معذرت ، میں ملک میں مزید صو بوں کے قیام کا حا می ہو ں مگر انتظامی بنیادوں پر ۔لمجھے لسانی بنیادوں پر صو بوں کے قیام کے مطالبہ سے ہمیشہ شعوری ، فکری اور نظریاتی اختلاف رہا ہے ، گذ شتہ نصف صدی کی میرا سیاسی اور صحافتی جدو جہد میری اس بات کی گواہ ہے کہ میں نے ہمیشہ نہ صرف سرائیکی بلکہ اردو زبان کی بنیاد پر بھی صو بوں کے قیام کی مخالفت کی اور لکھا یہ میرا اصو لی موقف رہا ہے آ ج سے نہیں بلکہ آج سے تقریبا ربع صدی قبل جب شا ہین سرا ئیکی اور تاج لنگاہ جیسے اس دھرتی کے قابل فخر سیاسی کار کن اور دا نشور( ان شخصیات کے نظریات اور طریقہ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ) سرائیکی صوبے کی تحریک کے سر خیل ہوا کرتے تھے اس وقت بھی میرا موقف یہی تھا اور آج بھی میں لسا نی بنیادوں پر پا کستانی قوم کی مزید سیاسی افتراق و تفریق کو نا پسند کرتا ہوں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں سرائیکی زبان سے دور ہوں یا پھر مجھے سرائیکی زبان نا پسند ہے میں بھی بزعم خود بہت سے سرائیکی مہادانشوروں کی طرح سرائیکی زبان سے پیار کرتا ہوں ، بو لتا ہوں اور اردو کی طرح اسے بھی اپنی ماں بولی سمجھتا ہوں ۔مگر میرا عقیدہ ہے کہ ماں دھرتی پر بو لی جانے والی سرائیکی سمیت سبھی زبا نیں بہت میٹھی ہیں اور ان سب کا پیغام امن ، پیار اور محبت کا پیغام ہے اس لئے میں پا کستان ماں دھرتی پر بو لی جانے والی سبھی علاقائی زبانوں سے پیار کرتا ہوں وہ اس لئے کہ مجھے میری ماں بولی اردو اور سرا ئیکی زبان مجھے تعصب ، تنگ نظری نہیں بلکہ انسان دوستی ، امن پیار اور عاجزی کا سبق دیتی ہیں ۔
پی ٹی آئی نے اقتدار میں آ نے سے پہلے اور حکو مت بنانے کے بعد صو بہ جنو بی پنجاب کے قیام کو اپنے 100 دنوں کے پلان کی اہم تر جیح قرار دیا تھا لیکن توقع کے عین مطا بق عمران خان حکو مت کی کار کردگی گذرے سو دنوں میں ایک کمیٹی کی تشکیل اور جنو بی پنجاب سیکٹریٹ کے اعلان سے آ گے نہیں بڑھ سکی ۔گذ شتہ دنوں ضلع لیہ کے نواحی قصبہ کوٹ سلطان میں ایک مقامی تنظیم کی طرف سے پی ٹی آ ئی حکومت کی اس وعدہ خلا فی کے خلاف ایک احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا ۔ اس احتجاجی ریلی میں شر کاء نے جھو مر ڈال کر سو روزہ پلان کے مطا بق پنجاب میں ایک اور نیا صو بہ نہ بننے اور حکو متی وعدہ خلا فی کے خلاف شدید احتجاج کیا ۔یہ سرا ئیکی زبان میں چھپی محبت کا ہی جادو ہے کہ میرے وسیب کے نو جوان اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے بھی لئے جھومر ڈالتے نظر آ تے ہیں
ویسے ہمارے وسیبی کلچر میں لڈی اور جھو مر خو شی کا اظہار ہو تے ہیں شادی بیاہ اور کا میابی کی خو شی کا اظہار ڈھول کی تھاپ پر جھو مر اور لڈی ڈال کر کیا جاتا ہے جب کہ درباروں پر نقارے کی تھاپ پر دھمال ڈال کر صاحب دربار سے عقیدت کا اظہار کیا جا تا ہے اب ہماری نسل نو نے جھو مر اور لڈی کو احتجاج کے استعارے کے طور پر استعمال کر نا شروع کر دیا ہے اسلام آ باد میں ہو نے والے ایک احتجاج میں بھی جنوبی پنجاب کے نو جوانوں نے نئے صوبہ کے اپنے مطا لبہ کے حق میں لڈی اور جھو مر ڈال کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا
پر امن احتجاج کا یہ خو بصورت رنگ بہت نرالا اور منفرد ہے اس انداز احتجاج سے کو ئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لگتا یہ پر امن احتجاج بھینس کے آ گے بین بجا نے کے مترادف ہے
کہ ارباب اقتدار احتجاج کے اس رنگ سے واقف ہی نہیں وہ جھو مر اور لڈی کو احتجاج کے بجائے ثقافت کا اظہار سمجھتے ہیں اسی لئے وہ جب بھی سرائیکی اجرک پہنے وسیبی نو جوانوں کو لڈی اور جھو مر ڈالتے سڑ کوں پر نعرے لگاتے دیکھتے ہیں تب وہ مطا لبہ کی اہمیت جا ننے اور تسلیم کر نے کی بجائے وسیبی ثقافت کے رنگوں میں کھو جاتے ہیں اور سب اچھا کی رپورٹیں انہیں پر یشان کر نے کے کی بجائے مطمئن کر دیتی ہیں ۔ شا ئد لڈی اور جھو مر ڈالتے اسی پر امن احتجاج کا ہی اثر ہے کہ سو دن میں صو بہ جنو بی پنجاب کے وعدہ کی بنیاد پر بر سر اقتدار آ نے والی حکو مت کے نو منتخب صدر پا کستان ڈاکٹر عارف علوی نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جنو بی پنجاب صو بہ کا قیام کو ئی آ سان کام نہیں ۔
صو بہ جنو بی پنجاب ایک بڑا مطا لبہ ہے یہاں کی عوام کا لسا نی اور انتظا می کی رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جنو بی پنجاب میں بسنے والے سبھی لوگ صو بہ جنوبی پنجاب کا قیام چا ہتے ہیں ایک نئے صوبے کے قیام کے مطا لبہ پر کو ئی دو آ را نہیں۔ اس عوامی مطا لبہ کو منوانے کے لئے ایک منظم سیا سی جدو جہد کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے سے اختلاف کریں اور اختلاف آ پ کا حق ہے لیکن معاف کیجئے گا صرف ڈھول کی تھاپ پر لڈی اور جھومر ڈال کے ہم اپنی وسیبی ثقافت کو تو پر موٹ کر سکتے ہیں ایک نیا صوبہ نہیں بنوا سکتے ، صوبہ جنوبی پنجاب کے لئے منظم سیاسی جدو جہد نا گزیر ہے اور افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاست کے نا خداؤں کا حال یہ ہے کہ جنو بی پنجاب سے منتخب ہو نے والے تخت لا ہور کے بزعم خود قیدی اس قید سے آ زاد ہو نے کے لئے تیار نہیں اسی لئے تو زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق سو دن گذر جانے کے بعد بھی جنو بی پنجاب کے کسی شہزادے رکن اسمبلی کو یہ تو فیق نہیں ہو ئی کہ وہ اسمبلی فلور پر یہ سوال کرتا کہ آ خر صوبہ جنوبی پنجاب کیوں نہیں بن سکتا ؟ اگر بچہ رو ئے گا نہیں تو ماں ہنستے گاتے کلکاریاں مارتے بچے کو دودھ کیوں پلائے گی ؟ کو ئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ۔۔۔