اسلام آباد سے اپنی بستی جیصل کلاسرا(لیہ) جاتاہوں تو دل بہار بہار یوں ہوجاتاہے کہ بستی کے چاروں اطراف سرسبز فصلیں دیکھنے کو ملتی ہیں، اس بات کے باوجود کہ بھٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہاہے جوکہ موسمی تبدیلی کے علاوہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔اس باربستی گیاتو ایک طرف کپاس کی آخری چنائی خواتین کے ہاتھوں جاری تھی تو دوسری طرف گندم کی بجائی عروج پر تھی اور کاشتکار تھے کہ جلدی میں تھے کہ وقت ہاتھ سے نہ نکل جائے،راقم الحروف بھی اسی سلسلے میں گیاتھاکہ گندم کو بروقت کاشت کیجائے اور ڈاکٹر نعیم کلاسرا آلہ باغ کی بھی زیارت کرلی جائے اور اس بات کو بھی دیکھ لیاجائے کہ کنوکا پھل پک کراپنا رنگ تبدیل کرچکاہے یا پھر دسمبر کے آخری ہفتہ تک مکمل تیار ہوگا ۔یادرہے کہ تھل بالخصوص لیہ میں کنو، مسمی ،شکری اور فروٹر کے باغ بڑے پیمانے پر ہیں اور یہ کنواور دیگر پھل دوموسموں میں تیار ہوتے ہیں ایک طرف یہ گرمیوں کی شدت کودیکھتے ہیں تو دوسری طرف سردیوں کا سختی بھی برداشت کرتے ہیں اوریوں کمال مٹھاس اور ذائقہ کے حامل ہوتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر وہ سرپرستی نہیں ہورہی ہے جوکہ باغوں کی بہتر فصل کیلئے درکارہے۔ اس بار بستی جانے پر جہاں ایک طرف فصلوں کا دیکھ کر دل باغ ،باغ ہوا تو دوسری طرف ان میں چلنے پر تو مزا ہی آگیا۔اس خوشگوار ماحول میں اس بات پر دیگر کاشتکاروں کے ساتھ مایوسی اسوقت ہوئی جب اس بات کا پتہ چلاکہ لیہ مائنیر نہر اس بار بھی نہیں چل رہی ہے اورنہری نظام میں بہتری لانے کیلئے میں کوئی معقول فورم بھی کاشتکاروں کو فراہم نہیں کیجارہاہے کہ وہ درپیشن صورتحال کے بارے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواسکیں، پنجاب کے نہری نظام کے وزیرمحسن لغاری بھی کاشتکاروں کو نہری پانی کے بارے میں درپیشں ایشوز کے بارے میں ابھی تک کوئی پروگرام نہیں دے سکے ہیں، یوں اس بار بھی گندم کی کاشت نہری پانی کی بجائے پیٹر(چھوٹاانجن) میں ڈیزل ڈال کر کاشت کرنی ہوگی اور ڈیزل کی قیمت جہاں تک پہنچ چکی ہے،الامان الحفیظ ،اس بات کا اندازہ پارلیمنٹ میں موجود اکثریت ارکان اسمبلی کو بخوبی ہے لیکن کوئی بڑی آواز ایوان میں سنائی نہیں دے رہی ہے کہ کاشتکاروں کو ڈیزل مناسب نرخ پر دیجائے او ر حکومت اس کو کمائی کیلئے استعمال نہ کرے ۔ادھر حکومت بضد ہے اور ڈیزل کی قیمت کم کرنے پر تیار نہیں ہے بلکہ اس میں اضافہ کیلئے موقعہ ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔ادھر ڈیزل اور ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی قیمتوں کے مطابق گندم کی قیمت کو بھی نہیں بڑھایاگیاہے ۔گندم کے بیج سمیت دیگر فصلوں کے بیجوں کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کررہے ہیں لیکن حکومت کا دھیان اور طرف ہے،وہ اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں کاشتکاروں کو حکومت کی طرف سے دیاگیاریلیف دراصل شہری آبادی کو کم قیمت پر اشیاء کی فراہم میں مددگارثابت ہوگا۔ ادھر کاشتکاروں کیلئے زرعی بنک جس کی بلند وبالا عمارت کی زیارت زیروپوائنٹ اسلام آباد میں ہوتی رہتی ہے، سفید ہاتھی کی شکل اختیار کرچکاہے، زمینداروں کوفصلوں کی کاشت کیلئے قرضہ کا حصول رشوت کے بغیر نامکمن ہوچکاہے، جیسے انٹی کرپشن کا ادارہ کرپشن کے خاتمہ کی بجائے اسکی بڑھوتی میں کرداراداکررہاہے ،اسی طرح زرعی بنک کسانوں کیلئے قرضوں کی فراہمی میں سہولت پیداکرنے کی بجائے مسائل پیداکررہاہے اور اس وقت تک زرعی بنک کا عملہ قرضہ منظورنہیں کرتاہے،جب تک ایم سی اور منیجر رشوت جیب میں نہیں ڈال لیتاہے۔وزیراعظم عمران خان کاشتکاروں کو ایک ریلیف کوئی حکومتی پیسہ خرچ کیے بغیر یوں دے سکتے ہیں کہ زرعی بنک کے عملہ کو اس بات کا پابندکریں کہ وہ کاشتکاروں سے رشوت طلب نہیں کریں گے او ر جوادارے رشوت کے خاتمہ کیلئے کام کررہے ہیں ان کو بھی حکم دیں کہ وہ منتھلی کی بجائے ایسے عناصر کو قانون کی گرفت میں لائیں جوکہ کاشتکاروں کی زندگی اجیرن کررہے ہیں ۔اسی طرح کاشتکاروں کو یہ سہولت بھی تحریک انصاف کی حکومت مفت دے سکتی ہے کہ زراعت کے افسر اور ملازمین کو اس بات کا پابند کیجائے کہ وہ کاشتکاروں کو فصلوں کے حوالے معلومات بروقت فراہم کریں اور ان کے زمینداروں کے پاس جانے کا ریکارڈ مرتب کیجائے تاکہ حقیقی معنوں میں انکی موجودگی فصلوں اور زمینداروں کیساتھ زیادہ دیکھنے کو ملے۔اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں عوام کوایک ریلیف اس صورت میں بھی دے سکتی ہے کہ راولپنڈی کے پپو پٹواری جیسے لیہ کے پٹواری اللہ بخش رونگھ اور نعیم مفتی جیسے کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے اور ایسی مثال قائم کرے کہ آئندہ کوئی کاشتکاروں کیلئے رشوت کی خاطر مسائل پیداکرنے کی جرات نہ کرے، بدقسمتی سے ایسے کردار پنجاب بھر میں موجود ہیں اور انکی واردات یوں کامیاب ہوتی ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے ،یہ انکی ہاتھ کی چھڑی بن جاتے ہیں،اور وارداتوں کا ایسا ریکارڈ بناتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔لیہ کے ایک مشہور اور باعزت کردار استاد ہلاکو نے راقم الحروف کو اپنے دوست شفیق کیساتھ ہونیوالی ایک ملاقات میں اسوقت چونکا دیا جب اس نے بتایاکہ سابق رکن قومی اسمبلی کی کوٹھی کی بسیمنٹ میں سارا دن پٹواریوں کا ایک گروہ لیہ کی قیمتی زمینوں کے ریکارڈ کو سامنے رکھ کر اس تلاش میں رہتاہے کہ کہاں سے ان کا داؤ لگ سکتاہے اور وہ قیمتی اراضی کو جعلی سازی کے ذریعے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں ،اسی طرح گلبرک ہوٹل لیہ کے پاس جی ٹی ایس کے پرانے اڈے کو اوقاف کے کھاتے میں ڈال کر جس طرح پارٹی کو نوازلیگ کے دور میں اونے پونے دیاگیاہے وہ بھی ایک بڑا ڈاکہ ہے،جس پر نیب کے ایکشن کی ضرورت ہے۔اسی طرح نیب لیہ کے سابق اور موجودہ ارکان اسمبلی کے حوالے سے بھی تحقیقات کو انجام تک پہنچائے تاکہ عوام کا اعتماد بڑھے کہ ان عناصر کیخلاف بھی قانون حرکت میں آسکتاہے ۔وزیراعظم عمران خان جوکہ بڑے بڑے ایشوز میں الجھے ہوئے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لائینگے ان کو چاہیے کہ زراعت کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر زراعت کے شعبہ کیلئے جب تک بڑے پیکج کا اعلان نہیں کرسکتے ہیں اسوقت تک یہ ان عناصر کیخلاف کاروائی کیلئے تو حکم جاری کریں جوکہ زرعی بنک سے لیکر پٹوار خانوں اور منڈیوں میں مافیا کی صورت میں موجود ہیں۔اسی طرح وزیراعظم عمران خان اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ کاشتکاروں کو ان کی فصلوں کا پورا نرخ ملے اور کوئی مڈل مین ،مافیا ان کو محنت کی کمائی پر ہاتھ صاف نہ کرسکے۔
ڈاکٹر نعیم کلاسرآلہ باغ میں تھاکہ صبح سویرے لیہ کے ایک محنتی صحافی دوست مقبول الہی کا وٹس اپ پر مسیج ملا ،پڑھنے کیلئیے کلک کیاتو پتہ چلا کہ روزنامہ خبریں ملتان میں شائع ہونیوالا اشتہارہے ،جس میں وزیراعٖظم عمران خان اور مشیر صحت پنجاب پتافی کے علاوہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی فوٹو کے علاوہ ان ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل تھی جوکہ بزدار اپنے پہلے دورے میں ہی اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان کو دے گئے تھے۔اس اشتہار میں خاص بات یہ بھی تھی کہ منصوبہ جات ڈیرہ غازی خان کیلئے تھے اور اشتہار میں جنوبی پنجاب ترقی کی راہ پر گامزن لکھاگیاتھا مطلب آٹا کٹا کے منہ پر ملنے والی واردات دھرائی گئی تھی ۔ڈیرہ غازی خان کیلئے اعلان کردہ ان منصوبوں میں ڈیر غازی خان، مظفر گڑھ روڈ کیلئے 3 ارب روپے کا اعلان تھا توڈیر ہ غازی خان شہر کی صفائی اور سالڈویسٹ منیجمنٹ اور واسا کے قیام کیلئے فنڈز کیلئے فنڈز کا اعلان شامل تھا۔ادھر ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان کے توسیعی منصوبوں کیلئے 62 کروڑ روپے کے فنڈز کا اجرا کیاگیا تھا،ڈیرہ غازی خان کیلئے ہی جدید کارڈیالوجی ہسپتال کے اعلان کے علاوہ غازی یونیورسٹی کے نئے مین کیمپس کیلئے ایک ارب 70 کروڑ روپے کی گرانٹ رکھنے کی نوید بھی سنائی گئی تھی ۔اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں انجینئرنگ یونیورسٹی اور ماڈل یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ بنانے کا اعلان تھا اور اس کیساتتھ مانیکا کنیال کی صفائی اور تزئین اور آرائش کیلئے فنڈز رکھنے کے بارے میں بھی بتایاگیاتھا۔دوسری طرف ڈیرہ غازی خان میں گرین بس سروس کا افتیاح کردیا گیاتھا اور ڈیرہ غازی خان کی سٹرکوں کی تعیمر کیلئے 50 کروڑ روپے جبکہ شہر کی تزئین وآرائش کیلئے 11کروڑ روپے کا اعلان شامل تھا ۔وزیراعلی کو اس بات کا بھی احساس تھاکہ اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان میں نفرالوجی ہسپتال کا ہونا ازحد ضروری ہے یوں انہوں نے اس کے قیام کا اعلان بھی کردیا۔موصوف نے ڈیرہ غازی خان ائرپورٹ کو انٹرنیشنل بنانے کیلئے 10 کروڑ روپے کا اعلان کیا،ڈیرہ غازی خان میں 38 ہزار کنال پر انڈسٹریل اسٹیٹ اور اسپشل اکنامک زون کی تعیمر کا منصوبہ کا اعلان بھی کیا ۔اپنے دورے میں وزیراعلی نے ٹیکنکل کالج ڈیرہ غازی خان کی یونیورسٹی میں اپ گریڈیشن،ڈیرہ غازی خان اور تونسہ میں نیا پاکستان ہاوسنگ پروگرام کے تحت گھروں کی تعیمر،فورٹ منرو ڈوپلمنٹ اتھارٹی کی ٹرائبیل ایریا ڈوپلمنٹ اتھارٹی میں اپ گریڈیشن،ڈیرہ غازی خان میں نئے 10 سکولوں کی تعمیر،ڈیرہ غازی خان میں کرکٹ ٹرینگ اکیڈمی اور اسٹیڈیم کی تعیمر،ڈیرہ غازی خان میں ہاکی اسٹیڈیم کی تعمیر،ڈیرہ غازی خان ہسپتال کی اپ گریڈیشن اور ڈیرہ غٖازیخان میں ایک لاکھ 97 ہزار صحت کارڈ کی تقسیم کا اعلان بھی کیا۔راقم الحروف کے خیال میں یہ جنوبی پنجابی کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے سیاستدان چاہے وہ حادثاتی ہیں یاپھر اور ؟ وہ اپنے ضلع کی سیاست سے نہیں نکل سکے ہیں ،سید یوسف رضاگیلانی تھے تو وہ ملتان تک محدود رہے،ان کی طرف سے تھل کے چھ اضلاع کیلئے ایک بھی منصوبہ پورے پانچ سال کیلئے نہیں دیاگیاجس کا ذکر یہاں کرسکوں،اسی طرح رفیق رجوانہ گورنرتھاتو ملتان اور لہور کے علاوہ ان کا کوئی دورہ نہیں تھا،اب وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار جوکہ وزیراعظم عمران خان کے معروف فاسٹ باولر وسیم اکرم ہیں، ان کے انداز سیاست کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ پنجاب کے وزیراعلی کی حیثٰیت میں سوچنے کی بجائے،ابھی تک تحصیل تونسہ اور ضلع ڈیرہ غازی خان سے نہیں سکے ہیں۔سابق وزیراعلی پنجاب شہبازشریف اور چودھری پرویزالہی سے کیا گلہ تھا جنوبی پنجاب کی عوام کو ،یہی تھانا کہ وہ لہور ،گجرات اور وسطی پنجاب میں ہی فنڈز خرچ کرواتے ہیں اور جنوبی پنجاب کے عوام پسماندگی کی دلدل میں جارہے ہیں۔ کون کہتاہے کہ ڈیرہ غازی خان ترقی نہ کرے لیکن تھوڑا اردگرد کے جنوبی پنجاب کے اضلاع خاص طورپر تھل کے چھ اضلاع (خوشاب،میانوالی،بھکر،لیہ ،مظفرگڑھ اور جھنگ) کیلئے بھی کوئی ترقیاتی منصوبہ، بارانی یونیورسٹی،انجئرینگ یونیورسٹی،میڈٰیکل کالج ،ٹییچنگ ہسپتال ،کرکٹ ،ہاکی اسٹیڈیم مطلب جو تھل پسماندگی کی وجہ سے جنگل کی تصویر پیش کرتاہے اس کیلئے ڈیرہ غازی خان اور ملتان طرز کا کوئی انٹرنیشنل ائرپورٹ کے منصوبہ کا اعلان کردیاجاتا۔کوئی تھل ڈویثرنل ہیڈکوارٹر کے اعلان کیساتھ ہائی کورٹ کا بنچ اور کوئی وویمن یونیورسٹی،کوئی ایم ایم روڈ کو فیصل آباد ملتان کی طرح موٹروے میں تبدیل کرنے کیلئے وعدہ ہی کرلیاجاتاہے۔دکھ ہواہے اور نوازلیگی لیڈرخواجہ آصف کے قومی اسمبلی کے فلور پر تاریخی الفاظ بھی شدت سے یاد آئے مطلب تحریک انصاف کی قیادت نے بھی ڈیرہ غازی خان پر سب کچھ وار کر جنوبی پنجاب ترقی کی راہ پر گامزن کا نعرہ لگاکر دراصل تھل کے عوام کو بیووقوف بنانے کی کوشش کی ہے ، ہمارے خیال میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو صرف ملتان اور ڈیرہ غازی خان ضلع کو جنوبی پنجاب نہیں سمجھنا چاہیے اور تھل کی عوام کو بھی اس ملک ،صوبہ اور دھرتی کا باسی سمجھناچاہیے ۔ اتفاق سے وزیراعظم عمران خان کا آبائی ضلع میانوالی ہے اور موصوف وہاں سے اس الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں اور میانوالی تھل کا مرکزی ضلع ہے ۔تھل کے عوام یہ مطالبہ نہیں کرتے ہیں کہ وزیراعلی عثمان بزدار کی طرح وزیراعظم عمران خان دوسروں کا حق یہاں تھل پر خرچ کروائیں لیکن اتنے ترقیاتی فنڈز تو تھل کو ملنے چاہیں جتنا اس کا حق بنتاہے۔آخر پروزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم وزیراعلی عثمان بزدار کیلئے یہ شعر حاضر خدمت ہے ۔
آپ ہی اپنی اداؤں پر غورکریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہوگی