اور اب شیخ زید ہسپتال ،قومی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا نیا رحجان
تحریر:آغا سفیرحسین کاظمی
یہ بات لائق تحسین ہے کہ ملکی نظریاتی سرحدوں کی محافظ ’’مسلح افواج پاکستان‘‘ایسی ہر سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ،جنکا مقصد قومی سوچ و فکر اور نظریہ کو اُجاگر کر نا ،رحجان دینے کی راہیں کھولنا ہو ۔آزادکشمیر میں باشندگان ریاست کی سبز ہلالی پرچم سے عقیدت و محبت کی انتہاؤں کا قومی سطع پر ادراک کیا جاتا ہے ،جو کہ ’’پاکستان کیلئے پلس پوائنٹ ہے ۔کو بھی سیاسی ،مذہبی شخصیت کبھی قومی معاملات پر بات کرے ،ملکی نظریاتی سرحدوں کی محافظت کے بارے میں اپنی توقعات و اُمیدوں کے اظہار کیساتھ ساتھ مسلح افواج کے جذبوں ،کردار اور قربانیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتی ۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی پیچیدگیوں کیوجہ سے قومی شیرازہ بکھرتا ہوا محسوس ہو ۔مُحب وطن قوتیں وطن کے نظریاتی محافظوں سے وابستہ توقعات کے تناظر میں اپنے دل کی بات کرلیتی ہیں ۔آزادکشمیر میں رائج نظام اگر متعین اُ صولوں اور قواعدکیساتھ چلایا جاتا ۔تو آج تک’’ کشمیربنے گا پاکستان‘‘کا نعرہ محض نعرہ نہ بنا رہتا ۔ بلکہ آزاد خطہ کی فضا اس قدر آزادی پسند اور الحاق پاکستان کیلئے بنی ہوئی محسوس ہوتی ۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔کہتے ہیں،آخر کسی نہ کسی کو پہلا قدم اُٹھانا ہی پڑتا ہے ۔پہلے وقت میں پورا کارواں نہیں بن جاتا ،بلکہ کوئی جب ارفع و اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے اقدام کرتا ہے ۔تو اُسوقت اور مابعد کی صورتحال میں تبدیلیاں واضع ہوتی ہیں ۔آزادکشمیر میں قومی /ریاستی اہمیت کے حامل دِنوں کی اہمیت بارے ’’سرکاری مشینری بھی فقط اتنا ہی جانتی چلی آئی ہے کہ فلاں دن چھٹی ہوگی‘‘مطلب واضع ہے کہ جب ریاست کا سرکاری/حکومتی انتظامی نظام بارے یہ تاثر عامم ہوچکاہو کہ یہ مکر و فریب پر استوار ہے ۔تو کیسے اُمید کی جاسکتی ہے کہ کہیں کوئی بہتری آئیگی ؟2014میں کرنل علی ندیم نے قومی و ریاستی حوالوں سے سرگرمیوں کا آغاز کیا تو آزادحکومت کو اپنے سرکاری محکمہ جات کیلئے نیا طریقہ کار اپنا لینا چاہیے تھا ۔بہرحال اب تو برگیڈئیر چوہدری فیاض محمود کمانڈنٹ شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ نے ادارہ میں خدمات انجام دینے والے محکمہ صحت کے سٹاف (پیرا میڈیکس ) کے قومی جذبوں کے اظہار کیلئے قومی سرگرمی کی حوصلہ افزائی وسیع تر اگرقومی جذبوں سے سرشار رہتے ہوئے کسی بھی مثبت کام کا آغاز ہوجائے تو وہ یقینی طور پر آگے بڑھتی ہے ۔اس لئے اب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نظریہ الحاق پاکستان کومذید تقویت دینے کیلئے تمام محکمہ جات کیساتھ ساتھ منتخب عوامی نمائندوں کو بھی آئندہ کیلئے قومی ،ریاستی اہمیت کی سرگرمیوں کوانقلابی شکل دینے کیلئے ٹاسکے دیا کرینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ مظفرآباد بھی قومی سرگرمیوں میں حصہ دار بن ہی گیا ۔جوکہ ایک بہترین قدم ہے ۔یوم آزادی کے حوالے سے ادارہ نے باقاعدہ سرگرمیاں ڈیزائن کیں ۔کمانڈنٹ برگیڈئیر چوہدری فیاض محمود (ستارہ امتیاز ملٹری)نے بطور سپاہی شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ میں خدمات انجام دینے والے سینکڑوں ملازمین محکمہ صحت کی حوصلہ افزائی کی ،اور اپنے ہمراہ ادارہ میں سول ملازمین کو لیڈ کرنیوالے ڈپٹی میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعمان منظور بٹ کی قیادت میں شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ مظفرآباد سے ’’عزم الحاق پاکستان ریلی‘‘کے آغا زسے پہلے کیک کاٹا ،ملکی سلامتی کیلئے دعاؤں کے علاوہ حاضرین ملازمین محکمہ صحت کی خواہش پر اُن سے مختصر خطاب بھی کیا ۔اور ریلی کے شرکاء کو رخصت بھی کیا ۔بارہ اگست کو شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ کے ملازمین محکمہ صحت کی جانب سے نکالی گئی ریلی کے آغاز اور اُس سے پہلے ادارہ کے کمانڈنٹ( اعلیٰ عسکری شخصیت)کی طرف سے حوصلہ افزائی کیلئے دعائیہ کلمات کیساتھ کیک کاٹنے کی سادہ مگر باوقار ’’سرگرمی‘‘میں شرکت کو ایک اہم قدم قراردیا جارہا ہے ۔ریاست کے مُحب وطن اور سنجیدہ حلقے کہنے لگے ہیں ،کہ آزادکشمیر میں طویل عرصہ سے جاری ’’اقتدارکے کھیل‘‘نے باشندگان خطہ کی فکری و نظریاتی بنیادوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔اس دعویٰ کے حق میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ پچھلے ڈیڑھ دو عشروں کے دوران آزادکشمیر میں ایسی کوئی سرگرمی مضبوط بنیادیں حاصل نہیں کرسکی ۔جو تحریک مزاحمت کے حق میں ہو،نظریہ الحا ق پاکستان کے تناظر میں ہویا ’’کوئی یوم سیاہ ‘‘منایا جانا مقصود ہوا ہو ۔اور صورتحال ھوصلہ افزا ٹھہری ہو ۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اِس بے حسی کی وجہ آزادکشمیر میں مفاد پرستی کی سیاست پروان چڑھنا ہے ۔جس نے خطہ کے باشندوں کو تحریک مزاحمت سے عملی طور پر لاتعلق سا بنا کررکھ دیا ۔قومی ،ریاستی اہمیت کے تہواروں اور کسی ہنگامی یوم احتجاج کے اعلان کے بعد سرکاری ملازمین کو صرف چھٹیوں میں اضافہ کی خوشخبری ضرور ملتی رہی ۔مگر ایسا نہیں ہوا ،کہ سرکاری ملازمین کسی قومی ،ریاستی تہوار کی ’’چھٹی‘‘سے آگے سوچ سمجھ پائے ہوں ۔سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ آزادکشمیر ،تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے ۔اس لئے آزادحکومت کے سرپر ’’تحریک مزاحمت‘‘کے حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔
اگر آزادحکومت صرف ریاست کے 81000ملازمین کو یہ حقیقت باور کروانے میں کامیاب ہوجائے ۔کہ بیس کیمپ ،مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریک مزاحمت کی تقویت اور کامیابی کیلئے ایک طرح سے پاکستان کی جانب سے بہترین اور دُورس اثرات کے حامل ناگزیرکردار کیساتھ ’’قومی ،ریاستی اہمیت کے تہواروں ‘‘پر حکومتی/انتظامی سرگرمیوں میں شریک ہوں ۔تاکہ مقبوضہ کشمیر کے غیور بھائیوں ،بہنوں ،بیٹیوں تک ایک اثر دار اور سنجیدہ پیغام یک جہتی پہنچنا کتنا ضروری ہے۔۔۔۔تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آزادکشمیر میں تحریک مزاحمت اور نظریہ الحاق پاکستان کے حوالے سے موجود ’’عملی سردمُہری‘‘قومی جوش وجذبوں میں تبدیلی ہوسکتی ہے ،اور اس حوالے سے کوئی پاپڑ نہیں بیلنے پڑیں گے ۔کیونکہ آزادکشمیر کے باشندے فطری و نظریاتی طور پر پاکستان سے قریب تر ہیں ۔مگر آزادخطہ میں’’ نظریات بیزار سیاست‘‘کے فروغ سے پیدا ہونیوالی مایوسی کی وجہ سے ’’بیگانگی اور بے رغبتی‘‘کا ماحول بنا ہوا ہے ۔اِسی ماحول سے فائدہ اُٹھانے کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ آزادخطہ کے باشندے کسی چکر ،کسی جھانسے میں آنے پر تیار نہیں ہیں ۔لیکن ساتھ ہی انھیں اس امر پر دُکھ بھی ہے کہ اُنکی قیادت ایسے عناصر کے ہاتھوں میں رہتی چلی آئی ہے جنہیں صرف کرسی اقتدار سے تعلق ہے ۔اور جب تک اقتدار رہے ،روازنہ کی بنیاد پر پاکستان پاکستان ،پاک فوج پاک فوج کے نعرے گونجتے محسوس کئے جاتے ہیں ۔ان حالات میں اولین طور پرSCOنے سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔جو اب کئی طرز کی وسیع سرگرمیوں میں تبدیل ہوچکا ہے ۔۔۔اور اب ریاست کا اہم طبی مرکز شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ بھی ان سرگرمیوں میں اپنی قابل قدرشرکت یقینی بناچکا ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے ۔تو ڈپٹی میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعمان منطور بٹ ،سول وارڈ ماسٹر سید امداد حسین کاظمی ،راجہ شبیر،فپد اعوان ودیگر مُبارکباد کے مستحق ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ایک اجلاس طلب کرکے مختلف محکمہ جات /اداروں کو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں ۔مذکورہ اجلاس میں شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ کے ڈپٹی میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعمان منظور بٹ بطور خاص شریک ہوئے تھے ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امسال آزادکشمیر میں یوم آزادی کی مناسبت سے سرگرمیوں میں اضافہ کیساتھ ساتھ عوامی سطع پر جشن آزادی کے حوالے سے جوش وخروش بڑھتا ہوا نظر آتا ہے ۔اور اگر آزادحکومت قومی/ریاستی تہواروں کے موقع پر سرکاری محکمہ جات کی مکمل شرکت یقینی بنانے کیلئے حکمت عملی طے کرپائی ۔اور ان تہواروں پر چھٹی کے بجائے سرگرمیوں کو رواج دیا جانے لگا ۔تو اس کے فوائد بہت زیادہ ہونگے ۔مثلاََسرکاری محکمہ جات کے نائب قاصد سے لیکر سیکرٹری تک ساے لوگ سرگرمیوں کیلئے تیار کرلئے جائیں گے ۔تو یقینی طور پر عوامی حلقوں میں بھی ترغیب بڑھے گی ۔اور پھر یہ سلسلہ صرف دو تین سال میں اس قدر بڑھ چکا ہوگا کہ ریاست کا وزیراعظم اگر کوئی کال دیگا ،لوگ کنٹرول لائن روندنے کیلئے بھی تیار ملیں گے ۔۔۔جبکہ موجودہ کیفیت میں سارا زور میڈیا پر دیا جاتا ہے ۔تعمیرو رترقی سے لیکر دیگر معاملات تک سب کچھ اخباری محاذ پر ہونے لگا ہے ۔انفرادی جھگڑوں سے لیکر بڑے بڑے معاملات تک ۔۔۔ایوان اقتدار سے لیکر حزب اختلاف کے روایتی کردار تک سارا زور میڈیا پر دیا جانے لگا ہے ۔جبکہ ایک فیصد بھی اجتماعی قومی سرگرمیوں کیساتھ ذہنی وفکری ہم آہنگی نہیں رکھتا ۔جسکا نتیجہ ،کوئی عملی ساتھ دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اہم دِنوں پر ریاستی مشینری تمام کل پرزوں سمیت سرگرم ہو نظر آئے ۔یہی وہ صورت ہے جو عام شہری کو بھی قومی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب بنے گی ۔بصورت دیگر لفظی کھیل اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔اور یہی ایک حقیقت جسے سمجھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔
کسی بھی قوم کا اثاثہ ،مثبت سوچ ،فکر نظریہ ہوتا ہے ۔جسکی ترویج از بس ضروری ہے ۔اُمید ہے کہ اس پہلو کو آپ نے نمایاں رکھا ہوگا