• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

urdu column جاں بلب زندگیاں اور ارباب ِ اختیار

webmaster by webmaster
جنوری 16, 2016
in کالم
0

images (2)جاں بلب زندگیاں اور ارباب ِ اختیار

تحریر ۔ عفت

انسان برسوں سے مختلف آفات سے لڑتا آرہا ہے اس نے مصائب سے لڑنے کے لئیے ہتھیار ایجاد کیے۔ لکڑی کے نیزے سے بات توپ و تفنگ تک آگئی اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ حالات کو اپنے زیرِ ِ اطاعت رکھے ۔مگر کہیں حالات اس پہ غالب آگئے تو کہیں وہ حالات پہ غالب آیا ۔انسان پتھر کے دور سے نکل کر ایٹمی دور میں داخل ہوگیا ۔مگر وہ قدرت رکھتے ہوئے بھی قادر نہ کہلایا ۔موسم، فطرت اس کے تابع ہو سکے ۔دولت اور اقتدار کی تقسیم نے جہاں ہوس ِ اقتدار کو جنم دیا وہاں ہادیِ برحق کے اس قول کو بھیفراموش کر دیا کہ خدا کی نظر میں امیر غریب سب برابر ہیں اگر کسی کو فضیلت ہے تو تقوی پہ ۔اس کے ساتھ ہی وہ بادشاہ اور امیر بھی پردہ پوش ہو گئے جو کہا کرتے تھے اگر میری سلطنت میں ایک جانور بھی بھوکا ہو تو روزِ قیامت میری باز پرس ہوگی ۔سو خوفِ خدا بھی گیا ۔

نہ خدا مل سکا نہ وصالِ صنم۔۔۔۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ان ساری تمہید کا پسِ منظر ایک خبر جسے نہ اخبار میں بڑی خبر کی جگہ ملتی ہے نہ اہمیت ایک چھوٹی سی ہیڈلائن کہ تھرپارکر میں پھر رواں سال بھی قحط سالی سے موت بٹنے لگی اور موت کا یہ کھیل گذشتہ چار سال سے جاری ہے۔ضلع مٹھی کے سرکاری اسپتال کے اعداد وشمار کے مطابق دسمبر ۲۰۱۳ میں ۴۲ جنوری ۲۰۱۴ میں ۴۰،فروری میں ۳۶ مارچ میں ۳ ،اور گذشتہ تین ماہ میں۱۲۱ بچے جاں بحق ہوئے۔جبکہ ۲۰۱۶ کے آغاز میں ہی ان گیارہ دنوں میں ۳۲ ہلاکتیں ہو چکی ہیں ۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔بہترین اجناس کی دولت سے مالا مال ، پھر تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے موت کا یہ رقص باعث تشویش اور باعثِ ندامت ہے ۔صحرا کی خشک سالی نے جانوروں اور انسانوں سے ان کی زندگیاں اور دھرتی سے اس کی کوکھ میں جنم لینے والے وہ رنگ چھین لیے جن کی بنا ء پہ انسانوں اور جانوروں کے چہروں پہ زندگی کے رنگ ابھرتے تھے ۔اور بھوک اور افلاس نے ایسے ڈیرے جمائے کہ کمزور اور ناتواں جسم اس کی تاب نہیں لا پاتے اور ننھے ننھے غنچے بھوک کے لقمہ ء اجل کا شکار بن رہے ہیں ۔ان کے کمر سے لگے پیٹ ،حلقوں میں دھنسی آنکھیں اور اکھڑتی سانسیں ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جن کہ دستر خوان اللہ کی نعمتوں سے بھرے ہیں ۔اربابِ اختیار کے دوروں اور یقین دہانی کے باوجود ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔غذائی قلت اور طبی سہولتوں کا فقدان ،حکومت کی عدم توجہ اور لاپرواہی کس طرح ان معصوم لوگوں کی زندگی سے کھلواڑ کر رہی ہے خدا بہتر جانتا ہے ۔ہماری نوکر شاہی کو ایک دوسرے کی ریشہ روانیوں سے فرصت کہاں کہ اس طرف نظر ڈالیں ،
اقتدار کی دوڑ میں انھیں اپنے اور کرسی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا اور ان کے روز وشب اسی کی سیاست کے نظر ہوجاتے ہیں ۔گندم گوداموں میں خراب ہو سکتی ہے مگر ان سے بھوکوں کا پیٹ بھرنے میں عار ہے ۔
امیرِشہر کی گندم خراب ہوتی رہی۔۔۔فاقوں سے مر گئی مگر بیٹی غریب کی
والا حساب ہے ۔جانے کیوں ہم اکیسویں صدی میں آکر بھی ان غلام گردشوں میں کیوں بھٹک رہے ۔اور کیوں وہ افلاس کے مارے لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے ۔یہ ہماری عقلِ ناقص کی کرشمہ سازی ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں پہ اقتدار کے چشمے چڑھا رکھے ہیں جن میں ہمیں سب اچھا دکھائی دیتا ہے۔ایک وزیر دوسرے کی دعوت کرتا ہے تو بے شمار کھانے پکوائے جاتے ہیں جن کو محض چکھنے پہ ہی اکتفا کیا جاتا ہے ،ایک لمحہ ان معصوم لوگوں کی بھوک کو پیشِ نظر رکھ کہ دیکھیں تو احساس ہو کہ جتنا خوشامدانہ مدارت میں اسراف برتا جاتا ہے اس سے دو تین خاندان باآسانی پیٹ کی بھوک مٹا سکتے مگر بات وہی ہے کہ جس کا پیٹ ناک تک بھرا ہو اسے بھوکے کی بھوک کا کیا احساس۔ہمیں تو میٹرو چلانے ،یا بے سروپا بیانات اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے سے فرصت نہیں بھوکے کی بھوک کا کیا کریں ،ہم بس ایک ہی بھوک سے واقف ہیں وہ ہے اقتدار کی بھوک ۔اور اس میں ہم ایک دوسرے کو ہی نوچ نوچ کے کھاتے ہین اور اک دوسرے کے کردار کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ہمیں نہ مٹھی اور تھرپارکر کے نڈھال بچے نظر آتے ہیں نہ ہی ان کے ناتواں والدین ،اہلِ قلم کے ڈراووں پہ جا کے اعلان کر آتے ہیں اور پھر محو استراحت ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے وعدے اور اعلانات بھی خواب خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں ،اس سے بڑھ کے کیا المیہ ہے ؟؟کہ ہم الم وآلام پہ اپنی آسائشات پہ ترجیح دیں ۔الیکشن کی جیت کے جشن ،پروٹوکول کے نام کی ڈرامہ بازیوں پہ کروڑوں روپے برباد کئے جاتے ہیں کیا اس سے ان بدحال لوگوں کی مدد نہیں ہو سکتی ان کے لئے غذا اور علاج کی فراہمی نہیں ہو سکتی سب ممکن ہے بس ذرا ضمیر کو زندہ کرنے اور اس بھوک اور بے بسی کے احساس کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ،اگر اب بھی ایسا نہیں تو اربابِ اختیارکو اختیار کی طاقت چھیننے والے ہاتھ کی بے آواز لاٹھی سے خبردار رہنا چاہیے ۔اور بلاشبہ غریب کی آہ اور ماؤں کی اجڑی گود کی آہ وبکاہ عرش ہلا دیتی ہے ۔
Previous Post

urdu column ہوں اُسی چاند ستاروں کے بھرے میلے میں

Next Post

منتخب بلدیاتی کو نسلرز کی تقریب حلف برداری آج گیارہ بجے دن منعقد ہو گی

Next Post

منتخب بلدیاتی کو نسلرز کی تقریب حلف برداری آج گیارہ بجے دن منعقد ہو گی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

images (2)جاں بلب زندگیاں اور ارباب ِ اختیار

تحریر ۔ عفت

انسان برسوں سے مختلف آفات سے لڑتا آرہا ہے اس نے مصائب سے لڑنے کے لئیے ہتھیار ایجاد کیے۔ لکڑی کے نیزے سے بات توپ و تفنگ تک آگئی اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ حالات کو اپنے زیرِ ِ اطاعت رکھے ۔مگر کہیں حالات اس پہ غالب آگئے تو کہیں وہ حالات پہ غالب آیا ۔انسان پتھر کے دور سے نکل کر ایٹمی دور میں داخل ہوگیا ۔مگر وہ قدرت رکھتے ہوئے بھی قادر نہ کہلایا ۔موسم، فطرت اس کے تابع ہو سکے ۔دولت اور اقتدار کی تقسیم نے جہاں ہوس ِ اقتدار کو جنم دیا وہاں ہادیِ برحق کے اس قول کو بھیفراموش کر دیا کہ خدا کی نظر میں امیر غریب سب برابر ہیں اگر کسی کو فضیلت ہے تو تقوی پہ ۔اس کے ساتھ ہی وہ بادشاہ اور امیر بھی پردہ پوش ہو گئے جو کہا کرتے تھے اگر میری سلطنت میں ایک جانور بھی بھوکا ہو تو روزِ قیامت میری باز پرس ہوگی ۔سو خوفِ خدا بھی گیا ۔

نہ خدا مل سکا نہ وصالِ صنم۔۔۔۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ان ساری تمہید کا پسِ منظر ایک خبر جسے نہ اخبار میں بڑی خبر کی جگہ ملتی ہے نہ اہمیت ایک چھوٹی سی ہیڈلائن کہ تھرپارکر میں پھر رواں سال بھی قحط سالی سے موت بٹنے لگی اور موت کا یہ کھیل گذشتہ چار سال سے جاری ہے۔ضلع مٹھی کے سرکاری اسپتال کے اعداد وشمار کے مطابق دسمبر ۲۰۱۳ میں ۴۲ جنوری ۲۰۱۴ میں ۴۰،فروری میں ۳۶ مارچ میں ۳ ،اور گذشتہ تین ماہ میں۱۲۱ بچے جاں بحق ہوئے۔جبکہ ۲۰۱۶ کے آغاز میں ہی ان گیارہ دنوں میں ۳۲ ہلاکتیں ہو چکی ہیں ۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔بہترین اجناس کی دولت سے مالا مال ، پھر تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے موت کا یہ رقص باعث تشویش اور باعثِ ندامت ہے ۔صحرا کی خشک سالی نے جانوروں اور انسانوں سے ان کی زندگیاں اور دھرتی سے اس کی کوکھ میں جنم لینے والے وہ رنگ چھین لیے جن کی بنا ء پہ انسانوں اور جانوروں کے چہروں پہ زندگی کے رنگ ابھرتے تھے ۔اور بھوک اور افلاس نے ایسے ڈیرے جمائے کہ کمزور اور ناتواں جسم اس کی تاب نہیں لا پاتے اور ننھے ننھے غنچے بھوک کے لقمہ ء اجل کا شکار بن رہے ہیں ۔ان کے کمر سے لگے پیٹ ،حلقوں میں دھنسی آنکھیں اور اکھڑتی سانسیں ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جن کہ دستر خوان اللہ کی نعمتوں سے بھرے ہیں ۔اربابِ اختیار کے دوروں اور یقین دہانی کے باوجود ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔غذائی قلت اور طبی سہولتوں کا فقدان ،حکومت کی عدم توجہ اور لاپرواہی کس طرح ان معصوم لوگوں کی زندگی سے کھلواڑ کر رہی ہے خدا بہتر جانتا ہے ۔ہماری نوکر شاہی کو ایک دوسرے کی ریشہ روانیوں سے فرصت کہاں کہ اس طرف نظر ڈالیں ، اقتدار کی دوڑ میں انھیں اپنے اور کرسی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا اور ان کے روز وشب اسی کی سیاست کے نظر ہوجاتے ہیں ۔گندم گوداموں میں خراب ہو سکتی ہے مگر ان سے بھوکوں کا پیٹ بھرنے میں عار ہے ۔ امیرِشہر کی گندم خراب ہوتی رہی۔۔۔فاقوں سے مر گئی مگر بیٹی غریب کی والا حساب ہے ۔جانے کیوں ہم اکیسویں صدی میں آکر بھی ان غلام گردشوں میں کیوں بھٹک رہے ۔اور کیوں وہ افلاس کے مارے لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے ۔یہ ہماری عقلِ ناقص کی کرشمہ سازی ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں پہ اقتدار کے چشمے چڑھا رکھے ہیں جن میں ہمیں سب اچھا دکھائی دیتا ہے۔ایک وزیر دوسرے کی دعوت کرتا ہے تو بے شمار کھانے پکوائے جاتے ہیں جن کو محض چکھنے پہ ہی اکتفا کیا جاتا ہے ،ایک لمحہ ان معصوم لوگوں کی بھوک کو پیشِ نظر رکھ کہ دیکھیں تو احساس ہو کہ جتنا خوشامدانہ مدارت میں اسراف برتا جاتا ہے اس سے دو تین خاندان باآسانی پیٹ کی بھوک مٹا سکتے مگر بات وہی ہے کہ جس کا پیٹ ناک تک بھرا ہو اسے بھوکے کی بھوک کا کیا احساس۔ہمیں تو میٹرو چلانے ،یا بے سروپا بیانات اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے سے فرصت نہیں بھوکے کی بھوک کا کیا کریں ،ہم بس ایک ہی بھوک سے واقف ہیں وہ ہے اقتدار کی بھوک ۔اور اس میں ہم ایک دوسرے کو ہی نوچ نوچ کے کھاتے ہین اور اک دوسرے کے کردار کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ہمیں نہ مٹھی اور تھرپارکر کے نڈھال بچے نظر آتے ہیں نہ ہی ان کے ناتواں والدین ،اہلِ قلم کے ڈراووں پہ جا کے اعلان کر آتے ہیں اور پھر محو استراحت ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے وعدے اور اعلانات بھی خواب خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں ،اس سے بڑھ کے کیا المیہ ہے ؟؟کہ ہم الم وآلام پہ اپنی آسائشات پہ ترجیح دیں ۔الیکشن کی جیت کے جشن ،پروٹوکول کے نام کی ڈرامہ بازیوں پہ کروڑوں روپے برباد کئے جاتے ہیں کیا اس سے ان بدحال لوگوں کی مدد نہیں ہو سکتی ان کے لئے غذا اور علاج کی فراہمی نہیں ہو سکتی سب ممکن ہے بس ذرا ضمیر کو زندہ کرنے اور اس بھوک اور بے بسی کے احساس کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ،اگر اب بھی ایسا نہیں تو اربابِ اختیارکو اختیار کی طاقت چھیننے والے ہاتھ کی بے آواز لاٹھی سے خبردار رہنا چاہیے ۔اور بلاشبہ غریب کی آہ اور ماؤں کی اجڑی گود کی آہ وبکاہ عرش ہلا دیتی ہے ۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.