• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

ایک بار پھر شہر قصور نوحہ خواں .. عفت بھٹی۔

webmaster by webmaster
جنوری 11, 2018
in First Page, کالم
0
قصور میں ننھی کلی قتل ، پرتشدد مظاہروں کے دوران 2افراد ہلاک ، رینجرز طلب، والدین کا زینب کی تدفین سے انکار

ایک بار پھر شہر قصور نوحہ خواں

عفت بھٹی۔

زینیبُ ایک اور معصوم کلی پھر سے ایک وحشی درندے کی سفاکی کی نذر ہو گئی ۔قصور کی ایک اور بیٹی موت کی آغوش میں جا سوئی۔ہمارے معاشرے کی ایک سفاک حقیقت کہ ہم انسانوں سے درندوں میں بدل گئے ۔قصور کی رہائشی آٹھ سالہ معصوم زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ‘ساتھ ہی خالہ کا گھر ہے زینب بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لیے گئی اور  لاپتہ ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا کہ کہاں گئی۔اہل خانہ کے رپورٹ کے باوجودپولیس کوئی کھوج لگانے میں ناکام رہی اور پھر کچرے کے ڈھیر پہ وہ معصوم کچلی ہوئی کلی ایک لاش کی صورت میں ملی ۔نہ آسمان گرا اور نہ زمین شق ہوئی شاید اب ہم ان سب واقعات کے عادی ہوگئے ہیں ۔جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا جو کہا تو سن کے اڑا دیا۔اگر کوئی ایکشن لیا جاتا تو ایسا نہ ہوتا ۔کمسن بچیوں سے ذیادتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں بلکہ متواتر ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔قبل اسلام کا دور لوٹتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔آخر مجرم قانون کے خود ساختہ لمبے ہاتھوں سے محفوظ کس طرح ہے ۔پولیس کی بے حسی کی مثال کہ بچی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھوں سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر دی لیکن زینب کو بچایا نہیں جا سکا پولیس کو کیا تعاون کرنا ہے، اپنے طور پر پولیس نے کچھ نہیں کیا، جو سی سی ٹی وی کیمرہ کی فوٹیج ہیں وہ بھی ہم نے خود دی ہیں۔ آج تک جنتے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں کسی میں ایک بندے کا بھی کچھ نہیں پتہ چل سکا۔”جمعرات کو بچی غائب ہوئی اور جمعے کو ہم نے 12 بجے صبح ثبوت دیے لیکن پانچ دن بچی زندہ رہی لیکن ان سے کچھ نہیں ہو سکا۔ جگہ جگہ کارروائی کی اور گاڑیاں بھگاتے ہیں لیکن پلے کچھ نہیں ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ علاقے کے مکینوں کے مطابق ہردوسرے تیسرے مہینے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔
ایک ماہ قبل بھی شہر کے مرکز سے زینب کی ہم عمر بچی اس وقت لاپتہ ہو گئی تھی جب وہ گھر کے قریب دکان پر کچھ خریدنے کے لیے نکلی تھی۔کیا والدین اپنے بچوں کو گھروں میں بند۔کر دیں۔کوئی جگہ قوم کے ان معصوم بچوں کے لیے محفوظ نہیں ۔مدارس ۔بازار گلیاں محلے ۔ہر جگہ ہوس کے لٹیرے لپلپاتی زبانیں نکالے تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب کسی معصوم کا شکار کیا جائے۔اور اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد ان کو سفاکی سے موت کی گھاٹ اتار دیں۔المیہ یہ کہ قانون کی ان مجرموں تک رسائی ہی نہیں آخر ایسی کون سی سیلیمانی چادر اوڑھ رکھی ہے جو نظروں سے اوجھل ہیں اور حیرت کی بات کہ جب تک کوئی سانحہ وقوع پذیر نہیں ہوتا اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی بعد میں حکومت وزیر مشیر سب ہوش میں آتے اب معطلی اور اظہار افسوس سے کیا وہ زندگی لوٹائی جا سکتی؟ کیا اس ماں کی مامتا کو قرار مل سکتا؟کیا اس کی سونی گود۔آباد ہو سکتی کیا وہ تتلی دوبارہ اس زندگی میں اڑان بھرسکتی اس کے معصوم قہقہے گھر کے آنگن میں گونج سکتے ہر گز نہیں وہ سب تو کھو گیا ۔سفاکیت کی نذر ہوگیا بھلا کبھی زندگی کا بھی مول ہوا کرتا ہے ۔اندازہ کرب لگائیں کہ کس طرح وہ معصوم انگلی تھام کر اس وحشی کو پہچانے بغیر اس سے باتیں کرتی کھلکھلاتی اچھلتی کودتی اس کے ہمراہ چلی ہوگئی چاکلیٹ کی مٹھاس کو محسوس کر کے آنکھوں میں جلنے والے ستارے کیسے بجھے ہونگے جب انسانیت نے درندگی کا لبادہ اوڑھا ہوگا ۔ان کنچوں جیسی شفاف نگاہوں میں نہ سمجھنے وال حیرانگی وہ تو پیار کے علاوہ کسی جذبے سے واقف ہی نہ تھی۔کیا قصور تھا اس معصوم کا ۔شاید یہ کہ وہ بنت ِ حوا تھی۔جسے قبل اسلام بھی زمین میں زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اور اب بھی کبھی وہ وحشت وبربریت کا شکار ہوتی ہے تو کبھی زندہ جلا دی جاتی ہے ۔کاش ایک بار صرف ایک بار ان درندوں کو سر عام دار پہ لٹکایا جائے تو کتنی زینبیں بچ جائیں ۔مگر شاید پشت پناہی اور ہماری بے حسی سب سے بڑھ کر لا قانونیت جس میں جنگل کا قانون چلتا ایسا نہ ہونے دے۔

Tags: column by ifat bhatti
Previous Post

چوک اعظم ۔ پولیس کاروائی ’’بلوچ گینگ ‘‘ کا رکن بوبی گرفتار ،ایک کلو سے زائد چرس او ر 30بور پسٹل بر آمد ،مقدمات درج

Next Post

ننھی کلی “زینب“ کا قتل , مخدوم امجد شاہ مانچسٹر

Next Post
ننھی کلی “زینب“ کا قتل ,  مخدوم امجد شاہ مانچسٹر

ننھی کلی “زینب“ کا قتل , مخدوم امجد شاہ مانچسٹر

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

ایک بار پھر شہر قصور نوحہ خواں

عفت بھٹی۔

زینیبُ ایک اور معصوم کلی پھر سے ایک وحشی درندے کی سفاکی کی نذر ہو گئی ۔قصور کی ایک اور بیٹی موت کی آغوش میں جا سوئی۔ہمارے معاشرے کی ایک سفاک حقیقت کہ ہم انسانوں سے درندوں میں بدل گئے ۔قصور کی رہائشی آٹھ سالہ معصوم زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ 'ساتھ ہی خالہ کا گھر ہے زینب بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لیے گئی اور  لاپتہ ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا کہ کہاں گئی۔اہل خانہ کے رپورٹ کے باوجودپولیس کوئی کھوج لگانے میں ناکام رہی اور پھر کچرے کے ڈھیر پہ وہ معصوم کچلی ہوئی کلی ایک لاش کی صورت میں ملی ۔نہ آسمان گرا اور نہ زمین شق ہوئی شاید اب ہم ان سب واقعات کے عادی ہوگئے ہیں ۔جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا جو کہا تو سن کے اڑا دیا۔اگر کوئی ایکشن لیا جاتا تو ایسا نہ ہوتا ۔کمسن بچیوں سے ذیادتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں بلکہ متواتر ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔قبل اسلام کا دور لوٹتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔آخر مجرم قانون کے خود ساختہ لمبے ہاتھوں سے محفوظ کس طرح ہے ۔پولیس کی بے حسی کی مثال کہ بچی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھوں سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر دی لیکن زینب کو بچایا نہیں جا سکا پولیس کو کیا تعاون کرنا ہے، اپنے طور پر پولیس نے کچھ نہیں کیا، جو سی سی ٹی وی کیمرہ کی فوٹیج ہیں وہ بھی ہم نے خود دی ہیں۔ آج تک جنتے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں کسی میں ایک بندے کا بھی کچھ نہیں پتہ چل سکا۔''جمعرات کو بچی غائب ہوئی اور جمعے کو ہم نے 12 بجے صبح ثبوت دیے لیکن پانچ دن بچی زندہ رہی لیکن ان سے کچھ نہیں ہو سکا۔ جگہ جگہ کارروائی کی اور گاڑیاں بھگاتے ہیں لیکن پلے کچھ نہیں ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ علاقے کے مکینوں کے مطابق ہردوسرے تیسرے مہینے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ایک ماہ قبل بھی شہر کے مرکز سے زینب کی ہم عمر بچی اس وقت لاپتہ ہو گئی تھی جب وہ گھر کے قریب دکان پر کچھ خریدنے کے لیے نکلی تھی۔کیا والدین اپنے بچوں کو گھروں میں بند۔کر دیں۔کوئی جگہ قوم کے ان معصوم بچوں کے لیے محفوظ نہیں ۔مدارس ۔بازار گلیاں محلے ۔ہر جگہ ہوس کے لٹیرے لپلپاتی زبانیں نکالے تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب کسی معصوم کا شکار کیا جائے۔اور اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد ان کو سفاکی سے موت کی گھاٹ اتار دیں۔المیہ یہ کہ قانون کی ان مجرموں تک رسائی ہی نہیں آخر ایسی کون سی سیلیمانی چادر اوڑھ رکھی ہے جو نظروں سے اوجھل ہیں اور حیرت کی بات کہ جب تک کوئی سانحہ وقوع پذیر نہیں ہوتا اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی بعد میں حکومت وزیر مشیر سب ہوش میں آتے اب معطلی اور اظہار افسوس سے کیا وہ زندگی لوٹائی جا سکتی؟ کیا اس ماں کی مامتا کو قرار مل سکتا؟کیا اس کی سونی گود۔آباد ہو سکتی کیا وہ تتلی دوبارہ اس زندگی میں اڑان بھرسکتی اس کے معصوم قہقہے گھر کے آنگن میں گونج سکتے ہر گز نہیں وہ سب تو کھو گیا ۔سفاکیت کی نذر ہوگیا بھلا کبھی زندگی کا بھی مول ہوا کرتا ہے ۔اندازہ کرب لگائیں کہ کس طرح وہ معصوم انگلی تھام کر اس وحشی کو پہچانے بغیر اس سے باتیں کرتی کھلکھلاتی اچھلتی کودتی اس کے ہمراہ چلی ہوگئی چاکلیٹ کی مٹھاس کو محسوس کر کے آنکھوں میں جلنے والے ستارے کیسے بجھے ہونگے جب انسانیت نے درندگی کا لبادہ اوڑھا ہوگا ۔ان کنچوں جیسی شفاف نگاہوں میں نہ سمجھنے وال حیرانگی وہ تو پیار کے علاوہ کسی جذبے سے واقف ہی نہ تھی۔کیا قصور تھا اس معصوم کا ۔شاید یہ کہ وہ بنت ِ حوا تھی۔جسے قبل اسلام بھی زمین میں زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اور اب بھی کبھی وہ وحشت وبربریت کا شکار ہوتی ہے تو کبھی زندہ جلا دی جاتی ہے ۔کاش ایک بار صرف ایک بار ان درندوں کو سر عام دار پہ لٹکایا جائے تو کتنی زینبیں بچ جائیں ۔مگر شاید پشت پناہی اور ہماری بے حسی سب سے بڑھ کر لا قانونیت جس میں جنگل کا قانون چلتا ایسا نہ ہونے دے۔

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.