سرائیکی خط کی سیاست میں الیکشن قریب آتے ہی ہلچل آچکی ہے۔ماضی کی طرح اب بھی تواتر کیساتھ اس سوال پر بحث ہورہی ہے کیا سرائیکی دھرتی کے وڈیرے ،جاگیردار اور چابی کی سیاست پر ڈانس کرنیوالے سیاستدان جنرل مشرف دور کی طرح درجنوں کے حساب سے اپنے سابقہ گارڈ فادر نوازشریف کو چھوڑ کر اقتدار کی خاطر پاکستان تحریک انصاف کے کپتان کو پیار ہوجائینگے ؟اس جاری بحث کے دوران لیگی ارکان اسمبلی کی وفاداریوں کی تبدیلیوں کے دعوؤں کو تقویت اس وقت ملی ہے جب خانیوال کے لیگی رکن رضاحیات ہراج پہلی فرصت میں عمران خان سے ملاقات کرنے کیساتھ ساتھ ایک ٹی وی پروگرم میں اس بات کا دعوی بھی کردیاہے کہ رحیم یارخان ،بہاول پور اور بہاولنگر سے بھی بڑی تعداد میں لیگی ارکان تحریک انصاف میں چلے جائینگے۔ادھرتھل اور ملتان ڈویثرن سمیت ڈیر ہ غازی خان دیگر جڑے علاقوں کے بارے میں ہراج سمیت سمجھداروں کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی ہے کہ وہاں کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟ لیکن امکان یہی ہے کہ وہاں بھی نواز لیگ کو مشکل صورتحال کا سامناکرنے پڑے گا ،جیسے جیسے وقت گزرے گا ،یہاں کے سیاستدان بھی اپنی عادت کے مطابق اس طرف دربار کی طرف رجوع کریں گے ،جہاں انہیں خاندان سمیت اقتدار میں حصہ ملیگا ۔رہا سوال ان پر تنقید کا یاپھر اخلاقیات کے درس کا تو ان کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ کل ان کے بارے میں مخالفین کیاکہیں گے ؟ اور اس نئی قلابازی مارنے پر ان کو کس نام سے یادکیجائے گا ؟ ان کاریگر سیاستدانوں کا سیدھا سا اصول ہے کہ اقتدار جہاں سے ملے ،جیسے ملے اور جن شرائط پر ملے اس کو حاصل کرنے کیلئے سب کچھ داؤ پر لگادو ۔ اس کی تازہ پہلی مثال خانیوال کے رکن اسمبلی رضا حیات ہراج کی ہے ،جن کی اسمبلی میں کی گئی نوازشریف کے حق میں تقریروں کی بازگشت ابھی سنائی تک دے رہی ہے اور وہ بنی گالہ میں عمران خان کے پاس حاضری کی کاروائی پوری کرچکے ہیں۔ لیکن وہ اتنے سمجھدار ہیں کہ انہوں نے نوازشریف کو چھوڑنے کا فیصلہ اسوقت کیاہے جب ان کی پارٹی کا پانچ سالہ دوراقتدار ختم ہورہاہے ۔ادھر سابق صدر فاروق لغاری کے فرزند جمال لغاری نے تو پاکستان کی سیاست بالخصوص سرائیکی دھرتی کی سیاست میں ایک ٹرینڈ یوں سیٹ کردیاہے کہ سب کو پیچھے چھوڑ یاہے۔توقع نہیں تھی کہ لغاری خاندان اس حدتک چلاجائیگا اوربلوچی روایات کا بھی بھرکس نکال کر رکھ دیگا ۔فرزند فاروق لغاری وہ کرگئے ہیں جس نے اپنوں اور مخالفین کو حیرت زدہ کی صورتحال سے بھی آگے کی تلخ صورت حال سے دوچار کردیاہے۔موصوف نے وزیراعلی پنجاب اور لیگی صدر شہبازشریف کی چوٹی آمد سے قبل مقامی افراد سے خطاب میں جمال لغاری نے جذباتی انداز میں ڈیرہ غازی خان کے عوام کو ایسے واسطے دئیے ہیں کہ سب دنگ رہ گئے ہیں۔ جمال خان کا موجود افراد کو کہنا تھاکہ( تیکوں واسط ڈینڈا پیاں رب العزت د ا ، خانہ کعبہ دا ، آپنٹرے پیودا ، ایں جلسہ دے وچ ،ایجھی کامیابی کرؤں، ایجھی کامیابی کروں جو خدا دی قسم اے جو پتہ لگ ونجے گوجرانوالہ کے لوکاں کوں)۔آپ کو واسطہ دے رہاہوں رب العزت کا ،خانہ کعبہ کا ،اپنے باپ کا کہ اس جلسہ میں ہم اس جلسہ کو ایساکامیاب کریں ،ایسا کامیاب کریں جو خدا کی قسم ہے پتہ چل جائے گوجرنوالہ کی عوام کو۔ جمال لغاری کی اس انداز میں کی گئی تقریر پر لوگوں کو یقین یوں نہیں آرہاہے کہ لیگی لیڈر نوازشریف نے ایک جلوس کی صورت میں فاروق لغاری کے گھر کے باہر کھڑے ہوکر کہاتھاکہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا بددیانت انسان ہے اور انگریزوں کے کتے نہلانے والے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ صور تحال یوں بھی چل رہی ہے کہ عوا می ،سیاسی وصحافتی حلقوں کی تنقید کے باوجود شہبازشریف کے دور ہ چوٹی کے دوران جمال لغاری نے اپنے والد فاروق لغاری کے بارے میں نوازشریف کے توہین آمیز کو الفاظ کو دل پر نہیں لیابلکہ چوٹی کے حالیہ جلسہ میں میاں نوازشریف زندہ باد،میاں نوازشریف زندہ باد،میاں نوازشریف زندہ باد کے نعرے لگوائے ہیں ۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اقتدار کی سیاست میں محبتوں کی کہانی کہاں تک جاسکتی ہے مطلب اپنے والد فاروق خان لغاری جس کی بدولت جمال خان لغاری اور دیگر خاندان کے افراد کو سیاست کے میدان میں مقام اور مرتبہ ملا وہ اس کو بھی گولی کروا کر مستقبل کی سیاست میں اپنا قبلہ سیٹ کررہے ہیں۔کاش سیاست کے میدان میں سرائیکی دھرتی کے سیاستدان بھی اپنے اندر لیڈرشپ خوبیاں پیدا کرتے اور اس طرح کی سیاست کی حوصلہ شکنی کرتے جوکہ ان کیلئے شرمندگی اور اس دھرتی کیلئے بدنامی کاسبب بن رہی ہے ۔یہی لوگ تھے جوکہ پانچ سال اقتدار میں رہے ہیں ،پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام سے لیکر عوام کے بنیادی حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کی ہے ،اب جوں جوں الیکشن الیکشن قریب آرہے ہیں ،یہ نئی واردات کیساتھ میدان میں اتررہے ہیں ۔ویسے تو خواجہ آصف کالی سیاہی کی زد میں آچکے ہیں اور ذرا پیچھے چلے گئے ہیں لیکن جو انہوں نے تاریخی جملے پارلیمنٹ میں اپنی یادگار تقریر میں کہے تھے کہ اور جن کے بارے میں انہوں نے کہے تھے ،ان پر فٹ آتے ہیں یانہیں ؟ اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں ؟ لیکن سرائیکی دھرتی کے علاقوں کے سیاستدان جس انداز میں سیاست کررہے ہیں ان پر کمال سجتے ہیں ،امید ہے خواجہ صاحب، تاریخی الفاظ کو دھرانے پر برانہیں مانیں گے۔ "کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی گریس ہوتی ہے اور کوئی حیاہوتی ہے”۔