چراغ تلے اندھیرا
خضرکلاسرا
سینٹ کمیٹی برائے کیبنٹ کے اجلاس میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کی انتظا میہ کیساتھ ملاقات معمول کی بات بن چکی ہے ۔ھر بار ہسپتال انتظامیہ انوکھی واردات پر پردہ ڈالنے کیلئے تابعداری کی چادر لیکر کمیٹی کے ارکان کو” ماموں” بناتی ہے ۔ہمار ے اس بات
کی تصدیق سینٹر کلثوم پروین نے اجلاس کے دوران ہسپتال میں جاری اقرباپروی اورلوٹ مارکی کہانیوں کے بعد اپنے ردعمل میں کہی ۔ ان کاکہناتھا کہ ہسپتال انتظامیہ کمیٹی کو "ماموں” بنارہی ہے۔سینٹر صاحبہ نے تو یہاں تک بھی اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے یہاں تک فرمایاکہ عدالت کیساتھ بھی بابو ہمارے جیسا ملتا جلتاسلوک کررہے۔ من پسندسٹاف کا ٹولہ اکٹھا کرکے ہسپتال کو ذاتی جاگیر بنایاجارہاہے ۔ادھر کمیٹی میں میرٹ کا ڈھونگ رچایاجاتاہے ۔سینٹر کامل علی آغا کا کہناتھا کہ پمز ہسپتال میں 6گروپ ایکدوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں او رعلاج معالج سے زیادہ توجہ مارا ماری پر دی جارہی ہے۔ادھر کمیٹی کے چیرمین سینٹر طلحہ محمود کا کہناتھا کہ ہسپتال کے اربوں روپے کے فنڈز کیلئے سارے طاقت لگائی جاتی ہے ۔سچی بات ہے کہ اب تو بحیثت صحافی ہم بھی اس بات کے عادی ہوگئے ہیں کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی سب چلتاہے،مخصوص گروہ ہسپتال میں اتنا طاقتور ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتاہے۔ان کا قلعہ مضبوط ہے۔اب کرپشن یوں بڑھ گئی ہے کروڑ وں کے سکینڈل کا انجام تحقیقات کے بعد اربوں روپے کی لوٹ مارپر جاپہنچتاہے ۔چراغ تلے اندھیرے جیسی صورتحال یوں چل رہی ہے کہ اسلام آبادکے دل میں واقع ہسپتال میں چوری سینہ زوری کیساتھ ہو رہی ہے ۔ اس بات کا تذکرہکوئی راقم الحروف نہیں کررہاہے بلکہ کمیٹی کے اجلاس میں موجود پمز کے بچوں کے ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹرراجہ امجد نے شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پمز ہسپتال کے جاوید اکرم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر الطاف کی موجودگی میں باآواز بلندکمیٹی کے چیرمین سینٹر طلحہ محمودکی اجازت کیساتھ یوں کیاہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں لیورٹرانسپلانٹ یونٹ میں 48 کروڑ روپے کی کرپشن کے علاوہ اس بات کا ذکر کیاکہ 18کروڑ روپے ٹائلوں پر خرچ کئے گئے ہیں ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں لیورٹرانسپلانٹ یونٹ میں جون 2011 ء میں قائم کیاگیاتھا ،جس میں پہلی سرجری 2012ء میں ہوئی تھی لیکن سہولتوں میں کمی کیوجہ سے پہلی بار آپریٹ ہونیوالا ہی مریض مرگیاتھا۔یوں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں قائم کردہ لیورٹرانسپلاٹ یونٹ بند ہوگیاتھا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے یونٹ کے قیام میں اس طرح دلچسپی نہیں لی تھی جتنی کہ اس پراجیکٹ کیلئے ضروری تھی ،یوں سب نے مال پر ہاتھ صاف کیے۔سینئرڈاکٹروں کا کہناہے کہ لیورٹرانسپلاٹ یونٹ کیلئے تجربہ کار ڈاکٹروں اور دیگر سٹاف کا چناؤ میرٹ پر نہیں کیاگیاتھا ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سنیئر ڈاکٹر راجہ امجد نے اس بات کا انکشاف بھی کیاکہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں چھاتی کے کنیسر کے پراجیکٹ کو بھی مافیا کی طرف سے معاف نہیں کیاگیاہے ۔لوٹ مار کرنیوالوں یہاں بھی واردات ڈالی ہے مطلب خواتین کی ہیلتھ کیلئے بنائے گئے اہم منصوبہ کیلئے ابھی عمارت ہی نہیں بنی تھی کہ آلات کی پہلے خرید کرلی گئی اور پھر ظلم یوں کیاہے کہ مشینری کو ایسی جگہ رکھا گیاجوکہ اس کیلئے موزوں نہیں تھا۔ادھر کرپشن میں ملوث افراد موج میلہ کررہے ہیں جبکہ چھاتی کے کنیسر میں مبتلا خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوگیاہے۔
سینٹ کمیٹی کو اس بات سے بھی آگاہ کیاگیاکہ شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں تقریبا 55 لاکھ روپے کیساتھ لیورٹرانسپلانٹ ہورہاہے لیکن ان اخراجات کو پورا کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جوکہ سرکاری ہسپتال ہے اور عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے چلتاہے ۔اس میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود لیور ٹرانسپلانٹ کی سہولت عام شہریوں کو نہیں مل سکی ہے۔ادھر کمیٹی ارکان کے سامنے اس بات کا انکشاف بھی کیاگیاکہ ڈاکٹر عائشہ جوکہ ریڈلوجسٹ ہیں ،ان کو دیگر کافی سارے شعبوں میں موزوں تربیت نہ ہونے کے باوجود انچارج بنایاہواہے۔ڈاکٹر عائشہ کی طرف سے کونسی سائنس استعمال کی گئی ہے، اس کا انکشاف نہیں کیاگیا لیکن اتنا ضرورتھا کہ ان کو ہسپتال کے معاملات میں زیادہ اخیتارات کے سوال پر ڈاکٹر جاوید اکرم کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا۔کمیٹی چیرمین سینٹر طلحہ محمود نے پمز ہسپتال کے بجٹ کے بارے میں پوچھا تو تھوڑی دیر خاموشی رہی ،پھر ایکدوسرے کے چہروں کی طرف دیکھنے کے بعد ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایاکہ ہسپتال کا کل بجٹ تین ارب چوراسی کروڑ روپے ہے لیکن ان کی اس بات کی نفی وزرات کیڈ کی ایک آفیسر نے یوں کہ پمز ہسپتال کا کل بجٹ چارارب روپے ہے ،اور شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے نو کروڑ روپے کی گرانٹ مل رہی ہے جبکہ یونیورسٹی کو جواپنی آمدنی ہورہی ہے ،وہ علیحدہ ہے ۔ اس کے باجود یونیورسٹی کیساتھ واردات یہ ہورہی ہے کہ بمطابق ڈاکٹر امجد شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونیورسٹی کا ابھی تک رجسٹرار،کنڑولر اور دیگر عملہ کی تعنیاتی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔کمیٹی کے اجلاس میں ایک اور ڈاکٹر اعجاز صاحب نے میرٹ کی بالادستی کیلئے کمیٹی کے چیرمین سے اجازت طلب کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ کو ان کے متعلقہ شعبہ میں آگاہی نہ ہونے کے باوجود انچارج بنایاگیاہے جبکہ وہ 10سال سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور انتظامیہ ان کو نظرانداز کررہی ہے۔لیگی حکومت جوکہ صحت کے شعبہ کو آسمان کی بلندیوں پر پہچانے کی دعویدار ہے لیکن پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کرپشن اسکینڈلز کی بھرمار کے بعد تویوں لگتاہے کہ چراغ تلے اندھیرے کی صورتھال چل رہی ہے۔
سینٹ کمیٹی کو اس بات سے بھی آگاہ کیاگیاکہ شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں تقریبا 55 لاکھ روپے کیساتھ لیورٹرانسپلانٹ ہورہاہے لیکن ان اخراجات کو پورا کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جوکہ سرکاری ہسپتال ہے اور عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے چلتاہے ۔اس میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود لیور ٹرانسپلانٹ کی سہولت عام شہریوں کو نہیں مل سکی ہے۔ادھر کمیٹی ارکان کے سامنے اس بات کا انکشاف بھی کیاگیاکہ ڈاکٹر عائشہ جوکہ ریڈلوجسٹ ہیں ،ان کو دیگر کافی سارے شعبوں میں موزوں تربیت نہ ہونے کے باوجود انچارج بنایاہواہے۔ڈاکٹر عائشہ کی طرف سے کونسی سائنس استعمال کی گئی ہے، اس کا انکشاف نہیں کیاگیا لیکن اتنا ضرورتھا کہ ان کو ہسپتال کے معاملات میں زیادہ اخیتارات کے سوال پر ڈاکٹر جاوید اکرم کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا۔کمیٹی چیرمین سینٹر طلحہ محمود نے پمز ہسپتال کے بجٹ کے بارے میں پوچھا تو تھوڑی دیر خاموشی رہی ،پھر ایکدوسرے کے چہروں کی طرف دیکھنے کے بعد ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایاکہ ہسپتال کا کل بجٹ تین ارب چوراسی کروڑ روپے ہے لیکن ان کی اس بات کی نفی وزرات کیڈ کی ایک آفیسر نے یوں کہ پمز ہسپتال کا کل بجٹ چارارب روپے ہے ،اور شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے نو کروڑ روپے کی گرانٹ مل رہی ہے جبکہ یونیورسٹی کو جواپنی آمدنی ہورہی ہے ،وہ علیحدہ ہے ۔ اس کے باجود یونیورسٹی کیساتھ واردات یہ ہورہی ہے کہ بمطابق ڈاکٹر امجد شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونیورسٹی کا ابھی تک رجسٹرار،کنڑولر اور دیگر عملہ کی تعنیاتی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔کمیٹی کے اجلاس میں ایک اور ڈاکٹر اعجاز صاحب نے میرٹ کی بالادستی کیلئے کمیٹی کے چیرمین سے اجازت طلب کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ کو ان کے متعلقہ شعبہ میں آگاہی نہ ہونے کے باوجود انچارج بنایاگیاہے جبکہ وہ 10سال سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور انتظامیہ ان کو نظرانداز کررہی ہے۔لیگی حکومت جوکہ صحت کے شعبہ کو آسمان کی بلندیوں پر پہچانے کی دعویدار ہے لیکن پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کرپشن اسکینڈلز کی بھرمار کے بعد تویوں لگتاہے کہ چراغ تلے اندھیرے کی صورتھال چل رہی ہے۔