ایک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
چندماہ قبل علم و ادب کے آفتاب کے آفتاب ایسے غروب ہوئے کہ ادبی دنیا پر چھایا غم کا اندھیرا مٹنے کو نہیں، انہیں قد آور معتبر ادبی شخصیات میں جناب ندافاضلی کی وفات نے بھی سینوں کو جلا کر رکھ دیا۔ ندافاضلی سے میر ی پہلی اور آخری ملاقات عالمی اُردو مشاعرے ابوظہبی میں ہوئی۔ انکی محبت،شفقت،عاجزی وانکساری،اخلاق،اخلاص کا ایسا سحراب تلک مجھ پر طاری ہے کہ ابوظہبی ایئرپورٹ پرآمدسے لیکر روانگی تک انکے ساتھ گزرے ہر لمحات میرے لئے بھلانا ناممکن ہیں۔
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا
چندماہ قبل علم و ادب کے آفتاب کے آفتاب ایسے غروب ہوئے کہ ادبی دنیا پر چھایا غم کا اندھیرا مٹنے کو نہیں، انہیں قد آور معتبر ادبی شخصیات میں جناب ندافاضلی کی وفات نے بھی سینوں کو جلا کر رکھ دیا۔ ندافاضلی سے میر ی پہلی اور آخری ملاقات عالمی اُردو مشاعرے ابوظہبی میں ہوئی۔ انکی محبت،شفقت،عاجزی وانکساری،اخلاق،اخلاص کا ایسا سحراب تلک مجھ پر طاری ہے کہ ابوظہبی ایئرپورٹ پرآمدسے لیکر روانگی تک انکے ساتھ گزرے ہر لمحات میرے لئے بھلانا ناممکن ہیں۔
دن سلیقے سے اُگا رات ٹھکانے سے رہی
دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی
ندا فاضلی ۷۸ سال کی عمر میں ۸ فروری ۲۰۱۶ کو بھارت کے شہر ممبئی میں دحرکتِ قلب اچانک بند ہوئی اور یوں رختِ سفر باندھ کر اِس دنیا کو خیرآباد کہہ گئے ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔انکااصل نام مقتدا حسن ندا فاضلی ہے ۔۱۲اکتوبر ۱۹۳۸کوگوالیار میں ایک ادبی،کشمیری مسلم گھرانے میں پیدا ہوائے ۔ باپ اور بھائی بھی شاعر تھے۔تقسیمِ ہند کے وقت دالدین نے پاکستان ہجرت کر لی مگر ندافاضلی نے بھارت میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔مندر میں گونجنے والے بھجن کی آواز نے انہیں شاعری کی طرف مائل کیا۔اپنے روزگار کا آغاز ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ دھرم یُگ اور بلنز میں اپنی قلمی ہنرمندیوں سے کیا۔میر تقی میر اور مرزا اللہ خاں غالب ،میرا اور کبیر سے متاثر بہت متاثر تھے۔لکھنے کا جنون تھا تو پڑھنے کا بے حد ذوق بھی رکھتے تھے اسی لئے انہوں ایلئیٹ، انتون چیخوف ،نکاسا اور گگول بھی اپنے مطالعے میں شامل کیا۔انکے مجموعہ کلام میں ’’لفظوں کے پھول‘‘، ’’دنیا ایک کھلونا ہے‘‘، ’’سفر میں دھوپ تو ہو گی‘‘، ’’آنکھ اور خواب کے درمیان‘‘، ’’کھویا ہوا سا کچھ‘‘، ’’مور ناچ‘‘ شامل ہیں۔’’دیواروں کے باہر‘‘، لفظوں کا پُل‘‘، ’’آنکھ اور خواب کے درمیان‘‘، شہر میرے ساتھ چل تو‘‘ بھی اُردو ادب میں حسین و انمول اضافے ہیں۔
اب کسی سے شکایت نہ رہی
جانے کس کس سے گلہ تھا پہلے
بعنوان ’’ ملاقاتیں‘‘ ساٹھ کی دہائی میں بے شمار شعراء کرام پر تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔جاں نثار اختر کی وفات کے باعث کمال امروہی کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے گیت لکھنے کا کام ندا فاضلی کے حصے میں آیا جس سے فلمی نگر میں بھی انکی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔مشہور فلمی گیتوں میں ،ہوش والوں کو خبر کیا(سرفروش)، آ بھی جا، آ بھی جا(سُر)، کس کا چہرہ، تو اس طرح سے میری زندگی میں(آپ تو ایسے نہ تھے)، چپ تم رہو، کوئی اکیلا کہاں،کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا(آہستہ آہستہ)، اب خوشی ہے نہ کوئی درد وغیرہ شامل ہیں ، فلم سُر اور اسی فلم کے گانے ’’آ بھی جا‘‘ کو بیسٹ ایوارڈز بھی نوازا گیا تھا۔انہوں نے فلم ، تمنا،اس رات کی صبح نہیں،انوکھا بندھن،ہرجائی، ناخدا، یاترا،دیو، وجے کے لئے بھی لکھے ہوئے گیتوں نے بہت شہرت حاصل کی۔جیوتی، جانے کیا بات ہوئی، سائلاب اور نیم کا پیڑ سمیت کئی مشہور ٹی وی سیرئیلس کے لئے ٹائٹل گیت لکھنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔۲۰۰۴ میں فلم دیو کیلئے بحثیت معاون کہانی کار اور ۲۰۰۶ میں فلم یاترا کے لئے ڈائیلاگ بھی تحریر کر کے فلی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ۔۱۹۹۴ میں جگجیت سنگھ کے ساتھ انکے کام بہت پذیرائی ملی اور نکا مشترکہ البم ’’انسائیٹ‘‘ بہت مقبول ہوا۔انہیں انکی قلمی خدمات کے اعتراف میں بے شمار اعزازت سے نواز گیا جن مین ساہتیہ اکیڈمی ایواڈ ۱۹۹۸، بالی وڈ مودی ایوارڈ۲۰۰۳، سٹار سکرین ایوارڈ۲۰۰۳ اور پدم شری اعزاز۲۰۱۳ اور عالمی اُردو مشاعرہ ابوظہبی ۲۰۱۳ بھی شامل ہیں۔انکی لکھی ہوئیں سدا بہار غزلیں، دلفریب نظمیں ،مسحور کن گیت عہد کے نامور گائیک نے بھی گا کر اپنی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔
ندافاضلی قوم و ملت، انسانیت سمیت زندگی کے ہر پہلوؤں پر تفکر کرنے والے اور ان میں دھنک کی مانند رنگ بھرنے والے ایک مایاناز معتبر شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ندا فاضلی نے اعصاب شکن حالات کو جھیلنے کیلئے بڑی ہمت سے مظاہرہ کیا ہے جس کا عکس انکی نئے پیرایوں کی شاعری میں خوب جھلکتا ہے۔ندا فاضلی کا مزاج شاعری خود سپردگی سے ہٹ کر وارفتگی اور عاجزانہ عناصر میں ڈھل کر باطنی جذبوں، تخلیقی قوتوں اور فکری توانائیوں سے مل قاری کی سماعتوں سے دل میں اتر کر گہری سوچ میں مبتلا کر دیتی ہے۔انکے لفظوں سے بجھتی آنکھوں کی خوابیدہ فصیلوں پر ستارے جگمگاتے ہیں انکے نازک احساسات و مثبت خیالات شگفتگی طبع سے خوب آراستہ ہیں۔انکا یہ شاعر پڑھیئے۔ یہ مجسم لطیف فقط ایک بڑے شاعر ہی دکھا سکتا ہے۔
دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
ندافاضلی کے اشعار میں ربط ،روانی ، تازہ خیالی ، اور حسنِ ترتیب کا اعلی نمونے سے آپ بھی لطف اندوز ہو یئے۔
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
اِس سحر انگیز شعر سے محسوس ہوتا ہے کہ ندا فاضلی بہت محتاط مگر حساس طبع ،داخلی و باطنی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے عظیم شاعر تھے۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
انکی تخلیقات کو اصناف کے ساتھ ساتھ خیال آفرینی کی اہمیت سے بھی آشنا ہیں۔ایک دوحہ ملاحظہ کریں۔
سیدھا سادھا ڈاکیا جادو کرے ماہان
ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسو اور مسکان
مجھ جیسا اک آدمی میرا ہی ہم نام
الٹا سیدھا وہ چلے مجھے کرے بد نام،
بات مشاعرے کی تھی جو کہاں کی کہاں چل نکلی ۔برصغیر کے سینئر ترین شعراء میں شمار ندا فاضلی کو زحمت کلام دیتے ہیں اور یوں منتظمِ اعلی ظہورالاسلام جاوید کی دعوت پر عالمی اُردو مشاعرہ ابوظہبی امارات ۲۰۱۴ کے صدرِ مشاعرہ ندافاضلی کا شرکاء نے تالیوں کی گونج میں والہانہ استقبال کیا۔میری یادوں کے خزانوں میں انکے انمول موتیوں کی مانند چمکتے دھمکتے الفاظ اب بھی روشن ہیں کہ یہ شام خوبصورت، نیک نام، خوش کلام اور گلفام شام ہے یہ پاکستانی اور ہندوستانی لیڈروں کی تقریروں سے بدنام شام نہیں۔یہ الفاظ کے احترام کی شام ہے۔جہاں لفظ کا احترام کیا جاتا ہے ،وہاں عقل سے نہیں دل سے کام لیا جاتا ہے۔جس پر سامعین نے خوب دل کھول پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔اِس شعر کے ساتھ
کبھی کسی کو مکمل جہان نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسمان نہیں ملتا
انہوں نے اپنے کئی اشعار اور قطعات بھی سماعتوں کی نذر کئے اور داد و تحسین کے حقدار بنے۔اپنے دوحوں کے علاوہ انہوں نے امیر خسرو کے بھی چند دوحے پیش کئے ، تقریباً پنتالیس منٹس تک اپنے دلفریب کلام اور پرمغز گفتگو سے محفل لوٹتے رہے دل جیتتے رہے۔چند لمحات کے لئے اپنے مرحوم والدِ محترم کی یادوں کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے کہا کہ جوں جوں میری عمر بڑھتی جا رہی ہے مجھے لگتا ہے میں اپنے اندر کم ہوتا جا رہا ہوں اور میرا باپ میرے اندر زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ انکی غمِ جدائی میں لکھی ایک دلخراش نظم بعنوان’’تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا‘‘پیش کرکے سبھی کو آبدیدہ کر دیا ، اس نظم کے آخری مصرعوں۔۔۔۔
تمہاری قبر میں تو ۔۔میں دفن ہوں ۔۔۔تم ،زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو ۔۔۔فاتحہ پڑھنے چلے آنا۔۔۔۔
میں شدتِ دردکا احساس توانکے مداحوں کو حقیقتاً آج ہوا ہے۔اِ س مشاعرے میں پیش کئے گئے کلام میں سے چند منتخب اشعارذوقِ قارئین کے خشک لبوں کو تر کرنے لئے پیش خدمت ہے۔
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
انکی ذہن و ذکاوت ،بصیرت اور ذوقِ سلیم کی آئینہ دارایک خوبصورت کمال غزل کے منتخب اشعار ملاحظہ کیجئے
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
باغوں میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اُڑایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستی اپنی بھی کچھ روز زمانے سے رہی
ندا فاضلی ۷۸ سال کی عمر میں ۸ فروری ۲۰۱۶ کو بھارت کے شہر ممبئی میں دحرکتِ قلب اچانک بند ہوئی اور یوں رختِ سفر باندھ کر اِس دنیا کو خیرآباد کہہ گئے ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔انکااصل نام مقتدا حسن ندا فاضلی ہے ۔۱۲اکتوبر ۱۹۳۸کوگوالیار میں ایک ادبی،کشمیری مسلم گھرانے میں پیدا ہوائے ۔ باپ اور بھائی بھی شاعر تھے۔تقسیمِ ہند کے وقت دالدین نے پاکستان ہجرت کر لی مگر ندافاضلی نے بھارت میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔مندر میں گونجنے والے بھجن کی آواز نے انہیں شاعری کی طرف مائل کیا۔اپنے روزگار کا آغاز ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ دھرم یُگ اور بلنز میں اپنی قلمی ہنرمندیوں سے کیا۔میر تقی میر اور مرزا اللہ خاں غالب ،میرا اور کبیر سے متاثر بہت متاثر تھے۔لکھنے کا جنون تھا تو پڑھنے کا بے حد ذوق بھی رکھتے تھے اسی لئے انہوں ایلئیٹ، انتون چیخوف ،نکاسا اور گگول بھی اپنے مطالعے میں شامل کیا۔انکے مجموعہ کلام میں ’’لفظوں کے پھول‘‘، ’’دنیا ایک کھلونا ہے‘‘، ’’سفر میں دھوپ تو ہو گی‘‘، ’’آنکھ اور خواب کے درمیان‘‘، ’’کھویا ہوا سا کچھ‘‘، ’’مور ناچ‘‘ شامل ہیں۔’’دیواروں کے باہر‘‘، لفظوں کا پُل‘‘، ’’آنکھ اور خواب کے درمیان‘‘، شہر میرے ساتھ چل تو‘‘ بھی اُردو ادب میں حسین و انمول اضافے ہیں۔
اب کسی سے شکایت نہ رہی
جانے کس کس سے گلہ تھا پہلے
بعنوان ’’ ملاقاتیں‘‘ ساٹھ کی دہائی میں بے شمار شعراء کرام پر تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔جاں نثار اختر کی وفات کے باعث کمال امروہی کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے گیت لکھنے کا کام ندا فاضلی کے حصے میں آیا جس سے فلمی نگر میں بھی انکی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔مشہور فلمی گیتوں میں ،ہوش والوں کو خبر کیا(سرفروش)، آ بھی جا، آ بھی جا(سُر)، کس کا چہرہ، تو اس طرح سے میری زندگی میں(آپ تو ایسے نہ تھے)، چپ تم رہو، کوئی اکیلا کہاں،کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا(آہستہ آہستہ)، اب خوشی ہے نہ کوئی درد وغیرہ شامل ہیں ، فلم سُر اور اسی فلم کے گانے ’’آ بھی جا‘‘ کو بیسٹ ایوارڈز بھی نوازا گیا تھا۔انہوں نے فلم ، تمنا،اس رات کی صبح نہیں،انوکھا بندھن،ہرجائی، ناخدا، یاترا،دیو، وجے کے لئے بھی لکھے ہوئے گیتوں نے بہت شہرت حاصل کی۔جیوتی، جانے کیا بات ہوئی، سائلاب اور نیم کا پیڑ سمیت کئی مشہور ٹی وی سیرئیلس کے لئے ٹائٹل گیت لکھنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔۲۰۰۴ میں فلم دیو کیلئے بحثیت معاون کہانی کار اور ۲۰۰۶ میں فلم یاترا کے لئے ڈائیلاگ بھی تحریر کر کے فلی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ۔۱۹۹۴ میں جگجیت سنگھ کے ساتھ انکے کام بہت پذیرائی ملی اور نکا مشترکہ البم ’’انسائیٹ‘‘ بہت مقبول ہوا۔انہیں انکی قلمی خدمات کے اعتراف میں بے شمار اعزازت سے نواز گیا جن مین ساہتیہ اکیڈمی ایواڈ ۱۹۹۸، بالی وڈ مودی ایوارڈ۲۰۰۳، سٹار سکرین ایوارڈ۲۰۰۳ اور پدم شری اعزاز۲۰۱۳ اور عالمی اُردو مشاعرہ ابوظہبی ۲۰۱۳ بھی شامل ہیں۔انکی لکھی ہوئیں سدا بہار غزلیں، دلفریب نظمیں ،مسحور کن گیت عہد کے نامور گائیک نے بھی گا کر اپنی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔
ندافاضلی قوم و ملت، انسانیت سمیت زندگی کے ہر پہلوؤں پر تفکر کرنے والے اور ان میں دھنک کی مانند رنگ بھرنے والے ایک مایاناز معتبر شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ندا فاضلی نے اعصاب شکن حالات کو جھیلنے کیلئے بڑی ہمت سے مظاہرہ کیا ہے جس کا عکس انکی نئے پیرایوں کی شاعری میں خوب جھلکتا ہے۔ندا فاضلی کا مزاج شاعری خود سپردگی سے ہٹ کر وارفتگی اور عاجزانہ عناصر میں ڈھل کر باطنی جذبوں، تخلیقی قوتوں اور فکری توانائیوں سے مل قاری کی سماعتوں سے دل میں اتر کر گہری سوچ میں مبتلا کر دیتی ہے۔انکے لفظوں سے بجھتی آنکھوں کی خوابیدہ فصیلوں پر ستارے جگمگاتے ہیں انکے نازک احساسات و مثبت خیالات شگفتگی طبع سے خوب آراستہ ہیں۔انکا یہ شاعر پڑھیئے۔ یہ مجسم لطیف فقط ایک بڑے شاعر ہی دکھا سکتا ہے۔
دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
ندافاضلی کے اشعار میں ربط ،روانی ، تازہ خیالی ، اور حسنِ ترتیب کا اعلی نمونے سے آپ بھی لطف اندوز ہو یئے۔
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
اِس سحر انگیز شعر سے محسوس ہوتا ہے کہ ندا فاضلی بہت محتاط مگر حساس طبع ،داخلی و باطنی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے عظیم شاعر تھے۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
انکی تخلیقات کو اصناف کے ساتھ ساتھ خیال آفرینی کی اہمیت سے بھی آشنا ہیں۔ایک دوحہ ملاحظہ کریں۔
سیدھا سادھا ڈاکیا جادو کرے ماہان
ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسو اور مسکان
مجھ جیسا اک آدمی میرا ہی ہم نام
الٹا سیدھا وہ چلے مجھے کرے بد نام،
بات مشاعرے کی تھی جو کہاں کی کہاں چل نکلی ۔برصغیر کے سینئر ترین شعراء میں شمار ندا فاضلی کو زحمت کلام دیتے ہیں اور یوں منتظمِ اعلی ظہورالاسلام جاوید کی دعوت پر عالمی اُردو مشاعرہ ابوظہبی امارات ۲۰۱۴ کے صدرِ مشاعرہ ندافاضلی کا شرکاء نے تالیوں کی گونج میں والہانہ استقبال کیا۔میری یادوں کے خزانوں میں انکے انمول موتیوں کی مانند چمکتے دھمکتے الفاظ اب بھی روشن ہیں کہ یہ شام خوبصورت، نیک نام، خوش کلام اور گلفام شام ہے یہ پاکستانی اور ہندوستانی لیڈروں کی تقریروں سے بدنام شام نہیں۔یہ الفاظ کے احترام کی شام ہے۔جہاں لفظ کا احترام کیا جاتا ہے ،وہاں عقل سے نہیں دل سے کام لیا جاتا ہے۔جس پر سامعین نے خوب دل کھول پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔اِس شعر کے ساتھ
کبھی کسی کو مکمل جہان نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسمان نہیں ملتا
انہوں نے اپنے کئی اشعار اور قطعات بھی سماعتوں کی نذر کئے اور داد و تحسین کے حقدار بنے۔اپنے دوحوں کے علاوہ انہوں نے امیر خسرو کے بھی چند دوحے پیش کئے ، تقریباً پنتالیس منٹس تک اپنے دلفریب کلام اور پرمغز گفتگو سے محفل لوٹتے رہے دل جیتتے رہے۔چند لمحات کے لئے اپنے مرحوم والدِ محترم کی یادوں کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے کہا کہ جوں جوں میری عمر بڑھتی جا رہی ہے مجھے لگتا ہے میں اپنے اندر کم ہوتا جا رہا ہوں اور میرا باپ میرے اندر زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ انکی غمِ جدائی میں لکھی ایک دلخراش نظم بعنوان’’تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا‘‘پیش کرکے سبھی کو آبدیدہ کر دیا ، اس نظم کے آخری مصرعوں۔۔۔۔
تمہاری قبر میں تو ۔۔میں دفن ہوں ۔۔۔تم ،زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو ۔۔۔فاتحہ پڑھنے چلے آنا۔۔۔۔
میں شدتِ دردکا احساس توانکے مداحوں کو حقیقتاً آج ہوا ہے۔اِ س مشاعرے میں پیش کئے گئے کلام میں سے چند منتخب اشعارذوقِ قارئین کے خشک لبوں کو تر کرنے لئے پیش خدمت ہے۔
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
انکی ذہن و ذکاوت ،بصیرت اور ذوقِ سلیم کی آئینہ دارایک خوبصورت کمال غزل کے منتخب اشعار ملاحظہ کیجئے
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
باغوں میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اُڑایا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔