• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

کڑوی مگر سچی باتیں ۔۔ انجم صحرائی

webmaster by webmaster
مئی 12, 2017
in کالم
0
کڑوی مگر سچی باتیں  ۔۔ انجم صحرائی

کڑوی مگر سچی باتیں
انجم صحرائی

بیٹھک تھی صلح کی اور معاملہ تھا گذ شتہ ہفتہ ایک سینئر وکیل اور ایک نوجوان وکیل کے والد محترم کے درمیان ہو نے والا ایک ناخوشگوار واقعہ کا ، صد شکر کہ سارے معاملات بہت خو بصورتی سے طے پا گئے لیہ بار نے اپنے نو جوان وکیل کا پورا ساتھ دیا اور بقول صدر ڈی بی اے مہر احمد علی واندر ملتان بار نے بھی اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے معامل فہمی پر زور دیا لیہ اور ملتان کے سینئر وکلا ء نے معا ملے کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور معاملات سلجھ گئے اور دونوں فریقین ساری ر نجشیں بھلا کر ایک دوسرے کو گلے ملے ، ملتان کے وکیل صاحب اپنے دوست وکلاء اور لیہ بار کے ایک نمائندہ وفد کے ہمراہ دوسرے فریق کو گلے لگانے ان کے گھر آ ئے دوسرے فریق نے بھی سارے گلے شکوے بھلاکر آ نے والے معزز مہما نوں کو گلے سے لگا لیا
کہتے ہیں نا چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نا جائے ۔۔۔ہم بھی وہاں موجود تھے۔۔ معذرت ۔۔ ہمارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ماحول جیسا بھی ہوحالات کیسے بھی ہوں ہم جاننے اور سیکھنے کا موقع نہیں جانے دیتے ۔۔ سو یہی ہوا اس محفل میں بھی ۔۔۔ کہ نہ چا ہتے ہو ئے بھی ہم نے ایک سوال صدر مجلس کی اجازت سے معزز مہمانوں سے پوچھ ہی لیا ۔۔
نہ معلوم آپ کو یہ سوال مناسب لگے یا غیر مناسب بہر حال آ پ سے شیئر کر رہا ہوں سوال کچھ یوں تھا کہ آ ج مجھے جس محفل میں موجود ہو نے کا اعزاز حاصل ہے آپ سب قا نون دان سینئر اور نوجوان سبھی وکلا میرے لئے باعث احترام ہیں بلا شبہ آپ سو سائٹی میکر ہیں سماج آ پ سے سیکھتا اور آپ سے تشکیل پاتا ہے جا ننا یہ چا ہوں گا کہ اگر متا ثرہ فریق ایک وکیل کا والد نہ ہو تا ایک عام آ دمی ہو تا تو کیا ہمارے یہ سارے معزز وکلاء ایک عام آ دمی کے ساتھ ہو نے والی زیا دتی میں بھی یہی کردار ادا کرتے ؟
میرے سوال کے جواب میں ایک مہمان دوست بولے کہ آ پ کے سوال کا جواب ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جو ہوا ہم اس پر شر مندہ ہیں ۔ ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ ایسا رویہ کسی بھی قا نون دان کو زیب ہی نہیں دیتا ان دو نوں دوستوں کا جواب مجھے شر مندہ کر گیا مجھے لگا کہ میں ان دوستوں کو اپنا سوال سمجھا نہیں پایا ہوں میں نے معذرت کے ساتھ ایک بار پھر عرض کیا کہ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں ہو نے واقعہ کے ذمہ داروں سے پو چھوں کہ یہ واقعہ کیوں ہوا ؟ میرا مقصد تو یہ جاننا ہے کہ اس واقعہ کے فریقین میں متا ثرہ فریق کسی وکیل کا والد نہ ہو تا تو وکلاء برادری کا کیا رویہ ہو تا کیا اسی طرح اس عام آ دمی کے لئے بھی لیہ ، ملتان کے سینئر جو نیئر وکلا ء ایک زبان ہو کر واقعہ کی مذ مت کرتے اور متا ثرہ فریق کا ساتھ دیتے ؟
میری تشنہ لبی کو محسو س کرتے ہوئے ملتان سے آ ئے ہو ئے ایک اور دوست جو ایک معزز سینئر وکیل تھے کہنے لگے کہ یہ سب frustration کا کمال ہے آ ج کا بیس سال کی عمر کا نو جوان وکیل بیس سالہ تجربہ کار اپنے سینئرزکی آ مد نی اور کاروبار سے اپنا موازنہ کرتا ہے اور یوںfrustration کا شکار ہو جاتا ہے وہ نو جوان صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا سینئر کتنا کما رہا ہے ، سینئر کے پاس کتنی بڑی گاڑی ہے کتنی خو بصورت رہائش گاہ ہے مگر وہ جو نیئر اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اس کے سینئر نے کتنی محنت کی ،کتنے سالوں میں یہ مقام بنا یا ، یہ عزت بنائی ہماری نئی نسل میں یہ frustration ایک بنیادی مسئلہ ہے جو بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے ۔
وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ججز بحالی تحریک سے قبل کبھی بار میں ہڑتال نہیں دیکھی میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ جب جج صاحب بیکو سائیکل پر کورٹ میں اآ یا کرتے تھے اور ان کی آ مد کا سن کر راستے تعظیما خالی ہو جاتے تھے ، یہ وہ دور تھا جب وکلاء ننگے سر عدالت میں پیش نہیں ہوا کرتے تھے اگرعدالت میں پیش ہو تے وقت ان کے پاس سر ڈ ھانپنے کے لئے کوئی ٹو پی یا کپڑا نہیں ہو تا تھا تو جب تک عدالت میں رہتے اپنے ہاتھ سے سر کو ڈھا نپے رکھتے ۔ ججز اور وکلاء عدالت میں جاتے ہو ئے ایڑیوں کی بجائے پیروں کی انگلیوں کے سہارے چلتے تا کہ جو توں کی ٹک ٹک عدالت کو ڈسٹرب نہ کرے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مقد مہ میں میری مخالف کلائینٹ عورت نے اپنے خلاف فیصلہ ہو نے پر مجھے وہ صلواتیں سنائیں جو میں بیان نہیں کر سکتا مگر میں مسکراتے ہو ئے وہ سب ہضم کر گیا چو نکہ مجھے میری تعلیم اور میرا پیشہ اپنے منصب سے گرنا نہیں سکھا تا ۔ مگر آج کے سماج میں صرف وکلاء ہی نہیں بلکہ سو سائٹی کے ہر طبقہ کلیپس ہوا ہے ۔ آپ اپنی صحافت کو ہی لے لیں جب لا کھوں روپے تنخواہیں لینے والے اینکر اور جر نلسٹ نہیں تھے خبر کی صداقت اور صحافت کے اقدارو رویات کا اپنا معیار تھا اور آ ج دیکھیں کیا ہو رہا ہے ؟
سینئر قانون دان دوست نے یہ کہتے ہو ئے بڑی افسردگی اور طنز سے مجھے دیکھا اور میں نے اثبات میں اپنی نظریں جھکالیں کہ میرے سوال کا جواب نہ ملنے کے باوجود یہ سبھی کڑوی باتیں بہت سچی تھیں ۔۔

Tags: column by anjum sehrai
Previous Post

لیہ ۔ نعمان مسعود ملک ایڈ وو کیٹ کے والد ملک مسعود الہی شمع اور سا بق جسٹس جیمز جوزف ایڈ وو کیٹ میں صلح ہو گئی ۔ معاملات حل کرانے میں لیہ اور ملتان بار کے سینئر وکلاء کا کلیدی کردار

Next Post

لیہ ۔ گورنمنٹ پوسٹ گرایجویٹ کالج میں شعبہ اردو کے زیر اہتمام نشست برائے مکالمہ ، پروفیسر جرات عباس مہمان خصو صی تھے

Next Post
لیہ ۔ گورنمنٹ پوسٹ گرایجویٹ کالج میں شعبہ اردو کے زیر اہتمام نشست برائے مکالمہ ، پروفیسر جرات عباس مہمان خصو صی تھے

لیہ ۔ گورنمنٹ پوسٹ گرایجویٹ کالج میں شعبہ اردو کے زیر اہتمام نشست برائے مکالمہ ، پروفیسر جرات عباس مہمان خصو صی تھے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

کڑوی مگر سچی باتیں انجم صحرائی

بیٹھک تھی صلح کی اور معاملہ تھا گذ شتہ ہفتہ ایک سینئر وکیل اور ایک نوجوان وکیل کے والد محترم کے درمیان ہو نے والا ایک ناخوشگوار واقعہ کا ، صد شکر کہ سارے معاملات بہت خو بصورتی سے طے پا گئے لیہ بار نے اپنے نو جوان وکیل کا پورا ساتھ دیا اور بقول صدر ڈی بی اے مہر احمد علی واندر ملتان بار نے بھی اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے معامل فہمی پر زور دیا لیہ اور ملتان کے سینئر وکلا ء نے معا ملے کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور معاملات سلجھ گئے اور دونوں فریقین ساری ر نجشیں بھلا کر ایک دوسرے کو گلے ملے ، ملتان کے وکیل صاحب اپنے دوست وکلاء اور لیہ بار کے ایک نمائندہ وفد کے ہمراہ دوسرے فریق کو گلے لگانے ان کے گھر آ ئے دوسرے فریق نے بھی سارے گلے شکوے بھلاکر آ نے والے معزز مہما نوں کو گلے سے لگا لیا کہتے ہیں نا چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نا جائے ۔۔۔ہم بھی وہاں موجود تھے۔۔ معذرت ۔۔ ہمارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ماحول جیسا بھی ہوحالات کیسے بھی ہوں ہم جاننے اور سیکھنے کا موقع نہیں جانے دیتے ۔۔ سو یہی ہوا اس محفل میں بھی ۔۔۔ کہ نہ چا ہتے ہو ئے بھی ہم نے ایک سوال صدر مجلس کی اجازت سے معزز مہمانوں سے پوچھ ہی لیا ۔۔ نہ معلوم آپ کو یہ سوال مناسب لگے یا غیر مناسب بہر حال آ پ سے شیئر کر رہا ہوں سوال کچھ یوں تھا کہ آ ج مجھے جس محفل میں موجود ہو نے کا اعزاز حاصل ہے آپ سب قا نون دان سینئر اور نوجوان سبھی وکلا میرے لئے باعث احترام ہیں بلا شبہ آپ سو سائٹی میکر ہیں سماج آ پ سے سیکھتا اور آپ سے تشکیل پاتا ہے جا ننا یہ چا ہوں گا کہ اگر متا ثرہ فریق ایک وکیل کا والد نہ ہو تا ایک عام آ دمی ہو تا تو کیا ہمارے یہ سارے معزز وکلاء ایک عام آ دمی کے ساتھ ہو نے والی زیا دتی میں بھی یہی کردار ادا کرتے ؟ میرے سوال کے جواب میں ایک مہمان دوست بولے کہ آ پ کے سوال کا جواب ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جو ہوا ہم اس پر شر مندہ ہیں ۔ ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ ایسا رویہ کسی بھی قا نون دان کو زیب ہی نہیں دیتا ان دو نوں دوستوں کا جواب مجھے شر مندہ کر گیا مجھے لگا کہ میں ان دوستوں کو اپنا سوال سمجھا نہیں پایا ہوں میں نے معذرت کے ساتھ ایک بار پھر عرض کیا کہ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں ہو نے واقعہ کے ذمہ داروں سے پو چھوں کہ یہ واقعہ کیوں ہوا ؟ میرا مقصد تو یہ جاننا ہے کہ اس واقعہ کے فریقین میں متا ثرہ فریق کسی وکیل کا والد نہ ہو تا تو وکلاء برادری کا کیا رویہ ہو تا کیا اسی طرح اس عام آ دمی کے لئے بھی لیہ ، ملتان کے سینئر جو نیئر وکلا ء ایک زبان ہو کر واقعہ کی مذ مت کرتے اور متا ثرہ فریق کا ساتھ دیتے ؟ میری تشنہ لبی کو محسو س کرتے ہوئے ملتان سے آ ئے ہو ئے ایک اور دوست جو ایک معزز سینئر وکیل تھے کہنے لگے کہ یہ سب frustration کا کمال ہے آ ج کا بیس سال کی عمر کا نو جوان وکیل بیس سالہ تجربہ کار اپنے سینئرزکی آ مد نی اور کاروبار سے اپنا موازنہ کرتا ہے اور یوںfrustration کا شکار ہو جاتا ہے وہ نو جوان صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا سینئر کتنا کما رہا ہے ، سینئر کے پاس کتنی بڑی گاڑی ہے کتنی خو بصورت رہائش گاہ ہے مگر وہ جو نیئر اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اس کے سینئر نے کتنی محنت کی ،کتنے سالوں میں یہ مقام بنا یا ، یہ عزت بنائی ہماری نئی نسل میں یہ frustration ایک بنیادی مسئلہ ہے جو بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ججز بحالی تحریک سے قبل کبھی بار میں ہڑتال نہیں دیکھی میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ جب جج صاحب بیکو سائیکل پر کورٹ میں اآ یا کرتے تھے اور ان کی آ مد کا سن کر راستے تعظیما خالی ہو جاتے تھے ، یہ وہ دور تھا جب وکلاء ننگے سر عدالت میں پیش نہیں ہوا کرتے تھے اگرعدالت میں پیش ہو تے وقت ان کے پاس سر ڈ ھانپنے کے لئے کوئی ٹو پی یا کپڑا نہیں ہو تا تھا تو جب تک عدالت میں رہتے اپنے ہاتھ سے سر کو ڈھا نپے رکھتے ۔ ججز اور وکلاء عدالت میں جاتے ہو ئے ایڑیوں کی بجائے پیروں کی انگلیوں کے سہارے چلتے تا کہ جو توں کی ٹک ٹک عدالت کو ڈسٹرب نہ کرے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مقد مہ میں میری مخالف کلائینٹ عورت نے اپنے خلاف فیصلہ ہو نے پر مجھے وہ صلواتیں سنائیں جو میں بیان نہیں کر سکتا مگر میں مسکراتے ہو ئے وہ سب ہضم کر گیا چو نکہ مجھے میری تعلیم اور میرا پیشہ اپنے منصب سے گرنا نہیں سکھا تا ۔ مگر آج کے سماج میں صرف وکلاء ہی نہیں بلکہ سو سائٹی کے ہر طبقہ کلیپس ہوا ہے ۔ آپ اپنی صحافت کو ہی لے لیں جب لا کھوں روپے تنخواہیں لینے والے اینکر اور جر نلسٹ نہیں تھے خبر کی صداقت اور صحافت کے اقدارو رویات کا اپنا معیار تھا اور آ ج دیکھیں کیا ہو رہا ہے ؟ سینئر قانون دان دوست نے یہ کہتے ہو ئے بڑی افسردگی اور طنز سے مجھے دیکھا اور میں نے اثبات میں اپنی نظریں جھکالیں کہ میرے سوال کا جواب نہ ملنے کے باوجود یہ سبھی کڑوی باتیں بہت سچی تھیں ۔۔

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.