ملکہِ کونین رضی اللہ عنہا۔۔۔
خانوادہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین ہستی ،سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریباََ ۵ برس پہلے پیداہوئیں جبکہ بعض روایات میں بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی پیداہوئیں ۔والدہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبے حد محبت تھی اورانہیں بھی اپنے میاں صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد انسیت تھی کہ اپنا سب کچھ ان پر قربان کردیا۔آپ رضی اللہ عنہا کے لقب بتول اورزہرا ہیں۔ اعلانِ نبوت کے بعد اس عظیم
خانوادہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین ہستی ،سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریباََ ۵ برس پہلے پیداہوئیں جبکہ بعض روایات میں بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی پیداہوئیں ۔والدہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبے حد محبت تھی اورانہیں بھی اپنے میاں صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد انسیت تھی کہ اپنا سب کچھ ان پر قربان کردیا۔آپ رضی اللہ عنہا کے لقب بتول اورزہرا ہیں۔ اعلانِ نبوت کے بعد اس عظیم
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر آزمائش وآلام کادور شروع ہوا جو ہجرت مدینہ تک برابر جاری رہا۔سیدہ رضی اللہ عنہا ان مصائب وآلام کے دوران اپنے والد محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں ۔ یوں بچپن میں ہی ننھی سی جان پر مصائب وآلام برداشت کئے ،شعبِ ابی طالب میں دیگر خاندان کے ساتھ تھیں ۔ہجرت مدینہ کاحکم ہواتودیگرخاندان کے ہمراہوئیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس پیاری بیٹی کی پرورش بھی اسی طرح کی کہ کم عمری میں ان سب مصائب کو کامل صبر ورضا سے برداشت کیا۔آقاصلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کو بددعا نہیں دیتے تھے مگر ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں نمازادافرمارہے تھے کہ ایک بدبخت نے اوجھری کمر مبارک پر ڈال دی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے،سیدہ کو اطلاع ہوئی تودوڑتی ہوئی آئیں یہ منظردیکھ کررونے لگیں۔ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی اور کافروں کوبددعا دی جو غزوہ بدر میں پوری ہوئی ۔سیدہ رضی اللہ عنہاکی چال ڈھال اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھی۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ سیدہ زہرا چال ڈھال،طرزِ تکلم ،شمائل وخصائل میں آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے اتنامشابہ تھیں کہ رحلتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب ہم سیدہ کودیکھتے تو آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی یادتازہ ہوجاتی ۔ام المؤمنین رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ جب سیدہ رضی اللہ عنہا اپنے والدِگرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرتشریف لاتیں توآقاصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے،ہاتھ تھام کر اسے چومتے اور اپنی جگہ پر اپنی لاڈلی کوبٹھاتے ۔یہی حالت اس لاڈلی بیٹی کی ہوتی جب والدِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ رضی اللہ عنہاکے گھر تشریف لے جاتے تو پیاری بیٹی اپنے والد صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ تھامتیں ،بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کاگوشت رکھنا پہلے منع فرمایاتھا۔ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ سفر سے واپس ہوئے توسیدہ زہرا رضی اللہ عنہا نے پکاہواگوشت پیش کیا،سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا’اس گوشت کورکھنے سے منع نہیں فرمایاگیا۔؟‘یہی مسئلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا تو آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا ’قربانی کاگوشت سال بھر کھایاجاسکتاہے ۔‘ بیٹی سے محبت کاعالم یہ ہے کہ جائز کام بھی اگربیٹی کوپسند نہ ہوتوعلی الاعلان اس سے منع فرماتے ہیں ۔سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ نے سیدہ کی زندگی میں ایک باردوسری شادی کاارادہ کیا،سیدہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوکر والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اورواقعہ بیان کیا۔آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ ایک خطبہ ارشادفرمایا ’’فاطمہ میرے جسم کاٹکڑاہے اسے ایذاپہنچانامجھے ایذا پہنچاناہے اورجوچیز فاطمہ کوبُری لگے وہ ناپسند ہے ۔‘‘پھرفرمایا’ ’میں اپنی طرف سے کسی حلال کوحرام اورحرام کوحلال نہیں کرتالیکن اللہ کی قسم !اللہ کے رسول کی بیٹی اوراللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہ ہوں گی۔‘‘اس خطبہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ اثرہواکہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی ۔پھرسیدہ رضی اللہ عنہاکی وفات کے بعد ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے سیدہ رضی اللہ عنہاکی بھانجی حضرت امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہما سے شادی کی۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل سیدہ زہرارضی اللہ عنہا کے کان میں دوبارسرگوشی کی ،پہلی بار آپ رضی اللہ عنہا رونے لگیں اوردوسری بار مسکرانے لگیں ۔آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میرے پوچھنے پر فرمایا’’پہلی بار ابا جی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے متعلق آگاہ کیا اور دوسری بار فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے آملوگی۔‘‘سیدہ زہرارضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم جتنامجھ پر پڑا اتنا کسی پہاڑپرپڑتاتووہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔آپ رضی اللہ عنہا زہدوقناعت کی پیکر تھیں ۔رہن سہن سادہ ،جہیز میں ضرورت کی چند اشیاء ملیں ۔گھرکے کام کاج خود کرتیں خواہ کتنی ہی مشقت اٹھاناپڑے چکی تک خودچلاتیں ۔بچوں کی پرورش یوں کی کہ سیدناحسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے مابین صلح کراکے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دے گئے اورحسین رضی اللہ عنہ الگ داستانِ تسلیم ورضا چھوڑ گئے کہ قیامت تک کے لئے عزیمت کااستعارہ قرار پائے ۔سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے واقعہ کربلا میں جو صبرواستقلال کی تاریخ رقم کی اس کی مثال ملناناممکن ہے ۔زندگی بھر دوبار ایوانِ سلطنت میں دنیاوی غرض سے حاضر ہوئیں ،ایک باروالد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہ گھرکے کام کے لئے کوئی لونڈی عنایت فرمائیں ۔والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی تو نہ دی ’تسبیحِ فاطمہ‘ عطاء ہوئی۔دوسری بار چچاصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ باغِ فدک کے مال کوبطور میراث حوالے کردیں ۔چچا نے بھی جواب میں فرمایا کہ نبی علیہ السلام کی میراث نہیں ہوتی،ان کاجومال باقی رہتا ہے وہ عامۃ المسلمین کے لئے ہوتاہے ۔تمہارا جو حصہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صلعم میں مختص کیا گیا تھا وہ تمہیں ملتارہے گااسمیں کوئی ردوبدل نہ ہوگا۔ان دو مواقع کے علاوہ زندگی میں کبھی بھی دنیاوی غرض سے کسی کے پاس حاضر نہ ہوئیں ۔دین وآخرت ہی پیشِ نظر تھے اوراسی کے لئے ہی زندگی میں کوشش کرتی رہیں ۔
مشہورروایات کے مطابق ۳رمضان المبارک کودنیائے فانی سے کوچ فرماگئیں (بناتِ اربعہ:مولانامحمدنافع)۔دنیا سے رخصت ہونے لگیں تو بھی عفت وحیاکاایساپاسرکھاکہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’میراجنازہ رات کی تاریکی میں اٹھانا اور چارپائی کے گِردایک خاص انداز میں لکڑیوں کاچبوترہ نمابنادینامیں نہیں چاہتی کہ وقتِ رخصت میرے کفن پربھی کسی غیرمحرم کی نظرپڑے۔‘‘صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ سیدہ اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق خود ہی غسل دیا۔سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اورسیدنا علی ،سیدنا عباس اور سیدنافضل بن عباس رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا۔یوں کائنات کے عظیم ترین باپ کی کائنات کی عظیم ترین بیٹی ملکہِ کونین ام الحسنین سیدہ فاطمہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم جنت البقیع میں اپنی آرام گاہ میں آرام فرماہوئیں ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل سیدہ زہرارضی اللہ عنہا کے کان میں دوبارسرگوشی کی ،پہلی بار آپ رضی اللہ عنہا رونے لگیں اوردوسری بار مسکرانے لگیں ۔آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میرے پوچھنے پر فرمایا’’پہلی بار ابا جی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے متعلق آگاہ کیا اور دوسری بار فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے آملوگی۔‘‘سیدہ زہرارضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم جتنامجھ پر پڑا اتنا کسی پہاڑپرپڑتاتووہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔آپ رضی اللہ عنہا زہدوقناعت کی پیکر تھیں ۔رہن سہن سادہ ،جہیز میں ضرورت کی چند اشیاء ملیں ۔گھرکے کام کاج خود کرتیں خواہ کتنی ہی مشقت اٹھاناپڑے چکی تک خودچلاتیں ۔بچوں کی پرورش یوں کی کہ سیدناحسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے مابین صلح کراکے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دے گئے اورحسین رضی اللہ عنہ الگ داستانِ تسلیم ورضا چھوڑ گئے کہ قیامت تک کے لئے عزیمت کااستعارہ قرار پائے ۔سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے واقعہ کربلا میں جو صبرواستقلال کی تاریخ رقم کی اس کی مثال ملناناممکن ہے ۔زندگی بھر دوبار ایوانِ سلطنت میں دنیاوی غرض سے حاضر ہوئیں ،ایک باروالد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہ گھرکے کام کے لئے کوئی لونڈی عنایت فرمائیں ۔والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی تو نہ دی ’تسبیحِ فاطمہ‘ عطاء ہوئی۔دوسری بار چچاصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ باغِ فدک کے مال کوبطور میراث حوالے کردیں ۔چچا نے بھی جواب میں فرمایا کہ نبی علیہ السلام کی میراث نہیں ہوتی،ان کاجومال باقی رہتا ہے وہ عامۃ المسلمین کے لئے ہوتاہے ۔تمہارا جو حصہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صلعم میں مختص کیا گیا تھا وہ تمہیں ملتارہے گااسمیں کوئی ردوبدل نہ ہوگا۔ان دو مواقع کے علاوہ زندگی میں کبھی بھی دنیاوی غرض سے کسی کے پاس حاضر نہ ہوئیں ۔دین وآخرت ہی پیشِ نظر تھے اوراسی کے لئے ہی زندگی میں کوشش کرتی رہیں ۔
مشہورروایات کے مطابق ۳رمضان المبارک کودنیائے فانی سے کوچ فرماگئیں (بناتِ اربعہ:مولانامحمدنافع)۔دنیا سے رخصت ہونے لگیں تو بھی عفت وحیاکاایساپاسرکھاکہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’میراجنازہ رات کی تاریکی میں اٹھانا اور چارپائی کے گِردایک خاص انداز میں لکڑیوں کاچبوترہ نمابنادینامیں نہیں چاہتی کہ وقتِ رخصت میرے کفن پربھی کسی غیرمحرم کی نظرپڑے۔‘‘صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ سیدہ اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق خود ہی غسل دیا۔سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اورسیدنا علی ،سیدنا عباس اور سیدنافضل بن عباس رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا۔یوں کائنات کے عظیم ترین باپ کی کائنات کی عظیم ترین بیٹی ملکہِ کونین ام الحسنین سیدہ فاطمہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم جنت البقیع میں اپنی آرام گاہ میں آرام فرماہوئیں ۔
محمدعماراحمد