اج کے ایسے دور میں جب سکول سے لے کر یونیورسٹی تک داخلہ لے لو داخلہ لے لو کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور چار ہزار سیٹوں کے مقابلے میں 300 درخواستیں اتی ہیں 269 یونیورسٹیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں جہاں اتنی کم تعداد میں کبھی بھی داخلے کی شرح نہیں رہی آج یہ حالت ان پہنچی ہے اس کے پیچھے معاشی حالات سیاسی حالات گھروں میں معاشی چیلنجز والدین کے لیے روزگار کا نہ ہونا یہ اپنی جگہ پر ہیں ایسے عوامل پہلے بھی تھے لیکن یہ نہیں تھا کہ ہم تعلیم سے رو گردانی کر کے روزگار کے نئے ذرائع تلاش کرتے ہوئے تعلیم کو ہی چھوڑ دیں گے اور ایسے ہنر مند ادارے بنا لیں گے جو محض دکھاوے اور عارضی بنیادوں پر فائدہ دے سکتے ہیں یا دے رہے ہیں اس کا زیادہ تر کمال وہ سوشل میڈیا وہ موبائل فون جو چھوٹے سے بچے سے لے کر نوجوان لڑکی لڑکے تک استعمال کر بیٹھے ہیں ابھی بھی وقت ہے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی کہ یہ افریتئ ہمیں کھا لے گا یہ ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہمیشہ ان اسلامی ممالک میں دی جاتی ہے کہ یہ نہ تو کبھی اکٹھے رہیں اور نہ معاشی طاقت ان کے پاس ہو اور نہ ان کا نوجوان اس قابل رہے کہ وہ اپنی ملک و قوم کا سہارا بنے اسے کیسے بچا سکتے ہیں اس کے کیا کیا عوامل ہیں یہ کیوں کر پیدا ہوا اس کے پیچھے کیا کہانی ہے اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جس کے ہاتھ میں قلم کے بجائے موبائل ہے، اور جس کی آنکھوں کے سامنے کتاب کے الفاظ نہیں، اسکرین کی چمک ہے۔ اسکول، کالج، اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کے سب سے قیمتی لمحات موبائل فون کی نظر کر رہے ہیں۔ کھیل کے میدان ویران ہیں، لائبریریوں میں سناٹا ہے، اور گھروں میں والدین کا ساتھ صرف دسترخوان تک محدود ہو چکا ہے۔یہ کیسا دور آ گیا ہے کہ بچے کتابوں سے بیزار اور اسکرینوں کے گرویدہ ہو چکے ہیں؟ جہاں والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر میں مبتلا تھے، وہاں اب وہ بچوں کو موبائل سے دور رکھنے کی ناکام کوششوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ صبح سے رات تک سوشل میڈیا، گیمنگ اور ویڈیوز کی بھرمار نے نئی نسل کی ذہنی ساخت بدل کر رکھ دی ہے۔نوجوانوں کے چہروں سے تازگی غائب ہے، طبیعت میں غصہ اور چڑچڑا پن بڑھتا جا رہا ہے۔ تنہائی پسند رویے، سماجی لاتعلقی، اور والدین سے بدتمیزی جیسے مسائل روزمرہ کی کہانی بن چکے ہیں۔ گھر کا ماحول وہ نہیں رہا جہاں بزرگوں کے قدموں میں برکت سمجھی جاتی تھی۔ اب تو بزرگ خود خاموش ہیں اور نوجوان کانوں میں ہینڈز فری لگائے دنیا سے بے نیاز بیٹھے ہوتے ہیں۔نہ وہ روایتی مہمانداری رہی، نہ وہ گھریلو محبت، نہ وہ ذمہ داری کا شعور۔ گھر میں اگر مہمان آ جائے تو نوجوانوں کو کمرے سے باہر نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اگر کسی تقریب یا شاپنگ پر جانا ہو تو مہنگے لباس، جدید موبائل، اور گاڑیوں کی فرمائشیں ضرور سامنے آتی ہیں۔یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا، یہ ایک مسلسل سماجی زوال کی علامت ہے۔ والدین نے سہولت دینے کے چکر میں بچوں کو ایسی "سہولت” تھما دی ہے جس نے ان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ تعلیمی زوال الگ مسئلہ ہے، لیکن اخلاقی زوال اس سے کہیں بڑا خطرہ ہے۔ سوال یہ ہے: اب کیا کیا جائے؟حل صرف اس میں ہے کہ والدین خود نمونہ بنیں۔ اساتذہ صرف کتاب نہ پڑھائیں، زندگی کا سبق بھی سکھائیں۔ موبائل کا استعمال وقت اور مقصد کے تحت ہو۔ بچوں کو فطرت، کھیل، کتاب اور انسانوں سے دوبارہ جوڑنا ہوگا۔ تب جا کے شاید ہم اس موبائل زدہ نسل کو ایک باشعور، متوازن اور بااخلاق قوم میں تبدیل کر سکیں گے۔ہم صرف اسکرینوں پر جگمگاتے بچوں کو دیکھتے رہیں گے، جن کے دل اور دماغ خالی ہوں گے، اور جن کی انگلیاں چلتی ہوں گی مگر ذہن رک چکا ہو گا ویسے بھی 78 سالوں میں ملک کی ترقی زوال پذیر ہوئی ہے معاشی طور پر تباہ حال قوم سیاسی سسٹم سے نالا دو جماعتی باریوں کا نظام اس قوم کو لے ڈوبا ہے اور قرض کی رقم سے بنگلے بنانے والے اور اپنی دولت غیر ملک میں رکھنے والے تو یہی چاہیں گے کہ یہ نوجوان جو غربت کی اتاہ گہرائیوں کے حامل والدین کا قیمتی اثاثہ ہیں وہ ان موبائل سے ہی کھیلتے رہیں کبھی ہماری جانب نہ دیکھ سکیں نہ کسی تحریک کا حصہ بن سکیں اور نہ کوئی انقلاب برپا کریں نہ اسلامی ریاست کا وجود عمل میں لائیں اور نہ ہی ایسا معاشرہ تخلیق کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں جو ہمیں برابری کی بنیاد پر انصاف اور معاش فراہم کر سکے اس لیے نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ اپنے اپ پر بھی رحم کریں اور اپنے والدین پر بھی یہ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ اس ملک کی باگ ڈور ائندہ انہوں نے سنبھالنی ہے اگر وہ اسی طرح رہے تو مٹھی بھر اشرافیہ 78 سالوں کی طرح ان پر پھر غالب رہے گی اور بہت دیر ہو جائے گی
ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز
لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...
Read moreDetails










