامران تھند لیہ

webmaster by webmaster
جنوری 4, 2019
in کالم
0
*ایک آئین کے ایک ملک میں دو ادارے* ۔۔۔  تحریر ۔ مہر کامران تھند لیہ

ایک اخبار میں خبر پڑھی کہ محکمہ صحت نے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو اپنے یا کسی بھی نجی کلینک میں پریکٹس کی اجازت دے دی ، دوسری خبر میں تھا کہ محکمہ تعلیم نے سرکاری اساتذہ کو نجی اکیڈیمیوں میں پڑھانے اور چلانے پر پابندی لگا دی ہے ، یہ ایک آئین کے ایک ملک کے ایک صوبہ میں دو اداروں کی مختلف کی خبریں تھی تو خیال آیا کہ لیہ میں ہزاروں کی تعداد میں نجی کلینک قائم ہیں جس میں سرکاری ڈاکٹرز ہسپتالوں میں اپنی ڈیوٹی کے بعد مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ڈاکٹر روزانہ 30 سے چالیس مریض چیک اپ کرتا ہے اور اپنے کلینک پر اسطا ایک مریض کو 5-7 منٹ دیتا ہے جس کی فیس 500 سے ایک ہزار تک وصول کرتا ہے اس کے لئیے مختلف قسم کے ٹیسٹ اور ادویات الگ ہوتی ہیں جو کہ اسی نجی کلینک کی لیبارٹری اور فارمیسی سے منسلک ہوتے ہیں اور رقم کی ادائیگی الگ سے کی جاتی ہے ، جبکہ انہی نجی کلینک پر اپریشن کی مد میں 25 سے 50 ہزار روپے الگ سے ادا کئیے جاتے ہیں ، اگر انکی ماہانہ آمدنی کا اندازا لگائیں تو یہ ایک الگ کہانی ہو گی اور یہ لوگ کتنا ٹیکس دیتے ہیں الگ کہانی بنے گی ، گزشتہ دنوں مجھے زاتی طور پر تین سے چار ڈاکٹرز کے ساتھ ایک زاتی مریض کے ساتھ چیک اپ اور اپریشن کرانے کا تجربہ ہوا تو حیران رہ گیا کیونکہ ایک ڈاکٹر کے پاس ایک دن میں چالیس مریضوں نے چیک اپ کرایا اور فی مریض 300 روپے فیس ادا کی اور مریض کو 5 منٹ کے بعد فارغ کر دیا اسی طرح اس ڈاکٹر نے 10 مریضوں کا اپریشن کیا جس پر اوسطا 25 سے تیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اپریشن والے مریضوں کو ایک گھنٹہ بعد فری کر دیا گیا ڈاکٹر صاحب کی اپریشن فیس 8 ہزار روپے تھی ، باقی ادویات و اپریشن کے ساز و سامان کے تھے جبکہ فارمیسی پر ڈاکٹر صاحب کا بھائی براجمان تھا ، اسی طرح ایک اور ڈاکٹر کے پاس پہنچے وہ فی مریض ایک ہزار روپے فیس وصول کرتے ہیں اور اوسطا 30 مریض روزانہ چیک اپ کرتے ہیں ، لیبارٹری کے ٹیسٹ کے لئیے بھائی کے پاس بھیجتے ہیں ، جو کہ فی مریض رعایت کے ساتھ پانچ سو میں ٹیسٹ کر دیتے ہیں ، فارمیسی کی قیمت الگ ادا کرنی پڑتی ہے اور ڈاکٹر سے وقت لینے کے لئیے تین تین دن چکر لگانے پڑتے ہیں اور سخت سردی میں ڈاکٹر صاحب کے گیراج میں مریضوں کو انتظار کرایا جا رہا تھا جہاں ہیٹر نام کی کوئی چیز درکار نہ تھی ،جبکہ ڈاکٹر صاحب خود ہیٹرڈ روم میں برجماں تھے ، شوگر ٹیسٹ ، ہیپاٹائٹس و دیگر ایک دو ٹیسٹ کے لئیے ایک نجی لیبارٹری کا رخ کیا گیا جنہوں نے بغیر کسی پیٹھالوجسٹ کے خون لے کر لیبارٹری میں ٹیسٹ کرنے کے بعد 15 منٹ میں رپورٹ جاری کر دی جس کو مایہ ناز ڈاکٹر نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے زاتی پسند کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کو بہتر مانا اور دوسری بات آدھا گھنٹہ کے وقفہ سے خون نکالنے کیوجہ سے ٹیسٹ رپورٹس میں بھی کافی فرق دیکھنے میں آیا بہرحال ایسی اور بھی مثالیں کافی ہیں جو کہ تقریبا ہرانسان کے ساتھ پیش آتی ہوں گی ، صوبہ پنجاب میں محکمہ تعلیم نے سرکاری اساتذہ پر نجی اکیڈیمیوں پر پڑھانے پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ وہ بچوں سے زیادہ فیسیں لیتے ہیں ، لیہ میں نجی کلینک کی طرح نجی اکیڈیمیاں اور تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں جو کہ بچوں سے 500 سے 3000 روپے ماہانہ فیسیں وصول کرتے ہیں ، جبکہ ایک ماہ میں 26 دن روزانہ چار سےچھ گھنٹے پڑھاتے ہیں جس میں بچوں کو کلاس روم ،پانی وبجلی کی سہولیات سمیت اساتذہ بھی مہیا کرتے ہیں ،سیکورٹی کی فراہمی بھی انکے فرائض میں شامل ہے اگر پانچ سوروپے فیس وصول کرنے والے ادارے کی بات کریں تو اوسطا ایک گھنٹہ 3 روپے میں پڑتا ہے 1000 روپے والے ادارے تمام سہولیات بمعہ تعلیم تقریبا 6 روپے فی گھنٹہ ،
3ہزار روپے فیس وصول کرنے والے 20 روپے فی گھنٹہ جبکہ 5000 روپے والے ادارے 34 روپے فی گھنٹہ تعلیمی سہولیات ادا کرتے ہیں ، جبکہ لیہ میں 5 ہزار روپے فیس لینے والے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جو کہ والدین بروقت ادا کرنے والے انتہائی کم ہوتے ہیں ، جس طرح نجی کلینک پر ٹیسٹ اور ادویات کے لئیے قریبی لوگوں کی لیبارٹریاں اور فارمیسی قائم ہوتی ہیں اسی طرح چند نجی تعلیمی اداروں کے پاس بھی یہ سہولیات ہوتی ہیں لیکن ایسا بڑے شہروں میں تو ممکن ہوتا ہے لیکن چھوٹے شہروں میں نا ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے ، حکومتیں وعدالتیں نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں پر ایکشن لیتی ہیں فیسوں کی وصولی پر رعایت کا حکم دیتی ہیں ، کٹوتی کراتی ہیں لیکن ایسا نجی کلینک و ہسپتالوں پر کیوں ایکشن نہیں لیتیں جہاں صحت بھی تعلیم کی طرح ایک بنیادی سہولت میں ہے جس کو مییا کرنا حکومت وقت کا کام ہے ، ایک ہی آئین کے ایک ہی ملک کے ایک ہی صوبہ کی ایک جیسی حکومت میں دواداروں کے درمیان الگ الگ قوانین و فیصلے کہاں تک درست ہیں اسکا فیصلہ تو شایدآنے والا وقت کرے گا کیونکہ ایک ادارہ اپنے ملازمین کو سرکاری اوقات کار کے بعد نجی کلینک پر پریکٹس کی اجازت دے رہا ہے تودوسراادارہ ان سے یہ حقوق واپس لے رہا ہے اورپابندی لگا رہا ہے دوسری جانب اعلی ادارے کی جانب سے ازخود نوٹس ، فیسوں میں کمی کے احکامات اور اضافہ کا تعین کردیا جاتا ہے تودوسری بنیادی سہولت پرخاموشی کیوں ۔۔

Tags: column by kamran thind
Previous Post

اے ڈی خواجہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کے سربراہ مقرر

Next Post

ریسکیو 1122 لیہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ 2018 جاری ، 13183ایمرجنسی متاثرین کو ریسکیو کیا۔ ڈاکٹر سجاد احمد

Next Post
ریسکیو 1122 لیہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ 2018 جاری ، 13183ایمرجنسی متاثرین کو ریسکیو کیا۔ ڈاکٹر سجاد احمد

ریسکیو 1122 لیہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ 2018 جاری ، 13183ایمرجنسی متاثرین کو ریسکیو کیا۔ ڈاکٹر سجاد احمد

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
ایک اخبار میں خبر پڑھی کہ محکمہ صحت نے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو اپنے یا کسی بھی نجی کلینک میں پریکٹس کی اجازت دے دی ، دوسری خبر میں تھا کہ محکمہ تعلیم نے سرکاری اساتذہ کو نجی اکیڈیمیوں میں پڑھانے اور چلانے پر پابندی لگا دی ہے ، یہ ایک آئین کے ایک ملک کے ایک صوبہ میں دو اداروں کی مختلف کی خبریں تھی تو خیال آیا کہ لیہ میں ہزاروں کی تعداد میں نجی کلینک قائم ہیں جس میں سرکاری ڈاکٹرز ہسپتالوں میں اپنی ڈیوٹی کے بعد مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ڈاکٹر روزانہ 30 سے چالیس مریض چیک اپ کرتا ہے اور اپنے کلینک پر اسطا ایک مریض کو 5-7 منٹ دیتا ہے جس کی فیس 500 سے ایک ہزار تک وصول کرتا ہے اس کے لئیے مختلف قسم کے ٹیسٹ اور ادویات الگ ہوتی ہیں جو کہ اسی نجی کلینک کی لیبارٹری اور فارمیسی سے منسلک ہوتے ہیں اور رقم کی ادائیگی الگ سے کی جاتی ہے ، جبکہ انہی نجی کلینک پر اپریشن کی مد میں 25 سے 50 ہزار روپے الگ سے ادا کئیے جاتے ہیں ، اگر انکی ماہانہ آمدنی کا اندازا لگائیں تو یہ ایک الگ کہانی ہو گی اور یہ لوگ کتنا ٹیکس دیتے ہیں الگ کہانی بنے گی ، گزشتہ دنوں مجھے زاتی طور پر تین سے چار ڈاکٹرز کے ساتھ ایک زاتی مریض کے ساتھ چیک اپ اور اپریشن کرانے کا تجربہ ہوا تو حیران رہ گیا کیونکہ ایک ڈاکٹر کے پاس ایک دن میں چالیس مریضوں نے چیک اپ کرایا اور فی مریض 300 روپے فیس ادا کی اور مریض کو 5 منٹ کے بعد فارغ کر دیا اسی طرح اس ڈاکٹر نے 10 مریضوں کا اپریشن کیا جس پر اوسطا 25 سے تیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اپریشن والے مریضوں کو ایک گھنٹہ بعد فری کر دیا گیا ڈاکٹر صاحب کی اپریشن فیس 8 ہزار روپے تھی ، باقی ادویات و اپریشن کے ساز و سامان کے تھے جبکہ فارمیسی پر ڈاکٹر صاحب کا بھائی براجمان تھا ، اسی طرح ایک اور ڈاکٹر کے پاس پہنچے وہ فی مریض ایک ہزار روپے فیس وصول کرتے ہیں اور اوسطا 30 مریض روزانہ چیک اپ کرتے ہیں ، لیبارٹری کے ٹیسٹ کے لئیے بھائی کے پاس بھیجتے ہیں ، جو کہ فی مریض رعایت کے ساتھ پانچ سو میں ٹیسٹ کر دیتے ہیں ، فارمیسی کی قیمت الگ ادا کرنی پڑتی ہے اور ڈاکٹر سے وقت لینے کے لئیے تین تین دن چکر لگانے پڑتے ہیں اور سخت سردی میں ڈاکٹر صاحب کے گیراج میں مریضوں کو انتظار کرایا جا رہا تھا جہاں ہیٹر نام کی کوئی چیز درکار نہ تھی ،جبکہ ڈاکٹر صاحب خود ہیٹرڈ روم میں برجماں تھے ، شوگر ٹیسٹ ، ہیپاٹائٹس و دیگر ایک دو ٹیسٹ کے لئیے ایک نجی لیبارٹری کا رخ کیا گیا جنہوں نے بغیر کسی پیٹھالوجسٹ کے خون لے کر لیبارٹری میں ٹیسٹ کرنے کے بعد 15 منٹ میں رپورٹ جاری کر دی جس کو مایہ ناز ڈاکٹر نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے زاتی پسند کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کو بہتر مانا اور دوسری بات آدھا گھنٹہ کے وقفہ سے خون نکالنے کیوجہ سے ٹیسٹ رپورٹس میں بھی کافی فرق دیکھنے میں آیا بہرحال ایسی اور بھی مثالیں کافی ہیں جو کہ تقریبا ہرانسان کے ساتھ پیش آتی ہوں گی ، صوبہ پنجاب میں محکمہ تعلیم نے سرکاری اساتذہ پر نجی اکیڈیمیوں پر پڑھانے پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ وہ بچوں سے زیادہ فیسیں لیتے ہیں ، لیہ میں نجی کلینک کی طرح نجی اکیڈیمیاں اور تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں جو کہ بچوں سے 500 سے 3000 روپے ماہانہ فیسیں وصول کرتے ہیں ، جبکہ ایک ماہ میں 26 دن روزانہ چار سےچھ گھنٹے پڑھاتے ہیں جس میں بچوں کو کلاس روم ،پانی وبجلی کی سہولیات سمیت اساتذہ بھی مہیا کرتے ہیں ،سیکورٹی کی فراہمی بھی انکے فرائض میں شامل ہے اگر پانچ سوروپے فیس وصول کرنے والے ادارے کی بات کریں تو اوسطا ایک گھنٹہ 3 روپے میں پڑتا ہے 1000 روپے والے ادارے تمام سہولیات بمعہ تعلیم تقریبا 6 روپے فی گھنٹہ ، 3ہزار روپے فیس وصول کرنے والے 20 روپے فی گھنٹہ جبکہ 5000 روپے والے ادارے 34 روپے فی گھنٹہ تعلیمی سہولیات ادا کرتے ہیں ، جبکہ لیہ میں 5 ہزار روپے فیس لینے والے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جو کہ والدین بروقت ادا کرنے والے انتہائی کم ہوتے ہیں ، جس طرح نجی کلینک پر ٹیسٹ اور ادویات کے لئیے قریبی لوگوں کی لیبارٹریاں اور فارمیسی قائم ہوتی ہیں اسی طرح چند نجی تعلیمی اداروں کے پاس بھی یہ سہولیات ہوتی ہیں لیکن ایسا بڑے شہروں میں تو ممکن ہوتا ہے لیکن چھوٹے شہروں میں نا ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے ، حکومتیں وعدالتیں نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں پر ایکشن لیتی ہیں فیسوں کی وصولی پر رعایت کا حکم دیتی ہیں ، کٹوتی کراتی ہیں لیکن ایسا نجی کلینک و ہسپتالوں پر کیوں ایکشن نہیں لیتیں جہاں صحت بھی تعلیم کی طرح ایک بنیادی سہولت میں ہے جس کو مییا کرنا حکومت وقت کا کام ہے ، ایک ہی آئین کے ایک ہی ملک کے ایک ہی صوبہ کی ایک جیسی حکومت میں دواداروں کے درمیان الگ الگ قوانین و فیصلے کہاں تک درست ہیں اسکا فیصلہ تو شایدآنے والا وقت کرے گا کیونکہ ایک ادارہ اپنے ملازمین کو سرکاری اوقات کار کے بعد نجی کلینک پر پریکٹس کی اجازت دے رہا ہے تودوسراادارہ ان سے یہ حقوق واپس لے رہا ہے اورپابندی لگا رہا ہے دوسری جانب اعلی ادارے کی جانب سے ازخود نوٹس ، فیسوں میں کمی کے احکامات اور اضافہ کا تعین کردیا جاتا ہے تودوسری بنیادی سہولت پرخاموشی کیوں ۔۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.