• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

نعرہ احتساب ….. ڈاکٹر عفت بھٹی

webmaster by webmaster
اکتوبر 31, 2016
in کالم
0
نعرہ احتساب ….. ڈاکٹر عفت بھٹی

نعرہ احتساب

images-2
ڈاکٹر عفت بھٹی

ehtesab imageہم ان تمام احباب کے ساتھ ہیں جو نعرہ احتساب لگاتے ہیں ۔مگر اس سے قبل خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی فرض سمجھتے۔۔ہر انسان کے اندر ایک ضمیر نام کا شخص رہتا جو کبھی سوتا تو کبھی جاگتا ۔حد درجہ بے حسی اسے بیمار کر دیتی اور لمبی بیماری اسے مار دیتی۔بسا اوقات مرتے مرتے سچائی اور حقیقت آشنائی اس کے منھ میں آب حیات کے قطرے ڈال دیتی اور وہ موت کے منھ سے لوٹ آتا۔اس ضمیر کی زندگی اس کی حیات کا حصہ بن کر خیر و بھلائی کا۔باعث بنتی۔بات ہو رہی تھی احتساب کی تو قارئین احتساب ہونا چاہیے اور اس کی شروعات اپنی ذات سے۔سیاسی احتساب کے نعرے بام عروج پہ ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن بساط بچھائے بیٹھے ہیں حالات ہیں کہ پل پل پلٹا کھا رہے۔کبھی ایک چال چلی جاتی ہے اور چیک دی کنگ کی آواز مد مقابل کو الرٹ کرتی اور کنگ نئی چال پہ پہ مات اور شہہ مات پہ سوچنے لگتا ہے ۔اب کب چک دی کنگ کی صدا آتی ہم بھی منتظر ہیں۔ اب بات کرتے احتساب کی ۔پاکستان کو بنے لگ بھگ 69 سال ہوگئے کتنے حکمران آئے کتنے گئے۔رفتار ترقی کیا رہی؟۔سچ پوچھیں تو معمولی۔عوام کا معیار زندگی کتنا بلند ہوا؟ جواب معمولی ۔کیا سڑکوں پہ رہنے والے گھر نما سائبان تلے آگئے۔کیا گلی کوچوں میں پھرنے والے ننگ دھڑنگ بچے ہاتھ میں قلم کتاب تھامے علم حاصل کرنے لگے؟کیا سب کے لیے تعلیمی معیار ایک جیسا ہوگیا۔؟کیا بابا کرمو کی بیٹیوں کی شادی بغیر جہیزسر میں چاندی کے تار اترے بغیر ہو گئی؟تقسیم زر میں توازن آگیا۔؟انصاف ۔اور قانون کا بول بالا ہوگیا ۔ہر کام قانون کے دائرے میں ہونے لگا۔امراء نے ٹیکسس بخوشی ورضا پے کردیے۔۔اقربا پروری ختم ہو گئی۔عوام کے نمائندے حلف اٹھانے کے بعد پابندی حلف کے پاسدار ہوئے۔ ملکی خزانہ پروٹوکولز اور غیر دوروں پہ بے دریغ پیسہ لٹانے کے بجائے عوامی خدمات میں استعمال ہونے لگا۔ہم نے اپنے زرائع کے زریعے اپنے ملک کو خوراک سمیت اور دیگر اخراجات میں خود کفیل ہو گئے۔چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوگیا ۔دہشت گردی ۔انتہا پسندی فرقہ واریت کے جراثیم مر گئے۔کیا یہ سب ہوگیا اگر ہوگیا تو ہم کامیاب ورنہ پہلے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کے اپنا اپنا کڑا احتساب کریں تب ہی ہم دوسروں سے توقع احتساب رکھ سکتے ورنہ تو حمام میں سب ننگے ہیں.محض نعرہ احتساب اور سڑکوں پہ آگ و خوں کی ہولی کیا دے گی سوائے جانی ومالی نقصان کے ۔یہ بات ہی اب سمجھ سے باہر ہے۔ کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ۔ایک طرف حکومت اور دوسری طرف مختلف جماعتوں کا اتحاد صف آرا ہے ۔جانے کیوں مجھے یہ جنگ حقوق و انصاف سے ذیادہ کرسی کی جنگ دکھائی دیتی ہے عوام کی بھلائی تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔کیونکہ تمام جماعتوں نے صاحب اختیار ہوتے ہوئے بھی اپنے اختیارات کو عوام کی بھلائی کے بجائے ذاتی مفادات میں صرف کیا۔ پشاور میں کیا تبدیلی آئی کچھ بھی نہیں ۔میں حکومت کی حمایت نہیں کر رہی میں تو اپنی عوام کی ہمدرد ہوں جو ان طاقتوں کے پاٹوں کے درمیاں پس رہی ہر قربانی کے لیے اس کی گردن پتلی نظر آتی۔آخر ان کی قسمت میں یہ سب تحریر کیوں کر دیا گیا ہے۔مجھے اپنے ایک صاحب قلم کی تحریر یاد آئی کہ ہم ایک ریوڑ ہیں بات بھی درست ہے کی ہمیں خوش نما خوابوں کی لاٹھی سے ہانک دیا جاتا اور ہم اس کے پیچھے چل پڑتے۔ آنکھیں اور کان بند کیے۔ہماری اپنی سوچ مفلوج ہو چکی ہے۔جانے ایسا کیوں ہے ۔کہیں ہم بھی صمن بکمن تو نہیں ہو رہے۔پرویز رشید کو ہٹا دیا گیا تو کیا ہو گا پھر کوئی بھائی بند آجائیگا یہ تو عوام کی توجہ ہٹانے کے ٹرائل ہیں گو سیاست سے سیاست ہو رہی۔اب دوسری طرف سے کیا قلا بازی لگتی منتظر ہیں۔کچھ اندرون تجربہ کاروں کا کہنا کہ اڑتالیس گھنٹے اہم ہیں ۔وزیر اعظم استعفی دے دیں گے مگر بات تو یہ کہ شاہ جائے تو شاہ کا وفادار آئے بات تو وہی ہے پھر احتساب کا بسترا تو گول ہو گیا ناں ۔سب اپنا اپنا احتساب خود کریں تو بہتر ہے ورنہ لاٹھی خدا بے آواز سہی مگر قیامت کا اثر رکھتی ہے۔

images-1

Tags: urdu column by iffat bhatti
Previous Post

Pervaiz Rashid removed as Information and Broadcasting Minister

Next Post

لیہ ۔دوسرے امیدوار کی جگہ پر امتحان دینے والا نوجوان گرفتار

Next Post

لیہ ۔دوسرے امیدوار کی جگہ پر امتحان دینے والا نوجوان گرفتار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

نعرہ احتساب

images-2 ڈاکٹر عفت بھٹی

ehtesab imageہم ان تمام احباب کے ساتھ ہیں جو نعرہ احتساب لگاتے ہیں ۔مگر اس سے قبل خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی فرض سمجھتے۔۔ہر انسان کے اندر ایک ضمیر نام کا شخص رہتا جو کبھی سوتا تو کبھی جاگتا ۔حد درجہ بے حسی اسے بیمار کر دیتی اور لمبی بیماری اسے مار دیتی۔بسا اوقات مرتے مرتے سچائی اور حقیقت آشنائی اس کے منھ میں آب حیات کے قطرے ڈال دیتی اور وہ موت کے منھ سے لوٹ آتا۔اس ضمیر کی زندگی اس کی حیات کا حصہ بن کر خیر و بھلائی کا۔باعث بنتی۔بات ہو رہی تھی احتساب کی تو قارئین احتساب ہونا چاہیے اور اس کی شروعات اپنی ذات سے۔سیاسی احتساب کے نعرے بام عروج پہ ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن بساط بچھائے بیٹھے ہیں حالات ہیں کہ پل پل پلٹا کھا رہے۔کبھی ایک چال چلی جاتی ہے اور چیک دی کنگ کی آواز مد مقابل کو الرٹ کرتی اور کنگ نئی چال پہ پہ مات اور شہہ مات پہ سوچنے لگتا ہے ۔اب کب چک دی کنگ کی صدا آتی ہم بھی منتظر ہیں۔ اب بات کرتے احتساب کی ۔پاکستان کو بنے لگ بھگ 69 سال ہوگئے کتنے حکمران آئے کتنے گئے۔رفتار ترقی کیا رہی؟۔سچ پوچھیں تو معمولی۔عوام کا معیار زندگی کتنا بلند ہوا؟ جواب معمولی ۔کیا سڑکوں پہ رہنے والے گھر نما سائبان تلے آگئے۔کیا گلی کوچوں میں پھرنے والے ننگ دھڑنگ بچے ہاتھ میں قلم کتاب تھامے علم حاصل کرنے لگے؟کیا سب کے لیے تعلیمی معیار ایک جیسا ہوگیا۔؟کیا بابا کرمو کی بیٹیوں کی شادی بغیر جہیزسر میں چاندی کے تار اترے بغیر ہو گئی؟تقسیم زر میں توازن آگیا۔؟انصاف ۔اور قانون کا بول بالا ہوگیا ۔ہر کام قانون کے دائرے میں ہونے لگا۔امراء نے ٹیکسس بخوشی ورضا پے کردیے۔۔اقربا پروری ختم ہو گئی۔عوام کے نمائندے حلف اٹھانے کے بعد پابندی حلف کے پاسدار ہوئے۔ ملکی خزانہ پروٹوکولز اور غیر دوروں پہ بے دریغ پیسہ لٹانے کے بجائے عوامی خدمات میں استعمال ہونے لگا۔ہم نے اپنے زرائع کے زریعے اپنے ملک کو خوراک سمیت اور دیگر اخراجات میں خود کفیل ہو گئے۔چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوگیا ۔دہشت گردی ۔انتہا پسندی فرقہ واریت کے جراثیم مر گئے۔کیا یہ سب ہوگیا اگر ہوگیا تو ہم کامیاب ورنہ پہلے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کے اپنا اپنا کڑا احتساب کریں تب ہی ہم دوسروں سے توقع احتساب رکھ سکتے ورنہ تو حمام میں سب ننگے ہیں.محض نعرہ احتساب اور سڑکوں پہ آگ و خوں کی ہولی کیا دے گی سوائے جانی ومالی نقصان کے ۔یہ بات ہی اب سمجھ سے باہر ہے۔ کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ۔ایک طرف حکومت اور دوسری طرف مختلف جماعتوں کا اتحاد صف آرا ہے ۔جانے کیوں مجھے یہ جنگ حقوق و انصاف سے ذیادہ کرسی کی جنگ دکھائی دیتی ہے عوام کی بھلائی تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔کیونکہ تمام جماعتوں نے صاحب اختیار ہوتے ہوئے بھی اپنے اختیارات کو عوام کی بھلائی کے بجائے ذاتی مفادات میں صرف کیا۔ پشاور میں کیا تبدیلی آئی کچھ بھی نہیں ۔میں حکومت کی حمایت نہیں کر رہی میں تو اپنی عوام کی ہمدرد ہوں جو ان طاقتوں کے پاٹوں کے درمیاں پس رہی ہر قربانی کے لیے اس کی گردن پتلی نظر آتی۔آخر ان کی قسمت میں یہ سب تحریر کیوں کر دیا گیا ہے۔مجھے اپنے ایک صاحب قلم کی تحریر یاد آئی کہ ہم ایک ریوڑ ہیں بات بھی درست ہے کی ہمیں خوش نما خوابوں کی لاٹھی سے ہانک دیا جاتا اور ہم اس کے پیچھے چل پڑتے۔ آنکھیں اور کان بند کیے۔ہماری اپنی سوچ مفلوج ہو چکی ہے۔جانے ایسا کیوں ہے ۔کہیں ہم بھی صمن بکمن تو نہیں ہو رہے۔پرویز رشید کو ہٹا دیا گیا تو کیا ہو گا پھر کوئی بھائی بند آجائیگا یہ تو عوام کی توجہ ہٹانے کے ٹرائل ہیں گو سیاست سے سیاست ہو رہی۔اب دوسری طرف سے کیا قلا بازی لگتی منتظر ہیں۔کچھ اندرون تجربہ کاروں کا کہنا کہ اڑتالیس گھنٹے اہم ہیں ۔وزیر اعظم استعفی دے دیں گے مگر بات تو یہ کہ شاہ جائے تو شاہ کا وفادار آئے بات تو وہی ہے پھر احتساب کا بسترا تو گول ہو گیا ناں ۔سب اپنا اپنا احتساب خود کریں تو بہتر ہے ورنہ لاٹھی خدا بے آواز سہی مگر قیامت کا اثر رکھتی ہے۔

images-1

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.