• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

صحافی کے قتل کو 9 سال گزر گئے، پولیس اب تک لاعلم

webmaster by webmaster
نومبر 22, 2016
in کالم
0
صحافی کے قتل کو 9 سال گزر گئے، پولیس اب تک لاعلم

صحافی کے قتل کو 9 سال گزر گئے، پولیس اب تک لاعلم

ppf-logo-with-slogan-90پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر میر پور خاص کے لیے اردو روزنامہ جنگ کے رپورٹر اور بیورو چیف زبیر احمد مجاہد کے قتل کو نو سال گزر چکے ہیں اور پولیس کی جانب سے ان کا مقدمہ اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ درحقیقت، میں معاملہ آج بھی کرائم برانچ حیدرآباد میں پھنسا ہوا ہے۔

زبیر مجاہد کے خاندان نے کئی دروازے کھٹکھٹائے اور انصاف طلب کیا لیکن یہ سب بے سود و بے کار گیا۔ زبیر مجاہد کی بیوہ رشیدہ زبیرنے جنوری 2008ء میں اس وقت کے گورنر سندھ؛ جون 2008ء میں وزیر اعلیٰ سندھ؛ عدالت عظمیٰ پاکستان کے چیف جسٹس اور سابق وزیر داخلہ سندھ کو کئی خط (بذریعہ ڈاک) بھیجے جن میں انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن کسی کا کوئی جواب نہیں ملا۔

تقریباً 30 سالوں سے صحافت سے وابستہ زبیر مجاہدکو ممکنہ طور پر جبری مشقت اور نجی عقوبت خانوں جیسے مسائل پر اپنی رپورٹنگ اور خبروں کی وجہ سے 23 نومبر 2007ء کو قتل کیا گیا تھا، جو مقامی جاگیردار پولیس کی پشت پناہی سے چلاتے تھے۔ میر پور خاص میں اسٹیشن ہاؤس آفسر، اسسٹینٹ سپرنٹینڈنٹ پولیس اور ان کے ڈرائیور کی جانب سے نور محمد اور ننگر کیریو پر نامی دو بھائیوں پر تشدد کے حوالے سے 6 جون 2007ء کوجنگ میں چھپنے والی خبر کے ردعمل میں ان کو موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔

مقتول صحافی کے بیٹے سلمان مجاہد کے مطابق ان کے والد کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عبد اللہ شیخ کی جانب سے موت کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ زبیر مجاہد کو گرفتار بھی کیا تھا، انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور مجاہد کے دوستوں کو بھی دھمکایا۔

زبیر مجاہد نے اپنی اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ اگر ان کے ساتھ یا اہل خانہ میں سے کسی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا تو مقدمہ ڈی پی او کے خلاف درج کروایا جائے۔

اپنے ہفتہ وار کالم "جرم و سزا” میں زبیر مجاہد با اثر جاگیرداروں کی ناانصافی کے واقعات اور پولیس کے مظالم پر روشنی ڈالتے تھے۔ اپنے اہل خانہ سمیت اغوا کیے گئے جبری مزدور منو بھیل کے مشہور کیس کی رپورٹنگ کرنے پر اسٹیشن ہاؤس افسر درجے کے چار پولیس اہلکار گرفتار ہوئے تھے۔

زبیر مجاہد کے قتل کے بعد اردو روزنامہ جسارت میں ظہیر احمد کے شائع ہونے والے کالم کے مطابق "منو بھیل جیسے معاملات کی خبروں کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کی گرفتاری کی خبریں موضوع بن گئی تھیں اور زبیر مجاہد ان خبروں کی وجہ سے مقبول ہوگئے تھے۔ مجاہد نے اپنی خبروں میں پولیس نظام کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا۔ اپنے قتل سے سات دن قبل 14 نومبر 2007ء کو جنگ میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں میرپور خاص میں نئے ڈی آئی جی کی تقرری پر بات کی اور بتایا کہ اس سال سات ڈی آئی جیز کی تقرری اور تبادلے ہو چکے ہیں۔

مقدمہ مقتول صحافی کے بھائی چودھری افتخار آرائیں کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔ مقتول صحافی کی جانب سے حکومت کو لکھے گئے خطوط کے مطابق سب ڈویژنل پولیس افسر (ایس پی او) عطا محمد نظامانی کی قیادت میں ایک چھ رکنی ٹیم قتل کی تحقیقات کر رہی تھی لیکن کوئی سیر حاصل نتائج نظر نہیں آئے۔

اس معاملے کی پیروی کرنے والے مجاہد کے قریبی عزیز خالد پرویز کے مطابق مجاہد کو بہت قریب سے ہدف بنایا گیا۔ ان کی شرٹ میں گولی کا سوراخ نہیں لیکن ان کے بنیان میں موجود تھے؛ جس سے لگتا ہے کہ پستول ان کے پیٹ پر رکھ کر گولی چلائی گئی تھی۔

مجاہد اپنے صحافی دوست واحد پہلوانی کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھر جا رہے تھے، جنہوں نے گولی لگتے وقت مجاہد کے ساتھ اپنی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ پہلوانی کا کہنا تھا کہ "میں گھر جاتے ہوئے مجاہد کے ساتھ تھا جب غلط سمت سے آنے والی ایک موٹر سائيکل ہمارے پاس سے گزری، اسی دوران دھماکے کی ایک آواز سنائی دی لیکن میں سمجھا کہ ہماری موٹر سائیکل کا ٹائر پھٹ گیا ہے۔ لیکن اسی وقت مجاہد اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے کیونکہ خون نہیں نکل رہا تھا اس لیے میں سمجھا کہ مجاہد کو دل کا دورہ پڑا ہے، میں انہیں جاوید آرائیں کی گاڑی میں سول ہسپتال میر پور خاص لے گیا، جہاں مجھے پتہ چلا کہ مجاہد کو گولی ماری گئی تھی اور وہاں ان کا انتقال ہوگیا۔

Tags: column Press Release
Previous Post

Nawaz Sharif becomes first premier to appoint fifth military chief

Next Post

فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشن انسٹیٹیوشنز کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات

Next Post

فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشن انسٹیٹیوشنز کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

صحافی کے قتل کو 9 سال گزر گئے، پولیس اب تک لاعلم

ppf-logo-with-slogan-90پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر میر پور خاص کے لیے اردو روزنامہ جنگ کے رپورٹر اور بیورو چیف زبیر احمد مجاہد کے قتل کو نو سال گزر چکے ہیں اور پولیس کی جانب سے ان کا مقدمہ اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ درحقیقت، میں معاملہ آج بھی کرائم برانچ حیدرآباد میں پھنسا ہوا ہے۔

زبیر مجاہد کے خاندان نے کئی دروازے کھٹکھٹائے اور انصاف طلب کیا لیکن یہ سب بے سود و بے کار گیا۔ زبیر مجاہد کی بیوہ رشیدہ زبیرنے جنوری 2008ء میں اس وقت کے گورنر سندھ؛ جون 2008ء میں وزیر اعلیٰ سندھ؛ عدالت عظمیٰ پاکستان کے چیف جسٹس اور سابق وزیر داخلہ سندھ کو کئی خط (بذریعہ ڈاک) بھیجے جن میں انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن کسی کا کوئی جواب نہیں ملا۔

تقریباً 30 سالوں سے صحافت سے وابستہ زبیر مجاہدکو ممکنہ طور پر جبری مشقت اور نجی عقوبت خانوں جیسے مسائل پر اپنی رپورٹنگ اور خبروں کی وجہ سے 23 نومبر 2007ء کو قتل کیا گیا تھا، جو مقامی جاگیردار پولیس کی پشت پناہی سے چلاتے تھے۔ میر پور خاص میں اسٹیشن ہاؤس آفسر، اسسٹینٹ سپرنٹینڈنٹ پولیس اور ان کے ڈرائیور کی جانب سے نور محمد اور ننگر کیریو پر نامی دو بھائیوں پر تشدد کے حوالے سے 6 جون 2007ء کوجنگ میں چھپنے والی خبر کے ردعمل میں ان کو موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔

مقتول صحافی کے بیٹے سلمان مجاہد کے مطابق ان کے والد کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عبد اللہ شیخ کی جانب سے موت کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ زبیر مجاہد کو گرفتار بھی کیا تھا، انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور مجاہد کے دوستوں کو بھی دھمکایا۔

زبیر مجاہد نے اپنی اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ اگر ان کے ساتھ یا اہل خانہ میں سے کسی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا تو مقدمہ ڈی پی او کے خلاف درج کروایا جائے۔

اپنے ہفتہ وار کالم "جرم و سزا" میں زبیر مجاہد با اثر جاگیرداروں کی ناانصافی کے واقعات اور پولیس کے مظالم پر روشنی ڈالتے تھے۔ اپنے اہل خانہ سمیت اغوا کیے گئے جبری مزدور منو بھیل کے مشہور کیس کی رپورٹنگ کرنے پر اسٹیشن ہاؤس افسر درجے کے چار پولیس اہلکار گرفتار ہوئے تھے۔

زبیر مجاہد کے قتل کے بعد اردو روزنامہ جسارت میں ظہیر احمد کے شائع ہونے والے کالم کے مطابق "منو بھیل جیسے معاملات کی خبروں کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کی گرفتاری کی خبریں موضوع بن گئی تھیں اور زبیر مجاہد ان خبروں کی وجہ سے مقبول ہوگئے تھے۔ مجاہد نے اپنی خبروں میں پولیس نظام کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا۔ اپنے قتل سے سات دن قبل 14 نومبر 2007ء کو جنگ میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں میرپور خاص میں نئے ڈی آئی جی کی تقرری پر بات کی اور بتایا کہ اس سال سات ڈی آئی جیز کی تقرری اور تبادلے ہو چکے ہیں۔

مقدمہ مقتول صحافی کے بھائی چودھری افتخار آرائیں کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔ مقتول صحافی کی جانب سے حکومت کو لکھے گئے خطوط کے مطابق سب ڈویژنل پولیس افسر (ایس پی او) عطا محمد نظامانی کی قیادت میں ایک چھ رکنی ٹیم قتل کی تحقیقات کر رہی تھی لیکن کوئی سیر حاصل نتائج نظر نہیں آئے۔

اس معاملے کی پیروی کرنے والے مجاہد کے قریبی عزیز خالد پرویز کے مطابق مجاہد کو بہت قریب سے ہدف بنایا گیا۔ ان کی شرٹ میں گولی کا سوراخ نہیں لیکن ان کے بنیان میں موجود تھے؛ جس سے لگتا ہے کہ پستول ان کے پیٹ پر رکھ کر گولی چلائی گئی تھی۔

مجاہد اپنے صحافی دوست واحد پہلوانی کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھر جا رہے تھے، جنہوں نے گولی لگتے وقت مجاہد کے ساتھ اپنی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ پہلوانی کا کہنا تھا کہ "میں گھر جاتے ہوئے مجاہد کے ساتھ تھا جب غلط سمت سے آنے والی ایک موٹر سائيکل ہمارے پاس سے گزری، اسی دوران دھماکے کی ایک آواز سنائی دی لیکن میں سمجھا کہ ہماری موٹر سائیکل کا ٹائر پھٹ گیا ہے۔ لیکن اسی وقت مجاہد اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے کیونکہ خون نہیں نکل رہا تھا اس لیے میں سمجھا کہ مجاہد کو دل کا دورہ پڑا ہے، میں انہیں جاوید آرائیں کی گاڑی میں سول ہسپتال میر پور خاص لے گیا، جہاں مجھے پتہ چلا کہ مجاہد کو گولی ماری گئی تھی اور وہاں ان کا انتقال ہوگیا۔

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.