پڑھوپنجاب بڑھوپنجاب
شاہداقبال شامی
دانش ورکہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے اگر تین طبقے اساتذہ،عدلیہ اور فوج ٹھیک ہو جائے تو پورے ملک کا نظام ٹھیک ہو جاتا ہے ،لیکن ’’وجدان ‘‘ کا کہنا ہے کہ اگرصرف اساتذہ ہی اپنا فرض احسن طریقہ سے نبھانا شروع کر دیں تو ملک کو ترقی کی راہ پرسفرکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا،کیونکہ عدلیہ اور
فوج بھی اساتذہ ہی کی تربیت کا نتیجہ ہے جس نہج کی تربیت ہو گی نتیجہ بھی ویسا ہی آئے گا ،ہمارے ملک میں سب سے ابتر صورت حال محکمہ تعلیم کی ہے،اس پر سب سے کم سرمایا کاری کی جاتی ہے اور تجربات سب سے زیادہ کئے جاتے ہیں ،ہرسال نصاب تعلیم تبدیل ہوتا ہے عمارتوں کو خوبصورت بنانے کیلئے دن کوششیں کی جاتی ہیں،محکمہ تعلیم کی چیکنگ کے لئے کئی ادارے کام کر رہے ہیں لیکن نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین
ایک رپورٹ کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں 9ماہ کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے قائم کردہ ٹیموں نے مختلف اوقات میں صوبہ بھر کے پرائمری،مڈل،ہائی اورہائیرسکینڈری سکولوں میں چھاپوں کے دوران 23ہزار139اساتذہ کو اپنی تدریسی ڈیوٹی سے غیر حاضر پایا9ماہ کے اعدادوشمار کے مطابق غفلت،لاپرواہی اور مسلسل غیر حاضری کے مرتکب740اساتذہ کو نوکری سے فارغ164انکری منٹ روک دی گئی 744اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی100کوجبری ریٹائرڈ کر دیا گیاسرکاری سکوں کے بجائے دیگر جگہوں پر ڈیوٹی دینے والے 79اساتذہ کوواپس ڈیوٹیوں پر بھجوایا گیاہے جبکہ 1621اساتذہ کو وارننگ دی گئی۔
جتنی زیادہ محنت تعلیمی اداروں کو ٹھیک کرنے کے لئے کی جاتی ہے نتیجہ اس کے الٹ ہی نکل رہاہے اب ہمیں ان اداروں کو ٹھیک کرنے کے لئے نئے سرے سے حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی صرف دھونس دھاندلی سے کام نہیں چلے گا، اب اساتذہ کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کا جائزہ بھی لینا ہو گا ،سکولوں کو چیک کرنے کے نظام میں تبدیلی لانا ہو گی ۔چیکنگ کرنے والوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے،کیونکہ سارا دارومدار ان ہی پر ہے،ان میں بھی کئی کالی بھیڑیں چھپی بیٹھی ہیں، یہ جس کو چاہتے ہیں حاضر کو غیر حاضریا لیٹ آمد اور غیر حاضر کو رخصت پر شمار کر دیتے ہیں،مانیٹرنگ کے لئے ریٹائرڈ فوجیوں کے بجائے اساتذہ یا نئے لوگوں کو تعینات کیا جائے اور ان کی بھی تربیت کا خصوصی انتظام کرنا بہت ضروری ہے۔
محکمہ تعلیم کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سے کرپٹ اساتذہ کو فورا فارغ کیا جائے ،ہر ادارے میں سربراہ ادارہ کے خاص منظورنظر ہوتے ہیں جن کو ہر قسم کی آزادی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ایماندار اساتذہ کا استحصال ہوتا ہے اور ماحول بھی خراب ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ محکمہ بھی بدنام ہوتا ہے۔اساتذہ کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا تا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنا کام کرسکیں،ان کے مسائل میں کم تنخواہ،ناقص مراعات،سہولیات کی کمی،نامناسب سروس سٹرکچر اور امتیازی سلوک کا روا رکھاجاناہے۔جب کم تنخواہ کے باعث اساتذہ کو زائد آمدن کے لئے مزدوری کرنا پڑے گی تو طلبہ کا تعلیمی حرج تو ہو ہی گا،اساتذہ سے تمام اضافی ڈیوٹیاں،ڈینگی،پولیوں،الیکشن اور مردم شماری جیسی ڈیوٹیاں بھی لی جائیں گی تو تعلیمی نظام بہتر ہونے کے بجائے زیادہ خراب ہو گا،قومی اعزازات میں اساتذہ کو ہمیشہ
نظرانداز کیا جاتا ہے،سرکاری تقریبات میں اساتذہ کو بھی مدعو کیا جائے،تمام اساتذہ کے کنوینس الاؤنس کو ایک جیسا کر دیا جائے ،میڈیکل اور ہاؤس رینٹ کو بھی برابر ہونا چاہیے،منظورنظرلوگوں کو نوازنا بند اور شرارتی اساتذہ کو فورا ملازمت سے فارغ کر دیا جائے،ایک شخص کی آفسران بالا کی ذاتی دشمنی کے لئے باقی عملہ کو تنگ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی اساتذہ ذہنی مریض بن چکے ہیں، دوراور مشکل علاقوں میں جانے والے کو کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔علاقائی وڈیروں اور سیاسی شخصیات کا سکولوں میں عمل دخل روکا جائے اور ملازمین کو تحفظ فراہم کیا جائے،ان کو بلا وجہ تنگ نہ کیا جائے ،ایک جیسی غلطی کی سزا بھی ایک جیسی ہونی چاہیے سکیل کا خیال نہ کیا جائے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے ،ملازمین کے مسائل کو سنا جائے اور ترجیحی بنیادوں پرسنجیدگی کے ساتھ حل کیا جائے ۔ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں،اور ان کو برادرانہ ماحول فراہم کیا جائے اور حوصلہ افزائی کو معمول بنایا جائے۔
اساتذہ کو بھی چاہیے کہ اپنے آفیسر کے حکم کو مانے اور کام نیک نیتی اور احسن طریقہ سے کریں،تمام طلبہ کو اپنے بچوں جیسا سمجھیں اور ادارے کو بھی اپنے گھر جیسا بنائیں ،طلبہ سے مذاق کی عادت ہرگز نہ بنائیں،اساتذہ کو چاہیے کہ طلبہ کی بہتر راہنمائی کریں، ان کی ذہنی ساخت کو دیکھتے ہوئے ان کو پہلے سے تیار کیا جائے کہ انہوں نے آگے جا کر کن مضامین کا انتخاب کرنا ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم کو بہتر طور پرحاصل کر سکیں،لوگوں کا سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے یہ تب ہی ممکن ہے جب اساتذہ اپنے بچوں کوسرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائیں،حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اساتذہ پر لازم قراردیں کہ وہ اپنے بچوں کو بھی ان ہی اداروں میں تعلیم دلوائیں جن اداروں میں وہ خود پڑھاتے ہیں،سیکرٹری تعلیم سے لے کر ایک عام سرکاری تعلیمی ملازم پر یہ لازم ہو کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائیں۔تبدیلی تب ہی ممکن ہے،اعتماد کا رشتہ تب ہی مضبوط ہو گا،بے جا اشتہارات،ریلیوں اور مہنگے ہوٹلوں میں پریس کانفرنس کرنے سے تعلیمی نظام بہتر نہیں ہو سکتااس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہو گے،ایسے اقدامات جن میں صرف ملازمین کو مشکل میں نہ ڈالا جائے اس سے حالات ٹھیک ہونے کے بجائے اور ابتر ہو جائیں گے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں 9ماہ کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے قائم کردہ ٹیموں نے مختلف اوقات میں صوبہ بھر کے پرائمری،مڈل،ہائی اورہائیرسکینڈری سکولوں میں چھاپوں کے دوران 23ہزار139اساتذہ کو اپنی تدریسی ڈیوٹی سے غیر حاضر پایا9ماہ کے اعدادوشمار کے مطابق غفلت،لاپرواہی اور مسلسل غیر حاضری کے مرتکب740اساتذہ کو نوکری سے فارغ164انکری منٹ روک دی گئی 744اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی100کوجبری ریٹائرڈ کر دیا گیاسرکاری سکوں کے بجائے دیگر جگہوں پر ڈیوٹی دینے والے 79اساتذہ کوواپس ڈیوٹیوں پر بھجوایا گیاہے جبکہ 1621اساتذہ کو وارننگ دی گئی۔
جتنی زیادہ محنت تعلیمی اداروں کو ٹھیک کرنے کے لئے کی جاتی ہے نتیجہ اس کے الٹ ہی نکل رہاہے اب ہمیں ان اداروں کو ٹھیک کرنے کے لئے نئے سرے سے حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی صرف دھونس دھاندلی سے کام نہیں چلے گا، اب اساتذہ کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کا جائزہ بھی لینا ہو گا ،سکولوں کو چیک کرنے کے نظام میں تبدیلی لانا ہو گی ۔چیکنگ کرنے والوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے،کیونکہ سارا دارومدار ان ہی پر ہے،ان میں بھی کئی کالی بھیڑیں چھپی بیٹھی ہیں، یہ جس کو چاہتے ہیں حاضر کو غیر حاضریا لیٹ آمد اور غیر حاضر کو رخصت پر شمار کر دیتے ہیں،مانیٹرنگ کے لئے ریٹائرڈ فوجیوں کے بجائے اساتذہ یا نئے لوگوں کو تعینات کیا جائے اور ان کی بھی تربیت کا خصوصی انتظام کرنا بہت ضروری ہے۔
محکمہ تعلیم کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سے کرپٹ اساتذہ کو فورا فارغ کیا جائے ،ہر ادارے میں سربراہ ادارہ کے خاص منظورنظر ہوتے ہیں جن کو ہر قسم کی آزادی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ایماندار اساتذہ کا استحصال ہوتا ہے اور ماحول بھی خراب ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ محکمہ بھی بدنام ہوتا ہے۔اساتذہ کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا تا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنا کام کرسکیں،ان کے مسائل میں کم تنخواہ،ناقص مراعات،سہولیات کی کمی،نامناسب سروس سٹرکچر اور امتیازی سلوک کا روا رکھاجاناہے۔جب کم تنخواہ کے باعث اساتذہ کو زائد آمدن کے لئے مزدوری کرنا پڑے گی تو طلبہ کا تعلیمی حرج تو ہو ہی گا،اساتذہ سے تمام اضافی ڈیوٹیاں،ڈینگی،پولیوں،الیکشن اور مردم شماری جیسی ڈیوٹیاں بھی لی جائیں گی تو تعلیمی نظام بہتر ہونے کے بجائے زیادہ خراب ہو گا،قومی اعزازات میں اساتذہ کو ہمیشہ
نظرانداز کیا جاتا ہے،سرکاری تقریبات میں اساتذہ کو بھی مدعو کیا جائے،تمام اساتذہ کے کنوینس الاؤنس کو ایک جیسا کر دیا جائے ،میڈیکل اور ہاؤس رینٹ کو بھی برابر ہونا چاہیے،منظورنظرلوگوں کو نوازنا بند اور شرارتی اساتذہ کو فورا ملازمت سے فارغ کر دیا جائے،ایک شخص کی آفسران بالا کی ذاتی دشمنی کے لئے باقی عملہ کو تنگ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی اساتذہ ذہنی مریض بن چکے ہیں، دوراور مشکل علاقوں میں جانے والے کو کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔علاقائی وڈیروں اور سیاسی شخصیات کا سکولوں میں عمل دخل روکا جائے اور ملازمین کو تحفظ فراہم کیا جائے،ان کو بلا وجہ تنگ نہ کیا جائے ،ایک جیسی غلطی کی سزا بھی ایک جیسی ہونی چاہیے سکیل کا خیال نہ کیا جائے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے ،ملازمین کے مسائل کو سنا جائے اور ترجیحی بنیادوں پرسنجیدگی کے ساتھ حل کیا جائے ۔ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں،اور ان کو برادرانہ ماحول فراہم کیا جائے اور حوصلہ افزائی کو معمول بنایا جائے۔
اساتذہ کو بھی چاہیے کہ اپنے آفیسر کے حکم کو مانے اور کام نیک نیتی اور احسن طریقہ سے کریں،تمام طلبہ کو اپنے بچوں جیسا سمجھیں اور ادارے کو بھی اپنے گھر جیسا بنائیں ،طلبہ سے مذاق کی عادت ہرگز نہ بنائیں،اساتذہ کو چاہیے کہ طلبہ کی بہتر راہنمائی کریں، ان کی ذہنی ساخت کو دیکھتے ہوئے ان کو پہلے سے تیار کیا جائے کہ انہوں نے آگے جا کر کن مضامین کا انتخاب کرنا ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم کو بہتر طور پرحاصل کر سکیں،لوگوں کا سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے یہ تب ہی ممکن ہے جب اساتذہ اپنے بچوں کوسرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائیں،حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اساتذہ پر لازم قراردیں کہ وہ اپنے بچوں کو بھی ان ہی اداروں میں تعلیم دلوائیں جن اداروں میں وہ خود پڑھاتے ہیں،سیکرٹری تعلیم سے لے کر ایک عام سرکاری تعلیمی ملازم پر یہ لازم ہو کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائیں۔تبدیلی تب ہی ممکن ہے،اعتماد کا رشتہ تب ہی مضبوط ہو گا،بے جا اشتہارات،ریلیوں اور مہنگے ہوٹلوں میں پریس کانفرنس کرنے سے تعلیمی نظام بہتر نہیں ہو سکتااس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہو گے،ایسے اقدامات جن میں صرف ملازمین کو مشکل میں نہ ڈالا جائے اس سے حالات ٹھیک ہونے کے بجائے اور ابتر ہو جائیں گے۔