اسلام آباد: روس،چین،ایران اور پاکستان نے امریکا اور افغان جنگ میں اس کے مغربی اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو کی بنیادی ذمے داری اٹھائیں۔
روس،چین،ایران اور پاکستان کے رہنماؤں نے امریکا سے طالبان کے ساتھ رابطہ کاری جاری رکھنے اور افغان طالبان سے عبوری حکو مت میں سب قومیتوں کی شمولیت، پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات اور انسداد دہشتگردی و منشیات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکا اور طالبان سے یہ مطالبات دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کیے گئے،اجلاس کے موقع پر افغان ہمسایہ ممالک کے وزرا خارجہ کے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں بھی یہ مطالبات دہرائے گئے۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے وڈیو لنک خطاب میں کہا کہ طالبان کو پرامن افغانستان اور معمولات زندگی برقرار رکھنے کے اپنے وعدوں کی تکمیل کیلیے شنگھائی تعاون تنظیم اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔انھوں نے امریکا سے افغان حکومت کے منجمد اثاثے بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا تا کہ کابل کے نئے حکمران منشیات اور اسلحے کی فروخت نہ شروع کر دیں۔
روسی صدر کا کہنا تھا کہ 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان کی تعمیر نو امریکہ اور اسے کے اتحادیوں کی بنیادی ذمہ داری ہے جو اس ملک کی تباہ حالی کے ذمہ دار بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے جلد بازی میں کئے گئے فوجی انخلا نے مسائل کا پینڈورا باکس کھول دیا،روسی صدر نے مطالبہ کیا کہ نئی افغان حکومت اگرچہ منتخب نہیں اس کے باوجود اس کے ساتھ کام کیا جائے،چینی صدر ژی پنگ کا ویڈیو لنک خطاب بھی روسی صدر کے خطاب کی بازگشت تھی۔
انہوں نے امریکہ کا نام لئے بغیر کہا کہ بعض ممالک کو افغانستان کی تعمیر نو میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے جو اس کی تباہ حالی کے موجب ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں افغانستان میں 40 سالہ جنگ کے خاتمے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا انہوں نے بھی طالبان سے مطالبہ کیا حکومت میں تمام لسانی گروہوں کو نمائندہ گی دی جائے۔
ان کا کہناتھا کہ فی الوقت ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ افغانستان میں انسانی بحران جنم نہ لیے اور ملک معاشی دیوالیہ نہ ہونے پائے، انہوں نے طالبان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغان سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔