سرکاری تعلیمی اداروں کے ناقص رزلٹس
مانیٹرنگ کا غیر ذمہ دارانہ نظام اساتذہ کا عدم احترام
ذمہ دار کون ؟؟؟؟؟؟؟
تحریر ۔۔۔۔ محمد عمر شاکر
ریاستی حکمران اور ارباب اختیار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ تعلیمی اداروں کے رزلٹس حوصلہ افزاء ہوں اور انکا نام بنے سرکاری اداروں میں تعینات ہونے والے بیروز گار نوجوانوں کی اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ جونہی کسی اور محکمہ میں نوکری ملے تو وہ سکولز میں پڑھانے کی نوکری چھوڑ کر فوری دوسری جاب جوائن کر لیں دوسرے محکمہ میں تنخواہ سکیل کم ہو بھی تو نسل نو تعلیم و تربیت کو چھوڑ کر اس محمہ میں جانے کو ترجیح دیتی ہے آخر کیوں ؟ اس کی وجہ کیا ہے ؟ ریاستی پالیسی میکر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہی کر رہے اگر وطن عزیز میں یہی حالت رہی تو شائد آنے والے چند سالوں تک وہ محاورہ جو مدارس کے لئے بولا جاتا ہے سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے ہی نہ بولا جائے کہ جو کند ذہن لو گ ہوتے ہیں یا جسمانی معذور وہ ہی پڑھاتے ہیں حکومت پنجاب نے صوبہ بھر میں 22ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زنانہ مردانہ کو صفر انٹرو لمنٹ کی وجہ سے معطل کردیا اس بات میں کوئی شک نہی اور یہ ایک مسلمہ دنیا بھر میں حقیقت ہے کہ کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے منظم ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے منظم انداز میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ٹیم لیڈر کا با صلاحیت ہونا اور اس کے ساتھیوں کا اس کی صلاحیت اور عزم مصمم پر یقین کامل ہونا لازمی ہے بلاشبہ ایک اچھا ٹیم لیڈر اپنی ٹیم ممبران کی ہر مشکل وقت میں رہنمائی اور معاونت کیساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کرنے کیساتھ ساتھ حوصلہ دیتا ہے انکی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ انکی تربیت ذہن سازی کر کے انکو اپنے مقاصد کے لئے کار آمد بنانے کی جہد مسلسل کرتا ہے مگر حکومت پنجاب کے محکمہ تعلیم کے ٹیم لیڈرز با صلاحیت ذمہ دار ہونے کے باوجود اچھی ٹیم بنانے میں کامیاب نہی ہو سکے انکی ٹیم میں شامل چند آفیسران ان کی ہر کوشش کاوش ہمت پلاننگ کو اپنے روائتی رویہ سے ناکام بناتے نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے فیلڈ آفیسران مایوس اور عدم تحفظ کا شکار ہیں سیکرٹریٹ کی راہ داریوں میں ماتحت سٹاف کی سرعام ان چند آفیسران کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے مگر بااثر ان چند افراد کے خلاف کاروائی کرنے سے ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں فیلڈ سٹاف ان آفیسران کے ہاتھوں بری طرح یرغمال بنا ہوا ہے اساتذہ پر خوف اور جبر کی فضاء طاری ہے انظباطی کاروائی کا خوف مسلسل اساتذہ ہیڈ ماسٹر اور ہیڈ مسٹریس پر طاری ہے بس پکڑ دھکڑ کی فضا محکمہ تعلیم میں چھائی ہوئی ہے
ان حالات میں معتوب آفیسران کا کہنا ہے کہ بلاشبہ ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن کے رزلٹس ناقص ہیں انکے خلاف کاروائی کرنا بھی از حد ضروری ہے مگر کلی طور پر یہ بات درست نہ ہے مانیٹرنگ سسٹم ایک مسئلہ ہے پالیسی میکرز ارباب اختیار اس جانب توجہ دیں وہ زمینی حقائق کو بھی دیکھیں کہ ناقص رزلٹس کے حامل سکولز آبادی میں واقع ہیں یا دور دراز سکول کی عمارت ہے کہ نہیں سکول میں فرنیچر ہے سکول میں کتنے ٹیچرز ہیں ٹیچرز کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے سکول کی موثر مانیٹرنگ ہو بھی رہی ہے کہ نہی افسران کا یہ بھی شکوہ ہے کہ تمام اختیارات
DEO(EE)کو دے دیے گے کسی بھی ٹیچر کے خلاف انظباطی کاروائی کا اختیار انکے پاس نہ ہے ارباب اختیار کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ فیلڈ آفیسران انکی ٹیم ہیں جس طرح ہیڈ ماسٹر سربراہ ہوتا ہے انسانی جسم کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے ہیڈ سر جسم میں دماغ کا حامل ہوتاہے جہاں سے ڈائریکشن جاتی ہے اور تمام جسمانی اعضاء اس ڈائریکشن پر عمل کرتے ہیں اگر جسم کا کوئی اعضاء دماغ کی ڈائریکشن کو قبول نہ کرے بیمار ہوجائے تو اس کے لئے دوائی کا استعمال کیا جاتا ہے ناکہ اسے کاٹ دیا جاتا ہے اگر بیمار اعضاء کو کاٹنا شروع کر دیں تو انسانی جسم اپاہج ہو جائے گا اور انسان موتر کے منہ مٰن چلاجائے گا بد قسمتی سے اب یہی رویہ حکومتی جانب سے محکمہ تعلیم کے آفیسران کیساتھ روا رکھا جارہا ہے باصلاحیت تعلیم یافتہ آفیسران کی عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھا جائے غلطیاں کرنے والے آفیسران کی اصلاح کی جائے انکی رہنمائی کے لئے مختلف ورکشاپش کا انعقاد کر کے انہیں کار آمد بنایا جائے مسائل کے حل کے لئے انکی مدد کی جائے کسی بھی قسمی انتہائی قدم اٹھانے سے قبل آفیسران بالا زمینی حقائق کا تجزیہ کریں خوف کی فضاء میں کبھی بھی مثبت رزلٹس متوقع نہی ہیں محکمہ تعلیم میں اساتذہ میں احساس کمتری ختم کیا جائے اساتذہ کو دوسرے سرکاری محکموں کی طرح مراعات دی جائے انکی ملازمت کو قابل رشک بنایا جائے نئے تعینات ہونے والے ٹیچرز کی حوصلہ افزائی کی جائے انٹریو ٹیسٹ اور انتظار کی کوفت اور کلرک مافیا کی جھنجھٹ سے انہیں نجات دلائی جائے بھرتی کے طویل دورانیے سے نکل کر فروغ تعلیم میں صلاحیت دکھانے کی بجائے اکاونٹ آفس کا بھی ماہانہ تنخواہ کا طریقہ کار آسان بنایا جائے اگر اساتذہ کی عزت نفس بحال ہو گی تو معاشرہ ترقی کر سکے سنئیرز اساتذہ کو اپنے تجربے اور معلومات کی بنیاد پر روائتی طریقہ سے پڑھانے دیا جائے تو بھی مطوبہ مقاصد کا حصول آسان ہو جائے گا نجی تعلیمی اداروں میں فروغ تعلیم تو نہی مگر یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ارباب اختیار کو اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی مانیٹرنگ کا موثر نظام قائم کیا جائے دور جدید کے مطابق تعلیمی سلیبس بنایا جائے اور اس ضمن میں اساتذہ کی مسلسل ورکشاپش کا انعقاد کیا جائے تعلیم یافتہ معاشرہ سے ہی اسلامی فلاحی مملکت کے خواب کی تعبیر ممکن ہو گی ۔۔۔۔۔