پاکستانی قومیت کا مقد مہ ۔۔ تحریر ۔ انجم صحرائی
(25 سال قبل لکھا گیا ایک کالم )
جب الیکٹرانک میڈیا پر صرف PTV کا راج تھا اور روزنا مہ جنگ کے ادارتی صفحات پر مر حوم ارشاد احمد حقا نی کے کالم”حرف تمنا “ہی بیشتر قارئین کی تمنا ہوا کر تا تھے ۔میرا یہ مضمون در اصل حرف تمنا کے لئے ایک خط تھا مجھے نہیں پتہ کہ میری اس تحریر کو حرف تمنا میں جگہ ملی یا نہیں لیکن یہ صبح پا کستان میں بھی شا ئع ہوا تھا ۔ میرے اس مضمون کا عنوان تھا “پا کستا نی قو میت کا مقد مہ ” حرف تمنا کے لئے اس لکھی تحریر میں میرا مو قف کچھ یوں تھا کہ ۔۔ “معذرت کے سا تھ آج کل آپ کا “حر ف تمنا “پو نم اور دیگر علا قا ئی جماعتوں کے نام پر چھا بے لگا نے کی تشنہ خوا ہشوں کا اسیر نظر آ رہا ہے ۔ سر حدوں پر تنا ئو اور غیر اعلا نیہ جنگ کے پیش نظرآج جب کہ قو می یکجہتی کی بات کر نا اہم ضرورت ہے حرف تمنا میں کبھی دل جلے سرا ئیکی کو سرائیکی وسیب کی محرو میاں سنا نے کا مو قع ملتا ہے یہ الگ بات کہ وہ ان محرو میوں کی داستاں سنا تے ہو ئے مشتاق گور ما نی ،غلام مصطفے کھر ،مخدوم قادر بخش جکھڑ ،یو سف رضا گیلا نی ، امجد حمید خان دستی ، میر بلخ شیر مزاری ، اور فا روق لغا ری جیسی عظیم کا میا بیوں کو بھول جا تا ہے کہ یہی کا میا بیاں اس مظلوم وسیب کی محرو میوں کی اصل ذ مہ دار ہیں ۔کبھی کو ئی درد مند پنجا بی ” حرف تمنا ” میں پنجاب کے سا تھ ” ستان” لگا نے کے لئے بے چین نظر آ تا ہے کبھی کو ئی مہا جر تحریک پا کستان میں دی گئی قر با نیوں کو بنیاد بنا کر وطن عزیز کو یر غمال بنا نے کا خوا ہشمند دکھا ئی دیتا ہے اور کبھی پختو نخواہ اور گر یٹر بلو چستان کے علمبردار علا قائی محرو میوں اور مسا ئل کو جواز بنا کر نا کام پا کستان کے شو شے اڑاتے نظر آ تے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ علا قا ئی قو میتوں کے نام پر اپنی کفوں کو کلف لگا کر پھڑ پھڑانے اور لہرانے والے نسلی تعصبات کو ابھار کر قوم کو انتشارو افتراق کی طرف دکھیلنے والے اور لسا نی نفرت کی آگ میں قوم کو جھونک کر توڑ دو اور مردہ باد کے نعرے لگا نے والے نا کام و ناکام دشمنوں نے حرف تمنا میں پناہ حا صل کر لی ہے عوام کے مسا ئل اور علا قا ئی محرو میاں اپنی جگہ ایک حقیقت ان کی نشا ند ہی اور حل کے مطا لبے اپنی جگہ درست مگر یہ کہاں ہو تا ہے کہ گھر کھا نا نہ ملے تو گھر کے مکیں تلاش رزق کی سعی کر نے کی بجا ئے گھر کی دیواریں گرانا شروع کر دیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم میں سے ہر کو ئی اپنی ڈفلی بجا تا ہوا یہ جتا ئے کہ ہم نہیں تو پا کستان نہیں بے شک مضبوط سندھ ، مضبوط پنجاب ،مضبوط سر حد(اس زما نے میں خیبر پختوں خواہ کو صوبہ سرحد کہا جا تا تھا )اور مضبوط بلو چستان ہی مضبوط و مستحکم پا کستان کی ضما نت ہیں مگر کیا یہ انمٹ حقیقت اور سچا ئی نہیں کہ مضبوط و مستحکم پا کستان ہی ان سب اکا ئیوں کے وجود آزادی اور سلا متی کی ضمانت ہے ۔اور کیا یہ بات سب سے زیادہ درست نہیں کہ علا قائی محرومیوں کا ذکر نے والے دا نشور اور سیا ستدان مضبوط عوام ، مضبوط پا کستان کے تحت اپنے مو ضو عات منتخب کرین کہ خیبر سے کراچی تک بسنے والے ایک محنت کش مزدور ، کا شتکار اور سفید پوش پا کستانی کے اقتصادی سما جی معا شی معا شر تی اور سیا سی مسا ئل بہر حال ایک جیسے ہیں۔
مرحوم ضیا ء الحق کے دور میں ارباب اقتدار کی طرف سے ملک بھت کے سیا سی سما جی دانشوروں سے سوال کیا گیا تھا کہ پا کستان کا اہم ترین مسئلہ کیا ہے ؟کسی نے کہا احتساب ، کسی نے پا نی کی تقسیم اور صوبا ئی خود مختیاری کی بات کی اور کسی نے اسلامی نظام کے نفاذ اور امت مسلمہ کے احیا ء کا ذکر کیا اس مو ضوع پرحکو متی سطح پر منعقد ہو نے والے بڑے بڑے سیمیناروں میں شرکت کا مو قع تو ہمیں نہ ملا مگر ہم نے بھی اس مو ضوع پر اظہا ر خیال کرتے ہو ئے تھریر کیا تھا کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قو می شنا خت کا ہے عظیم تر پا کستان کے حوالے سے پا کستا نیت کے نا طے پا کستانی قو میت کی تشکیل و تر ویج کا ہے بلا شبہ پا کستان کے قیام کی جدو جہد کرتے وقت بر صغیر پاک و ہند کے مسلما نوں نے دو قو می نظریہ کی بنیاد پر مسلم قو میت کے نا طے حصول پا کستان کی جدو جہد کی مگر قیام پا کستان کے بعد با نی پا کستان نے فر ما یا کہ” اب ہم پا کستانی قوم ہیں “دین اسلام میں صرف دو طبقے ہیں ایک اہل اسلام اور ایک کا فر ۔اہل اسلام ہی ملت اسلا میہ ہیں بہت ہی اچھا ہو تا کہ قیام پا کستان کے بعد پا کستان ملت اسلا میہکی نشا ة ثا نیہ کا گہوارہ بنتا مگر بصد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا دین اسلام پر عمل پیرا ہو نے والے دعویدار بھی مختلف فر قوں اور گرو ہوں میں بٹے ہو ئے ایک دو سرے کو نشا نہ بنا ئے رہے اور اسی لئے دینی اور مذ ہبی جما عتیں وطن عزیز میںمسلم قو میت کا قو می جذ بہ ابھا ر نے میں نا کام رہیں شا ئد یہی وجہ ہے کہ سا نحہ پا کستان کو ترقی پسند حلقے دو قومی نظریہ کی نا کا می قرار دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھا رتی وزیر اعظم اندرا گا ند ھی کا یہ کہنا کہ آج ہم نے دو قو می نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے شا ئد ہماری اسی قو می شکست و ریخت پر اظہار مسرت تھا۔ پا کستا نی قو میت کا وہ تصور جس کے بارے با با ئے قوم نے رہنما ئی فر ما ئی تھی بد قسمتی سے وہ جذ بہ بھی ہمارے ہاں پیدا نہ ہو سکا مذ ہبی قیادت نے ہمیں امت مسلمہ اور مسلم قوم کی بجا ئے شیعہ ، سنی بریلوی اہلحدیث اور وہا بی بنا دیا اور سیا سی قیا دت نے ہمیں پا کستا نی بنا نے کی بجا ئے پنجابی ، سند ھی ،بلو چی ، پٹھان یا مہا جر کی شنا خت دی ۔ با با ئے قوم کے بعد آ نے والے حکمرا نوں نے ملک کو لو ٹا ، نو چا اور کھسو ٹا مگر تو جہ نہیں دی تو اس طرف کہ اس ملک کے با سیوں میں وطنی قو میت اور نظر یا تی سیا ست کا شعور اور فہم و ادراک پیدا کیا جا تا ۔ رہی سہی کسر ملک میں طویل عر صہ تک مسلط رہنے والے غیر جمہوری اور مار شل لا ئی حکمرا نوں نے پو ری کر دی کہ انہوں نے اپنے اقتدارو استحکام کے لئے علا قا ئی ، لسا نی مذ ہبی اور فروعی قوتوں کو خوب مال کھلا یا پو سا اور جوان کیا یہاں تک کہ پا کستان کے تو ڑنے کی با تیں کر نے والوں اور با با ئے قوم کو کو سنے والوں کو گلد ستے پیش کئے گئے
لسانی بنیا دوں پر علا قا ئی قو میتیوں کے نعرے لگا کر ہم وطنوں کو لڑانے اور بھڑا نے کی سیا ست کر نے والوں کو نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف تخلیق کیا گیا بلکہ مکمل آبیا ری کر کے تناور درخت بنا یا ۔ کبھی پنجاب کے لیڈر کو پنجاب کی محرومی یاد آ ئی اور “جاگ پنجا بی جاگ تری پگ نوں لگ گیا داغ”کے نعرے نے جنم لیا اور کبھی سرا ئیکی محرو موں کو وسیب کی نما نی دھر تی کی محرو میوں کی آوازیں سنا ئے دینے لگیں اور “اسیں قیدی تخت لا ہور دے ” جیسی انقلابی نظمیں سنا ئی دینے لگیں اور اسی دور میں مہا جر کو اپنا استحصال یاد آ گیا اور اس نے بھی استحصا لیوں کے خلاف بندوق اٹھا نے کی منصو بہ بندی کی ، قو می جھنڈے جلا نے والے معتبر ٹہرے ۔ اسی دور میں پا کستان کی بات کر نے والوں کے لئے پھا نسیاں ، کو ڑے اور سزائیں مقدر بنیں ،طویل مارشل لا کے بعد جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو امید تھی کہ اب ہما رے سیا ستدان ما ضی سے سبق سیکھتے ہو ئے مصلحتوں اور ابن الوقتی سیا ست سے دامن چھڑاکر قو می سیاست کے اک نئے سفر کا آ غاز کریں گے ۔ پا کستان کی بات ہو گی پا کستانی قو میت کی بات چلے گی مگر کچھ بھی تو نہ بد لا وہی سوچ ،وہی رویہ وہی افتراق و تفریق کی سیا ست وہی نسلی تعصب اور وہی لسا نی نفر توں کی بد بو دار گفتگو ۔ کبھی کسی نے اقتدار کی مغبو طی کے لئے مہا جر کا آسرا لیا اور کبھی کسی نے پختو نستان کے علمبرداروں کی آ غو ش میں پناہ لی کسی نے محروم اقتدار ہو کر پنجاب کی پگ کا واسطہ دے کر عوام سے وو ٹوں کی بھیک ما نگی۔
کسی نے بھی پا کستان کا نہ سو چا ، اجتما عی مفاد کا نہ سو چا ۔ کسی نے نہیں سو چا کہ ملک کا اجتما عی مفاد کیسے ہو گا ؟ قوم کی اجتما عی سلا متی کا تقا ضا کیا ہے ؟ با با ئے قوم نے کیا کہا تھا ؟ آئین پا کستان میں کیا لکھا ہے ؟ جس نے پا کستان تو ڑنے کی بات کی ،جس نے پا کستان مردہ باد کا نعرہ لگا یا جس نے علا قا ئی محرو میوں کو جواز بنا کر لسا نی تعصبات کی سیا ست کھیلی ۔ اقتدار کی غلام گر سشوں کے دروازے اس پر کھل گئے سیا ست میں وہی معتبر ٹہرا کیا یہی حق ہے وطن عزیز کا کہ جو اس کو برا کہے اس کا درجہ بلند ہو جو اس کے جھنڈے جلا ئے وہی کا میاب سیا ستدان کہلا ئے آخر کیوں ؟
بھی گذشتہ دنوں پونم اور سرئیکستان کے حامیوں نے ملتان میں سرائیکی پارٹی کے دسویں یوم تاسیس کے موقع پر علاقائی اور قوم پرست راہنمائوں کی طرف سے پاکستان ، بابا ئے قوم اور قو می مشا ہیر کے بارے جو اشتعال انگیز تقا ریر کی گئیں وہ اتنی بے ہو دہ اور افسوسناک تھیں کہ قو می پریس بھی انہیں نظر انداز نہ کر سکا قومی اخبارات نے اپنے ادارتی صفحات میں اس بارے ادارتی نوٹ بھی تحریر کئے۔ روزنامہ جنگ نے ان زبا نوں کو لگام دیجئے کے عنوان سے اداریہ بھی تحریر کیا۔ پا کستانی قو می مو و منٹ (پی کیو ایم پی جو کہ اس زما نے کی ایک متحرک وطن پرست تنظیم تھی اور سال 1987 سے وطن عزیز پا کستان کے نا طے پا کستانی قو میت کی فکری، شعوری اور نظریا تیتشکیل و ترویج کے لئے کام کر رہی تھی) نے ان قومی اخبارات کے اداریوں کو بنیاد بنا کر ارباب اقتدار کی تو جہ اس طرف مبذول کرانے کے لئے پونم سمیت نام نہاد علا قائی قو پر ستوں کی طرف سے اس شر انگیزی کے اسلام آباد میں پا ر لیمنٹ کے سا منے بھوک ہڑ تا لی کیمپ لگا نے کا اعلان کیا ۔ پی کیو ایم پی کی طرف سے اس احتجا جی پرو گرام کی اطلاع وقت مقررہ سے پندرہ دن قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آ باد کو بذیعہ نو ٹس بھجوا ئی گئی اور اس نو ٹس کی اطلاعی کا پیاں بذ ر یعہ فیکس و رجسٹرڈ ڈاک صدر پا کستان ، وزیر اعظم پا کستان ، چیف جسٹس پا کستان چیئرمیں سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی ، وزیر دا خلہ اور وزیر اطلا عات کو بھی ارسال کی گئیں۔
پرو گرام کے مطا بق جب پی کیو ایم کے رفقا پا رلیمنٹ کے سامنے پہنچے تو اسلام آباد پو لیس نے صرف ایک گھنٹے کے بعد پا کستان کے استحکام کا مطا لبہ کر نے والوں اور پا کستان توڑ دو ا کا نعرہ لگا نے والوں ور پا کستان کا جھنڈا جلا نے والی قو توں کی مذ مت کر نے وا لوں کو گرفتار کر لیا بینرز چھین لئے ۔ بھوک ہڑ تالی کا ر کنوں کو گر فتار کر کے تھا نہ سیکٹریٹ لے جا یا گیا ۔جہاں انہیں تیرہ گھنٹے سے زائد حبس بے جا میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا ۔کیوں گرفتار کیا گیا ؟ اور کیوں چھوڑا گیا ؟ اس کا جواب میرے پا س نہیں شا ئد آپ کے پاس ہو ۔مگر افسوس یہ ہے کہ کل بھی یہی ہو تا رہا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے ، لگتا ہے کہ ارباب اقتدار ہی نہیں چا ہتے کہ یہاں قو می یکجہتی کی بات چلے ۔ پا کستا نی قو میت کی بات ہو ۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں کسی بد بخت عوامی نما ئندے نے بیلٹ پیپر پر پا کستان مردہ باد تحریر کر کے اپنا ووٹ کا سٹ کیا ، کراچی میں قو می جھنڈا جلا گیا ابھی گذ شتہ دنوں یوم تکبیر کے مو قع پر نو شہرہ فیروز میں یہی سا نحہ دہرا یا گیا ۔ مگر حکو مت نے ان ملک دشمن قو توں کے خلاف کو ئی اقدامات نہیں کئے۔
سال1989 میں اس وقت کی وزیر اعظم مھترمہ بے نظیر بھٹو نے جب بحیثیت وزیر اعظم پی ٹی وی پر جب پہلی دفعہ قوم سے خطاب کیا اس وقت با با ئے قوم کی تصویر پی ٹی وی پر نہیں آ رہی تھی میں نے اپنے دوستوں سمیت پی ٹی وی کی اس غفلت پر بھر پور احتجاج کیا جب ہماری بات نہ سنی گئی تب ہم نے لیہ میں ہی احتجاجی بھوک ہڑتال کی ۔اس وقت نہ تو ہمیں گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ہمارے خلاف کو ئیہ کاروائی عمل میں لا ئی گئی ۔ اس وقت کے صدر محمد اسحق خان کی طرف سے ہمارے احتجاجی ٹیلیگرام کے بعد وفا قی حکو مت کو اس بارے ایک خط تحریر کیا گیا جس کی کاپی ایوان صدر سے مجھے بھی ارسال کی گئی ۔ جس کے بعد وفا قی وزیر اطلا عات جا وید جبار نے قو می اسمبلی میں اس واقعہ کی مذ مت کرتے ہو ئے معذرت کی ۔ لیکن آج یہ حال ہے کہ وطن عزیزاور قو می مشا ہیر کے خلاف آگ اگلنے والوں اور اشتعال انگیز بیا نات دینے والوں کے خلاف قومی پریس نے اداریے تحریر کئے ، محب وطن عوام نے مذ مت کی پا کستان سے پیار کرنے والے وطن پرستوں نے بھوک ہڑتال کی۔پو لیس نے وطن کی عزت ،حرمت اور تقدس کی بات کر نے والوں کو تیرہ گھنٹے حبس بے جا میں رکھا کسی حکو متی کا رندے کو پتہ نہ چلا۔ شا ئد یہی رویہ ہے جس کے سبب ہمارے ہاں سب سے آسان اور سہل طریقہ پا کستان اور با نی پا کستان کو برا بھلا کہہ کر لیڈر بننے کا ہے۔
پا کستان کے عوام قو می یکجہتی پر یقین رکھتے ہو ئے متحدو متفق ایک قوم بن کر با وقار زندہ رہنے کے آرزو مند ہیں مگر ایسا کون نہیں ہو نے دیتا ؟ اور کیوں نہیں ہو نے دیتا ؟ قو می دا نشوروں کو اس سوال کا جواب تلاش کر نا چا یئے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کہ کچھ بالا دست اور ما ورائی قو تیں قو می یکجہتی سے خا ئف ہوں اور وہ نہ چا ہتی ہوں کہ عوام ایک قوم بنے اور کہیں ایک قوم بن کر نصف صدی کے قومی سودو زیاں کا حساب ما نگ لے کیو نکہ اگر قوم ایک ہو گئی ایک وطن کی ایک قوم تو احتساب بھی کڑا ہو گا ،سب کھا یا پیا اگلنا ہو گا ، گذ رے دنوں کے ایک ایک لمحہ کا حساب ہو گا۔
قوم کے ساتھ روا رکھے جانے والے مذاق کا حساب ،وطن کے ساتھ کئے جانے والے مظالم کا حساب ، شا ئد اسی لئے وہ چاہتی ہیں کہ عوام ایک پا کستانی قوم بن کر مہنگائی ، بے روز گاری اور لوٹ کھسوٹ کے بارے سو چنے کی بجا ئے سرائیکی ، سندھی ،بلو چی ،مہاجر ، پٹھان اور پنجابی بن کر نسلی اور لسانی جذ با تی نعروں میں الجھ کر ملکی دو لت لو ٹنے والوں اورقو می استحصال کر نے والوں کا احتساب کر نے کی بجا ئے باہم دست و گریباں ہو تے رہیں کہ قوم انتشارو افتراق کا شکار رہے گی تو وڈیرہ شا ہی بھی بر قراررہے گی اور سر ما یہ دار کی ہٹی بھی تر قی کرتی رہے گی ۔ پیٹ سے بھو کے اور پا ئوں سے ننگے عوام صو با ئی ، لسانی اور فروعی جذ باتی نعروں میں الجھے رہیں اور مال بنا نے والے مال بنا تے رہیں ، قو می خزانہ شیر مادر سمجھ کر ہضم کرتے رہیں۔
یقین جا نئیے پا کستان کے غریب اور محنت کش عوام ان چکروں میں الجھنا نہیں چا ہتے انہیں ایک ایجنڈے کے تحت تقسیم کیا جا ریا ہے وہ جا نتے ہیں کہ پا کستان میں صرف دو ہی طبقے اور قو میتیں بستی ہیں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ۔ مظلوم خواہ وہ کراچی کی کسی بستی کا مکیں ہو یا اندرون سندھ کے کسی گوٹھ کا ، وہوا کی پتھریلی زمین کا سپوت ہو یا لا ہور اور اسلام آباد کی کچی آبا دی کا با سی ، وہ بلو چستان میں رہتا ہو یا پھر سرحد میں (سال1999 میں سر حد کے پی کے نہیں بنا تھا ) اس کے معا شی، معا شرتی ، سیا سی ، سما جی اور اقتصادی مسا ئل ایک جیسے ہی ہیں پا کستا نی غریب عوام کے استحصال میں صرف پنجاب کا وڈیرہ ،جا گیردار اور سر مایہ دار ہی شا مل نہیں بلکہ اس استحصا لی طبقے کا راج پورے ملک پر ہے جو مظلوم و محروم پا کستا نیوں کے حقوق سلب کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔
علا قا ئی قو میتوں کی بات ایک سراب سے کم نہیں ۔ یہ ان مظلوم اور محروم لو گوں کو آزادی سے نکال کر وڈیرہ شاہی کے غلام بنا نے کا ایک خو فناک منصو بہ ہے مو رو ثی جا گیردار اور اور سر مایہ دار حکمران اورسدا بہار سیا ستدان اپنے اختیارو اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ان نعروں کا سہا را لے رہے ہیں خدارا ان معصوم لو گوں کو اس سازش سے با خبر کیجئے ۔بڑے بڑے محل نما بنگلوں میں رہنے اور ٹھنڈی ٹھار گا ڑ یوں میں سفر کر نے والوں کا غریب عوام اور غریب عوام کے مسا ئل سے کیا تعلق ؟ نسلی لسانی اور علا قائی تعصبات پر جنم لینے والے اس انداز سیا ست کی حو صلہ شکنی کیجئے اور وطن عزیز پا کستان کے نا طے پا کستا نیت کی بات کر کے پا کستانی قو میت کی بنیاد پر عوام کو ایک قومی تشخص میں پرو کر ان با لا دست استحصالی قو توں کے خلاف صف آرا کیجئے۔ استحصال کے خلاف جبر کے خلاف کرپشن کے خلاف انہیں منظم ہو نے کا راستہ بتا ئیے ۔ انہیں حو صلہ دیجئے کہ یہ جا گیردار ، ملک ، خان ،میاں ، سردار ، چوہدری اور گو دھا سا ئیں کے سحر سے آزاد ہو کر ایک آزاد اور خود مختیار پا کستانی قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے اپنی بے لاگ رائے کا دیا نتدرانہ اظہار کر سکیں۔ ہمارے دانشوروں کو “مضبوط عوام مضبوط پا کستان “کے عنوان کے تحت اس جدو جہد کا آغاز کر نا چا ہئے ۔قوم کو لسا نی اور علا قائی بنیا دوں پر نفر توں اور عصبیتوں کے اند ھیاروں سے نکالنے اور اقتدار نچلی سطح تک لے جا نے کے لئے حکو مت یہ اقدامات کرے۔
1۔صوبہ بہا ولپور اور صوبہ ملتان سمیت وہ تمام علا قے جو پہلے سے صوبے رہے ہیں ان کی تاریخی حیثیت بحال کر کے انہیں صوبہ کا درجہ دے دیا جا ئے۔
2۔ہر ڈویژ ن کو انتظامی بنیا دوں پر صوبہ بنا دیا جا ئے تاکہ لسا نی اور علا قائی بنیادوں پر تعصب کا خا تمہ ہو علا قا ئی محرو میو ں کا بھی ازالہ ہو سکے۔
3 ۔نئی مردم شماری کے تحت از سر نو حلقہ بندیاں تشکیل دے کر متناسب نما ئند گی کے تحت انتخابات کرائے جا ئیں تا کہ جا گیردارانہ ، سر مایہ دارانہ مو رو ثی سیا سی اجارہ داری کا خاتمہ ہو اور حقیقی عوامی قیادت سا منے آسکے ۔
پاکستان میں بسنے والے تمام پا کستانی محب وطن ہیں ۔ پا کستان میں بو لی جانے والی سبھی زبا نیں محترم ہیں ۔ ان کا حق ہے کہ انہیں ان کا جا ئز مقام دیا جا ئے ۔ یہ ساری زبا نیں پیارو محبت اور اتحاد و اتفاق اور امن کی میٹھی زبا نیں ہیں وطن عزیز کے تمام صو بوں اور علا قوں کی شنا خت یہ عظیم وطن پا کستان ہے کہ جس کے رشتے اور نا طے سے ہم سب ایک ہیں ایک تھے اور ایک رہیں گے۔