محبت رسول ﷺکے تقاضے
تحریر۔۔۔۔۔ محمد عمر شاکر
سرمایہ حیات ہے سیرت رسول ﷺ کی
فلاح کائنات ہے سیرت رسول ﷺ کی
بنجر دلوں کو آپ ﷺ نے سیراب کر دیا
اک چشمہ صفات ہے سیرت رسولﷺ کی
محبت وعشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو حضرت انسان کو دوسری اقوام سے ممتاز کرتا ہے یہ جذبہ بناوٹ عیاری امید لالچ سے ماورا ہوتا ہے یہ جذبہ انسان کو ایک جست میں اس بلندی اور آفاقیت پر لے جاتا ہے جسکا تصور بھی عقل انسانی میں نا ممکن ہوتا ہے اس قوت سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے اور اسی جذبہ کے تحت ایمان بل غیب پر یقین پختہ سے پختہ ہوتا ہے
یہ جذبہ یہ تعلق یا کشش ں بی آخرزمان حضرت محمدمصطفی ﷺ سے ہو تو پھر تو دونوں جہاں کی کامیابیاں کامرانیاں انسان کے قدموں میں آ جائیں ان کی ہستی تو ایک بحر زخار کی مانند ہے جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں جس کی تعلیمات محبت اخوت مساوات اور رواداری کا درس دیتی ہیں ۔ لوگوں کو حیات نو عطا کرتی ہیں ان کے اخلاق کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالی خود فرماتے ہیں:
’’اے حبیب بے شک تو اخلاق کے بلند درجے پر ہے‘‘۔
جن کو منصب نبوت سے پہلے عرب کے جاہلانہ فسودہ معاشرے میں امین اور صادق کے خطاب دیئے گئے رشک کی بات ہے کہ ہم ان کے امتی ہیں اور اس عظمت والی شخصیت کی وجہ سے آج بھی دنیا منور ہے ۔علامہ محمد اقبال حضور ﷺ سے اپنے والہانہ عشق کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ با برکت جامع الحثیات ہے تمام کمالات ظاہر و باطن کی اور سرچشمہ ہے تمام مظاہر حقیقت و مجاز کاعشق کا یہ مرتبہ ایمان کا خاصہ و خلاصہ ہے اتباعِ رسول کے بغیر محبت رسولﷺ بلا شبہ ناممکن ہے آپ ﷺکی ذات گرامی رحمۃ اللعالمین ہے اس لئے ہر مؤمن کو بھی رحمت و شفقت کا آئینہ ہونا چاہئے مسلمان کی سرشت ایک موتی کی طرح ہے جس کو آب و تاب بحرِ رسول ﷺ سے حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال اسو�ۂ حسنہ کی تقلید کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مؤمن تو باغِ مصطفوی کی ایک کلی ہے ،بہار مصطفی کی ہواؤں سے کھل کر پھول بن جا۔خالقِ کائنات نے جب اس دنیا میں اپنی کاریگری کا آغاز کیا اور حضرت انسان کی شکل میں اپنے چھپے ہوئے خزانے کو عیاں کیا پھر جب ارتقاء کی منازل طے ہوئیں اور قوائے انسانی اپنے پورے کمال پر آگئے تو رب العالمین نے محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا جو سب کیلئے رحمت ہادی راہ نما اور مہربان تھے
تاریخ اگر ڈھونڈے گئی ثانی محمد ﷺ
ثانی تو بڑی چیز سایہ محمد ﷺ بھی نہیں ملے گا
آنحضور ﷺ کے ہم امتی ہیں یہ ایک کارواں ہے اور مجتبیٰ ﷺ اس کے سالار ہیں جن کی تقلید میں ہمارا تن من دھن قربان کرنے کو اولیت دینی چاہئے اور انہی کی راہ نمائی میں اپنی جان اور مال و اولاد کی قربانی کو ترجیح دینی چاہئے صحابہ کرامؓ جب کبھی آپ ﷺ سے مخاطب ہوتے تو پہلے فرماتے اے محبوبِ خدا آپ پر میں جان و مال میرے ماں باپ اور اولاد سبھی قربان جائے اسوہ نبویﷺ کے اتباہ کی بدولت ہی ہم مکارم الاخلاق سے آراستہ ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے دلوں میں کشادگی اور نو ر و تجلیاتِ خداوندی جگہ پا سکتی ہے آپ ہی کی وجہ سے اس دنیا میں خالقِ حقیقی کی ذات کی پہچان صحیح معنوں میں ممکن ہو پائی ۔آپ ؑ ﷺ ہی تھے جنہوں نے خدا تعٰلیٰ کی حقیقت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کے راز آشکار کئے۔حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کا اخلاق کیا ہے ؟ تو ام المؤمنینؓ نے فرمایا کہ قرآن پڑھ لو سارے کا سارا ہی آپ ﷺ کے اخلاق پر مبنی ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان تو کر دیا مگرابو سفیان اور ہندہ کو بھی بخش دیا لیکن ہم ہیں جو محبت رسولﷺ کے بلندوبانگ دعوے کرتے ہیں مگر کیا کسی سے عشق و محبت کا نبھانا یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ محبوب کے رنگ میں رنگ جائے اگر ہم محبوبِ خدا کے ساتھ محبت کے دعویدار ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کی اطاعت کریں ان کے اصحاب کی اطاعت کو زندگی کا مقصد عین بنا لیں جو ان تک رسائی کا ذریعہ ہے آنحضور ﷺ کی زندگی سے بے شمار ایسی مثالیں ملتیں ہیں جو نوعِ انسانی کی زندگی کیلئے مشعل راہ ہیں ۔ لیکن ہم ایسے امتی رسول ﷺ ہیں جن کی زبان ہاتھ اور پاؤں سے دوسرا مسلمان یہاں تک کہ اپنے عزیز بھی محفوظ نہیں اور ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمارا کلام گالیوں سے شروع ہو کر غلاظت پر ختم ہوتا ہے ۔ ہم کیسے محب رسول ﷺ ہیں کہ درگزر کرنے کی بجائے فتنہ و فساد بپا کرتے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے در پے ہو جاتے ہیں دعوے تو ہم آپﷺ کی ناموس پر مر مٹنے کے کرتے ہیں اور عامۃ الناسکو اور انکی اولادوں ورغلاتے ہیں کہ ناموس رسالت ﷺ پر قربان ہو جاؤلیکن ہماری اولادیں مغرب کی رعنائیوں میں گم زندگی گزارتی ہیں ہمارے علماء کرام مشائخ عظام تن من دھن سے تحفظ ناموسﷺ کے نعرے لگاتے ہیں لیکن خود دوسرے ممالک سے امداد لے کر کھاتے ہیں ایک طرف صحابہ کے دیوانے ہیں تو دوسری طرف اللہ احکم الحاکمین کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے والے دعویدار ! لیکن دونوں کا رویہ ایسا ہے کہ جو نا قابل بیان نا قابل تحریر ہوتا ہے بد اخلاقی اور گالم گلوچ نہ تو صحابہؓ کی غلامی ہے نہ اس سے نفاذ نظام اسلام ہو گا اگر ہمیا ہمارے مذہبی رہنماء دعوؤں میں صادق ہیں تو انہی کے تقاضوں کے مطابق اپنے کردار کو بھی پیش کیجئے ،مشاجرات صحابہ میں صحابہ کرامؓ کے باہمی تعلقات یقیناََ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں شاعر مشرق نے کیا خوب کہا:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالا کر دے