• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

اک صبح نا آسود گیوں کے نام ، تحریر: مقبول جنجوعہ آف ابوظہبی

webmaster by webmaster
نومبر 12, 2017
in کالم
0
چھ نومبر دو ہزار سترہ صبح صبح کی بات ہے کہ میری وہ شب کسی بے چاری کی فکر اور پھر اس کی چارہ سازی کی امید میں تھے میرا یہی ارادہ مسسم تھا کہ آج سویرے سویرے خدا کی مخلوق کا تماشہ دیکھا جائے ابھی اندھیری دم توڑ رہی تھی اور روشنی کا بول بالا ہونے کو ہی تھا کہ ابوظہبی شہر کے ان پکے مکانوں کی چھتوں پر لگے فولادی جنگلوں سے کچھ نیلی سی روشنی گزرتی معلوم ہوئی ہی تھی کہ ابھی تک کوئی سایہ ہی نہیں تھا میں سامنے اپنے محلے کی گلی کو ہو لیا اور یہاں کہیں دور کسی کونے سے کوئی آدم زاد آتی دکھائی دی البتہ محلوں کو ملانے والی ان چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر جو ایک سے ایک گلی کو ملاتی ہیں ان پر شب بھر گلی کے بدمعاش بلوں کا راج رہا ہے کتے مگر نظر نہیں آتے کوئی کہیں غلطی سے آبھی نکلے تو گروہ کے سرپرست بلوں سے خوب مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے لیکن اس دن ایسا نہیں ہو رہا تھا اصل میں ہوا یوں کہ ناشتہ کی تلاش میں یہاں اب قریب کی دکانیں بند پا کر میں بہت دور چلا گیا ہوں بھوک بھی ستا رہی تھی اور ادھر خدا کی مخلوق کے نظارے دیکھنے سے بھی محروم نہیں رہ سکتا تھا ایک کے بعد ایک قدم کانوں میں ٹوٹیاں اور ان میں سویرے سویرے ایف ایم لیہ پر لگی بھر دو جھولی میری یا محمد مجھے کئی پرانے وقتوں کی یاد دلا رہی ہوتی ہیں سکول کا صبح سویرے کا وقت اپنے نیک بزرگوں کی یادیں اور اپنے گاؤں کے اوقات لو پھر تازہ سرد ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ایک ہوٹل کھلا ہوا ملا ہے اور آج سحر خیزی کی نوعیت یوں ہوئی کہ میں ان کا پہلا گاہک تھا ابھی چائے کی دیگچی نے پہلی انگڑائی لی ہی تھی اور ساتھ ہی چائے کی خالی پیالیاں کوئی امید بھر آنے کی صورت خود میں چائے کے بھر جانے کو ہی تھی اور پراٹھے بھی اسی وقت ہی توے کی زینت بن رہے تھے مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ میاں کیا لایا جائے تو ایک پراٹھا انڈا اور چائے کے ایک کپ اپنے مستقبل کی فکرمندی کے ساتھ نوش فرما کر میں پھر سے واپسی کے لئے وہاں سے چل نکلا اب کی بار پھر میں ساتھ ہی ایک پارک کی جانب چلا نکلا  جو سبزہ و گل سے بھرپور تخیلات جنم دینے کی ایک بھرپور جگہ ہے سنا ہے سویرے سویرے رحمتیں برستی ہیں میں نے کہا چلو دل تو ہر وقت سوگ میں رہا کرتا ہے آج چلو یونہی سیر کرتے آدم زاد دیکھ لوں کہ جن کے چہروں پر مسرتیں اچھل رہی ہوتی ہیں میں بھی تو دیکھوں کہاں سے ان مسرتوں کا نزول ہوتا ہے فٹ پاتھ سے ہوتا ہوا ایک پارک میں آن پہنچا ہوں ایک خوش طبع بزرگ موت کے انتظار سے فرقت پا کر اسی پارک میں آخری عمر کی الجھنوں اور گزرے حالت کے غم سمیٹنے والے اپنے جسم کے تمام جوڑوں کو ٹٹول کر دیکھ رہا تھا جیسے کوئی جوان صبح سویرے کو کثرت کرتا ہو وہ بزرگ بھی بوڑھے جسم کو حرکت دے رہا تھا شاید اس کے جوڑوں سے آوازیں بھی آ رہی تھی جو مجھے سنائی نہیں دیں اتنے میں کیا دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی قدرے تیز قدم میرے پاس سے گزری اتنے میں دو پکی عمر کی بزرگ خواتین بھی وہاں تشریف لے آئیں کوئی باریک موضوع ہے جس پر تبصرہ کرنے میں مگن ہوں خیر ہم سب ایک دوسرے کی طرف مکمل متوجع ہوئے پارک میں قدرتی ماحول قائم رکھا گیا تھا تاکہ شہر کے ہنگاموں سے قطع نظر سویرے سویرے آدم اور حوا کے بیٹے بیٹیاں یہاں آکر کچھ تسکین قلب و جاں کا ساماں کر سکیں میرے ذہن میں بے شمار نا آسودگیاں آنے لگیں جنہوں نے کسی نہ کسی فکر کے تسلسل میں جنم لیا ہوا تھا کبھی کبھار جب میں سوچتا ہوں کہ کیا معلوم کہ ناگہانی میں مارا جاؤں پھر یہ فکریں کہاں جائیں گی مستقبل اور اس کی تشکیل سے جڑے سارے خواب کہاں کس کے آنسوں سے ٹپکا کریں گے کیا آدمی کو مرنے کے بعد یاد رکھا جاتا ہے یہ مصروف زندگی ہے ہر اک کا رونا الگ ہے میرے اقرباء کی بات الگ ہے کہ وہ روئیں گے شاید بھول نہ پائیں گے البتہ ایک نہ ایک دن یہ ہو گا کہ اس رابطے کی دنیا اور میرے دور دراز کے اجنبی دوستوں کی بے تکلفانہ چائے خانوں پر جمنے والی نشستوں میں کوئی مقبول جنجوعہ نہیں ہو گا انٹرنیٹ پر کوئی بلا ہے جسے فیس بک کہا جاتا ہے اس پر بھی مقبول جنجوعہ کے نام سے ایک اکاونٹ موجود تو ہو گا لیکن اسے کون چلائے گا اس جنجوعہ برادرز لیہ نام کے پیج سے تحریریں بھی آنا بند ہو جائیں گی واٹس اپ اور ای میل بھی بے رونق ہو جائیں گے اور کوئی بھی فرق پڑے بغیر میرے ہم پلہ رہنے والوں کے روز مرہ جات جاری رہیں گے یہ ساری نا آسودگیاں میرے ذہن میں ڈیرے جمائے ہوئے تھی پارک میں ایک طرف سے داخل ہو کر اب دوسری طرف سے نکلنے والا ہی تھا کہ یہاں پیدل چلنے کو الگ راستہ مخصوص ہے جہاں سویرے سویرے باہمت لوگ نوجواں بھاگتے دوڑتے ہیں بزگ ٹہلتے ہیں اور عورتیں بھی چلنے کی صورت کوئی طرز عمل اختیار کئے ہوتی ہیں یہ نا آسودگیاں آدمی کو بنانے بگاڑنے میں برابر کردار ادا کرتی ہیں میں خود کو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا بہر حال اس بحر میں آنے والے کہاں پارک سے نکل آیا ہوں واپس وہی سڑک کا فٹ پاتھ تھا کانوں میں ٹوٹیاں ایف ایم لیہ کوئی صوفیانہ کلام اور ایک کے بعد آہستہ آہستہ قدم اٹھائے وہاں سے چل دیا سڑک پر کافی دیر کے بعد کوئی تیز رفتار گاڑی گزری سویر کا وقت تھا ایسا ہی ہونا تھا تو دوستو کبھی کبھی میں جب اپنی زندگی کے اسلوب سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو سمجھ نہیں آپاتے آدمی کیا کرے ایک بندھن کو قائم کرنے کے لئے کئی بندھنوں سے نفرتیں مول لینی پڑتی ہیں کسی کو اخلاص کے ساتھ چاہو اور اگر نہ پا سکو تو اول تو یہ کہ فطرت کے خلاف مر جاؤ لیکن کیوں جن کی محنت سے جنم لیا ان کے احسانات کا کیا کرو گے پھر ان مجبوریوں کے عالم میں زندہ ہی رہو اور ہاں مگر ایسے کہ جس کو چاہ رہے ہو اب ساری زندگی نہ اس کا سامنا کر سکو نہ برداشت ہی کر پاؤ اور ملامت سے آسودہ رہو شرم سے ڈوب مرو اس سے بہتر یہ نہیں کہ مر جاؤں وہ بھی انسان کے بس میں نہیں تو یہ انسان پھر کہاں جائے دوستو میں یہ سب کچھ سوچنے کے لئے ہرگز صبح کی سیر کو نہ گیا تھا بلکہ سنا تھا کہ سویرے سویرے رحمتیں ابن آدم کے واسطے برستی ہیں رزق بھی تقسیم ہوتا ہے تو میں بھی اس دن اپنے خدا کے آگے ایک سوالیہ انداز میں چلا گیا تھا اب اپنی گلی میں پہنچ چکا ہوں نا آسودگیاں بھی ساتھ ساتھ ہی ہیں البتہ کئی خوش دل خوش مزاج آدم زاد سویرے سویرے دیکھ کر میری بھلائی کی رگوں
میں نا امیدی کے منجمند خون نے تھوڑی سی گردش پکڑی ہے۔؟
مقبول جنجوعہ 
Tags: column by maqbool janjoa
Previous Post

تونسہ شریف ۔نواز شریف نااہل ہوگیا اب شہباز شریف کی باری ہے ، پنجاب کا 60فی صد بجٹ لاہور میں لگا دیا جاتا ہے ،سموگ کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے :عمران خان

Next Post

ڈیرہ غازیخان ۔ ضلع میں 11ارب 35کروڑ روپے کی لاگت سے 163منصوبوں پر کا م جاری ،منصوبے دی گئی ٹائم لائن کے اندر مکمل ہونے چاہئیں . ڈپٹی کمشنر محمد ابراہیم جنید

Next Post
ڈیرہ غازیخان ۔ ضلع میں 11ارب 35کروڑ روپے کی لاگت سے 163منصوبوں پر کا م جاری ،منصوبے دی گئی ٹائم لائن کے اندر مکمل ہونے چاہئیں . ڈپٹی کمشنر محمد ابراہیم جنید

ڈیرہ غازیخان ۔ ضلع میں 11ارب 35کروڑ روپے کی لاگت سے 163منصوبوں پر کا م جاری ،منصوبے دی گئی ٹائم لائن کے اندر مکمل ہونے چاہئیں . ڈپٹی کمشنر محمد ابراہیم جنید

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
چھ نومبر دو ہزار سترہ صبح صبح کی بات ہے کہ میری وہ شب کسی بے چاری کی فکر اور پھر اس کی چارہ سازی کی امید میں تھے میرا یہی ارادہ مسسم تھا کہ آج سویرے سویرے خدا کی مخلوق کا تماشہ دیکھا جائے ابھی اندھیری دم توڑ رہی تھی اور روشنی کا بول بالا ہونے کو ہی تھا کہ ابوظہبی شہر کے ان پکے مکانوں کی چھتوں پر لگے فولادی جنگلوں سے کچھ نیلی سی روشنی گزرتی معلوم ہوئی ہی تھی کہ ابھی تک کوئی سایہ ہی نہیں تھا میں سامنے اپنے محلے کی گلی کو ہو لیا اور یہاں کہیں دور کسی کونے سے کوئی آدم زاد آتی دکھائی دی البتہ محلوں کو ملانے والی ان چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر جو ایک سے ایک گلی کو ملاتی ہیں ان پر شب بھر گلی کے بدمعاش بلوں کا راج رہا ہے کتے مگر نظر نہیں آتے کوئی کہیں غلطی سے آبھی نکلے تو گروہ کے سرپرست بلوں سے خوب مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے لیکن اس دن ایسا نہیں ہو رہا تھا اصل میں ہوا یوں کہ ناشتہ کی تلاش میں یہاں اب قریب کی دکانیں بند پا کر میں بہت دور چلا گیا ہوں بھوک بھی ستا رہی تھی اور ادھر خدا کی مخلوق کے نظارے دیکھنے سے بھی محروم نہیں رہ سکتا تھا ایک کے بعد ایک قدم کانوں میں ٹوٹیاں اور ان میں سویرے سویرے ایف ایم لیہ پر لگی بھر دو جھولی میری یا محمد مجھے کئی پرانے وقتوں کی یاد دلا رہی ہوتی ہیں سکول کا صبح سویرے کا وقت اپنے نیک بزرگوں کی یادیں اور اپنے گاؤں کے اوقات لو پھر تازہ سرد ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ایک ہوٹل کھلا ہوا ملا ہے اور آج سحر خیزی کی نوعیت یوں ہوئی کہ میں ان کا پہلا گاہک تھا ابھی چائے کی دیگچی نے پہلی انگڑائی لی ہی تھی اور ساتھ ہی چائے کی خالی پیالیاں کوئی امید بھر آنے کی صورت خود میں چائے کے بھر جانے کو ہی تھی اور پراٹھے بھی اسی وقت ہی توے کی زینت بن رہے تھے مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ میاں کیا لایا جائے تو ایک پراٹھا انڈا اور چائے کے ایک کپ اپنے مستقبل کی فکرمندی کے ساتھ نوش فرما کر میں پھر سے واپسی کے لئے وہاں سے چل نکلا اب کی بار پھر میں ساتھ ہی ایک پارک کی جانب چلا نکلا  جو سبزہ و گل سے بھرپور تخیلات جنم دینے کی ایک بھرپور جگہ ہے سنا ہے سویرے سویرے رحمتیں برستی ہیں میں نے کہا چلو دل تو ہر وقت سوگ میں رہا کرتا ہے آج چلو یونہی سیر کرتے آدم زاد دیکھ لوں کہ جن کے چہروں پر مسرتیں اچھل رہی ہوتی ہیں میں بھی تو دیکھوں کہاں سے ان مسرتوں کا نزول ہوتا ہے فٹ پاتھ سے ہوتا ہوا ایک پارک میں آن پہنچا ہوں ایک خوش طبع بزرگ موت کے انتظار سے فرقت پا کر اسی پارک میں آخری عمر کی الجھنوں اور گزرے حالت کے غم سمیٹنے والے اپنے جسم کے تمام جوڑوں کو ٹٹول کر دیکھ رہا تھا جیسے کوئی جوان صبح سویرے کو کثرت کرتا ہو وہ بزرگ بھی بوڑھے جسم کو حرکت دے رہا تھا شاید اس کے جوڑوں سے آوازیں بھی آ رہی تھی جو مجھے سنائی نہیں دیں اتنے میں کیا دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی قدرے تیز قدم میرے پاس سے گزری اتنے میں دو پکی عمر کی بزرگ خواتین بھی وہاں تشریف لے آئیں کوئی باریک موضوع ہے جس پر تبصرہ کرنے میں مگن ہوں خیر ہم سب ایک دوسرے کی طرف مکمل متوجع ہوئے پارک میں قدرتی ماحول قائم رکھا گیا تھا تاکہ شہر کے ہنگاموں سے قطع نظر سویرے سویرے آدم اور حوا کے بیٹے بیٹیاں یہاں آکر کچھ تسکین قلب و جاں کا ساماں کر سکیں میرے ذہن میں بے شمار نا آسودگیاں آنے لگیں جنہوں نے کسی نہ کسی فکر کے تسلسل میں جنم لیا ہوا تھا کبھی کبھار جب میں سوچتا ہوں کہ کیا معلوم کہ ناگہانی میں مارا جاؤں پھر یہ فکریں کہاں جائیں گی مستقبل اور اس کی تشکیل سے جڑے سارے خواب کہاں کس کے آنسوں سے ٹپکا کریں گے کیا آدمی کو مرنے کے بعد یاد رکھا جاتا ہے یہ مصروف زندگی ہے ہر اک کا رونا الگ ہے میرے اقرباء کی بات الگ ہے کہ وہ روئیں گے شاید بھول نہ پائیں گے البتہ ایک نہ ایک دن یہ ہو گا کہ اس رابطے کی دنیا اور میرے دور دراز کے اجنبی دوستوں کی بے تکلفانہ چائے خانوں پر جمنے والی نشستوں میں کوئی مقبول جنجوعہ نہیں ہو گا انٹرنیٹ پر کوئی بلا ہے جسے فیس بک کہا جاتا ہے اس پر بھی مقبول جنجوعہ کے نام سے ایک اکاونٹ موجود تو ہو گا لیکن اسے کون چلائے گا اس جنجوعہ برادرز لیہ نام کے پیج سے تحریریں بھی آنا بند ہو جائیں گی واٹس اپ اور ای میل بھی بے رونق ہو جائیں گے اور کوئی بھی فرق پڑے بغیر میرے ہم پلہ رہنے والوں کے روز مرہ جات جاری رہیں گے یہ ساری نا آسودگیاں میرے ذہن میں ڈیرے جمائے ہوئے تھی پارک میں ایک طرف سے داخل ہو کر اب دوسری طرف سے نکلنے والا ہی تھا کہ یہاں پیدل چلنے کو الگ راستہ مخصوص ہے جہاں سویرے سویرے باہمت لوگ نوجواں بھاگتے دوڑتے ہیں بزگ ٹہلتے ہیں اور عورتیں بھی چلنے کی صورت کوئی طرز عمل اختیار کئے ہوتی ہیں یہ نا آسودگیاں آدمی کو بنانے بگاڑنے میں برابر کردار ادا کرتی ہیں میں خود کو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا بہر حال اس بحر میں آنے والے کہاں پارک سے نکل آیا ہوں واپس وہی سڑک کا فٹ پاتھ تھا کانوں میں ٹوٹیاں ایف ایم لیہ کوئی صوفیانہ کلام اور ایک کے بعد آہستہ آہستہ قدم اٹھائے وہاں سے چل دیا سڑک پر کافی دیر کے بعد کوئی تیز رفتار گاڑی گزری سویر کا وقت تھا ایسا ہی ہونا تھا تو دوستو کبھی کبھی میں جب اپنی زندگی کے اسلوب سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو سمجھ نہیں آپاتے آدمی کیا کرے ایک بندھن کو قائم کرنے کے لئے کئی بندھنوں سے نفرتیں مول لینی پڑتی ہیں کسی کو اخلاص کے ساتھ چاہو اور اگر نہ پا سکو تو اول تو یہ کہ فطرت کے خلاف مر جاؤ لیکن کیوں جن کی محنت سے جنم لیا ان کے احسانات کا کیا کرو گے پھر ان مجبوریوں کے عالم میں زندہ ہی رہو اور ہاں مگر ایسے کہ جس کو چاہ رہے ہو اب ساری زندگی نہ اس کا سامنا کر سکو نہ برداشت ہی کر پاؤ اور ملامت سے آسودہ رہو شرم سے ڈوب مرو اس سے بہتر یہ نہیں کہ مر جاؤں وہ بھی انسان کے بس میں نہیں تو یہ انسان پھر کہاں جائے دوستو میں یہ سب کچھ سوچنے کے لئے ہرگز صبح کی سیر کو نہ گیا تھا بلکہ سنا تھا کہ سویرے سویرے رحمتیں ابن آدم کے واسطے برستی ہیں رزق بھی تقسیم ہوتا ہے تو میں بھی اس دن اپنے خدا کے آگے ایک سوالیہ انداز میں چلا گیا تھا اب اپنی گلی میں پہنچ چکا ہوں نا آسودگیاں بھی ساتھ ساتھ ہی ہیں البتہ کئی خوش دل خوش مزاج آدم زاد سویرے سویرے دیکھ کر میری بھلائی کی رگوں
میں نا امیدی کے منجمند خون نے تھوڑی سی گردش پکڑی ہے۔؟
مقبول جنجوعہ 
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.