نعرہ احتساب
ڈاکٹر عفت بھٹی
ہم ان تمام احباب کے ساتھ ہیں جو نعرہ احتساب لگاتے ہیں ۔مگر اس سے قبل خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی فرض سمجھتے۔۔ہر انسان کے اندر ایک ضمیر نام کا شخص رہتا جو کبھی سوتا تو کبھی جاگتا ۔حد درجہ بے حسی اسے بیمار کر دیتی اور لمبی بیماری اسے مار دیتی۔بسا اوقات مرتے مرتے سچائی اور حقیقت آشنائی اس کے منھ میں آب حیات کے قطرے ڈال دیتی اور وہ موت کے منھ سے لوٹ آتا۔اس ضمیر کی زندگی اس کی حیات کا حصہ بن کر خیر و بھلائی کا۔باعث بنتی۔بات ہو رہی تھی احتساب کی تو قارئین احتساب ہونا چاہیے اور اس کی شروعات اپنی ذات سے۔سیاسی احتساب کے نعرے بام عروج پہ ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن بساط بچھائے بیٹھے ہیں حالات ہیں کہ پل پل پلٹا کھا رہے۔کبھی ایک چال چلی جاتی ہے اور چیک دی کنگ کی آواز مد مقابل کو الرٹ کرتی اور کنگ نئی چال پہ پہ مات اور شہہ مات پہ سوچنے لگتا ہے ۔اب کب چک دی کنگ کی صدا آتی ہم بھی منتظر ہیں۔ اب بات کرتے احتساب کی ۔پاکستان کو بنے لگ بھگ 69 سال ہوگئے کتنے حکمران آئے کتنے گئے۔رفتار ترقی کیا رہی؟۔سچ پوچھیں تو معمولی۔عوام کا معیار زندگی کتنا بلند ہوا؟ جواب معمولی ۔کیا سڑکوں پہ رہنے والے گھر نما سائبان تلے آگئے۔کیا گلی کوچوں میں پھرنے والے ننگ دھڑنگ بچے ہاتھ میں قلم کتاب تھامے علم حاصل کرنے لگے؟کیا سب کے لیے تعلیمی معیار ایک جیسا ہوگیا۔؟کیا بابا کرمو کی بیٹیوں کی شادی بغیر جہیزسر میں چاندی کے تار اترے بغیر ہو گئی؟تقسیم زر میں توازن آگیا۔؟انصاف ۔اور قانون کا بول بالا ہوگیا ۔ہر کام قانون کے دائرے میں ہونے لگا۔امراء نے ٹیکسس بخوشی ورضا پے کردیے۔۔اقربا پروری ختم ہو گئی۔عوام کے نمائندے حلف اٹھانے کے بعد پابندی حلف کے پاسدار ہوئے۔ ملکی خزانہ پروٹوکولز اور غیر دوروں پہ بے دریغ پیسہ لٹانے کے بجائے عوامی خدمات میں استعمال ہونے لگا۔ہم نے اپنے زرائع کے زریعے اپنے ملک کو خوراک سمیت اور دیگر اخراجات میں خود کفیل ہو گئے۔چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوگیا ۔دہشت گردی ۔انتہا پسندی فرقہ واریت کے جراثیم مر گئے۔کیا یہ سب ہوگیا اگر ہوگیا تو ہم کامیاب ورنہ پہلے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کے اپنا اپنا کڑا احتساب کریں تب ہی ہم دوسروں سے توقع احتساب رکھ سکتے ورنہ تو حمام میں سب ننگے ہیں.محض نعرہ احتساب اور سڑکوں پہ آگ و خوں کی ہولی کیا دے گی سوائے جانی ومالی نقصان کے ۔یہ بات ہی اب سمجھ سے باہر ہے۔ کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ۔ایک طرف حکومت اور دوسری طرف مختلف جماعتوں کا اتحاد صف آرا ہے ۔جانے کیوں مجھے یہ جنگ حقوق و انصاف سے ذیادہ کرسی کی جنگ دکھائی دیتی ہے عوام کی بھلائی تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔کیونکہ تمام جماعتوں نے صاحب اختیار ہوتے ہوئے بھی اپنے اختیارات کو عوام کی بھلائی کے بجائے ذاتی مفادات میں صرف کیا۔ پشاور میں کیا تبدیلی آئی کچھ بھی نہیں ۔میں حکومت کی حمایت نہیں کر رہی میں تو اپنی عوام کی ہمدرد ہوں جو ان طاقتوں کے پاٹوں کے درمیاں پس رہی ہر قربانی کے لیے اس کی گردن پتلی نظر آتی۔آخر ان کی قسمت میں یہ سب تحریر کیوں کر دیا گیا ہے۔مجھے اپنے ایک صاحب قلم کی تحریر یاد آئی کہ ہم ایک ریوڑ ہیں بات بھی درست ہے کی ہمیں خوش نما خوابوں کی لاٹھی سے ہانک دیا جاتا اور ہم اس کے پیچھے چل پڑتے۔ آنکھیں اور کان بند کیے۔ہماری اپنی سوچ مفلوج ہو چکی ہے۔جانے ایسا کیوں ہے ۔کہیں ہم بھی صمن بکمن تو نہیں ہو رہے۔پرویز رشید کو ہٹا دیا گیا تو کیا ہو گا پھر کوئی بھائی بند آجائیگا یہ تو عوام کی توجہ ہٹانے کے ٹرائل ہیں گو سیاست سے سیاست ہو رہی۔اب دوسری طرف سے کیا قلا بازی لگتی منتظر ہیں۔کچھ اندرون تجربہ کاروں کا کہنا کہ اڑتالیس گھنٹے اہم ہیں ۔وزیر اعظم استعفی دے دیں گے مگر بات تو یہ کہ شاہ جائے تو شاہ کا وفادار آئے بات تو وہی ہے پھر احتساب کا بسترا تو گول ہو گیا ناں ۔سب اپنا اپنا احتساب خود کریں تو بہتر ہے ورنہ لاٹھی خدا بے آواز سہی مگر قیامت کا اثر رکھتی ہے۔