یادوں کے دریچے سے
تحریر ۔ثمینہ کنول
تمہاری آنکھ سے دل تک کا سفر کرنا ہے مجھ کو
یہ کتنی خوبصورت منزلوں کا راستہ ہو گا
ہم سفر اگر ہم مزاج ہو اور اوپر سے دل چسپ تو سفر نہ صرف مزے دار ہو جاتا ہے بلکہ یاد گار بن جاتا ہے ۔ماضی کی یادوں کا دریچہ وا ہو اتو میں اس دنیا سے اُ س دنیا میں چلی گئی جہاں سے میری ازدواجی زندگی
یہ کتنی خوبصورت منزلوں کا راستہ ہو گا
ہم سفر اگر ہم مزاج ہو اور اوپر سے دل چسپ تو سفر نہ صرف مزے دار ہو جاتا ہے بلکہ یاد گار بن جاتا ہے ۔ماضی کی یادوں کا دریچہ وا ہو اتو میں اس دنیا سے اُ س دنیا میں چلی گئی جہاں سے میری ازدواجی زندگی
خوبصورت سفر شروع ہو ا۔وہ 14اگست ۔۔۔۔۔جب میری شادی ہوئی ۔11 ستمبر کو میاں جی میکے لینے آئے تو گھر کی بجائے لاہور لے گئے موسم بہت سہانا ہو رہا رہا تھا یا محسوسات کا کمال تھا دریا راوی کے کنارے ایک خوبصورت تاریخی مقام کامران کی بارہ دری واقع ہے مغلیہ بادشاہت کے بانی بابر مرزا کے بیٹے کامران مرزا نے اسے تعمیر کروایا یہ بارہ دری ایک باغ کا حصہ تھی اور راوی سے 2 میل دور تھی مگر دریا کے بہاؤ کی وجہ سے اب یہ دریا میں ایک خوبصورت جزیرے کی ماند دکھائی دیتی ہے ۔کشتی میں سوار ہو کر جب ہم بارہ دری کی جانب ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہوئے جا رہے تھے ۔ پانی پھینکتے ہوئے ایک یاد گار تصویر آج بھی مسکراتی رہتی ہے۔
بارہ دری کی خوبصورتی دیکھ کر مبہوت کیا ہونا تھا یہاں یہ عالم تھا کے نظارے ہمیں دیکھ رہے تھے اور ہم ایک دوسرے کو ،بقول ان کے
’’ تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ‘‘
اب ہمارا رخ انارکلی بازار کی جانب تھا جو میری فرمائش تھی کے اس بازار کی تعریفیں بہت سنی تھیں ڈسکہ کے چھوٹے سے بازار کی نسبت یہ بازار شیطان کی آنت کی طرح دکھائی دے رہا تھا ہم چلتے جا رہے تھے مگر بازار کا انت نظر نہیں آ رہا تھا کپڑے ،جوتے ،جیولری کتابیں ،پردے ، برتن اور بے شمار چیزوں کی دکانیں تھیں مگر میری نگاہیں کپڑے ،جوتو ں اور جیولری پہ ٹکی ہوئی تھیں ہر شے دیکھ کے میں مچل رہی تھی ایک آدھ بار تو انھو ں نے دلوا دی مگر پھر سنی ان سنی کر کے آ گے بڑ ھتے گے ۔جیولری شاپ کے شوکیس سے جھانکتا ایک خوبصورت سیٹ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا فورا فرمائش داغ دی مگر قیمت سن کے وہ پھر آ گے بڑھ گئے پھر توجناب میری ایسی تیوری چڑھی کے پو چھتے ہی رہ گئے کہ کیا ہوا چپ کیوں ہو مگر میں ایک لفظ نا بولی جب تک کے وہ مجھے ایک بک سٹال میں نہ لے گئے اب میری آنکھوں میں چمک تو واپس آ گئی مگر ڈرتے ڈرتے ایک ہی رسالہ پاکیزہ لیا پچھلے تجربے کے پیش نظر کہ جانے کیا بات ہے کچھ لے کے نہیں دے رہے ۔یہ تو بعد میں عقدہ کھلا کے سب کچھ ابا جی کے حوالے کر کے یہ خالی جیب ہوتے ھیں (جوائنٹ سسٹم میں رہنے والے شاید سمجھ سکیں ) خیر کتابیں دیکھ کر جو منہ پہ رونق آ گئی تو ہنس کے کہنے لگے واہ بھئی بڑا سستا منا لیا میں نے تو ہاہاہا ۔۔!
اب ہماری اگلی منزل باغ جناح تھی ۔دلکش پھول جہاں آنکھوں کو طراوت بخش رہے تھے وہاں دل کو بھی عجب سرور مل رہا تھا رومانوی ماحول کے زیر اثر سرتاج نے میرا اور اپنا نام بھی کسی نوکدار چیز سے ایک درخت پہ کھود دیا وہاں درختوں پہ جا بجا ناموں سے شاید متاثر ہو کے خود کو بھی کوئی ہیرو ہی سمجھ رہے تھے ۔واپسی پہ سین کچھ یوں تھا کہ میں آرام سے بیٹھی پاکیزہ پڑ ھ رہی تھی اور وہ بار بار میرا منھ دیکھتے مگر اس ڈر سے کہ کہیں میں پھر سے ناراض نہ ہو جاؤں کچھ کہہ بھی نہیں رہے تھے ۔ہاہاہاہا کچھ دن میں اتنا رعب تھا میرا ان پہ میں دل ہی دل میں مزے لے رہی تھی ۔مگر جناب سسرال پہنچتے ہی وہ درگت بنی میرے ان کی بلا اجازت بیوی کو سیر کرانے کی کہ مت پوچھیں کہ سفر ساری عمر کے لئیے یادگار ہو گیا اور وہ پھر بھی باز نہ آئے اور ایسے بے شمار سفر ہم کر چکے ۔
بارہ دری کی خوبصورتی دیکھ کر مبہوت کیا ہونا تھا یہاں یہ عالم تھا کے نظارے ہمیں دیکھ رہے تھے اور ہم ایک دوسرے کو ،بقول ان کے
’’ تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ‘‘
اب ہمارا رخ انارکلی بازار کی جانب تھا جو میری فرمائش تھی کے اس بازار کی تعریفیں بہت سنی تھیں ڈسکہ کے چھوٹے سے بازار کی نسبت یہ بازار شیطان کی آنت کی طرح دکھائی دے رہا تھا ہم چلتے جا رہے تھے مگر بازار کا انت نظر نہیں آ رہا تھا کپڑے ،جوتے ،جیولری کتابیں ،پردے ، برتن اور بے شمار چیزوں کی دکانیں تھیں مگر میری نگاہیں کپڑے ،جوتو ں اور جیولری پہ ٹکی ہوئی تھیں ہر شے دیکھ کے میں مچل رہی تھی ایک آدھ بار تو انھو ں نے دلوا دی مگر پھر سنی ان سنی کر کے آ گے بڑ ھتے گے ۔جیولری شاپ کے شوکیس سے جھانکتا ایک خوبصورت سیٹ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا فورا فرمائش داغ دی مگر قیمت سن کے وہ پھر آ گے بڑھ گئے پھر توجناب میری ایسی تیوری چڑھی کے پو چھتے ہی رہ گئے کہ کیا ہوا چپ کیوں ہو مگر میں ایک لفظ نا بولی جب تک کے وہ مجھے ایک بک سٹال میں نہ لے گئے اب میری آنکھوں میں چمک تو واپس آ گئی مگر ڈرتے ڈرتے ایک ہی رسالہ پاکیزہ لیا پچھلے تجربے کے پیش نظر کہ جانے کیا بات ہے کچھ لے کے نہیں دے رہے ۔یہ تو بعد میں عقدہ کھلا کے سب کچھ ابا جی کے حوالے کر کے یہ خالی جیب ہوتے ھیں (جوائنٹ سسٹم میں رہنے والے شاید سمجھ سکیں ) خیر کتابیں دیکھ کر جو منہ پہ رونق آ گئی تو ہنس کے کہنے لگے واہ بھئی بڑا سستا منا لیا میں نے تو ہاہاہا ۔۔!
اب ہماری اگلی منزل باغ جناح تھی ۔دلکش پھول جہاں آنکھوں کو طراوت بخش رہے تھے وہاں دل کو بھی عجب سرور مل رہا تھا رومانوی ماحول کے زیر اثر سرتاج نے میرا اور اپنا نام بھی کسی نوکدار چیز سے ایک درخت پہ کھود دیا وہاں درختوں پہ جا بجا ناموں سے شاید متاثر ہو کے خود کو بھی کوئی ہیرو ہی سمجھ رہے تھے ۔واپسی پہ سین کچھ یوں تھا کہ میں آرام سے بیٹھی پاکیزہ پڑ ھ رہی تھی اور وہ بار بار میرا منھ دیکھتے مگر اس ڈر سے کہ کہیں میں پھر سے ناراض نہ ہو جاؤں کچھ کہہ بھی نہیں رہے تھے ۔ہاہاہاہا کچھ دن میں اتنا رعب تھا میرا ان پہ میں دل ہی دل میں مزے لے رہی تھی ۔مگر جناب سسرال پہنچتے ہی وہ درگت بنی میرے ان کی بلا اجازت بیوی کو سیر کرانے کی کہ مت پوچھیں کہ سفر ساری عمر کے لئیے یادگار ہو گیا اور وہ پھر بھی باز نہ آئے اور ایسے بے شمار سفر ہم کر چکے ۔