اصول و اسلوبِ زندگی
جو ڑی تین بھائیوں کی اور یادیں ساری عمر کی
محمد جواد خان
(J.D)
aoaezindgi@gmail.com
ہم یاد کرتے رہے وہ یاد آتے رہے اس کشمکش میں دن رات گزرتے رہے
نہیں آیا کوئی لوٹ کر وہاں سےJ.D برسوں ہم جہاں اپنوں کو چھوڑ کر آتے رہے
زندگی تو ہر کوئی گزار ہی رہا ہے فرق صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ کسی کی زندگی آنے والی نسلوں کے لیے چشم وچراغ ہوتی ہے اور کچھ لوگ کے لیے راہِ ہدایت۔۔۔ کچھ لوگوں کی زندگی پر زندگی ناز کرتی ہے اور ان کو اپنے اواراق کے اندر ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے صدیوں اس انتظار میں رہتی ہے کہ کوئی آئے اور زندگی کو زندگی کی طرح زندگی میں سنوارکر چلا جائے۔۔۔
ایسی ہی زندگی گزارنے والے میرے دادا جان (مرحوم دادن خان جدون)اور ان کے بھائی(مرحوم عبدالطیف خان جدون اور مرحوم علی اصغر خان جدون) تھے، جن کی زندگیوں پر آج بھی زمانے کو ناز ہے، اور صدیوں ناز رہے گا۔۔۔ تینوں بھائیوں کا آپس میں بھائی چارے اور پیار محبت کا ایسا رشتہ تھا کہ کوئی بھی ان کے درمیان آنے کی کوشش تک نہ کر پاتا، غریب و مساکین ہمیشہ ان کے ہجروں میں ڈھیرے ڈالے رکھتے تھے، لوگوں کی عزتوں کے محافظ ایسے بن جاتے کہ اپنی جان کو ہتھیلی پر بھی رکھنا پڑ جاتا تو دریغ نہ کرتے ہمیشہ سینہ تھان کر سیسہ پلائی کی دیوار بن کر میدان میں اُتر کھڑ ے ہو جاتے، جسامت ، رعب اور دہشت اس قدر تھی کہ جہاں لوگوں کا سکہ چلا کرتاوہاں ان کا حکم ۔۔۔!!!، سادگی کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ خود فقرا کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں اپنے آپ کے لیے شان سمجھا کرتے تھے، محافل کی شان اِن کے آجانے سے بنا کرتی تھی، پٹھانوں کی شان یہ بھائی اور ان کی لکھی گئی تاریخ اور ان کے حالات واقعاتِ زندگی پر کتاب لکھی جائے تو شاید وہ بھی کم پڑجائے کیونکہ ان کی شان کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ راستے میں چلتے چلتے لوگوں کے مسائل حل کر دیا کرتے تھے ، اپنی زندگی میں مصیبتیں پیدا ہو جاتیں تھیں مگر دوسروں کی زندگیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی سہی کیا کرتے تھے۔ ہمارے پڑ دادا ابو (مرحوم عطائی خان جدون) کے پاس لو گ جب اپنے مسائل لے کر آتے تھے تو وہ اپنے بیٹوں کو صرف اتنا کہتے تھے کہ جاؤ اسکا یہ مسئلہ حل کر آؤ اور وہ پل بھر میں اس متاثر شخص یاخاندان کو مناسب طریقہ کار سے انصاف دلواکر ہی بیٹھتے تھے۔اپنے منہ سے اپنے اسلاف کی ایسی تعریف کرنا تو اپنے منہ میاں مٹھو والی بات ہی بنتی ہے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اب ہماری صفوں میں انتشار کی فضاء کچھ مفاد پرستوں کے ہاتھوں پیدا ہو چکی ہے، اور یہ ہی مفاد پرست لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو نصیتیں کرتے ہیں کہ ان کا آپ میں کبھی بھی اتفاق نہ ہونے دینا اور ساتھ میں یہ دعا کرتے رہنے کہ ان کو یہ نہ معلوم چلے کہ ان کے آباؤ اجداد کس شان و شوکت کے مالک تھے۔ کیسی عالیشان مگر عاجزانہ شان کے حامل افرا د تھے ۔ آج ہماری صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے خاندان کے اندر بکھرے انتشاری فتنے و فسادات کو فراموش کر کے نیک نیتی کے ساتھ بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ انتشار و فسادات پھیلانے والے غیر متعلقہ اشخاص کو اپنی صفوں سے نکال باہر پاک کرنے کی۔۔۔ اسباب کی کمی ناکامیوں کا سبب نہیں ہوتا بلکہ اتفاق کی کمی ہی سب ناکامیوں کی بنیاد ہوتی ہے۔۔۔ ہمارے مرحوم دادا ابو کے بھائی کی وفات (جو ہمارے درمیان آخری خاندانی بزرگ تھے)نے ہم سب کواس وقت جھنجھوڑاجب کچھ لوگوں نے یہ الفاظ دہرائے کہ آج جا کر تین بھائیوں کی جوڑی اختتام پذیر ہوئی ۔۔۔ آج وہ کتاب ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی جو کسی دور میں لو گ اپنے حقوق اور انصاف کے لیے پڑھا کرتے تھے، اور آنے والے وقتوں میں اب یہ کتاب ایک قصہ بن کر رہ جائے گی۔۔۔ اور افسوس اس با ت کا کرتے رہے کہ کاش تم سب میں سے کوئی ایک بھی ان تین بھائیوں کے نقش قدم پر چل جاتا تو زندگی کے مدراج آ ج بھی تمہاری گرفت میں ہوتے ، آج تم لو گ صرف اپنے تن و من کا سوچتے ہو اور تمہارے اسلاف وہ ہوا کرتے تھے جو غیروں کی فکر میں رہتے تھے اور غرباء ، مساکین ، مظلوم ہمیشہ ان کے اردگرد اکھٹے رہا کرتے تھے۔۔۔ آج کے اس دور میں یہ ہی حالات ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی رواں دواں ہیں کیونکہ ہم نے اپنی صفوں کے اندر غیروں کے انتشار کو جمع کر کے درگزر کی فضا ء کو منہدم کر رکھا ہے جس سے فضاء میں افسردگی کے ساتھ مایوسی کے گہرے بادل بھی چھا چکے ہیں، ہر طرف افسردگی کا عالم اور غم و الم کی فضا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیکہ ہم نے اپنے اسلاف کے طریقہ کار کو چھوڑ کر اپنی من مانیوں میں مگن ہو چکے ہیں، صرف میں میں اور میں کی رٹ لگا کر سارے ماحول کو بگاڑ کر پھر ماحول کے سدھار کی دعائیں مانگتے پھرتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ کوئی افلاقی مخلوق ہماری مدد کے لیے زمین پر اترنے والی ہے ۔۔۔ مگر یہ سب قیاس آرائیاں ہی ہیں کیونکہ ایسا اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہم اپنے دلوں کو صاف کر کے اپنے بھائی کے لیے محبت و ایثا ر کا جذبہ نہی رکھیں گئے۔۔۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلا قدم ہمیں خود اُٹھانا ہو گا۔۔۔ اپنے آپ کو پیش کرنا ہو گا تاکہ ہماری دیکھا دیکھی دوسرا ہمارے قدم پر قدم رکھ کر آگے چلتا آئے ۔۔۔ یہ ہی حل ہے کامیابی کے گمشدہ خزینوں کا ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں۔۔۔
ناداں تھے ہم جو کھو دیا سب کچھ ہم نے وہ دشت، وہ درد و ہ سنگم بھری محفلیں
چھوڑے جو قانون و اصول و ضوابط ہم نے سبھی آئے ناداں سمجھ کر پڑھانے ہمیں
سیکھ لیا ہے ہنر پلٹنے و چپٹنے کا اب ہم نے اب جو پلٹیں گئے تو زمانے دیکھیں گئے ہمیں
گرے آشیانوں کے تنکوں کو اکٹھا کر لیا ہم نے جی ڈی اب ہواؤں سے کہنا سنبھل جا، نہ چھیڑنا ہمیں