• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

کوکلا چھپاکی اور اساتذہ کی شامت تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ

webmaster by webmaster
جون 6, 2017
in کالم
0
کوکلا چھپاکی اور اساتذہ کی شامت  تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ

کوکلا چھپاکی اور اساتذہ کی شامت
تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ

بچپن کا ایک کھیل کوکلا چھپاکی جس میں دوپٹہ کو بل دے کر کوکلا بنایا جاتا اور سارے بچے ایک گول دائرے میں بیٹھے ہوتے جس بچے کی باری ہو تی وہ زور زور سے کہ رہا ہوتا ( کوکلا چھپاکی جمعرات آئی ہے کہ ناں جیڑھا اگے پچھے ڈیکھے اوندی شامت آئی ہے کہ ناں )
کوکلا چپھاکی آج جمعرات ہے اور جو آگے پیچھے دیکھے اُس کی شامت آئی ہے
وہ کوکلا دیکھنے کے لیے کوئی اپنی آنکھیں کھول کر آگے پیچھے دیکھتا تو سچ میں اس کی شامت آ جاتی ، جس کے ہاتھ میں کوکلا ہوتا وہ اس بچے کی کمر میں رسید ہو جاتا۔خیر یہ تو بچپن کا ایک کھیل تھا جس میں اُس گول دائرے میں بیٹھے بچوں کی شامت آئی ہوتی ۔آج کے اس گول دائرے میں پنجاب کے اساتذہ بیٹھے ہوئے ہیں اس کے سر پر کوکلا لیے حکومت پنجاب کھڑی ہے ۔پچھلے دنوں ایک خبر دیکھ رہا تھا کہ تونسہ شریف میں PHDٹیچر رمضان بازار کے سٹال پر چینی بیچ رہا تھا ۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے پنجاب میں آپ رمضان بازار میں جاؤ آپ کو کوئی مرغیاں بیچتے ، کھل ونڈا بیچتے نظر آئے تو آپ اس کو ہر دفعہ دوکاندار نہ سمجھ لیجیے گا ہو سکتا ہے وہ کسی سکول میں بھرتی ٹیچر ہوا ہووہ بعد کی بات ہے کہ وہ کام کچھ اور کر رہا ہو۔کیا ایسی قوم ترقی کر سکتی ہے جہاں اساتذہ کو ایسی عزت دی جارہی ہو۔پنجاب کی حد تک اگر دیکھا جائے تو میں نے دیکھا ہے کہ اساتذہ کو سوا پڑھانے کے باقی سارے کام کروائے جاتے ہیں ۔

باردانہ کی تقسیم سے یاد آیا ضلع لیہ میں ایک اعلی ٰ حکومتی افسر نے باردانہ کی تقسیم کے دوران بے عزت کیا کیوں نا کرتا جو معاشرے تباہی کی طرف جاتے ہیں وہ اپنے اساتذہ کو ایسے ہی تو ذلیل کرتے ہیں
1500سے0 200 قبلِ مسیح کے دوران، یعنی برصغیر میں اسلام کی آمد سے تقریباً 900 سال قبل ہندو دھرم میں سماجی رویوں کے قوانین پر مبنی کتاب "منوسمریتی” لکھی گئی تھی۔اس میں پڑھنے والوں کو اس بات کا درس دیا گیا ہے، کہ سبق شروع ہونے سے پہلے اپنے اساتذہ کے پیر چھوئیں، اساتذہ کی کرسی پر بیٹھنے سے پرہیز کریں، اور جب جب وہ کمرے میں داخل ہوں، تو کھڑے ہو کر آداب بجا لائیں۔

مردم شماری ہو جہاں یہی اساتذہ گھر گھر جا کر ڈیٹا اکھٹا کر رہے ہوتے ہیں ۔ یو پی کا سروے ہو ،رمضان بازار ہو ، کلاسز میں بچوں کو لانا ہو یا کسی سیاسی کا جلسہ ہو اساتذہ کو وہاں تعینات کیا جاتا ہے ۔ سکول میں بچوں کی تعداد کم ہو تو ذلیل اساتذہ کو کیا جار ہا ہے کہ آپ جائیں اور بچوں کو گھروں سے لے آئیں ۔گورنمنٹ کو اتنا ضروری لگتا ہے یہ کام تو سوشل موبلائزر رکھ لیں ۔لیکن بچے کہاں سے آئیں گے ؟ اداروں کو پی ای ایف کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ وہاں ایک ایف اے پاس ، بی اے پاس کیسے بہتر رزلٹ دے لیتا ہے ۔فالٹ تو آپ کے سسٹم میں ہے ۔
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھاجو اپنے استاد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے نکلا، راستے میں ایک ندی آگئی استاد نے آگے بڑھ کر ندی کو پار کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے استاد محترم سے کہا کہ استاد محترم اس ندی کو پہلے میں پار کروں گا۔ استاد کو بہت برا محسوس ہوا کہ شاگرد اگر بادشاہ ہے توکیا ہوا میں ان کا استاد ہوں۔ تکریم اور فضیلت میں مجھے مرتبہ حاصل ہے۔ اس لیے ندی کو پہلے پارکرنا میرا حق ہے۔
بادشاہ نے ان کی بات سنی اورکہا۔ استاد محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر بے شک آپ کا مرتبہ اور عزت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ آپ ہی میرے استاد ہیں اور پہلے ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہوگا اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ پانی کی تندی کا اندازہ ہوسکے کیونکہ میرے ندی عبور کرنے کے نتیجے میں اگر میری جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ سکندر اور استاد ارسطو تھے۔

اٹلی اٹلی کیسے بنا ۔اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اٹلی میں مجھے ٹریفک چالان ہوا‘ مصروفیات کی وجہ سے چالان ادا نہ کرپایا۔ ایک ہفتہ بعد مجھے کورٹ بلایا گیا اور مجھ سے سوال کیا کہ تم نے ایک ہفتے کے اندر چالان ادا کیوں نہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ صاحب استاد ہوں‘ آج کل اسکول میں پرچے ہورہے ہیں‘ ابھی میں آگے بول ہی رہا تھا کہ جج صاحب اٹھ کر بولے (Teacher in Court) یہ کہنا تھا کہ کورٹ میں موجود تمام افراد نے کھڑے ہوکر مجھ سے معافی مانگی‘ سمیت جج صاحب کے اور پولیس افسر جس نے چالان کا ٹکٹ دیا تھا۔ جج صاحب نے حکم دیا کہ اگر آئندہ کوئی استاد کورٹ میں نظر آیا تو پولیس والوں پر باقاعدہ کیس چلایا جائے گا اور جج صاحب مجھے میری گاڑی تک چھوڑنے آئے اور بہت معافی مانگی بس پھر میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ ہم سے کیوں اتنا آگے نکل چکے ہیں۔

اسلام ہمیں اُساتذہ کی عزت کے بارے میں کیا سکھاتا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا فرمان ہے کہ .جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا وہ میرا اُستاد ہے ۔خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے اپنے اُستا دکے جوتے سیدھے کرنے کے لیے لڑ پڑتے تھے ۔اُستاد جس کی ماضی میں بڑی عزت تھی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ہم اساتذہ کو دیکھ کر کیسے چھپے ہوتے کہ اُستاد صاحب دیکھ نہ لیں کہ ہم بازار میں پھر رہے تھے۔گورنمنٹ پنجاب اساتذہ کو دوسرے کاموں میں لگا کر ایجوکیشن کو پرائیویٹ کر رہی ہے ۔بیشتر ادارے PEF کو دیے جا چکے ہیں پھر پتہ نہیں کہ 66ہزار نئی بھرتیاں کیوں کی جارہے ہیں اس بارے میں ایک اُستاد نے کہا کہ اساتذہ کو اب کمی کمین سمجھا جا رہا ہے اور شاید نئے آنے والوں کو یہ بھی کہا جائے کہ آپ آتے ہوئے ایک ایک جھاڑو بھی ساتھ لے کر آئیں ۔آج قوم کو جاگنا ہو گا اپنے لیے اپنے بہتر مستقبل کے لیے اپنے اساتذہ کی عزت کے لیے اور اساتذہ کرام سے معذرت کے ساتھ کہ آپ کو پڑھانا ہو گا محنت کر کے اپنا وقار بحال کروانا ہوگا ورنہ پھر اس قوم کا مقدر یہ ہی ہو گاکہ استاد کی رمضان بازار پر آپ کو کچھ فروخت کرتے ہیں نظر آئیں گے۔

نوٹ(اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئے تو مہربانی فرما کر شیئر کریں تاکہ اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں تک یہ پہچے اور شاید کچھ شرم ان کو بھی آئے )
03027841579 ابوذر منجوٹھہ اپنی رائے ضرور دیجیے گا۔

Tags: column by abuzar manjhota
Previous Post

ڈیرہ غازیخان۔ ریٹائر ملازمین کے لئے پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاؤسنگ فاونڈیشن کے تحت تونسہ بائی پاس روڈ پر وسیع رقبہ پر کالونی تعمیر کی جارہی ہے۔کمشنر احمد علی کمبوہ

Next Post

راجن پور ۔ رمضان المبارک کے دوران ابوظہبی کے امیر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کی جانب سے ایک لاکھ پچاس ہزار آٹے کے تھیلے ضرورت مندوں میں تقسیم

Next Post
راجن پور ۔ رمضان المبارک کے دوران ابوظہبی کے امیر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کی جانب سے ایک لاکھ پچاس ہزار آٹے کے تھیلے ضرورت مندوں میں تقسیم

راجن پور ۔ رمضان المبارک کے دوران ابوظہبی کے امیر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کی جانب سے ایک لاکھ پچاس ہزار آٹے کے تھیلے ضرورت مندوں میں تقسیم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

کوکلا چھپاکی اور اساتذہ کی شامت تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ

بچپن کا ایک کھیل کوکلا چھپاکی جس میں دوپٹہ کو بل دے کر کوکلا بنایا جاتا اور سارے بچے ایک گول دائرے میں بیٹھے ہوتے جس بچے کی باری ہو تی وہ زور زور سے کہ رہا ہوتا ( کوکلا چھپاکی جمعرات آئی ہے کہ ناں جیڑھا اگے پچھے ڈیکھے اوندی شامت آئی ہے کہ ناں ) کوکلا چپھاکی آج جمعرات ہے اور جو آگے پیچھے دیکھے اُس کی شامت آئی ہے وہ کوکلا دیکھنے کے لیے کوئی اپنی آنکھیں کھول کر آگے پیچھے دیکھتا تو سچ میں اس کی شامت آ جاتی ، جس کے ہاتھ میں کوکلا ہوتا وہ اس بچے کی کمر میں رسید ہو جاتا۔خیر یہ تو بچپن کا ایک کھیل تھا جس میں اُس گول دائرے میں بیٹھے بچوں کی شامت آئی ہوتی ۔آج کے اس گول دائرے میں پنجاب کے اساتذہ بیٹھے ہوئے ہیں اس کے سر پر کوکلا لیے حکومت پنجاب کھڑی ہے ۔پچھلے دنوں ایک خبر دیکھ رہا تھا کہ تونسہ شریف میں PHDٹیچر رمضان بازار کے سٹال پر چینی بیچ رہا تھا ۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے پنجاب میں آپ رمضان بازار میں جاؤ آپ کو کوئی مرغیاں بیچتے ، کھل ونڈا بیچتے نظر آئے تو آپ اس کو ہر دفعہ دوکاندار نہ سمجھ لیجیے گا ہو سکتا ہے وہ کسی سکول میں بھرتی ٹیچر ہوا ہووہ بعد کی بات ہے کہ وہ کام کچھ اور کر رہا ہو۔کیا ایسی قوم ترقی کر سکتی ہے جہاں اساتذہ کو ایسی عزت دی جارہی ہو۔پنجاب کی حد تک اگر دیکھا جائے تو میں نے دیکھا ہے کہ اساتذہ کو سوا پڑھانے کے باقی سارے کام کروائے جاتے ہیں ۔ باردانہ کی تقسیم سے یاد آیا ضلع لیہ میں ایک اعلی ٰ حکومتی افسر نے باردانہ کی تقسیم کے دوران بے عزت کیا کیوں نا کرتا جو معاشرے تباہی کی طرف جاتے ہیں وہ اپنے اساتذہ کو ایسے ہی تو ذلیل کرتے ہیں 1500سے0 200 قبلِ مسیح کے دوران، یعنی برصغیر میں اسلام کی آمد سے تقریباً 900 سال قبل ہندو دھرم میں سماجی رویوں کے قوانین پر مبنی کتاب "منوسمریتی" لکھی گئی تھی۔اس میں پڑھنے والوں کو اس بات کا درس دیا گیا ہے، کہ سبق شروع ہونے سے پہلے اپنے اساتذہ کے پیر چھوئیں، اساتذہ کی کرسی پر بیٹھنے سے پرہیز کریں، اور جب جب وہ کمرے میں داخل ہوں، تو کھڑے ہو کر آداب بجا لائیں۔ مردم شماری ہو جہاں یہی اساتذہ گھر گھر جا کر ڈیٹا اکھٹا کر رہے ہوتے ہیں ۔ یو پی کا سروے ہو ،رمضان بازار ہو ، کلاسز میں بچوں کو لانا ہو یا کسی سیاسی کا جلسہ ہو اساتذہ کو وہاں تعینات کیا جاتا ہے ۔ سکول میں بچوں کی تعداد کم ہو تو ذلیل اساتذہ کو کیا جار ہا ہے کہ آپ جائیں اور بچوں کو گھروں سے لے آئیں ۔گورنمنٹ کو اتنا ضروری لگتا ہے یہ کام تو سوشل موبلائزر رکھ لیں ۔لیکن بچے کہاں سے آئیں گے ؟ اداروں کو پی ای ایف کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ وہاں ایک ایف اے پاس ، بی اے پاس کیسے بہتر رزلٹ دے لیتا ہے ۔فالٹ تو آپ کے سسٹم میں ہے ۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھاجو اپنے استاد کے ساتھ سفر کرنے کے لیے نکلا، راستے میں ایک ندی آگئی استاد نے آگے بڑھ کر ندی کو پار کرنا چاہا لیکن بادشاہ نے استاد محترم سے کہا کہ استاد محترم اس ندی کو پہلے میں پار کروں گا۔ استاد کو بہت برا محسوس ہوا کہ شاگرد اگر بادشاہ ہے توکیا ہوا میں ان کا استاد ہوں۔ تکریم اور فضیلت میں مجھے مرتبہ حاصل ہے۔ اس لیے ندی کو پہلے پارکرنا میرا حق ہے۔ بادشاہ نے ان کی بات سنی اورکہا۔ استاد محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر بے شک آپ کا مرتبہ اور عزت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ آپ ہی میرے استاد ہیں اور پہلے ندی پار کرنے میں میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ نے ندی پہلے پار کی اور اس کے نتیجے میں آپ کی جان چلی گئی تو پورے عالم کا نقصان ہوگا اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے ندی میں پارکروں تاکہ پانی کی تندی کا اندازہ ہوسکے کیونکہ میرے ندی عبور کرنے کے نتیجے میں اگر میری جان چلی گئی تو صرف ایک شہنشاہ کی جان جائے گی آپ زندہ رہے تو مجھ جیسے کتنے بادشاہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ سکندر اور استاد ارسطو تھے۔ اٹلی اٹلی کیسے بنا ۔اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اٹلی میں مجھے ٹریفک چالان ہوا‘ مصروفیات کی وجہ سے چالان ادا نہ کرپایا۔ ایک ہفتہ بعد مجھے کورٹ بلایا گیا اور مجھ سے سوال کیا کہ تم نے ایک ہفتے کے اندر چالان ادا کیوں نہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ صاحب استاد ہوں‘ آج کل اسکول میں پرچے ہورہے ہیں‘ ابھی میں آگے بول ہی رہا تھا کہ جج صاحب اٹھ کر بولے (Teacher in Court) یہ کہنا تھا کہ کورٹ میں موجود تمام افراد نے کھڑے ہوکر مجھ سے معافی مانگی‘ سمیت جج صاحب کے اور پولیس افسر جس نے چالان کا ٹکٹ دیا تھا۔ جج صاحب نے حکم دیا کہ اگر آئندہ کوئی استاد کورٹ میں نظر آیا تو پولیس والوں پر باقاعدہ کیس چلایا جائے گا اور جج صاحب مجھے میری گاڑی تک چھوڑنے آئے اور بہت معافی مانگی بس پھر میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ ہم سے کیوں اتنا آگے نکل چکے ہیں۔ اسلام ہمیں اُساتذہ کی عزت کے بارے میں کیا سکھاتا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا فرمان ہے کہ .جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا وہ میرا اُستاد ہے ۔خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے اپنے اُستا دکے جوتے سیدھے کرنے کے لیے لڑ پڑتے تھے ۔اُستاد جس کی ماضی میں بڑی عزت تھی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ہم اساتذہ کو دیکھ کر کیسے چھپے ہوتے کہ اُستاد صاحب دیکھ نہ لیں کہ ہم بازار میں پھر رہے تھے۔گورنمنٹ پنجاب اساتذہ کو دوسرے کاموں میں لگا کر ایجوکیشن کو پرائیویٹ کر رہی ہے ۔بیشتر ادارے PEF کو دیے جا چکے ہیں پھر پتہ نہیں کہ 66ہزار نئی بھرتیاں کیوں کی جارہے ہیں اس بارے میں ایک اُستاد نے کہا کہ اساتذہ کو اب کمی کمین سمجھا جا رہا ہے اور شاید نئے آنے والوں کو یہ بھی کہا جائے کہ آپ آتے ہوئے ایک ایک جھاڑو بھی ساتھ لے کر آئیں ۔آج قوم کو جاگنا ہو گا اپنے لیے اپنے بہتر مستقبل کے لیے اپنے اساتذہ کی عزت کے لیے اور اساتذہ کرام سے معذرت کے ساتھ کہ آپ کو پڑھانا ہو گا محنت کر کے اپنا وقار بحال کروانا ہوگا ورنہ پھر اس قوم کا مقدر یہ ہی ہو گاکہ استاد کی رمضان بازار پر آپ کو کچھ فروخت کرتے ہیں نظر آئیں گے۔

نوٹ(اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئے تو مہربانی فرما کر شیئر کریں تاکہ اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں تک یہ پہچے اور شاید کچھ شرم ان کو بھی آئے ) 03027841579 ابوذر منجوٹھہ اپنی رائے ضرور دیجیے گا۔

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.