عالمی سطح پر اس قسم کی مباحث بہت عام ہے کہ دنیا نیو کلیئر اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے یہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے۔ اس ضمن میں بہت سے عالمی اداروں نے جوہری توانائی اور ایٹم بم کے حصول پر ہونے والے اخراجات کے بارے میں تخمینے اور سروے جاری کی ہیں، جن کے اعداد و شمار انتہائی خطرناک ہیں۔
دینا کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
اگر بات امریکہ سے شروع کی جائے تو امریکہ نے اب تک کل 5177 ایٹم بم بنائے ہیں۔ جن میں سے 1770 اس وقت دنیا میں تباہی پھیلانے کے لیے میزائلوں اور بمبار جہازوں پر فٹ ہیں۔ جبکہ 1930 اس وقت اسلحہ خانہ میں میزائلوں اور بمبار جہازوں پر نصب ہونے کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ 1477 ایٹم بم وہ تھے جو میزائلوں اور بمبار جہازوں کی زینت بننے کی اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک روس، چائنا، فرانس، برطانیہ، انڈیا، پاکستان اور اسرئیل کے پاس بالترتیب 5580 عدد، 600 عدد، 300 عدد، 225 عدد، 172 عدد، 170 عدد اور 100 عدد ایٹم بم موجود ہیں۔ یعنی دنیا کے پاس مجموعی طور پر 12324 ایسے ہتھیار موجود ہیں۔
ایٹم بم پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ
بروکنگز اٹامک آڈٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 1940 سے 1996 تک 5.82 ٹریلین ( 5820 بلین ڈالر) ان ہتھیاروں پر خرچ کیے ہیں۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے 1940 سے 1996 تک اوسطاً 102 بلین ڈالر ہر سال خرچ کیے ہیں۔ اگر 1996 کے بعد ہر سال ان ہتھیاروں پر خرچ ہونے والی رقم بھی اس اوسط کے قریب 102 بلین ڈالر مان لی جائے تو 1997 سے 2024 تک، 28 سالوں میں مزید تقریباً 2856 بلین ڈالر خرچ ہو چکے ہوں گے۔ گویا کل خرچ 8676 بلین ڈالر بنتا ہے۔ امریکہ کی موجودہ آبادی 34 کروڑ 73 لاکھ ہے، اس طرح امریکہ کے ہر شہری نے 24981 ڈالر ( 71 لاکھ روپے ) صرف ان ہتھیاروں پر خرچ کیے ہیں۔ اگر امریکہ نے 5177 ہتھیاروں پر 8676 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں، تو اس حساب سے دنیا کا تمام 12324 ایٹم بموں کا مجموعی خرچ 20653 بلین ڈالر بنتا ہے۔ یہ مالیت دنیا کے بیس امیر ممالک جن میں امریکہ، چائنا، جرمنی، انڈیا، جاپان، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، برازیل، روس، سپین، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، میکسیکو، ترکیہ، انڈونیشیا، نیدرلینڈ، سعودی عرب اور پولینڈ کو چھوڑ کر باقی 193 ممالک کی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے برابر ہے، جن میں دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی رہتی ہے۔ یعنی دنیا کے 193 ممالک جن میں سوئٹزرلینڈ، تائیوان، بیلجیم، آرجنٹینا، سویڈن، آئرلینڈ، اسرائیل، سنگاپور، متحدہ عرب امارات، ڈنمارک، ایران، پاکستان، ہانگ کانگ اور عراق وغیرہ شامل ہیں، کے تمام لوگوں نے مل کر 20653 بلین ڈالر پورے ایک سال 2024 میں کمائے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے 40 بڑے ممالک کو منہا کر کے باقی 173 ممالک کی مجموعی جی ڈی پی ایٹم بم پر خرچ ہونے والی مالیت کے نصف کے برابر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایٹم بم پر خرچ ہونے والی مالیت تین گنا سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے، اگر پہلے اکیاون ممالک کی مجموعی جی ڈی پی کو منہا کر دیا جائے اور نیچے سے باقی رہ جانے 162 ممالک کی مجموعی جی ڈی پی کے ساتھ موازنہ کی کیا جائے۔
کل عالمی فوجی اخراجات
یہ تو نیوکلیئر ہتھیاروں پر خرچ کی جانے والی مالیت ہے۔ آئیں اب دنیا جو دفاع کے نام پر لڑاکا طیاروں، میزائلوں، جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں، ٹینکوں، توپوں اور باقی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پر خرچ کرتی ہے، اس کے سٹیٹسٹکس پر نظر ڈالتے ہیں۔
28 اپریل 2025 کی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے شائع ہونے والے نئے اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں عالمی فوجی اخراجات 2718 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، جو کہ 2023 کے مقابلے میں 9.4 فیصد زیادہ ہیں اور کم از کم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سال بہ سال سب سے بڑا اضافہ ہے۔ تمام دنیا کے خطوں میں اور بالخصوص یورپ اور مشرق وسطیٰ دونوں میں تیز رفتار کے ساتھ فوجی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے پانچ ممالک میں امریکہ، چین، روس، جرمنی اور بھارت شامل ہیں، جنہوں نے بالترتیب 997 بلین ڈالر، 314 بلین ڈالر، 149 بلین ڈالر، 89 بلین ڈالر اور 86 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں جو کہ مجموعی طور پر 1635 بلین ڈالر ہیں، جو کل عالمی فوجی اخراجات کا 60 فیصد بنتا ہے۔
ایٹم بم پر ہونے والے اخراجات اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے اخراجات کے درمیان موازنہ
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کا سالانہ بجٹ 3.8 بلین ڈالر ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے حاصل کردہ اعداد شمار کے مطابق دنیا میں کہیں بھی عالمی معیارات، بنیادی ڈھانچے، اور تعلیمی مسابقت کے ساتھ ایسی یونیورسٹی کے ابتدائی قیام کے لیے 20 بلین ڈالر چاہیے ہوں گے۔ یعنی کل عالمی فوجی اخراجات جن کی مجموعی مالیت 2718 بلین ڈالر ہے، سے ایسی 136 یونیورسٹیز قائم کی جا سکتی ہیں۔ جبکہ ایٹم بموں اور ایٹمی ٹیکنالوجی پر خرچ آنے والی مجموعی مالیت ( 20653 بلین ڈالر) سے دنیا میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ جیسی 1033 یونیورسٹیز قائم ہو سکتیں ہیں۔
ایٹم بم پر ہونے والے اخراجات اور انسانوں کی خوراک کی ضروریات کے اخراجات کے درمیان موازنہ
اگر ہم انسانوں کی خوراک کی ضروریات کی بات کریں تو اندازوں کے مطابق بلند آمدنی والے ممالک میں روزانہ ایک آدمی کے خوراک کا خرچ 10 سے 25 ڈالر ہے، درمیانی آمدنی والے ممالک میں 3 سے 7 ڈالر اور کم آمدنی والے ممالک میں یہ خرچ 1 سے 3 ڈالر بنتا ہے۔ خوراک کی مد میں خرچ کی عالمی اوسط تلاش کرنے کے لیے، ہم روایتی تخمینہ ( کنزرویٹو اسٹیمیٹ) 5 ڈالر فی آدمی روزانہ متعین کرتے ہیں۔ اس حساب سے دنیا کی 8.1 بلین آبادی کو پورے سال کے لیے 14800 بلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ گویا ایٹم بم پر خرچ ہونے والی رقم سے پوری دنیا کے انسانوں کے لیے تقریباً ڈیڑھ سال تک خوراک کی ضروریات کا بندوبست کرنا ممکن ہو گا۔
ایٹم بم پر ہونے والے اخراجات کا انسان کی صحت کے اخراجات کے ساتھ موازنہ
اگر ہم صحت کی بات کریں تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او) کے تخمینے کے مطابق ہر شخص کو سال میں بنیادی یونیورسل ہیلتھ کوریج (بنیادی نگہداشت، ویکسین، زچگی کی دیکھ بھال وغیرہ) کے لیے اوسطاً 150 ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے پوری دنیا کے انسانوں کی صحت کے لیے 1215 بلین ڈالر کا بجٹ درکار ہو گا۔ یعنی اگر ایٹم بم والی رقم یہاں خرچ کی جائے تو 17 سال تک دنیا کے ہر آدمی کو صحت کی سہولیات بلا معاوضہ میسر آ سکتی ہیں۔
ایٹم بم پر ہونے والے اخراجات اور انسان کی رہائش کی ضروریات کے اخراجات کا موازنہ
اگر ہاؤسنگ کی بات کی جائے تو گلوبل ہوم لیس اینڈ ہاؤسنگ کرائسز کے 2025 کے اندازوں کے مطابق، دنیا میں تقریباً 1.6 بلین لوگوں کے پاس مناسب رہائش نہیں ہے، اور 15 کروڑ سے زیادہ لوگ مکمل طور پر بے گھر ہیں۔ اگر 5 افراد پر مشتمل گھرانے کی رہائش کی ضروریات پوری کرنے لے لیے اوسطاً 7500 روپے فی کس کے حساب سے 37500 ڈالر ( 1 کروڑ 6 لاکھ 50 ہزار روپے ) خرچ کیے جائیں تو 15 کروڑ لوگوں کو 1125 بلین ڈالر میں فری رہائش مہیا کی جا سکتی ہے۔ وہ 1.6 بلین افراد جن کے پاس مناسب رہائش ان کی ضروریات کے مطابق نہیں ہے۔ اگر ان گھرانوں کو پانچ افراد پر مشتمل سمجھ کر 1000 ڈالر فی کس کے حساب سے 5000 ڈالر ( 14 لاکھ 20 ہزار روپے ) دیے جائیں تو 1600 بلین ڈالر میں ہر آدمی کو اس کی ضرورت کے مطابق رہائش مہیا کرنا ممکن ہو گا۔ گویا مجموعی طور پر 2725 بلین ڈالر میں (جو کے ایٹم بم کی کل لاگت کا کوئی آٹھواں حصہ ہے ) میں ہر بے گھر آدمی کو گھر اور جن کے پاس مناسب رہائش نہیں ہے، کو مناسب رہائش فراہم کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
ایٹم بم پر ہونے والے اخراجات کا غربت کے خاتمے کے اخراجات کے ساتھ موازنہ
عالمی بینک نے 2025 میں نچلے درمیانے آمدنی والے ممالک کے لیے روزانہ فی کس آمدنی کی حد کو 3.65 ڈالر سے بڑھا کر 4.20 ڈالر کر دیا ہے۔ اگر روزانہ فی کس آمدنی کی حد کو 3.65 ڈالر ہی مانا جائے تو دنیا میں 2 بلین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے۔ اگر ہر آدمی کو 3.2 ڈالر روزانہ کی امداد ایک سال دی جائے کی تو تمام 2 بلین لوگوں کو 2336 بلین ڈالر میں غربت سے نکالا جا سکتا ہے جو کہ ایٹم بم پر خرچ ہونے والی کل مالیت کا نواں حصہ ہو گا۔
دنیا کے تمام افراد کو مارنے کے لیے کتنے ایٹم بموں کی ضرورت ہے؟
امریکہ نے ہیروشیما پر جو ایٹم بم گرایا تھا اس کا نام ”لٹل بوائے“ رکھا گیا تھا اور وہ 15 کلو ٹن تباہی پھیلانے والے مواد کا تھا۔ جبکہ جو بم ناگاساکی پر گرایا گیا تھا اور جس کو ”فیٹ مین“ کہا گیا تھا، وہ 21 کلو ٹن کا تھا۔ کلو ٹن توانائی کی ایک اکائی ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کی دھماکہ خیز طاقت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے مراد 1,000 ٹن ٹرائی نائٹروٹالوین (Trinitrotoluene) کے ذریعے حاصل کردہ توانائی کی مقدار ہے۔ جبکہ اب امریکہ کے پاس 300 سے 475 کلو ٹن کے بم موجود ہیں اور روس کے پاس 500 کلو ٹن سے 1000 کلو ٹن کے ایٹم بم ہیں۔ روس جس کے پاس 5580 ایٹم بم ہیں۔ ان میں سے تقریباً 3000 ایٹم بموں سے پوری دنیا کے آٹھ بلین افراد کو موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے۔ تو ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا اتنے زیادہ ایٹم بم بنا کر کرنا کیا چاہتی ہے؟
سپر پاورز کے پاس کیا اخلاقی جواز ہے؟
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام سپر پاورز نیوکلیئر ہتھیاروں پر ٹریلین ڈالرز خرچ کر کے اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کے ذخیرہ میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ کرتی جا رہی ہیں تو وہ ایران یا کسی اور ملک کو پرامن مقاصد کے لیے نیوکلیئر توانائی کی پیداوار کے حصول سے کیسے روک سکتیں ہیں اور کیسے ان پر ایک ایسی جنگ مسلط کر سکتیں ہیں جس میں لاکھوں انسانوں کی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔
گلوبل ویلج اور امن کی خواہش
پوری دنیا کو انفارمیشن میڈیا کے انقلاب نے ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے۔ آج میرا رابطہ میرے پڑوسی سے بھی سوشل میڈیا کی بدولت قائم ہے، جس طرح میرا رابطہ یا دوستی کسی اور براعظم میں بیٹھے فرد کے ساتھ سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے۔ اس طرح دنیا کے کسی بھی خطے میں بیٹھا ہوا ہر آدمی گلوبل ولیج کا شہری ہے۔ تو دنیا گلوبل ویلج کے امن کا خاتمہ کیوں چاہتی ہے؟ یہ وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کیوں؟ جنگیں کیوں؟ اور نفرتیں کیوں؟










