• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

بدھے چور تے ہر کوئی ڈاہڈا ہوندے .. خضرکلاسرا

webmaster by webmaster
اگست 29, 2017
in کالم
0
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی  …  خضرکلاسرا

بدھے چور تے ہر کوئی ڈاہڈا ہوندے 
خضرکلاسرا 

معروف صحافی ارشد شریف کے پروگرام” پاور پلے” میں پیپلزپارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری پوری طاقت کیساتھ نوازشریف پر حملہ آور تھے اور کوئی جملہ ایسا نہیں تھا جو نوازشریف پر طنز کی صورت میں نہ برسارہے ہوں ۔نوازشریف کو سیکورٹی رسک قراردیا۔ بھارت کیساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا الزام بھی لگارہے تھے ا ۔ دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ ارشدشریف ان کو میٹھے اور حقائق پر مبنی سوالوں کیساتھ موصوف کو خوابوں کی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا کی طرف لانے کی بھرپور کوشش کررہے تو راقم الحروف کو سرائیکی کا یہ محاور ہ شدت سے یاد آرہاتھا کہ” بدھے چور تے ہر کوئی ڈاہڈا ہوندے”مطلب جب چور پکڑا جاتاہے تو پھر ھر کوئی اس پر چڑھ دوڑتاہے اور اپنی بہادری کے جوھر دکھاتاہے ۔ لیکن عا م حالات میں یہی بہادری کی تاریخ رقم کرنیوالے اداکار اپنے علاوہ دوسروں کو بھی شہر کے چوکوں ،چوراہوں پر بغیر تنخواہ کے سمجھاتے پھرتے ہیں کہ ایسے چور،اچکے اور بدمعا ش سے دور رہیں تو بہترہے۔ایسے خواہ مخواہ منہ لگنے کا کیافائدہ ہے ؟ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔نوازشریف وزیراعظم تھے تو زرداری صاحب بمع پارٹی تابعدار تھے۔ نوازشریف حکومت کو مکمل سہولت پیکج فراہم کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ نوازحکومت کی طرف سے کوئی شکایت نہ ملے کہ شاہ صاحب عوام کی خاطر ایوان میں حقیقی اپوزیشن لیڈر بننے کی کوشش کرر ہے ہیں اور شاہ صاحب نے پہلی بار کہے کو ہی کافی سمجھااور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ،وہ کیا جوکہ لیگی قیادت سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ خورشید شاہ کو اس بات کی بھی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے پورے چار سال کی مدت میں اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر لیگی قیادت کو وہ سروس دی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔حد تو یہ تھی کہ کورم پورا کروانا جو کہ حکومت کاکام ہوتاہے لیکن شاہ صاحب نے اس کیلئے بھی اپنی خدمات پیش کردیں ۔شاہ صاحب اسمبلی میں حکمران جماعت کیلئے وہ کرگزرے کہ پریس گیلری میں موجود صحافیوں کو بھی شاہ صاحب کی معصو م ادادؤں پر داد دینی پڑگئی ۔خورشید شاہ کی مسلسل نوازشریف کیلئے بلامعاوضہ ہمدردیوں کو دیکھ کر وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب سمیت دیگر وزراء اور ارکان بھی وہم میں پڑ گئے کہ یااللہ آخر ماجرا کیاہے کہ خورشید ہمارے سوچنے سے پہلے ہی ہمیں درپیش ایشوزکو حل کرنے کیلئے ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ ایک دن خواجہ آصف نے فلور آف دی ہاوس خورشد شاہ کو رنگ باز اپوزیشن لیڈرقراردیاتاکہ کہیں تو شاہ صاحب حکومت کی تابعداری سے فاصلہ کریں لیکن شاہ صاحب تھے کہ انہوں نے رنگ باز جیسے تذلیل بھرے لفظ کو بھی خلوص کیساتھ پی لیا ۔اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق جوکہ بحیثت اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی خدمات کے عینی شاہد ہیں ،انہوں نے خواجہ آصف کی طرف سے شاہ صاحب کیلئے کہے گئے الفاظ رنگ باز اپوزیشن لیڈر کو حذف کرنے کا اشارہ دیاتو لیگی لیڈر خواجہ آصف بھڑک پڑے کہ جناب اسپیکر آپ ان الفاظ کو حذف نہیں کریں گے ،ایاز صادق تھوڑی دیر تو اپنی بات پر ڈتے رہے لیکن اسپیکر کو اس وقت خاموش ہوناپڑا جب خواجہ آصف نے تلخ لہجہ کے ساتھ انہیں مجبور کردیاکہ وہ بحیثت اسپیکر اختیار ہونے کے باوجود بھی ایسانہیں کریں گے ۔
پروگرام میں آصف علی زرداری نے نوازشریف پر سنگین الزامات لگائے ،مثال کے طورپر ان کا تکرار تھاکہ نوازشریف سیکورٹی رسک ہیں اوران کے چیرمین بلاول بھٹو نے نعرہ لگایاتھاکہ مودی کا جو یارہے غدار ہے ،غدارہے۔ان کا کہناتھاکہ نوازشریف گریٹر پنجاب بناناچاہتے ہیں ۔ارشد کی طرف سے اس الزام پر حیرت کا اظہار کیاگیاتو موصوف نے دوبارہ اپنی بات دھرا ئی کہ نوازشریف گریٹر پنجاب بناناچاہتے ہیں اور ان کا گریٹر پنجا ب میں ان کا مال بکتاہے ۔زرداری کا کہنا تھاکہ میری تعریف بھارت سے آئے تو اچھی بات نہیں ہوگی ،نوازشریف صاحب کی تو آرہی ہے۔نوازشریف پر بھارت نوازی الزام نہیں لگارہاہے،یقین ہے۔ملک چلانے اور بزنس چلانے میں بڑا فرق ہوتاہے۔2013 ء کے الیکشن کے بارمیں سوال پر آصف زرداری کا کہناتھا کہ وہ آراو الیکشن تھے ۔ادھرارشدکی طرف سے سوال اٹھایاگیاکہ پھر آپ نے نتائج کو تسلیم کیوں کیا ؟ تو وہی پرانی واردات تھی کہ ہم نے نظام کو چلاناتھا۔ساتھ ہی کہاکہ نوازشریف کبھی الیکشن نہیں جیتاہے بلکہ اس کو ہمیشہ لایاجاتاہے۔ہمارے مخالفین کو کرسی نہ ملے تو ان کے رنگ پیلے ہوجاتے ہیں ۔۔نوازشریف کا پاکستان میں دس ارب ڈالرکا بزنس پورٹ فولیو ہے۔ یہ سودگران پنجاب ہیں۔آصف علی زرداری نے پروگرام میں آئندہ الیکشن میں نتائج کی جوتقسیم کی اس میں تحریک انصاف کو سندھ ،وسطی پنجاب اور خبیر پختواہ سمیت بلوچستان سے مکمل فارغ کردیا اور عمران خان کے ووٹ بنک کو جنوبی پنجاب تک محدود کردیا مطلب پیپلزپارٹی بالخصوص زرداری اپنے کارناموں کی بدولت سرائیکی دھرتی کے ووٹ بنک سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ادھرموصوف نوازشریف کو تو اپنے تئیں نااہلی کے بعد الیکشن کے عمل سے نکال چکے ہیں ۔راقم الحرو ف کیلئے دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ نوازشریف بحیثت وزیراعظم جب چارسال تک ملک کا برا حال کررہے تھے ،اداروں کو مفلوج کرنے سے لیکر عوام کی زندگی اجیرن بنارہے تھے ،ملک وزیرخارجہ کے بغیر چل رہاتھا ،حکومت کی طرف سے بیرونی قرضوں لینے کی حدیوں کردی گئی تھی کہ تاریخ میں اتنا قرضہ کبھی پاکستان میں کسی حکومت نے نہیں لیاتھا ۔ادھر عوامی مینڈیٹ کی توہین نوازشریف یوں کررہے تھے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں موصوف آنے پر تیار نہیں تھے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی دن بدن یوں کمزور ہورہی تھی کہ نوازشریف نے وزیرخارجہ نہیں بنایاتھا، دوسری طرف دشمن قوتیں پاکستان کودیوار کیساتھ لگانے کیلئے عالمی سطح پر سرگرم تھیں ۔پاکستان میں بگڑتی صورتحال میں عام آدمی کو پریشان کررہی تھی کہ ہ ملک کے حالات دن بدن خراب ہی ہوتے جارہے تھے لیکن نوازشریف تھے کہ میں نہ مانوں کی ضد پر قائم تھے ۔اس پیچیدہ صورت حال میں پیپلزپارٹی کے لیڈرآصف زرداری بمع اپنی پوری پارٹی نوازشریف اورحکومت کی تابعدار ی میں لگے ہوئے تھے ۔نوازحکومت کی اپوزیشن کرنا تو درکنا ر ،پیپلزپارٹی تو چار سال کی جومدت مکمل
ہوئی ہے اس میں بچھی بچھی جارہی تھی ،اور صدقے واری ہورہی تھی ،نوازشریف کو جہاں بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مشکل سے دوچار کرتے،پیپلزپارٹی کی پوری لیڈرشپ نوازحکومت کے سامنے حاضر ہوجاتی اور اپنی تابعداری کی نوکری پر حاضر ہوجاتی ۔زرداری نے اسوقت ایک ہی نعرہ مستانہ اپنی زبان پر رکھاجوکہ جمہوریت کے ورد سے شروع ہوتا اور مفاہمت پر ختم ہوتاتھا۔اس سارے کھیل میں بچاری عوام کا دکھ کہیں زرداری کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔نوازشریف نے اپنی ذاتی خواہشات کی خاطر ملک کا بھرکس نکال دیااورزرداری اینٹوں کی خریداری کیلئے لندن ،دبئی اور دیگر ملکوں کے بھٹہ مالکان سے بھاؤ تاؤ کرتے رہے ۔موصوف اسوقت تک غائب رہے جب تک ان کویہ اطلاع نہیں ملی کہ اب نوازشریف اپنے ہی جال میں بچوں کو ارب پتی کرتے کرتے پھنس گئے ہیں اور سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد ڈھیر ہوگئے ہیں تو آصف زرداری وہی سرائیکی والامحاورہ کہ بدھے چور تے سارے ڈاہڈھے ہوندے ہن پر عمل کرنے کیلئے پاکستان پہنچے۔اورجمہوریت کیلئے کمر کس لی ۔عوام کو نوازشریف کے کاروبار اور چوربازاری سے آگاہ کرنے کیلئے سارے وسائل بروئے کار لے آئے ۔ساتھہ ہی نااہل وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے کی گئی گریٹر پنجاب کی سازش سے لے کر نوازشریف کی ساری وارداتوں سے پردہ اٹھانے لگے۔زرداری فارمولے میں تو یہ جمہوریت بچاؤ مہم ہے لیکن سمجھدار اس کو واردات کا نام دے رہے ہیں ۔ کیا ہی اچھاہوتاکہ آصف علی زرداری اسی انداز ،جرات اور جذبہ کیساتھ اسوقت قوم کیساتھ کھڑے ہوتے جب نوازشریف بحیثت وزیراعظم ملک وقوم کی توقعات کے بر خلاف کام کررہے تھے ۔اور اینٹوں کی خریداری کے چکرمیں موصوف باھر نہ چلے جاتے اور قوم کا حوصلہ بڑھاتے اور حقیقی معنوں میں اپوزیشن لیڈر کا کردار اداکرتے۔ نوازشریف کو اس حدتک پاکستان کا نقصان کرنے سے عوامی طاقت اور حقیقی اپوزیشن کیساتھ روکتے لیکن ایسا تو موصوف نہیں کرنا ہی تھا کیونکہ مک مکا فارمولہ چل رہاتھا ۔کیاہی اچھاہوتاکہ اب بھی آصف علی زرداری عوام کو بیووقووف بنانے کی سیاست کرنے کی بجائے ذوالفقارعلی بھٹو کی حقیقی سیاست کی طر ف لوٹے جاتے ۔ ہمارے خیال میں ٰ اب تو آصف علی زرداری بڑے ہوجاتے اور بڑے فیصلہ کرنے کی اپنے اندر صلاحیت پیدا کرتے۔دوسرے کے شکار پر سیاست کرنے کی بجائے ا پنے اندر شیر کا شکار کرنے کی صلاحیت پیداکرتے۔

Tags: column by khizar klasra
Previous Post

صفائی کو ووٹ دو .. از تحریر ملک ابوذر منجوٹھہ

Next Post

ڈیرہ غازی خان ۔میونسپل کارپوریشن کا اجلاس۔ عیدالضحیٰ کے موقع پر الائشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے ماسٹر پلان کی منظوری ،شہریوں میں 16 ہزار پولی تھن بیگ تقسیم

Next Post
ڈیرہ غازی خان ۔میونسپل کارپوریشن کا اجلاس۔ عیدالضحیٰ کے موقع پر الائشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے ماسٹر پلان کی منظوری ،شہریوں میں 16 ہزار پولی تھن بیگ تقسیم

ڈیرہ غازی خان ۔میونسپل کارپوریشن کا اجلاس۔ عیدالضحیٰ کے موقع پر الائشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے ماسٹر پلان کی منظوری ،شہریوں میں 16 ہزار پولی تھن بیگ تقسیم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

بدھے چور تے ہر کوئی ڈاہڈا ہوندے  خضرکلاسرا 

معروف صحافی ارشد شریف کے پروگرام" پاور پلے" میں پیپلزپارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری پوری طاقت کیساتھ نوازشریف پر حملہ آور تھے اور کوئی جملہ ایسا نہیں تھا جو نوازشریف پر طنز کی صورت میں نہ برسارہے ہوں ۔نوازشریف کو سیکورٹی رسک قراردیا۔ بھارت کیساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا الزام بھی لگارہے تھے ا ۔ دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ ارشدشریف ان کو میٹھے اور حقائق پر مبنی سوالوں کیساتھ موصوف کو خوابوں کی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا کی طرف لانے کی بھرپور کوشش کررہے تو راقم الحروف کو سرائیکی کا یہ محاور ہ شدت سے یاد آرہاتھا کہ" بدھے چور تے ہر کوئی ڈاہڈا ہوندے"مطلب جب چور پکڑا جاتاہے تو پھر ھر کوئی اس پر چڑھ دوڑتاہے اور اپنی بہادری کے جوھر دکھاتاہے ۔ لیکن عا م حالات میں یہی بہادری کی تاریخ رقم کرنیوالے اداکار اپنے علاوہ دوسروں کو بھی شہر کے چوکوں ،چوراہوں پر بغیر تنخواہ کے سمجھاتے پھرتے ہیں کہ ایسے چور،اچکے اور بدمعا ش سے دور رہیں تو بہترہے۔ایسے خواہ مخواہ منہ لگنے کا کیافائدہ ہے ؟ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔نوازشریف وزیراعظم تھے تو زرداری صاحب بمع پارٹی تابعدار تھے۔ نوازشریف حکومت کو مکمل سہولت پیکج فراہم کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ نوازحکومت کی طرف سے کوئی شکایت نہ ملے کہ شاہ صاحب عوام کی خاطر ایوان میں حقیقی اپوزیشن لیڈر بننے کی کوشش کرر ہے ہیں اور شاہ صاحب نے پہلی بار کہے کو ہی کافی سمجھااور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ،وہ کیا جوکہ لیگی قیادت سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ خورشید شاہ کو اس بات کی بھی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے پورے چار سال کی مدت میں اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر لیگی قیادت کو وہ سروس دی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔حد تو یہ تھی کہ کورم پورا کروانا جو کہ حکومت کاکام ہوتاہے لیکن شاہ صاحب نے اس کیلئے بھی اپنی خدمات پیش کردیں ۔شاہ صاحب اسمبلی میں حکمران جماعت کیلئے وہ کرگزرے کہ پریس گیلری میں موجود صحافیوں کو بھی شاہ صاحب کی معصو م ادادؤں پر داد دینی پڑگئی ۔خورشید شاہ کی مسلسل نوازشریف کیلئے بلامعاوضہ ہمدردیوں کو دیکھ کر وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب سمیت دیگر وزراء اور ارکان بھی وہم میں پڑ گئے کہ یااللہ آخر ماجرا کیاہے کہ خورشید ہمارے سوچنے سے پہلے ہی ہمیں درپیش ایشوزکو حل کرنے کیلئے ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ ایک دن خواجہ آصف نے فلور آف دی ہاوس خورشد شاہ کو رنگ باز اپوزیشن لیڈرقراردیاتاکہ کہیں تو شاہ صاحب حکومت کی تابعداری سے فاصلہ کریں لیکن شاہ صاحب تھے کہ انہوں نے رنگ باز جیسے تذلیل بھرے لفظ کو بھی خلوص کیساتھ پی لیا ۔اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق جوکہ بحیثت اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی خدمات کے عینی شاہد ہیں ،انہوں نے خواجہ آصف کی طرف سے شاہ صاحب کیلئے کہے گئے الفاظ رنگ باز اپوزیشن لیڈر کو حذف کرنے کا اشارہ دیاتو لیگی لیڈر خواجہ آصف بھڑک پڑے کہ جناب اسپیکر آپ ان الفاظ کو حذف نہیں کریں گے ،ایاز صادق تھوڑی دیر تو اپنی بات پر ڈتے رہے لیکن اسپیکر کو اس وقت خاموش ہوناپڑا جب خواجہ آصف نے تلخ لہجہ کے ساتھ انہیں مجبور کردیاکہ وہ بحیثت اسپیکر اختیار ہونے کے باوجود بھی ایسانہیں کریں گے ۔ پروگرام میں آصف علی زرداری نے نوازشریف پر سنگین الزامات لگائے ،مثال کے طورپر ان کا تکرار تھاکہ نوازشریف سیکورٹی رسک ہیں اوران کے چیرمین بلاول بھٹو نے نعرہ لگایاتھاکہ مودی کا جو یارہے غدار ہے ،غدارہے۔ان کا کہناتھاکہ نوازشریف گریٹر پنجاب بناناچاہتے ہیں ۔ارشد کی طرف سے اس الزام پر حیرت کا اظہار کیاگیاتو موصوف نے دوبارہ اپنی بات دھرا ئی کہ نوازشریف گریٹر پنجاب بناناچاہتے ہیں اور ان کا گریٹر پنجا ب میں ان کا مال بکتاہے ۔زرداری کا کہنا تھاکہ میری تعریف بھارت سے آئے تو اچھی بات نہیں ہوگی ،نوازشریف صاحب کی تو آرہی ہے۔نوازشریف پر بھارت نوازی الزام نہیں لگارہاہے،یقین ہے۔ملک چلانے اور بزنس چلانے میں بڑا فرق ہوتاہے۔2013 ء کے الیکشن کے بارمیں سوال پر آصف زرداری کا کہناتھا کہ وہ آراو الیکشن تھے ۔ادھرارشدکی طرف سے سوال اٹھایاگیاکہ پھر آپ نے نتائج کو تسلیم کیوں کیا ؟ تو وہی پرانی واردات تھی کہ ہم نے نظام کو چلاناتھا۔ساتھ ہی کہاکہ نوازشریف کبھی الیکشن نہیں جیتاہے بلکہ اس کو ہمیشہ لایاجاتاہے۔ہمارے مخالفین کو کرسی نہ ملے تو ان کے رنگ پیلے ہوجاتے ہیں ۔۔نوازشریف کا پاکستان میں دس ارب ڈالرکا بزنس پورٹ فولیو ہے۔ یہ سودگران پنجاب ہیں۔آصف علی زرداری نے پروگرام میں آئندہ الیکشن میں نتائج کی جوتقسیم کی اس میں تحریک انصاف کو سندھ ،وسطی پنجاب اور خبیر پختواہ سمیت بلوچستان سے مکمل فارغ کردیا اور عمران خان کے ووٹ بنک کو جنوبی پنجاب تک محدود کردیا مطلب پیپلزپارٹی بالخصوص زرداری اپنے کارناموں کی بدولت سرائیکی دھرتی کے ووٹ بنک سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ادھرموصوف نوازشریف کو تو اپنے تئیں نااہلی کے بعد الیکشن کے عمل سے نکال چکے ہیں ۔راقم الحرو ف کیلئے دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ نوازشریف بحیثت وزیراعظم جب چارسال تک ملک کا برا حال کررہے تھے ،اداروں کو مفلوج کرنے سے لیکر عوام کی زندگی اجیرن بنارہے تھے ،ملک وزیرخارجہ کے بغیر چل رہاتھا ،حکومت کی طرف سے بیرونی قرضوں لینے کی حدیوں کردی گئی تھی کہ تاریخ میں اتنا قرضہ کبھی پاکستان میں کسی حکومت نے نہیں لیاتھا ۔ادھر عوامی مینڈیٹ کی توہین نوازشریف یوں کررہے تھے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں موصوف آنے پر تیار نہیں تھے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی دن بدن یوں کمزور ہورہی تھی کہ نوازشریف نے وزیرخارجہ نہیں بنایاتھا، دوسری طرف دشمن قوتیں پاکستان کودیوار کیساتھ لگانے کیلئے عالمی سطح پر سرگرم تھیں ۔پاکستان میں بگڑتی صورتحال میں عام آدمی کو پریشان کررہی تھی کہ ہ ملک کے حالات دن بدن خراب ہی ہوتے جارہے تھے لیکن نوازشریف تھے کہ میں نہ مانوں کی ضد پر قائم تھے ۔اس پیچیدہ صورت حال میں پیپلزپارٹی کے لیڈرآصف زرداری بمع اپنی پوری پارٹی نوازشریف اورحکومت کی تابعدار ی میں لگے ہوئے تھے ۔نوازحکومت کی اپوزیشن کرنا تو درکنا ر ،پیپلزپارٹی تو چار سال کی جومدت مکمل ہوئی ہے اس میں بچھی بچھی جارہی تھی ،اور صدقے واری ہورہی تھی ،نوازشریف کو جہاں بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مشکل سے دوچار کرتے،پیپلزپارٹی کی پوری لیڈرشپ نوازحکومت کے سامنے حاضر ہوجاتی اور اپنی تابعداری کی نوکری پر حاضر ہوجاتی ۔زرداری نے اسوقت ایک ہی نعرہ مستانہ اپنی زبان پر رکھاجوکہ جمہوریت کے ورد سے شروع ہوتا اور مفاہمت پر ختم ہوتاتھا۔اس سارے کھیل میں بچاری عوام کا دکھ کہیں زرداری کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔نوازشریف نے اپنی ذاتی خواہشات کی خاطر ملک کا بھرکس نکال دیااورزرداری اینٹوں کی خریداری کیلئے لندن ،دبئی اور دیگر ملکوں کے بھٹہ مالکان سے بھاؤ تاؤ کرتے رہے ۔موصوف اسوقت تک غائب رہے جب تک ان کویہ اطلاع نہیں ملی کہ اب نوازشریف اپنے ہی جال میں بچوں کو ارب پتی کرتے کرتے پھنس گئے ہیں اور سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد ڈھیر ہوگئے ہیں تو آصف زرداری وہی سرائیکی والامحاورہ کہ بدھے چور تے سارے ڈاہڈھے ہوندے ہن پر عمل کرنے کیلئے پاکستان پہنچے۔اورجمہوریت کیلئے کمر کس لی ۔عوام کو نوازشریف کے کاروبار اور چوربازاری سے آگاہ کرنے کیلئے سارے وسائل بروئے کار لے آئے ۔ساتھہ ہی نااہل وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے کی گئی گریٹر پنجاب کی سازش سے لے کر نوازشریف کی ساری وارداتوں سے پردہ اٹھانے لگے۔زرداری فارمولے میں تو یہ جمہوریت بچاؤ مہم ہے لیکن سمجھدار اس کو واردات کا نام دے رہے ہیں ۔ کیا ہی اچھاہوتاکہ آصف علی زرداری اسی انداز ،جرات اور جذبہ کیساتھ اسوقت قوم کیساتھ کھڑے ہوتے جب نوازشریف بحیثت وزیراعظم ملک وقوم کی توقعات کے بر خلاف کام کررہے تھے ۔اور اینٹوں کی خریداری کے چکرمیں موصوف باھر نہ چلے جاتے اور قوم کا حوصلہ بڑھاتے اور حقیقی معنوں میں اپوزیشن لیڈر کا کردار اداکرتے۔ نوازشریف کو اس حدتک پاکستان کا نقصان کرنے سے عوامی طاقت اور حقیقی اپوزیشن کیساتھ روکتے لیکن ایسا تو موصوف نہیں کرنا ہی تھا کیونکہ مک مکا فارمولہ چل رہاتھا ۔کیاہی اچھاہوتاکہ اب بھی آصف علی زرداری عوام کو بیووقووف بنانے کی سیاست کرنے کی بجائے ذوالفقارعلی بھٹو کی حقیقی سیاست کی طر ف لوٹے جاتے ۔ ہمارے خیال میں ٰ اب تو آصف علی زرداری بڑے ہوجاتے اور بڑے فیصلہ کرنے کی اپنے اندر صلاحیت پیدا کرتے۔دوسرے کے شکار پر سیاست کرنے کی بجائے ا پنے اندر شیر کا شکار کرنے کی صلاحیت پیداکرتے۔

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.