• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

اردو کالم ۔۔ چشم بینا ۔۔۔۔ تحریر عفت

webmaster by webmaster
جنوری 20, 2016
in First Page, کالم
0

قصور وار ہمارا تعلیمی نظام ؟
تحریر ۔ عفت
407338_355885274434736_153047618051837_1200633_915003158_nزندگی احساسات کو جذبات کی ایک کڑی ہے معاشرے میں رہنے والی آدم کی اولاد خواہ وہ کسی بھی مذہب ،فرقے یا نسل سے تعلق رکھتی ہو جذبات واحساسات سے مبرا نہیں ۔فطرت ،سرشت جن پہ اس کی ذات کا خمیر وہ سب ایک جیسی ہے ۔ہر انسان فطرتِ اسلام کے مطابق پیدا ہوتا ہے ،چونکہ ہم سب آدم کی جد سے ہیں اور آدم ؑ مسلمان تھے تو ہر پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہوتا ہے ہم اس بات کو ہوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نطفے سے وجود تک وہ مسلمان ہوتا ہے اور پھر جب وہ دنیا میں آتا ہے تو اس کے والدین جس مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں اس کا سبق دیتے ہیں اور وہ وہی مذہب اختیار کر لیتا ہے ۔پیدائش کے بعد اس کے کانوں میں اللہ اکبر کی صدا اس کی روح کو اس خوش خبری سے آشنا کرتی ہے کہ وہ ایک مسلمان کے گھر جنم لے چکا ہے ۔اس طرح ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کے مطابق اس کی تکمیل و تعمیر کرتے ہیں ،بنیادی طور پہ بچہ پاکیزہ اور معصوم ہوتا ہے اس کے اردگرد اور معاشرے کا ماحول اس پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی شخصیت میں رحجان کو جنم دیتا ہے اور یہاں اس کی شخصیت کی متنوع عمارت تعمیر ہوتی ہے اس تعمیر میں خامی یا کوتاہی شخصیت میں توازن نہ ہونا ،مثبت کی جگہ منفی سوچوں کی اجارہ داری ،شہرت و دولت کی ہوس ،جیسی ناسور نما بیماریوں کو جنم دیتا ہے ۔جو کسی بھی انسان کی شخصیت کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور یہی غیر متوازن پن معاشرے میں پیدا ہونے والے جرائم اور نا ہمواریوں کا سبب ہے ۔دنیا اب گلوبل ولیج کی صورت کی صورت اختیارکر گئی ہے جہاں سائنس نے ترقی میں چار قدم آگے بڑھائے وہاں مثبت کے ساتھ منفی سوچ نے بھی چار قدم آگے بڑھادیے ۔ٹی۔وی اخبار اور میڈیا ایسے ایسے جرائم سے باخبر کرتا ہے کہ دل یا وحشت یا وحشت کا نعرہ بلند کرتا ہے معاشرتی بد امنی اور اور برائیوں کی وجہ سے جرائم کے ایسے ایسے طریقے منظرِ عام پہ آتے ہیں جیسے کھانے کی ڈشوں کی ریسیپیز، افسوسناک امر جو دامن گیر ہے وہ یہ کہ ان جرائم میں ملوث جاہل طبقہ نہیں بلکہ ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ہے جو جرائم کے نت نئے جدید طریقے ایجاد کر رہا ہے ۔لوٹ مار ہتھیار کے علاوہ موبائل اور انٹرنیٹ کے زریعے بھی کی جا رہی ہے ۔اور ایسے جرائم کا درپردہ مقصد صرف اور صرف دولت کا حصول ہے ۔ہم ہمیشہ مجرم کو ہی برا کہہ کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں کبی ان وجوہات پہ غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے جو ان نوجوانوں کو مجرم بناتی ہیں کیا صرف وہی اس کے ذمہ دار ہیں ؟؟میں ذاتی طور پہ اس سے متفق نہیں ہوں ناانصافی ،ظلم اور نا انصافی ہمیشہ بغا وت کو جنم دیتی ہے ۔سو ان تمام حالات کے ذمے دار ہم ،معاشرہ اور حکومت ہے سال اٹھتا ہے کیسے ؟ تو زرا اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیں ساتھ ساتھ معاشرے کے نظام کو بھی مدِ نظر رکھیں ۔
سب سے پہلے نمبر پہ قصور وار ہمارا تعلیمی نظام جو طبقاتی فرق کے ساتھ چل رہا ۔امیر کا بچہ آکسفورڈ سلیبس اور بیکن ہاؤس سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کر تا ہے وہ اقبال اور قائد کے بجائے ملٹن اور شیکسپئر کو پڑھتا ہے جبکہ غریب کا بچہ گورنمنٹ سکول میں گورنمٹ سلیبس پڑھتا ہے جو کہ اگرچہ بہت معلوماتی ہے مگر ایک استاد کو پرائمری تک کی پانچ کلاسیں دی جاتی ہیں ۔کیا گورنمنٹ کی عقلِ کل کام کرتی ہے کہ ایک استاد
بیکِ وقت پانچ جماعتوں کے بچوں پہ توجہ دے سکتا ؟کیا اس کا ذہنی ارتکاز کسی آسمان سے اتری مخلوق کا سا ہے کہ وہ ہر بچے پہ توجہ دے پائے اور اس پہ ہائے رے معاملہ فہمی کہ کسی گورنمنٹ ٹیچر کا بچہ اس کے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ انگلش میڈیم سکول میں پڑھتا ہے کیوں ؟؟؟ اس کیوں کا جواب ہر خاص و عام جانتا ہے ان کے نا م گورنمنٹ سکول میں درج ہوتے ہیں تاکہ گورنمنٹ کو ملنے والی سہولیات اور انعامات سے مستفید ہو سکیں جبکہ تعلیم وہ انگریزی اسکولوں میں حاصل کرتے ہیں ہاں بوقتِ امتحاں ان کو مستقبل کے راہنما نقل اور سفارش فراہم کر کے احسن طریقے سے اپنی روزی حلال کرتے ہیں جماعت پنجم تا ہشتم یہ کام باآسانی ہو جاتے ہیں اگلی کلاسوں میں ذرا سختی ہوتی ہے مگر وہ کیا ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے ۔ہمارے گورنمنٹ کالجز کے لیکچرار حضرات اکیڈمیوں کے نام پہ تعلیمی بازار سجائے بیٹھے ہیں اور اس کا شمار وسیع کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔بس کالج میں داخلہ لے لو اورپھر پورے سال کالج کی شکل نہ دیکھو بس اکیڈمی آجاؤاور وہاں فیس دو آپ کی حاضریاں بھی پوری ،اور پھر امتحانات کے قریب فیس کے نام پہ کچھ رقم اور پریکٹکل کے نمبر بھی پورے لگ جائیں گے ۔اور اس سے بڑا المیہ ان غریب طلباء وطالبات کے ساتھ جو اکیڈیموں تک رسائی نہیں رکھتے بچارے باقاعدگی سے کالج جاتے ہیں وہاں فارغ پھرتے نظر آتے ہیں استاد صاحبان آتے ہیں حاضریاں لگا کر اپنی اکیڈیمیوں کو لوٹ آتے ہیں تنخواہ بھی پوری اور اکیڈمی کی کمائی الگ ۔یہ ہے ہمارا نظامِ تعلیم اور اساتذہ کا کردار پھر کانٹے بو کر پھولوں کی توقع عبث ہے۔کہانی بس یہیں اختتام پذیر نہٰیں ہوتی ۔ جب ڈگری لینے کے بعد نوکری کا مرحلہ آتا ہے تو قسمت یہاں بھی وار کرنے سے نہیں چوکتی ،جوتے چٹخانے کے باوجود نوکری مغرور محبوبہ کی طرح روٹھی رہتی ہے ان سے خاص جن کے پاس اعلی ڈگری تو ہوتی ہے سفارش اور رشوت نہیں سو باالاخر ان کی مثبت سوچ آہستہ آہستہ منفی سوچ میں ڈھل کر معاشرے سے انتقام کا روپ دھار لیتی ہے اور وہ محرم سے مجرم بن جاتے ہیں ۔سوچیں قصور کس کا ؟؟ رہا بیوروکریٹ اور برگر طبقہ جہاں ہر پیدا ہونے والا بچہ منھ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہوتا ہے اور ہر کتے کا نام ٹامی ہوتا ہے ۔حکومت ،سیاست تو اب نسل در نسل تسلسل کا درجہ اختیار کر چکی ہے ۔غرہب عوام تو محض ووٹ کا شوکاز ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔تعلیم اور سیاست کا دور دور تک کوئی وااسطہ نہیں آپکو یاد ہوگا جب بی۔اے کی شرط عائد کی گئی تھی تو ہمارے سیاسی شہ سواروں نے وہ جلوے دکھائے کہ قوم شرم سے زمین میں گڑ گئی اور ہاسا وکھرا پئیا نہ اپنا قومی ترانہ آتا تھا اور نہ سورت اخلاص ۔
سو حالات نے کروٹ لی اور تعلیم کے عام ہونے کا یہ حال ہو گیا کہ پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری کا حصول بھی مشکل نہ رہا گلی گلی میں مشکل مشکل ناموں والی انگریزی یونیورسٹیاں کھل گئیں ہیں جو بھاری فیسیں لے کر آپکو ایم ۔فل سے لے کر پی۔ایچ ڈی بھی کروا دیں گی آپ جائیں نہ جائیں بس امتحان میں آکر پرچے دے جائیں باقی ان کا کام آپکو کچھ آتا ہو یا نہ کوئی مسئلہ نہیں واقعی آگے ان کا کام ہے ۔لو جی ہم نے خواندگی میں اضافہ بھی کر لیا اور صاحبِ ڈگری بھی ہو گئے۔کاش کہ ہم صاحب ایمان اور صاحبِ عقل بھی ہوتے تو آج ان تمام مسائل سے دوچار نہ ہوتے۔

Tags: column by iffat
Previous Post

دھوری اڈہ کی خبریں ۔۔۔۔ رپورٹ ، ممتاز خان مچھرانی

Next Post

لا ہور ۔ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بلا امتیاز ایکشن جاری رہے گا۔ شہباز شریف

Next Post

لا ہور ۔ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بلا امتیاز ایکشن جاری رہے گا۔ شہباز شریف

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

قصور وار ہمارا تعلیمی نظام ؟ تحریر ۔ عفت 407338_355885274434736_153047618051837_1200633_915003158_nزندگی احساسات کو جذبات کی ایک کڑی ہے معاشرے میں رہنے والی آدم کی اولاد خواہ وہ کسی بھی مذہب ،فرقے یا نسل سے تعلق رکھتی ہو جذبات واحساسات سے مبرا نہیں ۔فطرت ،سرشت جن پہ اس کی ذات کا خمیر وہ سب ایک جیسی ہے ۔ہر انسان فطرتِ اسلام کے مطابق پیدا ہوتا ہے ،چونکہ ہم سب آدم کی جد سے ہیں اور آدم ؑ مسلمان تھے تو ہر پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہوتا ہے ہم اس بات کو ہوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نطفے سے وجود تک وہ مسلمان ہوتا ہے اور پھر جب وہ دنیا میں آتا ہے تو اس کے والدین جس مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں اس کا سبق دیتے ہیں اور وہ وہی مذہب اختیار کر لیتا ہے ۔پیدائش کے بعد اس کے کانوں میں اللہ اکبر کی صدا اس کی روح کو اس خوش خبری سے آشنا کرتی ہے کہ وہ ایک مسلمان کے گھر جنم لے چکا ہے ۔اس طرح ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کے مطابق اس کی تکمیل و تعمیر کرتے ہیں ،بنیادی طور پہ بچہ پاکیزہ اور معصوم ہوتا ہے اس کے اردگرد اور معاشرے کا ماحول اس پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی شخصیت میں رحجان کو جنم دیتا ہے اور یہاں اس کی شخصیت کی متنوع عمارت تعمیر ہوتی ہے اس تعمیر میں خامی یا کوتاہی شخصیت میں توازن نہ ہونا ،مثبت کی جگہ منفی سوچوں کی اجارہ داری ،شہرت و دولت کی ہوس ،جیسی ناسور نما بیماریوں کو جنم دیتا ہے ۔جو کسی بھی انسان کی شخصیت کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور یہی غیر متوازن پن معاشرے میں پیدا ہونے والے جرائم اور نا ہمواریوں کا سبب ہے ۔دنیا اب گلوبل ولیج کی صورت کی صورت اختیارکر گئی ہے جہاں سائنس نے ترقی میں چار قدم آگے بڑھائے وہاں مثبت کے ساتھ منفی سوچ نے بھی چار قدم آگے بڑھادیے ۔ٹی۔وی اخبار اور میڈیا ایسے ایسے جرائم سے باخبر کرتا ہے کہ دل یا وحشت یا وحشت کا نعرہ بلند کرتا ہے معاشرتی بد امنی اور اور برائیوں کی وجہ سے جرائم کے ایسے ایسے طریقے منظرِ عام پہ آتے ہیں جیسے کھانے کی ڈشوں کی ریسیپیز، افسوسناک امر جو دامن گیر ہے وہ یہ کہ ان جرائم میں ملوث جاہل طبقہ نہیں بلکہ ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ہے جو جرائم کے نت نئے جدید طریقے ایجاد کر رہا ہے ۔لوٹ مار ہتھیار کے علاوہ موبائل اور انٹرنیٹ کے زریعے بھی کی جا رہی ہے ۔اور ایسے جرائم کا درپردہ مقصد صرف اور صرف دولت کا حصول ہے ۔ہم ہمیشہ مجرم کو ہی برا کہہ کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں کبی ان وجوہات پہ غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے جو ان نوجوانوں کو مجرم بناتی ہیں کیا صرف وہی اس کے ذمہ دار ہیں ؟؟میں ذاتی طور پہ اس سے متفق نہیں ہوں ناانصافی ،ظلم اور نا انصافی ہمیشہ بغا وت کو جنم دیتی ہے ۔سو ان تمام حالات کے ذمے دار ہم ،معاشرہ اور حکومت ہے سال اٹھتا ہے کیسے ؟ تو زرا اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیں ساتھ ساتھ معاشرے کے نظام کو بھی مدِ نظر رکھیں ۔ سب سے پہلے نمبر پہ قصور وار ہمارا تعلیمی نظام جو طبقاتی فرق کے ساتھ چل رہا ۔امیر کا بچہ آکسفورڈ سلیبس اور بیکن ہاؤس سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کر تا ہے وہ اقبال اور قائد کے بجائے ملٹن اور شیکسپئر کو پڑھتا ہے جبکہ غریب کا بچہ گورنمنٹ سکول میں گورنمٹ سلیبس پڑھتا ہے جو کہ اگرچہ بہت معلوماتی ہے مگر ایک استاد کو پرائمری تک کی پانچ کلاسیں دی جاتی ہیں ۔کیا گورنمنٹ کی عقلِ کل کام کرتی ہے کہ ایک استاد بیکِ وقت پانچ جماعتوں کے بچوں پہ توجہ دے سکتا ؟کیا اس کا ذہنی ارتکاز کسی آسمان سے اتری مخلوق کا سا ہے کہ وہ ہر بچے پہ توجہ دے پائے اور اس پہ ہائے رے معاملہ فہمی کہ کسی گورنمنٹ ٹیچر کا بچہ اس کے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ انگلش میڈیم سکول میں پڑھتا ہے کیوں ؟؟؟ اس کیوں کا جواب ہر خاص و عام جانتا ہے ان کے نا م گورنمنٹ سکول میں درج ہوتے ہیں تاکہ گورنمنٹ کو ملنے والی سہولیات اور انعامات سے مستفید ہو سکیں جبکہ تعلیم وہ انگریزی اسکولوں میں حاصل کرتے ہیں ہاں بوقتِ امتحاں ان کو مستقبل کے راہنما نقل اور سفارش فراہم کر کے احسن طریقے سے اپنی روزی حلال کرتے ہیں جماعت پنجم تا ہشتم یہ کام باآسانی ہو جاتے ہیں اگلی کلاسوں میں ذرا سختی ہوتی ہے مگر وہ کیا ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے ۔ہمارے گورنمنٹ کالجز کے لیکچرار حضرات اکیڈمیوں کے نام پہ تعلیمی بازار سجائے بیٹھے ہیں اور اس کا شمار وسیع کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔بس کالج میں داخلہ لے لو اورپھر پورے سال کالج کی شکل نہ دیکھو بس اکیڈمی آجاؤاور وہاں فیس دو آپ کی حاضریاں بھی پوری ،اور پھر امتحانات کے قریب فیس کے نام پہ کچھ رقم اور پریکٹکل کے نمبر بھی پورے لگ جائیں گے ۔اور اس سے بڑا المیہ ان غریب طلباء وطالبات کے ساتھ جو اکیڈیموں تک رسائی نہیں رکھتے بچارے باقاعدگی سے کالج جاتے ہیں وہاں فارغ پھرتے نظر آتے ہیں استاد صاحبان آتے ہیں حاضریاں لگا کر اپنی اکیڈیمیوں کو لوٹ آتے ہیں تنخواہ بھی پوری اور اکیڈمی کی کمائی الگ ۔یہ ہے ہمارا نظامِ تعلیم اور اساتذہ کا کردار پھر کانٹے بو کر پھولوں کی توقع عبث ہے۔کہانی بس یہیں اختتام پذیر نہٰیں ہوتی ۔ جب ڈگری لینے کے بعد نوکری کا مرحلہ آتا ہے تو قسمت یہاں بھی وار کرنے سے نہیں چوکتی ،جوتے چٹخانے کے باوجود نوکری مغرور محبوبہ کی طرح روٹھی رہتی ہے ان سے خاص جن کے پاس اعلی ڈگری تو ہوتی ہے سفارش اور رشوت نہیں سو باالاخر ان کی مثبت سوچ آہستہ آہستہ منفی سوچ میں ڈھل کر معاشرے سے انتقام کا روپ دھار لیتی ہے اور وہ محرم سے مجرم بن جاتے ہیں ۔سوچیں قصور کس کا ؟؟ رہا بیوروکریٹ اور برگر طبقہ جہاں ہر پیدا ہونے والا بچہ منھ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہوتا ہے اور ہر کتے کا نام ٹامی ہوتا ہے ۔حکومت ،سیاست تو اب نسل در نسل تسلسل کا درجہ اختیار کر چکی ہے ۔غرہب عوام تو محض ووٹ کا شوکاز ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔تعلیم اور سیاست کا دور دور تک کوئی وااسطہ نہیں آپکو یاد ہوگا جب بی۔اے کی شرط عائد کی گئی تھی تو ہمارے سیاسی شہ سواروں نے وہ جلوے دکھائے کہ قوم شرم سے زمین میں گڑ گئی اور ہاسا وکھرا پئیا نہ اپنا قومی ترانہ آتا تھا اور نہ سورت اخلاص ۔ سو حالات نے کروٹ لی اور تعلیم کے عام ہونے کا یہ حال ہو گیا کہ پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری کا حصول بھی مشکل نہ رہا گلی گلی میں مشکل مشکل ناموں والی انگریزی یونیورسٹیاں کھل گئیں ہیں جو بھاری فیسیں لے کر آپکو ایم ۔فل سے لے کر پی۔ایچ ڈی بھی کروا دیں گی آپ جائیں نہ جائیں بس امتحان میں آکر پرچے دے جائیں باقی ان کا کام آپکو کچھ آتا ہو یا نہ کوئی مسئلہ نہیں واقعی آگے ان کا کام ہے ۔لو جی ہم نے خواندگی میں اضافہ بھی کر لیا اور صاحبِ ڈگری بھی ہو گئے۔کاش کہ ہم صاحب ایمان اور صاحبِ عقل بھی ہوتے تو آج ان تمام مسائل سے دوچار نہ ہوتے۔

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.